یوں تو تنظیمی اورنجی دوروں کے حوالے سے کئی بار اسلام
آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ 2010ء میں اسلام آباد میں جانے کا اتفاق ہوا تو
خیال آیا کہ کیوں نہ جنرل (ر)حمید گل صاحب سے ملاقات کا ٹائم لیاجائے۔ میرے
ساتھ وفد میں اور نابینا ساتھی بھی شامل تھے جنرل صاحب سے فون پر بات کی تو
اُن کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے وہ ہمارے ہی منتظر ہیں ۔سکول روڈ راولپنڈی
اُن کے دفتر پہنچے تو گمان تھا کہ ایک بھاری بھر کم شخصیت سخت لہجے میں آنے
کا سبب پوچھے گی؟ شاید پانی تو میسر آجائے لیکن D.G،ISIکیساتھ بیٹھ کر چائے
پینا خام خیالی ہو گا کچھ دیر بعد حمید گل صاحب تشریف لائے اور انھوں نے
ہمارے تما م خیالات کے برعکس ایسا خوشگوار اخلاقی اور مہمان نوازی سا سلوک
کیا کہ یو آر ایف آف دا بلائنڈ اورجنرل حمید گل لازم و ملزم ہوگئے۔ ہم جب
بھی راولپنڈ ی جاتے تو اُن سے ملاقات ضرور ہوتی وہ ہمارے ساتھ کھانا کھاتے
ہمارے مسائل سُنتے اپنے ویب T.Vمیثاق کیلئے ریکارڈنگ کرتے وہ آڈیو ٹائمز کے
تاحیات رکن ہی نہیں بلکہ اسے غور سے پڑھنے والے ایسے قاری تھے جو ہر شمارہ
پڑھنے کے بعد بالخصوص کڑوے سچ کی کڑواہٹ محسوس کرتے ہوئے ٹیلی فون کرتے اور
تعریفی کلمات اداکرنے کے ساتھ ساتھ اصلاح فرماتے ۔ جنرل حمید گل 1936میں
سرگودھا میں پیدا ہوئے جبکہ 1956ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا 1965ء اور
1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں شریک ہوئے سانحہ مشرقی پاکستان ایک ایسا زخم
تھا جس کا نہ بھرنے کا اظہار آپ ہر ملاقات میں کرتے ۔آپ جنرل ضیاء الحق کے
انتہائی قریبی قابل اعتماد ساتھی تھے پاکستان میں روس کی جارحیت کے بعد
مجاہدین کی کھلم کھلا امداد کی D.G ISIاختر عبدالرحمن کو جب چئیر مین
جوائنٹ سٹاف کمیٹی بنایا گیاتو DG ISIکے عہدے کیلئے جنرل حمید گل سے بہتر
کوئی نام نہیں تھا آپ نے افغان جہاد میں ہی نہیں بلکہ اپنے بڑے دشمن بھارت
کے مظلوم سکھوں کی خالصتان تحریک کی حمایت کی 17اگست 1988ء جنرل ضیاء الحق
سمیت اعلیٰ فوجی قیادت کے فضائی حادثے میں شہید ہونے کے بعد اُس وقت کے
آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ اور صدر اسحاق خان کے ساتھ ملکر آپ نے ایک
ٹرائیکا قائم کیا۔ آپ ہمیشہ تسلیم کرتے رہے کہ آپ IGIیعنی ’’اسلامی جمہوریہ
اتحاد‘‘ بنانے والے ہیں۔ شریف برادران سمیت بہت سے سیاست دانو جو آج
جمہوریت کے ترانے گاتے ہیں ان کی پیدائش اُنھی نرسریوں میں ہوتی ہے جن کے
مالی جنرل حمید گل تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ شہری حقوق اور سماجی خدمت کے
کاموں میں مصروف ہو گئے۔ آپکی بیٹی عظمیٰ گل بیٹا عبداﷲ آپ کے ساتھ ہر آفت
زدہ شخص کی مدد کیلئے سروسز فار آل کے پلیٹ فارم سے پہنچتے یو آر ایف آف
دابلائنڈ کو سرپرستی میں لینے کے بعد انھوں نے ہماری مالی ہی نہیں بلکہ
اخلاقی، اصلاحی مدد بھی کی یوم آزادی سے 2دن قبل آخری بار اُن سے بات ہوئی
تو میں نے اُن Exسروس مین سوسائٹی میں آڈیو ٹائمز کی رکنیت سازی کی درخواست
کی تو آپ نے ازراہ تفنن فرمایا’’غلیل والوں سے دلیل والوں کاجوڑ نہیں ‘‘میں
نے کہا حضور اگر آپ جیسا نڈر ، بے باک، مجاہد جسے راع ایجنسی کو رگڑا دے
دینے کا اعزاز حاصل ہو وہ ہمارے ساتھ ہے تو باقی کیوں نہیں؟ جنرل صاحب اپنے
ناعاقبت اندیش شاگرد کے دس سالہ دور اقتدار میں نہ صرف اسے آنکھیں دکھاتے
رہے بلکہ انھوں نے اپنے بہت سے انٹرویوز میں مشرف کو تمام حکمرانوں سے
زیادہ قومی نقصان پہنچانے والا ڈکٹیٹر قرار دیا۔ آپکو ہلال امتیاز اور
ستارہ بسالت کے اعزاز ات سے نوازا جا چکا ہے آپکو شہر ملتان سے بے پناہ
لگاؤ تھا ملتان میں4سال کور کمانڈر رہتے ہوئے آپ نے سرائیکی زبان سیکھی آپ
پاک فوج کے شہیدوں کے ورثاء کیلئے ایسی گھنی چھاؤں تھے کہ کوئی بھی کبھی
بھی آ پ سے رابطہ کر سکتا تھا ۔ غرور ،تکبر،تلخی ، نفرت ، حقارت جیسے امراض
سے پاک جنرل (ر)حمید گل اسلام اور فرائض اسلام پہ عمل پیرا رہتے ہوئے ہمیشہ
دشمن سے ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ جب 1992 میں جنرل آصف نواز سے
اصولی اختلاف ہوا تو اندرونی ساز باز کرنے کی بجائے آپ نے ریٹائرمنٹ کا
راستہ اختیار کیا ۔ سابق وزیر اعظم مرحومہ بے نظیر بھٹورجلاوطنی سے واپسی
پر اس وقت کے صدر کو لکھے گئے ایک خط میں جنرل حمید گل صاحب سے جان سے
ماردینے کا خطرہ محسوس کرتی تھیں گو کہ بعد ازاں اس کی تردید بھی ہوئی لیکن
دونوں میں کبھی بھی تعلقات اچھے نہیں رہے۔ ہمارا خیال تھا کہ جنرل ضیاء کی
برسی کی تقریب میں میاں صاحب تو اس لیے نہیں جائیں گے کہ وہ اب جمہوریت کے
چیمپئن بن چکے ہیں اور جمہوریت سپاہ سالار کیلئے فاتحہ خوانی کو طعنہ
سمجھتی ہے لیکن جنرل حمید گل اپنے بوس کی برسی میں شریک ہوئے لیکن مری
کاپُر فضاء مقام جنرل صاحب کے چاہنے والوں کی ایسی سوگ وار خبر دے گیا کہ
جو کبھی بھی بُھلائی نہ جا سکے گی۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت کی خبر جب اظہر
لودھی نے 27سال پہلے پڑھی تھی تو وہ کئی بار رو پڑے تھے۔ آج بریکنگ نیوز کی
دوڑ میں اس بہت بڑی اور افسوس ناک خبر کو بھی خبروں کی دوڑ میں آگے بڑھنے
کی جنگ میں ایسا بدلہ کہ بہت بڑی بجلی بہت آسانی سے گرادی گئی۔ جنرل
(ر)حمید گل یو سف زئی خاندان کے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے رہنما تھے
جو 79سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آپکی موت کی خبر پر آپکے
جونیئر کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ نے ٹوئیٹ لکھا کہ فرشتے آپکا اسقبال کریں
خدا کی رحمت آپکی منتظر ہو اور آپکو جنت میں اعلیٰ مقام ملے لیکن اپنے بگ
باس کیلئے ان کلمات کے لکھنے کے بعد کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ آپ کو خود کش
حملے میں شہید کر دیا گیا۔ شاید خدا کی رحمت اس کے فرشتووں نے ان دونوں
مجاہدوں کا اکٹھا استقبال کرنا تھا۔ ایک ہی دن دونوں کا جنازہ ادا کیا
گیا۔جنرل گل کے جنازے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، جنرل کیانی، جنرل
ظہیر الاسلام سمیت افراد کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ شاید وہ شریف
برادران جو کبھی رائے ونڈ محل کو جنرل صاحب کا گھر سمجھتے تھے صرف تعزیتی
پیغام تک محدود رہے نہ جانے کیوں؟بحر کیف جنرل ضیاء الحق کی باقیات میں سے
ایک اور شخص خدائے برحق کا مہمان ہے لوگ اُن کی 79سالہ زندگی کے کسی بھی
پہلو سے اختلاف کر سکتے ہیں اُن کی پالیسیاں متنازع ہو سکتی ہیں لیکن اُن
کی ذاتی زندگی ہمیشہ ہر سکینڈل سے پاک رہی۔ یو آر ایف آف دا بلائنڈ کا ہر
رکن ، ورکر ، سٹوڈنٹس اپنے معاون خاص اپنے محسن کے انتقال پر بلکل اسی طرح
رنجیدہ ہیں جیسے بہن عظمیٰ اور بھائی عبداﷲ یا بیگم صاحبہ ہیںَ یہ تو طے ہے
کہ ایک نہ ایک روز ہم سب کو اس دیار فانی سے رخصت ہونا ہے۔ مگر بیک وقت
ماضی ، حال ، مستقبل تینوں زمانوں میں جنہیں تاریخ زندہ رکھے اُں کی جسمانی
موت پُر رنج مگر بے معنی ہوتی ہے۔ حمید گل ایک عہد کا نام تھے ۔ آپ
مسلمانان عالم کے ایسے جرنیل تھے جس سے کفر تھرتھرا اُٹھتا تھا ۔افغانستان
میں روس کے ٹکڑے اور امریکا کی کرچیاں کفر ابھی ہضم نہیں کر پا رہا لیکن یہ
طے ہے کہ اسلام نے ہمیشہ زندہ و جاوید رہنا ہے اور ہر عہد میں ایک بے باک
جرنیل نے ہماری کمان کرنی ہے۔ڈھیروں دعائیں قابل صد احترام سپاہ سالار وقت
جنرل راحیل شریف کیلئے اور ہر لمحے میں چلنے والی ہر ایک سانس سے نکلنے
والی دعائے مغفرت جنرل (ر)حمید گل مرحوم کیلئے اور دعائے صبر اُن کے پورے
خاندان کیلئے۔ ملتان کی یہ نابینا فاؤنڈیشن اپنے معاون خاص کو ہمیشہ یاد
رکھتے ہوئے جلد اُن کے نام پر کوئی ایسا پرجیکٹ شروع کرے گی جس سے نابینا
لوگوں کی فلاح اور اُ ن کے صدقہ جاریہ کا اہتما م ہو سکے۔ میری کتاب وادی
بصیرت کو دیکھ کر جنرل صاحب نے کہا تھا کہ آپ کی بصیرت اور عظمت پر آپ کو
سلام کرنے کو جی چاہتا ہے اور یہ کہہ کر آج سے پانچ سال پہلے انھوں نے میرے
اس ہاتھ کو بے ساختہ پیار کیا جس میں میں نے سفید چھڑی تھام رکھی تھی آج
بصیر ت کی وادی میں تنہائی کا یہ عالم ہے کہ ایک رہبر کی کمی اسطرح محسوس
ہوتی ہے کہ جیسے کسی سے گھنی چھاؤں چھین لی جائے لیکن سر تسلیم خم ہے جو
مزاج یار ہو۔ پاکستان کے ہی نہیں عالم اسلام کے اس تاریخ ساز شخص کو ہمارا
سلام۔(اناﷲواناالیہ راجعون) |