عزیز ہم وطنو اسلام و علیکم !
10کروڑ پاکستانی عوام کی آزمائش کا وقت آ گیا ہے بھارتی فوج نے علی الصبح
لاہور کے محاذ پر حملہ کر دیا ہے ۔دشمن کو دندان شکست جواب دیں اور بھارتی
سامراج کا سر کچل دیں ۔10کروڑ پاکستانی عوام کے دلوں میں کلمہ بسا ہوا ہے
۔تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گئے جب تک دشمن کی توپوں کو گنگ نہ کر دیا جائے
۔ خدائے بزرگ وبرتر اپنی رحمت سے ہمیں کامیابی عطا کر گا دشمن پر کار ی ضرب
لگانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ شکست اُس باطل قوت کا مقدر ہے جس نے تمہاری
سرحدوں پر سر اُٹھا یا ہے اُٹھو مردانہ وار آگے بڑھو دشمن پر ٹوٹ پڑھو خدا
تمہاارا حامی و ناصر ہو پاکستان زندہ باد ! قارئین آپکو بتاتا چلوں کہ یہ
الفاط میرے نہیں یہ تقریر ہے صدر پاکستان ایوب خان کی جو انہوں نے 1965کے
موقع پر قوم سے خطاب کیا تھا ۔ قارئین آپکو بتاتا ضروری ہے کہ میں رہتا تو
لاہور ہوں مگر میرء جائے پیدائش سیالکوٹ کے ایک قصبے چونڈہ کی ہے جسکے بارے
میں کتابوں میں آپ نے پڑھا ہو گا مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے جب میں
کسی نئی جگہ پر جاؤں تو لو گ سوال کرتے ہیں آبائی علاقہ کونسا ہے تو مجھے
چونڈہ بتانا پڑتا ہے جو کہ بڑے بڑے نامی گرامی لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ
وہ کہا ں ہے ؟؟ لہذا سب کے لیے بتاتا چلوں کہ چونڈہ سیکٹر کا نام پاکستانی
تاریخ میں سنہری حروف میں عالمی سطح پر لکھا جا چکا ہے ۔ جب 1965کی جنگ
ہوئی تو باٹا پور اور قصور پر حملہ ہوا تو پاک آرمی نے جب بھارتی سور ماؤں
کو بچھاڑ کر رکھ دیا اور انکو منہ کی کھانی پڑی تو اس وقت بھارتی جرنیلوں
نے پلان تیار کیا کہ کسی ایسے بارڈر سے حملہ کیا جائے جہاں پر پاک فوج
تھوڑی نفر ی میں موجود ہو اور حملہ کر کہ انکو مزہ چکھا یا جائے اور لاہور
میں پہنچ کر فتح کا جام نوش کیا جائے منصوبہ تیا ر ہو گیا ہلکی پھلکی
جھڑپیں مختلف سیکٹر میں ہوتی رہیں مگر منصوبے کے تحت سیالکوٹ سیکٹر کا
انتخاب ہوا کہ یہاں حملہ کیا جائے تمام تر تیاریاں مکمل ہو گئیں7اور 8ستمبر
کی درمیانی رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب بھارتی فوج کے چودھویں انفنٹری
ڈویژن نے باجرہ گڑھی اور نخنال سیکٹر پر دھاوا بول دیا یہ سیالکوٹ کے گاؤں
ہیں جہاں پر آئے روز کشیدگی کے واقعات نیوز بلیٹن کی زینت بنتے ہیں ۔
اس20میل کے لمبے محاذ پر بھارتی جرنیلوں نے منصوبے کے مطابق تین اطراف سے
بیک وقت حملہ کیا جس میں پہلا چونڈہ کے مشرق میں نخنال اور ڈوگری ہریاں
دوسرا چاروہ سے پھلورہ اور ناک کی سیدھ پر چونڈہ ، اور تیسرا باجرہ گڑھی
اور معراجکے سیکٹر ہے ۔ یہاں پرایک بات قابل ذکر ہے کہ چونڈہ ایک ٹاؤن ہے
جو کہ سیالکوٹ اور اسکی تحصیل پسرور کے درمیان واقع ہے اور جسکے ارد گرد
یہات ہیں ۔ چونڈہ کی مشرق کی جانب شکرگڑھ سیکٹر ،طفروال سیکٹر ، نخنال،
ڈوگری ہریاں ، چاروہ، پھلورہ،باجرہ گڑھی، معراجکے،بھاگوال اور پھر سیالکوٹ
آتا ہے یہ بانڈروی لائن پٹی ہے ۔ حملہ ہو گیا اس محاذ پر پیدل پاک فوج
کی2بٹالین اور ایک آرمڈ رجمنٹ بریگیڈیر عبداالعلی ملک کی زیر قیادت دشمن کے
پرتپاک استقبال کے لیے موجود تھیں ۔ خوب لڑائی ہوئی جوان لڑتے رہے اور جام
شہادت نوش کیا سورج طلوع ہونے تک دشمن ناپاک عزائم لیے بھاری ہتھیار توپیں
اور ٹینک لے کر میدان میں اتر آیا تھا۔ اگلے مورچوں پر لڑتے ہوئے جوانوں کو
بریگیڈیر عبدالعلی ملک کی ہدایت پر صبح 8بجے واپس بلا لیا گیا مگر دوسری
جانب دشمن نے آرمڈ ڈویژن کی مدد سے چاروہ ،چوبارہ گڈگور اور پھلورہ فتح کر
کہ قبضہ کر لیا اور اس سے آگے اب چونڈہ تھا اور تینوں اطراف سے بھارتی فوج
چونڈہ کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی ۔اب یہاں پر خوب لڑائی ہوتی رہی اور
دونوں حریف ایک دوسروں کو بچھا ڑ کے رکھ دینے کی غرض سے ایڑی چوٹی کا زور
لگا رہے تھے ۔ دادا جی مرحوم محمد بشیر جن کے پاس ریڈیو ہوتا تھا انکا
چونڈہ میں ہوٹل تھا اور لوگ وہاں آ کر خبریں سنا کرتے تھے ۔ اُس وقت میں
دور افتادہ علاقوں میں کسی شخص کے پاس بمشکل ریڈیو ہوتا تو سارا شہر اُس پر
خبریں سنتا تھا ۔جب چاروہ سکیٹر پر حملہ ہوا تو آوازیں ریڈیو اسپیکر اور
فضا میں بیک وقت چاروہ میں ہونیوالی گولہ باری براہ راست بردا سماعت سے
ٹکراتی تھیں۔ تب انہوں نے میری مرحوم دادی اماں کو لے کر وہاں سے نقل مکانی
کی اور رہائشیوں نے گھر بار چھوڑے۔ بھارتی جرنیلوں کے پلان کے تخت سیالکوٹ
چونڈہ سیکٹر پر حملہ کر کہ 24گھنٹوں میں آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹاتے
ہوئے لاہور پہنچنا تھا مگر پاک فوج کے جوان سیسہ پلائی دیوار بن کے ڈٹ گئے
اور نعرہ تکبیر بلند کر کے جوش و ولولہ کے ساتھ لگے رہے اور بھارتی سور
ماؤں کو پھلورہ سے آگے نہ بڑھنے دیا 72گھنٹے گزر گئے اب 11 ستمبر کی رات آ
گئی دشمن نے ایسی سخت گولہ باری کی جیسے بھارتی نے کل فوج کو اس سیکٹر پر
گولہ باری میں مصروف کر دیا ہو اسکے باوجود شیر دل جوان جنہوں نے وطن کے
تحفظ کی €قسم کھا رکھی ہے انکے حوصلوں کورتی بھر بھی پست نہ کر سکے ۔ اس
دوران مختلف اطراف سے چونڈہ پر حملے کیے گئے مگر بھارتی فوج چونڈہ میں داخل
نہ ہو سکے اور ہندؤں کے دانت کھٹے ہو تے رہے۔ اس دوران کسی حد تک جنگ میں
کمی واقع آئی اور پاکستان افواج کو بھی مشاورت کا وقت مل گئی پاک فوج نے
بھی اس دوران دیگر نفری طلب کی اور توپ خانے کھلے میدانوں میں لگا لیے پاک
آرمی ہیڈ کواٹر سے خط موصول ہو اور س وقت کرنل لیفٹیننٹ نثا ر جوکہ وہاں
چونڈہ پہنچ چکے تھے نے اعلان کیا کہ ہم آخری دم تک چونڈہ کا دفاع کریں گے
اور ہمت نہیں ہاریں گئے اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو! دوسری جانب بھی خوب
منصوبے بنے اور 16ستمبر کو چونڈہ پر پھرپور طاقت سے حملہ کیا گیا مورخین نے
لکھا ہے کہ ورلڈ وار ٹو کے بعد دنیا کی سب سے بڑی جنگ چونڈہ سیکٹر پر ہوئی
اس دفعہ حملہ 80ہزار فوج اور 600 ٹینک کا تھا دن کے 2بجے تھے چونڈہ کے کھلے
میدان میں جنگ عروج پر تھی ہر طرف آگ برس رہی تھی پورا علاقہ لرز رہا تھا
قیامت کا سماں تھا مشرق میں موجود شکرگڑھ سیکٹر سے بھارتی افواج ڈوگراں
والی کے مقام پر آچکی تھی انہوں نے جنگل میں پڑاو کیا تھا مغرب سے جسوراں
(گاؤں ) کی طرف سے حملہ بھارتی ریلوے پٹری سے لاہور جانا چاہ رہے تھے چونڈہ
اسٹیشن کے مقام پر بھارتی فوج پہنچ گئی اُس وقت جب مادر وطن کی جانب مزید
قدم بڑھتے دکھائی دیئے تو دھرتی ماں کے بیٹوں کی غیرت پر بند باندھنا مشکل
ہو گیا پاک فوج کے جوانوں نے حق و سچ کی لڑائی میں جان کے بدلے جنت کا سودا
کرنے میں دیر نہ کی ۔ پاک فوج کے جوانوں نے 600ٹینک کے اس حملے کو ناکام
بنا نے کے لیے سینے پر بم باندھ کر جتھوں کی صورت ٹینکوں پر حملے شروع کر
دیئے اور یوں ٹینکوں کی سب ست بڑی اس جنگ کو چونڈہ اسٹیشن کے مقام پر
بھارتی سورماؤں کو ناکوں چنے چباوا کر دفن کر دیا اور جب یہ صورتحال انہوں
نے دیکھی کہ یہ تو شیدائی اور وطن کی محبت میں اندھے ہیں تو انہوں نے پاگل
اور وحشی کا لقب استعمال کیا اور اپنے ٹینک چھوڑ کا بھاگے۔اس جنگ میں پاک
فضائیہ نے اور بحری افواج نے بھی بہت اہم کرادار ادا کیا ایم ایم عالم نے
ایک ہی جھڑپ میں 5جہاز وں کے پرخچے اڑا دیئے اور کل 9جہاز تباہ کیے اورکلی
طور پر بھارت کو 119جہازوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔تاریخ میں چونڈہ کو بھارتی
ٹینکوں کا قبرستان کہا گیا ہے ۔ چونڈہ میں 12 شہداء کی قبریں موجود ہیں
جہاں پر ہر سال پاک آرمی کے دستے یوم دفاع پر سلامی پیش کرتے ہیں اس سلسلے
میں چونڈہ میں یادگار شہداء پارک بھی بنائی گئی تھی جسکااب کوئی پرسان حال
نہیں وہاں پر موجودجہاز کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے پارک کو تالے لگ
چکے ہیں ۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ایک نیو پارک تعمیر کی جائے تاکہ اس
تاریخ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوط کیا جاسکا ہر سال ایک میلہ بھی منقعد
ہوتا ہے جو کہ سیاست کی بھینٹ چڑ ھ چکا ہے ۔ یہ مختصر سی تاریخ میرے آبائی
گاؤں کی ہے باقی چونڈہ کی سر زمین پر انسان نے فولادی ٹینکوں کے مقابلے میں
خون سے جو تاریخ لکھی وہ ہمیشہ سچے جذبوں کا ثبوت بن کر تا قیامت چمکتی رہے
گی ۔ |