ساکشی مہاراج!تم نے بڑے زور دار
انداز میں یہ کہدیا:کہ ہندوستان کا کوئی ایسامدرسہ دکھادو جس میں 26جنوری
اور15اگست کے موقع پر جھنڈالہرایاجاتا ہو؟اور ہماراچیلنج ہے مہاراج جی!تم
مجھے ہندوستان کا کوئی ایک مدرسہ دکھادوجس میں 26جنوری اور15اگست کے موقع
پر جھنڈا نہیں لہرایاجاتا ہو؟
ساکشی مہاراج یوں تو مدرسوں کے بارے میں الزام تراشیاں کرتے ہی رہتے ہیں،اس
لئے ایک عام مسلمان اور ایک عام انسان اس طرف دھیا ن بھی نہیں دیتا؛مگر ٹی
وی چینلوں میں ساکشی مہاراج کی جب یہ خبر ریلیز ہوئی تو ہم دنگ رہ گئے؛مگر
یہ سوچ کر دل کو قرار ہوا،چلوجھوٹ بولنااور تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنا ان
کا پرانا پر مپرا ہے ۔
ساکشی مہاراج جیسے لوگ اپنے قدکو اونچاکرنے اور سیاست میں سستی شہرت حاصل
کرنے کے لئے اس طرح جھوٹ بولتے رہتے ہیں،اور جھوٹ بولناان کی مجبوری بھی ہے
،اور بیماری بھی ،اس لئے کہ اس کے بغیر نہ ان کی چودھراہٹ برقرار رہ سکتی
ہے اور نہ جھوٹ بولے بغیر پیٹ کا کھاناہضم ہوسکتاہے۔
مدرسوں میں کیاہوتاہے؟ساکشی مہاراج کو پتہ ہی نہیں ،وہاں کیاپڑھائے جاتے
ہیں مہاراج کو پتہ ہی نہیں، 26جنوری کے موقع پر یوم آزادی اور 15اگست کے
موقع پر یوم جہوریہ منایاجاتاہے یانہیں ؟مہاراج کو کیا معلوم؟ یا پھر جان
بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں،اور اس جھوٹ کو باربار دہرائے جاتے ہیں،تاکہ لوگ
یہ سمجھ لیں کہ یہی سچ ہے ، مگر ابھی قیامت نہیں آئی ہے،اچھے لوگوں سے
بالکلیہ یہ زمین خالی نہیں ہوئی ہے، فرقہ پرستوں کی بھلے ہی ایک بڑی ٹیم
نظر آتی ہو؛ مگر اب بھی سیکولر اور سچائی پسند لوگوں کی کمی نہیں ہے ،وہ
جانتے ہیں کہ مدرسوں پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد،نہایت ہی فرسودہ،اور
جاہلانہ ہیں۔
شاید اسی لئے ABPنیوز چینل نے جب اس کی تحقیقات کی اور یوپی کے کئی مدرسوں
میں جاکر وہاں کی تعلیمات ،رہن ،سہن،کا جائزہ لیا،اور دیکھاکہ کس طرح یہاں
کے بچے دینی تعلیم کے ساتھ کمپیوٹر ،ٹیکنالوجی اور دیگر عصری علوم حاصل
کرنے میں مصروف وسرگرم ہیں، اوراسے دنیا کے سامنے پیش کیاتولوگ بہت ہی زور
دار انداز میں کہنے لگے :ساکشی مہاراج کو تو مدرسوں میں داخلہ لے لیناچاہئے۔
ہندوستان کی سرزمین پر حکمرانی کی جنگ تو مغلیہ دور میں بھی ہوئی ہے ؛مگر
مذہبی لڑائی کبھی بھی نہیں ہوئی اور نہ کبھی فرقہ وارا نہ فسادات ہوئے؛مگر
جب اس ملک میں انگریز آیااور 1857کی جنگ آزادی میں ہندومسلم اتحاد کو دیکھا
تو وہ سمجھ گیا کہ مسلمان اور ہندؤں کے درمیان پھوٹ ڈالے بغیر ہندوستان پر
حکمرانی نہیں ہوسکتی ہے ۔
15اگست 1947میں یہ ملک آزاد ہوا، کیایونہی؟ نہیں، دوسوسال کی طویل جنگ لڑی
گئی اور حکومت چونکہ انگریز نے مسلمانوں سے چھینی تھی ،اس لئے مسلمان ہی سب
سے زیادہ انگریزکے نشانے پرتھے،انگریز نے چن چن کر مسلمانوں کو مشق ستم
بنایا،سور کے کھال میں بند کرکے جلتے ہوئے تنور میں ڈالدیاگیا،کھولتے ہوئے
پانی میں چھوڑدیاگیا،انکا جرم یہ تھاکہ وہ آزادی چاہتے تھے،صرف 1857کی جنگ
آزادی میں 2لاکھ مسلمان شہید کردئے گئے ،جس میں سے ساڑھے اکیاون ہزار علماء
کرام کی تعداد تھی۔
وائسرائے برطانیہ نے اپنے ایک مشیر سے رپورٹ مانگی :بتاؤ ہندوستان میں
ہماری حکومت کیسے قائم رہ سکتی ہے؟اس نے کہاتھا:جب تک ہندوستان میں
مسلمانوں کے پاس قرآن کریم موجود رہے گااور قرآن پڑھانے والے علماء کرام
موجود رہیں گے، ہماری حکومت قائم نہیں رہ سکتی ہے ،اس لئے چن چن کرعلماء
کرام کو تختہ دار پہ لٹکایا گیا ،اور تین لاکھ قرآن کریم کے نسخے جلائے
گئے؛مگر ہم نے ہمت نہ ہاری ،سبھوں کی محنت رنگ لائی اور بالآخر ہندوستان
جیت گیااور 15؍اگست 1947کو یہ ملک آزاد ہوگیا۔
انگریز یقینااس ملک سے چلاگیا؛لیکن جاتے جاتے ہندومسلم اتحاد پارہ پارہ
کرگیااور ہمیں کہنے دیجئے ! کہ مسلمانوں کے ساڑھے چھ سوسالہ دورحکومت میں
جو مذہبی جنگ کبھی نہ ہوئی تھی،آزادی کے67سالوں میں ہندوستان میں ہزاروں
بار مذہبی جنگیں ہوئیں،اور بے شمار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔
آزادی کے ان 67سالوں میں ہندوستان کو آزادی کی دولت سے مالامال کرانے والے
علماء کرام کو تنگ نظر کہاگیا،دقیانوس کہاگیا،اور حد تو یہ ہے کہ انہیں
دہشت گرد،اور آتنگ واد کہاگیا،اور مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ ؟مگر
67سالوں کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی بھی مدرسہ میں نہ تو کوئی ہتھیار
ملاہے اور نہ ہی آتنگی پھیلانے والے کوئی سامان!
بھلے ہی مسلمانوں کو حراساں اور پریشان کرنے کے لئے انہیں عدالت کے کٹہرے
میں کھڑا کردیا گیا ہو؛ مگر اخیرمیں سچ کی جیت ہوئی ہے،اور عدالت کو باعزت
کرناپڑا،حیدرآباد مکہ مسجدبم دھماکہ اور دیگر دھماکوں میں جو تحقیقات سامنے
آئیں وہ زندہ مثال ہیں۔
ظ ظ ظ
مدرسوں کامطلب!امن وشانتی کی جگہ ،جہاں پر امن وشانتی کی تعلیم دی جاتی ہے
،یعنی فیکٹری جہاں پر انسان بنتے اور بنائے جاتے ہیں،وہ کارخانہ حیات جہاں
اچھے شہری اور اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار اداکرنے والے علماء
کرام تیار ہوتے ہیں،مدرسوں کامطلب:آشرم نہیں،جہاں رام پال اور آسارام جیسا
خطرناک جنگجواور نابالغ کے ریپ میں باباپروان چڑھتے ہیں۔
مہاراج جی !تم نے مدرسوں پر تو انگلی اٹھائی ؛مگر اپنے ہاتھ کو نہ
دیکھا،تین انگلیاں خود تمہاری طرف اشارہ کررہی ہیں، اور بتارہی ہیں کہ اپنے
گھر کو دیکھو،اپنے ا ٓشرم کو دیکھو،اور اپنے باباؤں کی چوکھٹ پر قدم تو
رکھو!
یہ ہے بابارام پال کاآشرم ،جوکسی فائیوراسٹارہوٹل سے کم نہیں،یہاں پر گولہ
بارود،کمانڈوز،اور خونریزی کا سامان بھی موجود ہے،ایک جنگجوؤں کی کمین گاہ
بھی ہے ،جہاں سے متوازی حکومت چلائی جارہی ہے ، 60 گھنٹے کے پولیس آپریشن
اور باباکی نجی کمانڈوزکے درمیان آمنے سامنے کی لڑائی سے یہ حقیقت واضح
ہوتی ہے کہ یہاں پر ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع ہے۔
بابارام پال کے کمرے میں عیش کے سارے سامان موجود ہیں،یہی نہیں خواتین کے
بیت الخلاء میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں،جن کی اسکرین باباجی کے
کمرے میں ہے،اور گروجی کمرہ میں بیٹھے یہی سب معائنہ کررہے ہیں۔
اور یہ ہے آسارام 73سال کا نوجوان ،جو نابالغ کے ریپ کے الزام میں جیل میں
بند ہے،مذہب اور روحانیت کی آڑ میں اس نے ایک طرف دولت جمع کی،اور دوسری
طرف جنسی کھیل بھی کھیلتارہا،اس کی دولت کا تھاہ نہیں ہے،مگر پولیس نے جس
دولت کا پتہ لگایاہے وہ دس ہزار کروڑ سے زیادہ ہے۔
اور مدرسوں کو دیکھو!کتنے سیدھے ،سادھے لوگ رہتے ہیں،چٹائی پر سوتے
ہیں،چٹائی پربیٹھتے ہیں اور چٹائی پر پڑھاتے ہیں،ان کی تنخواہیں بہت قلیل
؛مگر نہ کبھی وہ چوری کرتے ہیں،نہ ڈاکہ زنی کرتے ہیں،اور نہ کسی کے چوکھٹ
پر ناک رگڑتے ہیں،وہ بھوک برداشت کرسکتے ہیں؛مگر وطن سے غداری نہیں کرسکتے
؛چونکہ ان کا ایمان ہے کہ وطن سے محبت ایمان کی علامت ہے۔
اومہاراج جی! ہم تمہیں کسی مدرسہ میں لے چلتے ہیں ،وہاں کے ننھے ،منھے
پیارے ،پیارے معصوم بچوں سے قرآن کریم سنواتے ہیں،تمہارادل پسیج جائیگا،اور
تم رشک کرنے لگوگے کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں نے کس طرح قرآن کریم کو اپنے
سینے میں محفوظ کرلیا۔
15؍اگست کے موقع پر آؤ !ہم کس طرح شان وشوکت سے یوم آزادی مناتے ہیں،اور
26جنوری کے موقع پرہم کس طرح یوم جمہوریہ مناکر جمہوری طاقت کا احساس دلاتے
ہیں،اور پھر یوم آزادی کے موقع پر جھنڈا لہرانا تو ہمارا حق ہے ،اس لئے کہ
ہمارے ہی باپ داداؤں نے سب سے زیادہ اس ملک کے لیے قربانی پیش کی تھی ، ہم
ان کی یاد نہ منائیں تو کس کی منائیں؟
مگر یہ ضد کیوں ؟کہ وندے ماترم ہی گاناپڑے گا،وندے ماترم نہیں گایاتو دیش
بھکت نہیں ؟یہ ضد کیاصرف عناد ودشمنی کی وجہ سے یاانگریزوں کے خیرمقدم میں؟
جی ہاں !مسلمانوں میں تو یہی مشہور کیاگیاکہ وندے ماترم مشرکانہ ہے یانہیں
؟مگر اس سے زیادہ خطرناک اس کا پس منظر ہے؟اس لئے کہ وندے ماترم بنکم چٹرجی
کی بنگالی زبان میں لکھی ہوئی ناول ’’آنند مٹھ ‘سے لیا گیا ہے،اورآنندمٹھ
کے تیسرے حصے کے آٹھویں باب میں قتل وخون اور لوٹ مارکے واقعات کو بیان
کیاگیاہے،اس سے ہندوؤں میں بھارت ماتاکی سیواکا ایساجذبہ پیداہوجاتاہے کہ
وہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہیں، مسلمان ہرطرف سے جان بچاکر بھاگ
رہے ہیں، ایک شور بپاہے،مسلمانوں کو مارو،لوٹوکی صدائیں بلند ہورہی
ہیں،وندے ماترم کانغمہ فضامیں بکھیررہاہے،ماتاکے سیوکوں سے یہ بات کہلوائی
جارہی ہے کہ :بھائی وہ دن کب آئیگاجب ہم مسجدوں کو مسمار کریں گے ،اور انکی
جگہ رادھااورمہادیوکے مندر بنائیں گے،اخیرمیں آنندمٹھ کا ہیروسیوکوں سے
کہتاہے :’’اب انگریز آگئے ہیں،ہماری جان ومال کو امان ملے گی‘‘
اسی لئے سبھاش چندربوش باوجود بنگالی ہونے کے اس گیت کے مخالف تھے،پنڈت
جواہرلال نہرواس گیت کو قومی ترانہ تسلیم نہیں کرتے تھے ،اور ڈاکٹر لوہیااس
گیت کے پس منظر کو بتاتے ہوئے کہتے تھے،آنندمٹھ کا یہ ناول ہماری قومی
تحریک پر ایک داغ ہے ،اس میں ایک جملہ ہے :’’اب انگریز آگئے ہیں،ہماری جان
ومال کو امان ملے گی‘‘،اس میں انگریزوں کا خیرمقدم کیاگیاہے ،اوران کو
اپنامحافظ بتایاگیاہے،اس اعتبارسے دیکھاجائے تو یہ ناول جس کے ا ندر یہ گیت
شامل ہے ہماری قومی تحریک کے لئے شرمناک بھی ہے ۔
ہم نے انگریز کو اس ملک سے بھگانے کے لئے دوسوسال کی طویل جنگ لڑی ہے
،انگریز عیاش ،مکار قوم کاخیر مقدم کیسے کرسکتے ہیں؟یہی وہ بنیادی وجہ ہے
کہ بڑے بڑے لوگوں نے وندے ماترم کو پسند نہیں کیا،اس کے بالمقابل ’’جن گن
من‘‘کو قومی گیت کا درجہ ملااور ہم اسے گاتے بھی ہیں۔
مہاراج جی! نفرت چھوڑو،محبت کرناسیکھو،محبت میں جو طاقت ہے وہ نفرت میں
کہاں ہے؟
مذہب نہیں سکھاتاآپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا
|