حضرت امیر ملت اور تحریک پاکستان

امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ کا شمار بیسویں صدی عیسوی کے ان مشائخ عظام میں ہوتا ہے جو نہ صرف علماء سلف و صالحین کی یا د گار تصور کئے جاتے تھے بلکہ عوام الناس ا ن سے علمی اور روحانی رہنمائی کے علاوہ سیاسی راہنمائی کی بھی توقع رکھتے تھے۔ عوام کی اسی خواہش و آرزو کے پیش نظر امیر ملت نے بے پناہ علمی و روحانی راہنمائی کے ساتھ خود کو سیاسی منظر پر بھی ہمیشہ متحرک و فعال رکھا۔ دراصل صورت حال میں جہاں امیر ملت کی علمی و روحانی صلاحیتوں کو داخل تھا وہاں مسلم عوام کے اس رجحان کا بھی تقاضا تھا کہ سیاسی سطح پر بھی وہی شخص راہنمائی کا فریضہ انجام دے جو روشن ضمیر اور صاحب علم و عرفان ہو۔ امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری بیسوی صدی عیسوی کے ابتدائی نصف میں شاید واحد شیخ طریقت تھے جن کے عقیدت مندوں کا حلقہ راس کماری سے پشاور تک اور کشمیر سے مدراس تک پھیلا ہوا تھا۔ والئی افغانستان نادر شاہ اور نظام حیدر آباد دکن اور میر عثمان علی خاں جیسے حکمران بھی عقید ت مندوں میں شامل تھے۔امیر ملت اگرچہ بنیادی طو رپر عالم او رپیر طریقت تھے لیکن سماجی و سیاسی معاملات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔لہٰذا جہاں آپ مذہبی حوالے سے معروف و مقبول تھے وہاں ایک سیاسی مصلح کی حیثیت سے بھی آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ تحریک پاکستان حجاز ریلوے لائن کی تعمیر ،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی توسیع اور آل انڈیا مسلم لیگ کو مقبول بنانے میں نہ صرف آپ نے بھرپور حصہ لیا بلکہ اپنی جیب خاص سے لاکھوں روپے اور اپنے عقیدت مندوں سے ان مقاصد کے لئے لاکھوں روپے کے فنڈز بھی دلوائے ۔خصوصاً آل انڈیا مسلم لیگ کو برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا اعزاز دلواناحضرت امیر ملت کا مرہون منت ہے ۔

اور پھر مطالبہ پاکستان کو مقبول بنانے کے لئے آپ نے ضعیفی اور ناتوانی کے باوجود پھر بھر پور جدوجہد کی اور پھر 1906سے1932تک امیر ملت آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو، قائد اعظم کی قیادت کو مقبول بنانے اور تحریک پاکستان کی کامیابی کے لئے نہایت سر گرم عمل رہے۔ اس دور میں آپ نے ہندوستان گیر دورے کرکے مسلمانوں سے خطاب کیا۔ عقیدت مندوں کے نام پیغامات جاری کئے اور کثیر تعداد میں خطوط لکھے۔اس دور کے اخبارات و دستاویزات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ علماء ومشائخ میں شاید سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت اور اہمیت کو سنجیدگی کے ساتھ نہ صرف محسوس کیا بلکہ خود کو اس عظیم مقصد کے لئے وقف کر دیا ۔تحریک پاکستان کے حوالے سے امیر ملت کو اس لئے خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ ان کا آبائی تعلق صوبہ پنجاب ضلع سیالکوٹ حال سے تھا اور پنجاب میں ہمیشہ یونینسٹ پارٹی کی حکومت رہی جو اگر ایک طرف انگریز پرست تھی تو دوسری طرف اس کے ڈانڈے ہندو کانگریس سے ملے ہوئے تھے۔ ایسی صورت حال میں ایک پیر طریقت اور درویش صفت انسان کا آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی علی الا علان حمایت کرنا۔بڑی جرأت مندی او رحوصلہ کی بات تھی مگر پیر سید جماعت علی شاہ نے ہر قسم کے خوف و خطر اور انتقامی کاروائی کے امکان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے پنجاب کشمیر ،صوبہ سرحد اور پھر پورے ہندو ستان کے غلام کو تحریک پاکستان کی تائید و حمایت پر آمادہ و تیار کیا ۔آل انڈیا سنی کانفرنس کے پلیٹ فارم کو موثر وفعال بنا لیا اور اس حقیقت کوپایہ تکمیل تک پہنچا دیا کہ علماء کی بھاری اکثریت تحریک پاکستان کی راہ میں ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے۔ یہ ایک تحریک حقیقت ہے کہ نظریہ پاکستان کی خشت اول آفتاب ہند امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی 1624قدس سرہ النورانی نے دین اکبری کا اقلع قمع کرکے رکھی تھی لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال پذیر ہوتے ہی فرنگی سامراج نے اپنا تسلط جما کر اسلامیان برصغیر کے قلب و جگر سے روح جہاد ختم کرنے کی مذموم کوشش کی تاکہ یہاں پر کفر و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہی چھائے رہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال 1877-1938رحمتہ اﷲ علیہ نے اسی صورت حال کانقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا یہ فاقہ کش کہ جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمد اس کے بدن سے نکال دو فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو 1857میں مجاہد کبیر امام معقولات و منقولات حضرت علامہ فضل الحق خیرآبادی ف1841رحمتہ اﷲ علیہ نے فرنگی جبرو استبداد کے خلاف علم جہاد بلند کیا لیکن برادران وطن کی سازشوں او رریشہ دوانیوں نے ان کے مشن کو ناکام بنانے میں سر دھڑ کی بازی لگا دی اور عرصہ تک علماء و مشائخ اور عامتہ المسلمین خاموشی سے گزر اوقات کرتے رہے۔ مگر بیسویں صدی کے شروع میں انگریز اور ہندوؤں نے اپنے باہمی اسلام دشمن منصوبوں سے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی تو اسلام کے ایک بطل جلیل سنوسنی ہند امیر ملت حافظ پیر سید جماعت شاہ نقشبندی مجددی محدث علی پوری 1951-1834میدان جہاد میں آ کھڑے ہوئے اور پھر دوسرے علماء و مشائخ کوبھی حجروں سے نکال کراسلام کے ازلی و ابدی دشمنوں کے مقابل لاکھڑا کیا۔ نکل کر خانقاہوں سے اداکر رسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط انداہ و لگیری امام ربانی شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی حضرت خواجہ محمد معصوم ،حضرت خواجہ سیف الدین ،حضرت خواجہ محمد نقشبندثانی ،حضرت خواجہ عبدالاحد ،حضرت مرزا مظہر جان جاناں حضرت امیر ملت پیر سیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمتہ اﷲ علیہ اجمعین اس سلسلے کے وہ اکابرین ہیں جن کی تاریخ مرتب کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ حضرت امیر ملت کی حیات مبارکہ مذہبی ، ملی اور سیاسی خدمات سے عبارت ہے آپ نے پاک و ہند میں مشرق سے لے کر مغرب تک اور جنوب سے شمال تک سفر کیا اور خوابیدہ قوم کوبیدار کیا ،فتنہ ارتداد ،شدھی تحریک خلافت تحریک ہجرت تحریک آزادی کشمیر تحریک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انجمن حمایت اسلام لاہور تحریک مسجد شہید گنج لاہور غرض برصغیر کی تمام مسلم تحریکوں میں قائدانہ اور مجاہدانہ کردار ادا کیا تحریک پاکستان میں آپ کا کردار تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ اور نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ۔ 1902میں جب ڈھاکہ میں سرکردہ مسلمان لیڈروں مثلاً مولانا محمد علی جوہرف1931نواب محسن الملک ف1907نواب وقارالملک ف1917اورجسٹس شاہ دین ہمایوں ف1918وغیرہ ہم نواب سلیم اﷲ والئی ڈھاکہ ف1915کے ہاں سرجوڑ کربیٹھے اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کی نام سے ایک سیاسی تنظیم کا اعلان کیا تو حضرت امیر ملت قدس سرہ کے میلانات طبع اس کی طرف ملتفت ہونے لگے اور آپ نے اس کے سیاسی کارکنوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور دامے درمے قلمے سخنے اور قدمے حمایت اور سرپرستی فرماتے رہے یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1932میں جب قائداعظم نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا بیڑا اٹھایا اور ہندو مسلم دو جداگانہ قوموں کی آواز بلند کرنے کے بعد حضرت امیر ملت کی خدمت میں لاہور میں حاضر ہو کر تحریک پاکستان کی اعانت و حمایت کی درخواست کی تو برصغیر میں سب سے پہلے امیر ملت ہی نے قائداعظم کو اپنے مکمل اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔اس کے بعد 1943ء میں قائداعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو آپ نے اس وقت حیدر آباد دکن انڈیا میں مقیم تھے۔ وہاں سے قائداعظم کے نام ایک ہمدردانہ و ہمت افزا پر خلوص خط مع تبرکات بمبئی کے ایڈریس پر ارسال کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ قوم نے مجھے امیر ملت مقرر کیا ہے اور پاکستان کے لئے جو کوششیں آپ کر رہے ہیں وہ میرا کام تھا، لیکن میں سو سال سے زیادہ عمر کا ضعیف و ناتواں ہوں۔ یہ بوجھ آپ پر آن پڑھا ہے، میں آپ کی مدد کرنا فرض فرض تصور کرتا ہوں۔ میں اور میرے متوسلین آپ کے معاون مدد گار ثابت ہوں گے۔ آپ مطمئن رہیں گے اس کے بعد حضرت امیر ملت نے اپنے تبلیغی روحانی دوروں کے دوران پشاور سے راس کماری تک مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچایا حتی کہ مسلم لیگ برصغیر کے چپے چپے میں مقبول عام جماعت بن گئی اور بوڑھے بچے جوان کی زبان پر مسلم لیگ زندہ باد کے پر سرور نعرے گونجنے لگے۔ حضرت امیر ملت نے اپنے صاحبزدگان خلفاء اور مریدوں کو حکم دیا کہ دل وجان سے مسلم لیگ کی حمایت کریں رکنیت اختیار کریں اور قائداعظم کے سپاہی بن کر مسلم لیگ کو ہر دل کی دھڑکن بنا دیں جیسا کہ تحریک پاکستان کے نامور سپاہی پیرزادہ محمد انور عزیز چشتی اپنے ایک انٹرویو بیان کرتے ہیں۔ اپریل 1932کی ایک گرم دوپہر کو جب آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس لاہور کے موچی دروازہ کے برکت علی ممڈن ہال میں منعقد ہو رہا تھا ۔میں نے میٹنگ کے وقفے کے دوران مسٹر محمد علی جناح کو اپنے پیر و مرشد اور اپنے والد صاحب کے دو خطوط پیش کئے جن میں ان دونوں عظیم ہستیوں نے میرے لئے تحریر کیاتھا کہ ہمارا یہ بیٹا بہت اچھا مقرر ہے ہم نے اس کی زندگی مسلم لیگ کے لئے وقف کر دی ہے۔ اسے اپنے سپاہیوں میں شامل کر لیں۔ مسٹر محمد علی جناح نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور مولانا شوکت علی مرحوم سے مخاطب ہو کر فرمایا یہ نوجوان ضلع منٹگمری حال ساہیوال میں ہمارا مجاہد اول ہے۔ اوائل اپریل 1938میں حضرت امیرملت نے کوہاٹ پشاور اور راولپنڈی کا دورہ فرمایا اور کانگریس کی خوب قلعی کھولی اور مسلم لیگ کی تائید وحمایت میں مدلل تقریریں کیں۔ کوہاٹ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے مسلمانوں کو تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا سب مسلمان آپس میں متفق ہو کر اسلامی جھنڈے تلے آ جاؤ ہندو مسلمان کا ہرگز خیر خواہ نہیں ہو سکتا آج کل اطراف عالم میں جو مظالم ہندو کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے ہیں کسی فردو بشر سے پوشیدہ نہیں ایسے مظالم کو سامنے دیکھ کر اب بھی اگر کوئی مسلمان ان سے اختلاط کرے خواہ وہ مولوی ہو عالم یا پیر اس کو اسلام سے کیا تعلق اس کو اور مسلمانوں کو اس سے کیا میل ملاپ ایسے نام و نہاد مولویوں سے ان کو تقویت پہنچی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ظلم کر رہے ہیں ۔آخر میں آپ نے دعا فرمائی کہ اﷲ تعالی مسلمانوں میں اتفاق واتحادپیدا فرمائے اور ایسے نام ونہاد مسلمان ہندو پرستوں سے سچے مسلمانوں کو بچائے آمین۔ 22اپریل 1938کو جامع مسجد کلاں میانہ پورہ سیالکوٹ میں خطبہ جمعتہ المبارک میں ارشارد فرماتے ہوئے حضرت امیر ملت نے حقانیت اسلام کے موضوع اڑھائی گھنٹے کے ایمان افروز اور باطل سوز خطاب میں فرمایا مسلمانوں آج ایک جھنڈا اسلامی ہے اور دوسرا کفر کا تم کس جھنڈے کے سائے میں رہو گے ؟ ’’ سب حاضرین نے متفقہ آواز میں کہا کہ اسلام کے جھنڈے کے سائے میں

پھر آپ نے کلمہ شہادت پڑھوا کر حاضرین سے وعدہ لیا اور سب حاضرین نے یک زباں ہو کر ہاتھ بلند کرکے وعدہ کیا کہ ہم کفر کے جھنڈے کے نیچے جا کر ان میں ہرگز شامل نہ ہوں گے۔ بلکہ ان سے شامل ہونے والوں کے ساتھ کسی قسم کا برتاؤ نہ رکھیں گے۔ نہ ان کی نمازِجنازہ پڑھیں گے اور نہ ان کو اپنے قبرستان میں مرنے کے بعد دفن کریں گے۔ 11مئی 1938کو انجمن خدام الصوفیہ ہند علی پور سیداں کے 35ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت امیر ملت نے فرمایا کہ ہندوستان کے تما م مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ تمام مسلم لیگ میں شامل ہوں کیونکہ اس وقت کفر اور اسلام کی آپس میں جنگ ہے۔
35ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت امیر ملت نے فرمایا کہ’’ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ تمام کے تمام مسلم لیگ میں شامل ہوں کیونکہ اس وقت کفر اور اسلام کی آپس میں جنگ ہے۔ ایک طرف کفر کا جھنڈا ہے اور دوسری طرف اسلامی پرچم ہے۔ جو مسلم لیگ کا ہے۔ تمام مسلمانوں کے لئے لازم ہے بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس وقت مسلمانوں کو بچانے کے لئے اسلام اور اسلامی شعائرکی حفاظت کے لئے تمام کے تمام مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں۔ ’’حضرت امیر ملت کے اس اعلان کے بعد لوگ دھڑا دھڑ مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے۔ حتیٰ کہ جلد ہی مسلم لیگ مقبول ترین عوامی جماعت بن گئی۔ حضرت کے مریدوں نے پورے ملک میں مسلم لیگ کی شاخیں قائم کرکے تحریک پاکستان کو ایک ولولہ تازہ بخشا ۔ 20اکتوبر 1938ء کو حضرت نے صوبہ سرحد کے مریدوں کو ایک خصوصی پیغام بھیجا ۔ کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوکر آزادی کی منزل حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام تر مساعی صرف کردیں ۔گذشتہ ستور میں 11مئی 1938کے سالانہ اجلاس علی پور سیداں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ عمل قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر حضرت امیر ملت نے قائداعظم کی ملت اسلامیہ کے لئے گراں قدر خدمات اور مساعی جمیلہ کا اعتراف فرماتے ہوئے دعا کی کہ اﷲ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے اور انہیں زیادہ سے زیادہ اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دسمبر1938ء میں حضرت امیر ملت برائے حج کراچی سے روانہ ہوئے۔ بخشی مصطفی علی خاں خلیفہ امیر ملت ’’(ف)1974 ء بھی قدموں کے ساتھ تھے۔ جہاز کی روانگی کے انتظار میں چار دن کراچی قیام کرناپڑا۔ اس اثناء میں کراچی شہر کے قاضی صاحب نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ مسلم لیگ کے متعلق حضور کی کیا رائے ہے؟یہاں صوبہ سندھ میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہوگئیں ہیں۔ ایک مجبور کرتی ہے کہ کانگریس میں شامل ہوں اور دوسری زور لگاتی ہے کہ مسلم لیگ میں داخل ہوں۔آپ نے جواباً فرمایا :’’قاضی صاحب !آپ کے سامنے دو علم ہیں ایک ’حق کا باطل کا۔ فرماؤ آپ کونسا علم پسند کریں گے۔کفر کا اسلام کا؟قاضی صاحب نے کہا کہ حضور !مسئلہ سمجھ میں آگیا ۔1939ء میں برصغیر میں پاکستان کی آواز تو بلند ہو رہی تھی لیکن کوئی اس کی علمی و عملی صورت اور اس کی فلسفیانہ اور منطقی بنیاد کو واضح اور متعین شکل اب تک پیش نہ کر سکا تھا ۔ حضرت امیر ملت نے اپنے مرید خاص پروفیسر ڈاکٹر سید ظفر الحسن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو اس کام پر مامور کیا ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے شاگرد ڈاکٹر افضال حسین قادری (ف)1974کے تعاون سے ستمبر1939میں ایک سکیم مع چارٹ و نقشہ جات اور مقدمہ ء بعنوان ’’ہندوستان کے مسلمانوں کا مسئلہ اور اس کا حل مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے سامنے پیش کیا جس نے علی گڑھ پاکستان کے نام سے شہرت عام بقائے دوام حاصل کی ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تمام اساتذہ کرام اور پروفیسر ان کا زبر دست بیان سکیم کی تائید و حمایت میں شائع ہوا۔ اور جلد ہی یہ سکیم پورے برصغیر میں ہر دل کی دھڑکن بن گئی۔ چنانچہ تحریک پاکستان کی تاریخ میں علی گڑھ سکیم ایک نشان اعظم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سکیم کی تیاری کے سلسلہ میں حضرت امیر ملت کے مشورہ پر ڈاکٹر سید ظفر الحسن (ف1949ء) اور حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (ف1938ء) کے مابین کچھ عرصہ خط وکتابت بھی رہی اور بعض باتوں کی وضاحت کے لئے اپنے شاگرد خاص ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کو بارہاحکیم الامت کی خدمت میں بھیجا ۔ڈاکٹر سید ظفر الحسن (ف1949ء) کا خیال تھا کہ ہندو ستان کے مسلمانوں کو اپنی ایک علیحدہ قومی شناخت ہے۔جو بڑی حد تک غیر مسلموں سے مختلف ہے ۔اس اسکیم میں ہندوستان کو تین خود مختار ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا ۔جن میں سے ایک شمال مغرب میں واقع چار مسلم اکثریتی صوبوں اور متعدد چھوٹی ریاستوں پر ’’دوسرا بنگال (ہاوڑہ مدناپورہ ،بہار کا ضلع پورنیا اور آسام کا ضلع سہلٹ نکال کر ) اور تیسرا باقی ماندہ ہندوستان (چند علاقے مستثنیٰ کرکے مشتمل ہو جس کے لئے انہوں نے خصوصی حیثیت کی ٹھوس تجویز پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ ان تینوں وفاقوں کو دفاع اور حملہ کے لئے باہمی اتحاد کی اجازت دی جائے۔1939ء میں جب کانگریس کے سیاسی مقابلے میں مسلم لیگ کوفتح ہوئی اور کانگریس وزارت سے مستفیہوگئی تو مسلمانوں میں ہر طرف مسرت کی لہر دور گئی۔کیونکہ ہندوؤں کی ایزا رسانیوں اور ریشہ دوانیوں سے نجات مل گئی۔اس پر حضرت قائداعظم نے2دسمبر1939کو مسلمانان ہند سے اپیل کی کہ وہ22دسمبر 1939ء بروز جمعتہ المبارک ’’یوم نجات منائیں اور بعد نماز جمعہ دو نفل شکرانہ کے خداوند قدوس کی بارگاہ میں ادا کریں۔اس فیصلے کو مسلمانوں اور دوسرے پسماندہ فرقوں نے نہایت جوش وخروش سے قبول کیا۔

پورے ہندوستان میں جلسے ہوئے جن میں کانگریسی حکومتوں کے مظالم کا ذکر کیا گیااور ان سے نجات پانے پر شکر ادا کیا ۔حضرت امیر ملت نے دربار عالیہ علی پور سیداں (سیالکوٹ) میں شایان شان’’یوم نجات‘‘منانے کا اہتمام فرمایا اور سنگ سے بنی تاریخی مسجد نور میں کثیر جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد دونفل شکرانہ ادا فرمائے اور پھر اپنے مخصوص دل پذیر انداز میں حاضرین سے خطاب فرمایا اور یوم نجات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد کیا کہ ’’دو جھنڈے ہیں ایک اسلام کا اور دوسرا کفر کا۔

تم کونسے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوگے؟پھر آپ نے دریافت کیا کہ جو کفر کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہونگے۔ان میں سے اگر کوئی مر جائے گاتو تم اُسکی نمازہ جنازہ پڑھو گے؟سب نے انکار کیا۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرو گے؟سب نے اقرار کیا کہ ہرگز نہیں پھر حضرت نے ارشاد کیا کہ اس وقت سیاسی میدان میں سلامی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے ہم بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔اور سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہیے۔اس کے بعد جوں جوں قائداعظم کی زیر قیادت مسلم لیگ کی خدمات منظر عام پر آتی گئیں۔حضرت امیر ملت کی توجہ مبارک اسی طرح مبذول ہوتی گئی۔ 23مارچ1940کو اقبال پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس قرار داد پاکستان منعقد ہوا۔ تو حضرت امیر ملت نے آل انڈیا سنی کانفرنس کی نمائندگی کے لئے مولانا عبد الحامدبدایونی(ف1970ء) مولانا عبدالغفور ہزاروی (ف1970ء) کو بھیجا اور مجاہد ملت مولانا عبدالستار نیاز ی اس وقت نوجوان طلبا ء کی نمائندگی کر رہے تھے اول الذکر دونوں حضرات مسلم لیگ کے باقاعدہ ممبر ’’ مبلغ اور جانثار خادم تھے۔ اس موقع پر حضرت امیر ملت نے ایک بیان جاری فرمایا کہ’’مسلم لیگ ہی ایک عوامی جماعت ہے مسلمانوںٖ! سب اس میں شامل ہو جاؤ اگر اس میں شامل نہ ہو گے تو اور کونسی جماعت ہے جو مسلمانوں کی ہمدرد ہو سکتی ہے۔کانگریس سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کرے گی۔’’فضول ہے۔ ’’انہی ونوں قائداعظم علیحدہ قومیت کی بنیاد پر جدا گانہ حکومت کا نظریہ منوانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔حضرت امیر ملت نے 23مارچ1940 کو قرار داد پاکستان کے مبارک موقع پر حسب ذیل تہنیتی ارسال فرما کر اپنی بھرپور تائید و حمایت کا یقین دلایا۔تار کا مضمون یہ تھا ’’فقیر مع نو کروڑ ممیع اہل اسلام ہند ’’’دل وجان سے آپ کے ساتھ ہے۔ اور آپ کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد دیتا ہے اور آپ کی ترقی مدارج کے لئے دعا کرتا ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب ؒ کا 63واں سالانہ عرس مبارک سجادہ نشین حضرت پیر سید منور حسین شاہ صاحب جماعتی کی زیر صدارت 10/11مئی بروز ہفتہ /اتوار دربار عالیہ حضرت امیر ملت آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف ناروال میں انعقاد پذیر ہو رہا ہے ۔ جس میں دنیا بھر سے کثیر تعداد میں مشائخ عظام علماء کرام و مریدین شرکت فرمائیں گے۔
Shakil Qasmi
About the Author: Shakil Qasmi Read More Articles by Shakil Qasmi: 4 Articles with 4359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.