ایک جانب بھارت 1965ء کی
پاک بھارت جنگ کی گولڈن جوبلی منارہا ہے ۔ گولڈن جوبلی کی تقریبات 28 اگست
سے شروع ہوکر 22 ستمبر تک جاری رہیں گی تو دوسری جانب بھارتی فضائیہ کے ایک
سابق ائیر مارشل بھارت کمار نے اپنی کتاب میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ 65ء کی
پاک بھارت جنگ میں بھارت کوپاکستان کی نسبت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا
بلکہ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارتی فضائیہ کے کئی سکورڈن کو فضامیں اڑنے
سے پہلے ہی راکھ کا ڈھیر بنادیاتھا ۔اس کے علاوہ بری افواج کے ایک سابق
جرنیل کی جانب سے بھی یہ اعتراف پڑھنے کو ملا ہے کہ بھارتی فوج 65کی جنگ
میں اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ۔ اس کی نسبت پاک فوج
نے کم ترین وقت اور اعددی کمتری کے باوجود بہترین کارکردگی کامظاہرہ کرکے
جنگ کا رخ تبدیل کردیا ۔موضوع چونکہ بہت بڑا ہے اس لیے اختصار سے کام لیتے
ہوئے صرف یہ پاکستانی قوم کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ میری میجر شفقت بلوچ کے
ساتھ کئی ملاقات ہوئیں جنہوں نے لاہور پر 6 ستمبر کی صبح چار بجے بھارتی
فوج کے ایک بریگیڈ کا حملہ نہ صرف ایک سو دس جوانوں سے ناکام بنایا بلکہ
بھارتی فوج کو دس گھنٹے تک روک اور پورے بھارتی فوج کے بریگیڈ کو تباہ کرکے
لاہور جم خانہ کلب میں شراب کے جام ٹکرانے کا خواب چکنا چور کردیا ۔ میجر
شفقت بلوچ کو دو مرتبہ ستارہ جرات سے نوازاگیا جو چند سال پہلے اس دنیا سے
رخصت ہوئے ہیں ۔ وہ اکثر اپنی گفتگو میں بھارتی فوج کی بزدلی کی داستانیں
سنایا کرتے تھے ۔ان کی گفتگو سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
بھارتی فوج اورپاکستانی فوج کے سپاہی کی جرات اور بہادری میں زمین آسمان کا
فرق ہے ۔ پاک فوج کا ہر افسر اور سپاہی ایمان کی دولت سے سرفراز وطن عزیز
کے لیے جان قربان کرنے کواپنے لیے فخرتصور کرتا جبکہ بھارتی فوجی موت سے
ڈرتے ہوئے ہر مقابلے سے فرار کے راستے تلاش کرتے ۔آئیے اعدادو شمار کے
اعتبار سے بھی جائزہ لیں کہ یہ جنگ جیتی کس نے تھی ؟ سترہ روزہ جنگ میں
بھارت کے 130 جنگی جہاز ٗ 516 ٹینک اور 7000 بھارتی فوج جہنم واصل ہوئے
جبکہ 800 قیدی بنالیے گئے ۔ اٹھارہ صحیح حالت میں ٹینک ٗسینکڑوں توپیں ٗ
ہزاروں فوجی گاڑیاں اور بہت سارا دیگر سامان جنگ پر قبضہ ہوا ۔ان میں
بھارتی جرنیل راجندر پرشاد کی ایک جیب بھی شامل تھی ۔پاک بحریہ نے کسی
نقصان کے بغیر بھارت کاایک جہاز "فرنگیٹ "غرق کیا ۔کاٹھیا وار کے ساحل پر
دشمن کاایک بحری اور فضائی اڈہ دوارکا (سومناتھ ) مکمل طور پر تباہ کردیا
۔یادرہے کہ تباہ ہونے والے اس بحری اڈے پر دشمن کا ساحلی توپ خانہ ٗ
راڈرسٹیشن اور ہوائی اڈہ بھی شامل تھا ۔جبکہ پاک بحریہ کے جوانوں نے اپنی
توپوں سے تین بھارتی جنگی طیارے مار گرائے ۔پوری جنگ کے دوران بھارتی بحریہ
کو کراچی پر حملہ آورہونے کی ہمت نہ ہوئی اور پاک بحریہ کی حکمرانی بھارتی
سمندروں پر بھی رہی ۔پاکستان کی بری فوج نے کارگل سے ٹٹوال سے لے کر
راجستھان تک دشمن کے 1617 مربع میل علاقے پر قبضہ کرلیا ۔23 ستمبر 1965ء کی
صبح تین بجے جب فائر بندی ہوئی تو اس وقت دونوں ملکوں کی افواج کے زیر قبضہ
علاقوں کی تفصیل بھی پڑھ لیجیئے ۔ اکھنور سیکٹر میں 340 مربع میل بھارتی
علاقہ پاکستانی فوج کے قبضے میں آیا ۔ لاہورسیالکوٹ میں ایک مربع میل ٗ
کھیم کرن فاضلکا سیکٹر میں 36 مربع میل ٗ سلیمانکی ٗ فاضلکا میں 40 مربع
میل ٗ راجستھان میرپور خاص کے سیکٹر میں 1200 میل بھارتی علاقے پر پاک فوج
نے قبضہ کیا ۔اس طرح کل 1617 مربع میل بھارتی علاقے پر پاکستانی فوج سترہ
روزہ جنگ میں قابض ہوئی ۔اس کے برعکس بھارتی فوج کارگل میں 10مربع میل ٗ
ٹٹوال میں 2 مربع میل اوڑی پونچھ میں 170 مربع میل ٗ سیالکوٹ 140 مربع میل
ٗ لاہور سیکٹر میں 100 مربع میل اور راجستھان میرپور سیکٹر میں 24 مربع میل
پاکستانی علاقے پر قابض ہوئی۔اس طرح بھارتی فوج نے کل 446 مربع میل
پاکستانی علاقے پر قبضہ کیا ۔یہ وہ حقائق ہیں جن کو دنیا کی کوئی طاقت
جھٹلانہیں سکتی ۔ بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے بھی بھارتی دعووں کو
دیکھنے کے لیے جنگ بندی کے بعد جب سرحدی علاقوں میں پہنچے تو انہیں تباہ
شدہ پاکستانی ٹینکوں کی بجائے سرحدی علاقہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان دکھائی
دیا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گولڈن جوبلی منا کر اپنی قوم کو تو
بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن حقائق کو نہیں جھٹلا سکتے ۔ پھر یہ بات بھی کسی
شک و شبے سے بالاتر ہے کہ جنگ بندی کے لیے بھارت نے ہی سلامتی کونسل کا
دروازہ کھٹکھٹایا تھا کیونکہ پاکستانی توپوں شیرنی اور رانی کے گولے امرتسر
اور فیروز پور شہر پر برس رہے تھے ۔ یہ درست ہے کہ بھارتی فوج نے 6 ستمبر
کو جب لاہور کی سرحد پر حملہ کیاتھا تو اس وقت پاکستانی فوج سرحد پر موجود
نہ ہونے کی بنا پر اسے بی آر بی نہر کے مشرقی کنارے تک قبضہ کرنے میں
کامیابی حاصل ہوئی لیکن یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ واہگہ اور سائفن کا علاقہ
جو بالکل خالی پڑا تھا بھارتی فوج کو اس کاعلم نہیں ہوسکا ۔ بھارتی فوج نے
برکی کی جانب سے جب حملے کاآغاز کیا تو حسن اتفاق سے میجر شفقت بلوچ ایک دس
جوانوں پر مشتمل ایک کمپنی ہڈیارہ ڈرین ( جو بیدیاں روڈ پر واقع ہے جہاں آج
DHA 8 واقع ہے ) پر رات بارہ بجے پہنچی تھی ابھی جوانوں نے مورچے بھی نہیں
کھودے تھے کہ انہیں اگلی صبح بھارتی فوج سے جنگ لڑنی پڑی ۔ میجر شفقت بلوچ
نے بتایا کہ ہڈیارہ ڈرین کے اس کنارے پر کھڑا ہوکر میں بھارتی فوج کے
ٹینکوں پر ٹینک شکن گولے برسوا رہا تھا جبکہ بھارتی فوج مسلسل مجھ پر دو
سوگز دور سے گولیاں برسارہی تھی اﷲ تعالی کی قدرت دیکھیں کہ دو سو گز کے
فاصلے پر بھی فائر کی جانے والی ایک گولی بھی میجر شفقت بلوچ کونہیں لگی
۔یہ مقابلہ دس گھنٹے اس تک جاری رہا جب تک میجر عزیز بھٹی شہید کی کمپنی نے
بی آر بی کے کنارے پوزیشن نہیں سنبھال لیں ۔بھارتی ناکامی کی اس ایک عظیم
داستان چونڈہ کے محاذ پر چھ سو ٹینکوں سے کیاجانے والا حملہ بھی تھا جس کے
نیچے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنے جسموں سے بم باندھ کر انہیں
رائی کے گالوں کی طرح اڑا دیا ۔ اس زمانے میں دریائے راوی پر صرف ایک پل
موجود تھا اگر وہ پل ٹوٹ جاتا تھا تو پاکستانی آرمی کی نقل و حرکت محدود
ہوسکتی تھی لیکن بھارتی فضائیہ کی اس سے بڑی ناکامی کیاہوگی کہ وہ دریائے
راوی کاایک پل بھی نہیں توڑ سکے ۔ بہرکیف بات کچھ لمبی ہورہی ہے ۔ صرف
اتناکہوں گاکہ نریندر مودی اپنی شکست اورناکامی کا جشن منانے کے لیے گولڈن
جوبلی تقریبات کا آغاز کررہے ہیں اس جھوٹ کو سچ میں بدلنا نریندر مودی کے
بس میں نہیں ہے ۔ افسوس تو اس بات کاہے کہ ہم پاکستانی قوم 65ء کی جنگ کے
حوالے سے جام شہاد ت نوش کرنے والے افسروں اور جوانوں کو یکسر بھول چکے ہیں
ہمیں صرف میجر عزیز بھٹی ہی یاد ہے جبکہ پاک فوج کے سینکڑوں جوان کے
کارناموں کوکوئی یاد کرنے والا نہیں ہے اور نہ ہی 65ء کی پاک بھارت پر کوئی
پبلشر کتاب چھاپنے کو تیار ہے ۔اس سے زیادہ بے حسی کاعالم اور کیاہوگاکہ
پہلے 6 ستمبر کی چھٹی ہوا کرتی تھی ۔فوجی مظاہروں اور اسلحی نمائش کے ساتھ
ساتھ پاک فضائیہ کے شاہینوں کے کرتب دیکھ کر نوجوان اپنا خون گرمایاکرتے
تھے۔وہ تقریبات پر بہت سال تک نہیں ہوئیں۔ اس بار کچھ اہتمام دیکھنے میں
آرہا ہے ۔ ہمارا میڈیا بھارتی فلمی اداکاروں کی تشہیر پر تو گھنٹوں نشریات
کرسکتا ہے ہمارے اخبارات روزانہ فلمی دنیا پر ایک صفحہ چھاپنا نہیں بھولتے
لیکن ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات کے پاس وطن عزیز پر جانیں قربان کرنے
والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے بارے میں کہانیاں شائع کرنے کے لیے
نہ تو وقت ہے اور نہ ہی اخبارات میں جگہ بچتی ہے ۔ 65ء کی پاک بھارت جنگ
والا جذبہ پیداکرنے کے لیے میڈیا کو جو کردار اداکرنا چاہیئے تھا وہ اسکے
برعکس کردار اداکررہا ہے ۔ کاش ہم سب ایک لمحے کے سوچیں کہ ایک جیتی ہوئی
جنگ کو ہمارے تغافلانہ رویوں نے ہار میں کیوں بدل دیا ہے وہ ندامت اور شکست
جو میدان جنگ میں بھارتی فوج اور قوم کے حصے میں آئی تھی وہ پراسرار خاموشی
کی بدولت پاکستانی قوم کے ماتھے پر کیوں دکھائی دے رہی ہے ۔ ٗ پاکستان
میڈیا ٗحکومت اور فوجی اداروں کو قوم کامورال بلند رکھنے کے لیے اپنا قبلہ
درست کرنا ہوگا ۔ وگرنہ بھارتی میڈیا کی یلغار جیتی ہوئی جنگ کاکریڈٹ بھی
ہم سے چھین بھی سکتی ہے جو کااہتمام موجودہ بھارتی حکومت گولڈن جوبلی
تقریبات منا کر کامیابی سے کررہی ہے ۔ |