جب زندگیاں بچانے والے موت دینے لگیں

2ستمبر بروز بدھ کے اخبارات میں ایک ایسی ہولناک خبر شائع ہوئی ہے جس نے نہ صرف انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا بلکہ دلوں کوبھی دہلا کہ رکھ دیا کہ انسان اتنا بھی نیچے جا سکتا ہے کہ درندے بھی اس کے سامنے فرشتے لگنے لگیں ۔خبر یہ ہے کہ عباسی ہسپتال کے ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس اور متحدہ کی میڈیکل کمیٹی کے رکن فرید الدین قیادت کے حکم پر مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور شہریوں کو دوران علاج زہریلے انجکشن لگا کر قتل کر دیا کرتا تھا ۔ہسپتال کے حوالے سے یہ ایسی بات ہے کہ وہ جگہ جہاں انسان کی زندگی بچانے کی جدوجہد کی جاتی ہے وہاں پر موت کے پروانے جاری کر دیے جارہے ہوں تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔میں تو کہتا ہوں کہ اس کے ذمہ دار تو ہمارے وہ سیاست دان ہیں جنھوں نے کراچی کو درندوں سے بدتر مخلوق کے حوالے کردیا ہے مسیحاؤں کی شکل میں قاتلوں کا جو گروہ اس شہر پر مسلط ہے اسی گروہ سے جناب زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں ان کی سفاکیت پر اس لیے منہ موڑے رکھتے ہیں کہ اہل کراچی ان کی کرپشن کو نظر انداز کرتے رہیں اور یہ کہ ان کے اپنے اللے تللے جاری رہیں اور کوئی اس میں رکاوٹ نہ ڈالے ۔پنجاب کے عوام کے ووٹوں سے پورے ملک کا اقتدار حاصل کرنے والے اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ظلم و درندگی ہو رہی ہے وہ کراچی والوں کے ساتھ ہو رہی ہے وہ ان سے ہمدردی جتا کر اس سفاک گروہ کو ناراض کرنا نہیں چاہتے ۔

ہسپتال کے حوالے سے دوسری خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم نے ضیاالدین اسپتال کو خیراتی اسپتال کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرایا تھا ۔ڈاکٹر عاصم کے ظلم و ستم کا شکار کراچی کے شہریوں نے بھی حساس اداروں کو خطوط لکھ کر درد بھری داستان سنائی ہے اس میں شکایت کی گئی ہے کہ ضیا الدین اسپتال میں غریبوں کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں دھکے دے کر باہر نکال دیا جاتا ہے ،اگر کوئی مریض مر جائے تو بل کی ادئیگی کیے بغیر لاش ورثاء کے حوالے نہیں کی جاتی ۔ضیا الدین اسپتال کے ظلم کا تو کراچی کا ہر تیسرا شہری شکار ہے ۔جس سے بھی چاہیں سن لیں وہ آپ کو اپنی داستان سنائے گا ہو سکتا ہے ہے کہ ایسے ہی کسی غریب اور مظلوم کی بددعا لگی ہے جو ڈاکٹر عاصم عتاب میں آئے ہوئے ہیں ۔متوسط طبقے کی آبادیوں کے درمیان واقع اس اسپتال کے چارجز انتہائی مہنگے ہیں اگر کوئی یہاں داخل ہو جائے وہ غریب مقروض ہو جائے گا ،اور مرض سے شفا اسے پھر بھی نہ مل سکے گی ۔ہماری تجویز ہے کہ جب یہ اسپتال خیراتی اسپتال کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہے توحکومت کو اس اسپتال کے چارجز پر نظرثانی کرنا چاہیے اور اسے عام لوگوں کی پہنچ سے قریب کر دینا چاہیے ۔

عباسی اسپتال سے ایک خاص تنظیم کی اجارہ داری کوتوڑنے کے اقدامات کیے جانے چاہیے ۔عباسی اسپتال میں اب غریبوں کا علاج نہیں ہوتا بلکہ ایک تنظیم سے وابستہ لوگوں نے اس پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔جو کوئی ان کی پرچی لے کر جاتا ہے اس کا کام کیا جاتا ہے باقی عوام ادھر سے ادھر رلتے رہتے ہیں ۔ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس پر اور بھی سنگین الزامات ہیں کہ نئی ڈاکٹروں اور نرسوں کی تنخواہیں ر وک کر انھیں غلط کاموں کی ادائیگی کے لیے مجبور کیا جاتا تھا ۔وہ خواتین نرسوں اور ڈاکٹروں کی تنخواہیں روک کر انھیں بلیک میل کرتا تھا اور انھیں ہراساں کر کے قمر منصور اور دیگر تنظیمی افراد کے پاس بھیج دیتا تھا یہ شخص دہشت گردوں کو اسلحہ سپلائی کرتا تھا اور ان کی مالی معاونت بھی کرتا تھ اسی کی نشاندہی پر قانون نافذ کرنے والے ادارے قبرستان سے اسلحہ بھی بر آمد کر چکے ہیں ۔

لیکن ان سب میں جو جرم ناقابل معافی ہے وہ آنے والے اپنے سیاسی مخالفین کو زہر کے انجکشن دے کر جان سے ماردینا ہے پولیس بھی جب مجرموں سے مقابلہ کرتی ہے تو اس میں جو ملزمان زخمی گرفتار ہوتے ہیں انھیں گرفتار کر کے ان کا علاج کرانے کے لیے اسپتال لے جاتی ہے چاہے اس زخمی کی فائرنگ سے کتنے ہی لوگ مر چکے ہوں ۔بلدیہ فیکٹڑی کے اندوہناک واقع کے بعد یہ بہت بڑا واقعہ ہے ان دونوں واقعات میں قدر مشترک اس تنظیم کے قائدین کی وہ سفاکیت ہے جس کے نتیجے میں اس طرح کی بے رحمی کا مظاہرہ کیا گیا ۔عباسی اسپتال میں ایسے واقعات اکا دکا پہلے بھی سننے کو ملتے رہے ہیں کہ عباسی اسپتال کے ایک ملازم کو جو ان کا مخالف ہو گیا تھا اس کو اسپتال کے اندر فائرنگ کر کے مارا جاتا ہے وہ زخمی ہو کر اسپتال کی سیڑھیوں پر شعبہ حادثات اور ایمر جنسی کے قریب تڑپتا رہتا ہے لیکن اوپر سے حکم آچکا ہوتا ہے کہ اس کو کسی قسم کی طبی امداد نہیں دی جائے گی وہ شخص اسپتال کی سیڑھیوں ہی پر تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے ۔

ہم اتنے سنگدل کیوں ہوتے جارہے ہیں وہ جو تیسویں پارے میں سورہ والتین ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "انجیر اور زیتون کی قسم طور سینا اور پرامن شہر مکہ کی قسم کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا اور پھر اسے اسفل السافلین کردیا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل اور ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے ۔"مفسرین نے اس کی تشریح اس طرح کی ہے جب کوئی انسان ایمان سے محروم ہو کر عمل صالح کے بجائے عمل بد کرنے لگتا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ اس کو اشرف المخلوقات سے اسفل السافلین میں گرا دیتا ہے پھر وہ درندوں سے بھی زیادہ بری حرکتیں کرنے لگتا ہے ایک درندہ تو اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر کھا جاتا ہے جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو جنگل کے بقیہ جانوروں کو بلاوجہ نہیں ستاتا ۔ایک درندہ تو شکار کرتا ہے لیکن ایک انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتا ہے ،اجتماعی قتل عام کرتا ہے ،بستیوں کی بستیاں عورتوں بچوں سمیت جلا کر راکھ کردیتا ہے ، عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے ،اپنے مخالفین کو پنجرے میں بند کرکے جلا دیتا ہے اور پوری دنیا کو اس کی وڈیو بھی دکھاتا ہے ۔

میں اپنے ان تمام سیاستدانوں سے درخواست کروں گا وہ اپنے مال ودولت جاہ و اقتدار کو ضرور ترجیح دیں لیکن اس کے لیے کچھ اخلاقی اصول بھی اپنائیں لندن کے اجلاس میں تمام سیاسی پارٹیاں مل کر یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کراچی کی ایک ظالم اور سفاک تنظیم سے کوئی سیاسی اتحاد نہیں کرے گا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس فیصلے میں آگے آگے ہوتے ہیں وہی اپنے اقتدار کی خاطر ان سے اتحاد کرنے دوڑے دوڑے چلے آتے ہیں اور وہ اپنی ہی کی ہوئی کمٹمنٹ کو بھول جاتے ہیں ۔

آخر میں ہم کراچی کے شہریوں سے دست بستہ یہ درخواست کریں گے ابتدائی ایام میں تو آپ نے انتخاب کے حوالے سے جو فیصلے کیے وہ اپنی جگہ ٹھیک تھے لیکن اب جو آپ کے سامنے ایک تنظیم کا ظلم اس کی سفاکیت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بیس کروڑ کا بھتا نہ ملنے پر دوسو ساٹھ مزدوروں کو اس طرح زندہ جلادیا گیا کہ انھیں جان بچانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ایسے لوگوں کو جو اسپتال میں زخمی آنے والوں کو زہر کا نجکشن دے کر مار دیں ۔پھر بھی آپ ایسے ہی لوگوں کے حق میں فیصلہ کریں گے یہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے یہاں پر میں مفتی شفیع صاحب کی یہ بات دہرانا چاہوں گا کہ ہم اپنے ووٹوں سے اگر کسی نیک آدمی کامیاب بنائیں گے تو وہ جتنے اچھے فلاحی اور نیک کام کرے گا اس کے اس نیک عمل کا اجر ثواب ان لوگوں کو بھی ملے گا جو اپنی رائے سے اس کو اقتدار تک لے کر آئے ہیں ۔اس قاعدے کو الٹادیں اور پھر کراچی کے با شعور لوگ ہر بات اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.