ڈینگی مکاؤ مہم کے ناقص انتظامات
(Syed Rizwan Zaidi, faisalabad)
جب وجود انس ہوا تو جہاں دوسری
مشکلات انسان کو درپیش تھیں وہیں ان میں ایک بڑی مشکل بیماری بھی تھی۔ارشاد
ربانی ہے کہ جب تو بیمار ہوتا ہے تو میں ہی شفا دیتا ہوں اور ساتھ ہی یہ
بھی فرمایا کہ دنیا میں کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ ہوہر
مرض کا علاج ممکن ہے سوائے موت کے۔اللہ نے شیطان کو پیدا کر کے انسان کو
ایک بہانہ دے دیا کہ وہ اپنے دانستہ نہ د انستہ کردہ برائیوں کو شیطان کا
شاخسانہ قرار دے کر اسی بہانے توبہ کی سعی کر لےاسی طرح اللہ نے شیطان کے
علاوہ بھی انسان کیلئے توبہ کے چند دروازے رکھے ہیں جن میں ایک بیماری بھی
ہے۔انسان جب تک تندرست رہتا ہے تو خدا سے غافل رہتا ہے لیکن جب بیمار ہوتا
ہے تو اس کو خدا یاد آجاتا ہے۔
ویسے تو ہم آئے روز مختلف بیماریوں اور وباؤں کے بارے میں سنتے رہتے
ہیںجن میں خسرہ،فالج،دماغی امراض، ہیپاٹائٹس اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے
متعلق ہم جانتے ہیں ہر روز ٹیلی وژن اخبارات ریڈیو پر بیماریوں کا ذکر ہو
رہا ہوتا ہے۔لیکن چند ایک بیماریاں ایسی ہیں جن کے متعلق بہت کم معلومات
ہیں یا ایسی بیماریاں پہلے بہت کم ہوتی تھیں لیکن اب یہ بیماریاں منظر عام
پر آ گئیں ہیں۔ چونکہ ایسی بیماریوں ک کے متعلق لوگوں کو بہت کم پتا ہوتا
ہے لہٰذا بروقت اور نا مناسب علاج کے باعث بسا اوقات انسان کو بہت نقصان
پہنچ جاتا ہے اور اکثر تو جان تک چلی جاتی ہے۔ گزشہ چند سالوں سے ایک
بیماری جس کو ڈینگی کا نام دیا گیا ہے بہت تباہی پھیلا رہی ہےاس بیماری میں
بخار ہوتا ہے جو کہ ایک خاص قسم کے مادہ ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے لاحق ہوتی
ہے۔یہ مچھر عام مچھروں سے ہیت اور رنگت میں بھی مختلف ہوتا ہےاور اس پر
چتکبرے نشانات پائے جاتے ہیں جیسے مکڑی کی ٹانگوں پر نشانات ہوتے ہیں۔اس
بیماری کی روک تھام کیلئے حکومت پنجاب کافی متحرک نظر آرہی ہے۔
پہلے یہ ڈینگی بخار کراچی میں تباہی پھیلاتا رہااس کے بعد اس نے پنجاب کا
رخ کر لیااس ڈینگی بخار سے پنجاب میں خاص طور پر لاہور میں بہت نقصان
ہو،2011 کی گرمیوں میں اس ڈینگی سے ایک معروف انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے
مطابق صرف لاہور میں 100000سے زائد افراد متاثر ہوئےاور 98 کے لگ بھگ اموات
بھی ہوئیں جبکہ ستمبر کے مہینے میں 9 کے قریب اموات ہوئیں۔اس کے بعد پنجاب
حکومت نیں ڈینگی کے خلاف کارروائی شروع کر دی اور بہت حد تک کامیابی بھی
سمیٹی لیکن جو چلا گیا وہ واپس تو نہیں آسکتا۔
جگہ جگہ ڈینگی کے خلاف آگاہی کیلئے پوسٹر اور بینرلگا دیئے ہیں۔بلا شبہ یہ
ایک اچھا شگون ہے۔لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ کچھ قباحتیں بھی ہیںجن کے سبب
ڈینگی کی روک تھام کے انتظامات انتشار کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ پولیو
مہم ہے ماضی میں چند عناصر کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد ایسی مہمات پر سے ختم
ہو کر رہ گیا ہے اب تو لوگ اپنے بچوںکو پولیو کے قطرے پلانے سے اجتناب کرنے
لگے ہیںحالانکہ ایسے اقدامات خدا نخواستہ بچوں کو اپاہج بنانے کیلئے کافی
ہیںاس سے بچہ تو معذور ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ ان کی اپنی ذندگیاں بے کیف
ہو کر رہ جاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو اس میں والدین کا کوئی قصور نہیں ڈاکٹر
شکیل آفریدی کیس کی مشہوری نے یہ صورتحال پیدا کی تھی۔اب ایک اور مسئلہ جو
کہ دیکھنے میں آیا ہے وہ ہے کہ جو لوگ ڈینگی کے سلسلے میں گھر گھر جا رہے
ہیں ان کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ کہ آیا یہ ڈینگی ورکر ہی ہے یا پھر کوئی اس
کی آڑ میں جرائم پیشہ افراد۔دوسری بڑی اور قابل ذکر بات وہ یہ ہے کہ ڈینگی
ورکرز عموماً گھروں میں اس وقت آتے ہیں جب گھروں کے سربراہ گھروں میں نہیں
ہوتےلہٰذا خاتوں خانہ کیسے اپنے مرد کی غیرموجودگی میں غیر مردوں کو گھر
میں داخل ہونے کی اجازت دے سکتی ہیں۔اس کے علاوہ کوئی لیڈی ہیلتھ ورکر بھی
نہیں جو کہ اندر احاطہ خاص تک جا سکے۔ہونا تو یہ چاہیئے کہ ضلعی حکومت
باقاعدہ گھروںفہرست ترتیب دے اور اس ترتیب کے حساب سے معائینہ کرے جب FBR
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا ادارہ لوگوں کے کوائف اکٹھے کر سکتا ہے تو ڈینگی
انتظامیہ کیوں نہیںہونا تو یہ چاہییے جس علاقے میں ڈینگی ورکر جا رہے ان کے
پاس ان تمام گھروں کا ریکارڈ ہونا چاہیئے اور وہ ریکارڈ کی مدد سے اپنا کام
کریں۔
اس ضمن میں ڈینگی سیل حکام کا کہنا ہےکہ تمام ڈینگی ورکرز ڈیلی ویجز پر ہی
کام کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ان کی پوری شناخت ہوتی ہے ان ک پاس سرکاری
ڈینگی مکاؤ مہم کے کارڈز ہوتے ہیں اس کے علاوہ ورکرز باقاعدہ یونیفارم میں
ہوتے ہیں،وقت کے متعلق ین کا کہنا تھا کہ تمام ٹیمیں صبح 08 بجے اپنے کام
پر نکلتی ہیںان کے ساتھ 2ورکرز لیڈی ہیلتھ ورکر1 سینٹری ورکر بھی ہوتا ہے
جس کا کام ہوتا ہے کہ جس جگہ عام ادمی کام نہیں کر سکتا وہاں سینٹری ورکر
کام کرتا ہے۔ینہوں نے مزید بتایا کہ ان کی شعبہ مالیات سے بات چل رہی ہے۔اس
کے علاوہ ان کا کہنا تھا کےپہلے سہشل ویلفیر کے ادارے تعاون کرتے تھے اور
لیڈی ہیلتھ ورکرس مہیا کر دیتے تھے۔
گھروں کی چیکنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہر گھر کی
چیکنگ نہیں کی جاتی بلکہ انفر ادی طور پر چیکنگ کی جاتی ہے مثلاً 25 گھروں
کی پرچیاں ڈالی جاتی ہیں اور ان میں سے 05 یا 07 گھروں کی چیکنگ کی جاتی ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک گھر میں ڈینگی کی موجودگی ثابت ہوجاتی ہے تو ان
25 گھروں کو ہدف بنا لیا جاتا ہےوہ اس لیئےکہ ڈینگی مچھر کی پرواز زیادہ
نہیں ہوتی ہاں اگر آندھی یا ہوا سے دور نکل جائے تو الگ بات ہے ۔اس مچھر
کے کاٹنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 1000000 میں سے 950000 لوگ ایسے ہیں
جن کو اس مچھر نے کاٹا مگر ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اس کی وجہ انہوں
نے یہ بتائی کہ ڈینگی بذات خود بیماری پیدا نہیں کرتا بلکہ بلکہ ڈینگی کے
وائرس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے، اور یہ ضروری نہیں کہ ہر
ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی ہو جائے یہ لوگوں کا ایک مفروضہ ہے اور اس سے
زیادہ کچھ نہیں۔انہون نے بتایا کہ اب تک جتنے گھروں کی چیکنگ کی گئی ہے ان
میں سے 124 گھروں میں ڈینگی لاروا ملا ہے اور اس کے علاوہ 117 کے قریب
سٹکوں کے کنارے کھڑے پانی اور جوہڑوں تالابوں میں سے ملا ہےانہوں نے عوام
کیلئے بتایا کہ ڈینگی لاروے کو تلاش کرنے کیلئے کسی آلے کی ضزرورت نہیں
بلکہ جس پانی پے شک ہو اس کو کسی بوتل میں دال کر ماہرین بشریات
ANTHROPOLOGISTکے پاس لے جائیں اور چیک کرا لیں۔انہوںنے دعوٰی کیا کہ ان کو
ابھی تلک کوئی ایسی اطلاع موصول نہیں ہوئی جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کوئی
ایسا گروہ سرگرم ہے ۔انہوں نے بتایا کہ عوام کی آگاہی کیلئے ہر چوک میں
بینر پوسٹر اور لگا دیئے گئے ہیں سکولوں اور کالجوں میں بھی آگاہی مہم
چلائی جا رہی ہے۔
عوام کی آگاہی کیلئے گلیوں محلوں چوکوں میں بینر پوسٹر اور دیگر جیزیں لگا
دینا آپ کی دانست میں تو بہت اچھا ہو گا لیکن سوال تو یہ ہے کہ لوگوں کے
نزڈیک یہ بینر اور پوسٹر جن پر بنی تصاویر عوام کیلئے محض کارٹون سے زیادہ
کچھ نہیںوہی بات کہ لوگ اطلاع دیں گے تو کارروائی ہو گی۔دوسری بات یہ کہ جب
ڈینگی کیلئے بینر اور پوسٹر پر ڈینگی سے بچاؤ کی تدابیر تو ہو سکتی ہے تو
کیا یہ انتباہ نہیں لکھا جا سکتا کہ کہ اگر کوئی ڈینگی ورکر ٹیم آئے تو سب
سے پہلے اس کے سپروائیزر اپنی شناخت کرائیں تا کہ عوام کہ بھی پتا چل سکے
کہ ان کے پاس جو آتاہے ان کی شناخت بھی ہو سکے کہ آیا اصلی ورکر ہے یا
نقلی کہیں اایسا نہ ہو ڈینگی ورکر کی جگہ جرائم پیشہ افراد فائدہ اٹھا لیں،
یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو کہ فیصل آباد کا ہر شہری جاننا چاہے گا مزید یہ
کہ خدا نخواستہ اگر کوئی ایسا واقع پیش آگیاتو کہیں ایسا نہ ہو کہ پولہو
مہم کے بعد ڈینگی مہم بھی تعطل کا شکار ہو جائےاور لوگ اپنے بچوں کی
زندگیاں داؤ پر نا لگا دیں۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.