ودہولڈنگ ٹیکس .... حکومت و تاجروں میں ٹھن گئی
(عابد محمود عزام, karachi)
ودہولڈنگ ٹیکس کا معاملہ دن بدن
گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت اور تاجر دونوں میں سے کوئی فریق بھی پیچھے
ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک طرف تاجروں نے حکومت کی جانب سے لاگو کیے گئے
ٹیکس کو مسترد کردیا ہے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جبکہ دوسری جانب
حکومت نے تاجروں کا ودہولڈنگ ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ ایف
بی آر کا کہنا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کسی صورت واپس نہیں لیا جائے گا، جبکہ
تاجر برادری اپنے مطالبات منوانے کے لیے مختلف شہروں میں متعدد ہڑتالیں
کرچکی ہے اور اپنے مطالبات تسلیم کیے جانے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
کیا ہے۔ 9ستمبر کوملک بھر کے تاجروں نے مشترکہ ہڑتال کی کال دی ہے۔ جبکہ
ملک میں تاجروں کے بڑھتے ہوئے تحفظات کو فوری حل کرنے کے لیے اس سے اگلے
روز یعنی 10ستمبر کو وزیر اعظم میاں نوازشریف اس معاملے کو سلجھانے کے لیے
خود کراچی آ کر تاجروں سے ملاقاتیں کریں گے۔ تاجروں، سرمایہ کاروں، فیڈریشن
چیمبر آف کامرس، ملک بھر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ٹریڈرز کے
رہنماؤں سے 2 روز تک ملاقاتیں جاری رہیں گی۔ تاجروں کے مسائل اور تحفظات کو
فوری حل کرنے کے لیے وزیر اعظم کے ہمراہ وفاقی وزیر خزانہ، وفاقی وزیر پانی
و بجلی، وفاقی وزیر پٹرولیم سمیت وفاقی کابینہ کے 8 وزرا اور چیئرمین ایف
بی آر بھی ہوںگے۔
واضح رہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس آمدنی، منافع اور بینکوں سے کیے جانے والے لین
دین پر عاید ٹیکسوں میں سے ایک ٹیکس ہے۔ کچھ ممالک میں یہ رائیلٹی، کرائے
اور رئیل اسٹیٹ کی فروخت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سال-16 2015 کے وفاقی بجٹ
میں بینک سے لین دین پر 0.6 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کیا
گیا تھا، جو تاجر برادری کے احتجاج پر 30 ستمبر 2015 تک 0.3 فیصد کردیا
گیا۔ یعنی بینک سے نکلوائے جانے والے ہر ایک لاکھ روپے پر تین سو روپے ٹیکس
ادا کرنا ہوگا، جبکہ کراس چیک پر یہ ٹیکس ڈبل ادا کرنا پڑتا ہے۔حالیہ بجٹ
میں فائلر اور نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی مختلف شرح متعارف کروائی گئی ہے۔
فائلر سے مراد ایسے شہری ہیں جو ریٹرن ٹیکس جمع کرواتے ہیں اور ان کے پاس
نیشنل ٹیکس نمبرہوتا ہے، جبکہ نان فائلر سے مراد وہ شہری ہیں، جو ریٹرن
ٹیکس جمع نہیں کرواتے۔ بجٹ میں فائلر امیدواران پر 0.3 فیصد، جبکہ نان
فائلرز پر 0.6 فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس عاید کیا گیا۔ اس ٹیکس کے تحت فائلر
حضرات کو تو صرف کیش ٹرانزیکشن پر جبکہ نان فائلر حضرات کو بینک کے ذریعے
کی جانے والی ہر طرح کی ٹرانزیکشن پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ نان فائلر حضرات
پر اس ٹیکس کے لاگو کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں
لاکر قومی خزانے کو بڑھانا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعدادوشمار کے
مطابق 11 جولائی کو اس ٹیکس میں 82 دن کی عارضی رعایت دیے جانے کے بعد سے
اب تک اسی ہزار سے زاید مزید پاکستانی شہری اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کروا کر
ٹیکس دہندگان میں شامل ہو چکے ہیں۔ جبکہ ودہولڈنگ ٹیکس کا مقصد بھی یہی
بتایا جارہا ہے کہ اس کے ذریعے ایک سال کے بعد تاجروں کے گوشوارے ایف بی آر
کو معلوم ہوسکیں، کیونکہ اب تک بینک انتظامیہ ایف بی آر کو اپنا ڈیٹا نہیں
دیتی تھی، لیکن اب ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے بینکوں کا یہ ڈیٹا خود بخود ایف
بی آر کے پاس چلا جائے گا، جس کے بعد تمام تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا
جاسکے گا۔ ذرایع کے مطابق اس وقت پاکستان کی 19 کروڑ کی آبادی میں سے صرف
پونے نو لاکھ افراد ٹیکس دہندگان ہیں۔ لہٰذا ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی کوشش کی
جارہی ہے۔ حالیہ بجٹ میں متعارف کروائے جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس کے مطابق
نان فائلر حضرات کو 50 ہزار روپے سے زاید کی ہر طرح کی ٹرانزیکشن پر
اعشاریہ چھے فیصد ٹیکس ادا کرنا تھا۔ تاجر برادری کی جانب سے ہونے والی پے
در پے ہڑتالوں کے باعث حکومت کو اپنا فیصلہ کچھ عرصہ کے لیے موخر کرنا پڑا۔
ودہولڈنگ ٹیکس کی وجہ سے تمام کاروباری شخصیات خاص کر تاجر برادری سخت غم
وغصے میں ہے۔تاجر برادری کی جانب سے اپنا مطالبہ منوانے کے لیے ایک طرف
ہرتالوں کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ دوسری جانب انہوں نے حکومت پر دباﺅ بڑھانے
کے لیے بینکنگ لین دین محدود کردیا ہے، جس کی وجہ سے مرکزی بینک کو سرمائے
کی قلت کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار نے بینک کھاتوں
سے رقوم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے بعد چیک کے ذریعے لین دین
محدود ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ یاد رہے کہ بینک کھاتوں سے لین دین پر
ودہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ یکم جولائی 2015 سے عمل میں لایا گیا، جس کے بعد نجی
شعبوں کی جانب سے بینکوں کے ذریعے لین دین محدود کرتے ہوئے نقد لین دین
بڑھا دیا گیا۔ اس سے بھی بینکوں کے ڈپازٹس میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
تاجروں نے فنانشل کاسٹ بڑھنے اورٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی ایف بی آر اور
وزارت خزانہ تک پہنچنے اور تادیبی کاروائیوں کے خدشات کے پیش نظر روزمرہ
لین دین نقد بنیادوں پر منتقل کر دیا ہے ، رقوم کے علاوہ بڑی مالیت کے
بانڈز اور غیر ملکی کرنسیاں استعمال کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ 50ہزار
روپے سے زاید کی ٹرانزیکشنز پر 0.3فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کے بعد تاجروں و
صنعتکاروں کی جانب سے بینکنگ لین دین میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ کمرشل
بینکوں میں لیکوڈٹی مسائل کے باعث مرکزی بینک پر سرمائے کی قلت دور کرنے کے
حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور محض چند روز کے دوران اسٹیٹ
بینک نے اوپن مارکیٹ آپریشن کے ذریعے کمرشل بینکوں کو 1210ارب 55 کروڑ روپے
فراہم کیے ہیں۔ اس ضمن میں ا سٹیٹ بینک نے اوپن مارکیٹ آپریشن کے ذریعے یکم
ستمبر کو 50 ارب 5 کروڑ روپے 3 روز کے لیے 6.52 فیصد شرح سود پر فراہم کیے،
3 ستمبر کو 133 ارب 30 کروڑ روپے 8 یوم کے لیے 6.53 فیصد شرح سود پر، جبکہ
4 ستمبر کو 1027 ارب 20 کروڑ روپے 7 یوم کے لیے 6.52 فیصد شرح سود پر فراہم
کیے۔ ذرایع کے مطابق ا سٹیٹ بینک کی جانب سے 4ستمبر کو 1027 ارب روپے کا
بھاری اوپن مارکیٹ آپریشن اس وجہ سے دیکھا گیا، کیونکہ ملک بھر میں تاجروں
نے ود ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف 4 ستمبر کو بینکوں سے کاروباری لین دین نہ کرنے
کا فیصلہ کیا تھا، جس کے باعث کمرشل بینکوں کو سرمائے کی قلت سے بچانے کے
لیے اسٹیٹ بینک کو اس قدر بڑا اوپن مارکیٹ آپریشن کرنا پڑا۔ کاروباری حلقوں
کا کہنا ہے کہ حکومت کو ود ہولڈنگ ٹیکس پر گھٹنے ٹیکنے کے لیے تاجروں نے
بینکوں کو ہدف بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ تاجروں کا خیال ہے کہ بینکوں سے
لین دین میں کمی سے بینکاری نظام کو نشانہ بنایا گیا تو حکومت پر ود ہولڈنگ
ٹیکس کی واپسی کے حوالے سے مؤثر دباؤ ڈالا جاسکے گا۔ حکومت کی جانب سے ود
ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے بعد تاجروں کی جانب سے بینکوں سے لین دین میں کمی
کے باعث کمرشل بینکوں میں سرمائے کی قلت بدستور جاری ہے اور اسٹیٹ بینک کو
صرف ایک ہفتے کے دوران کمرشل بینکوں میں سرمائے کی قلت دور کرنے کے لیے
1210ارب روپے سے زاید رقم فراہم کرنا پڑی ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس کے دن بدن
گھمبیر ہوتے معاملے کے حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات اور تاجررہنما سے کی
گئی بات چیت نذر قارئین ہے۔
عتیق میر( صدر آل کراچی تاجر اتحاد)
حکومت کی طرف سے لگایا جانے والا ودہولڈنگ ٹیکس ناانصافی پر مبنی ہے۔ اس کو
ٹیکس نہیں کہنا چاہیے، بلکہ ظلم ہے، جو تاجر برادری کے لیے کسی طور بھی
قابل قبول نہیں ہے۔ تاجر اس کو مسترد کرتے ہیں اور پورے ملک کے تاجر اپنے
موقف پر متحد ہیں۔ ودہولڈنگ ٹیکس کے خلاف احتجاجی تحریک کی ابتدا میں
تاجروں میں کچھ اختلاف سامنے آیا تھا، لیکن اب ملک بھر کے تاجر متفق و متحد
ہیں۔ اب 9ستمبر کو ہڑتال تمام تاجر متحد ہوکر کررہے ہیں۔ تاجر برادری
سمجھتی ہے کہ حکومت نے جو ودہولڈنگ ٹیکس لگایا ہے، اس کی نہ تو ضرورت ہے
اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے۔ اگر حکومت اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتی تو اس
سے معیشت کو نقصان ہوسکتا ہے، کیونکہ تاجروں نے بینکوں سے لین دین کم کردیا
ہے، جس سے ملک کو کھربوں روپے کا نقصان ہوگا۔ حکومت تاجروں کو مسائل میں
پھنسا رہی ہے۔ حکومت تاجروں کا معاشی قتل کر رہی ہے جو بند ہونا چاہیے۔
حکومت نے تاجروں کو مثبت جواب نہیں دیا۔ حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد اپنا
فیصلہ واپس لے۔ حکومت کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ ان بڑے مگرمچھوں کو
پکڑے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ان ٹیکس چوروں کی لسٹ حکومت کے پاس موجود ہے،
حکومت مصلحت سے باہر آئے اور ملک کی سالمیت اور بہتری کے لیے ان پر ہاتھ
ڈالے اور تاجروں کو بلاوجہ تنگ نہ کرے۔ تاجر برادری نے کبھی ٹیکس دینے سے
انکار نہیں کیا، لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ایسا نظام لاگو کرنا چاہیے، جو
سب کو قبول ہو۔ حکومت کے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ماضی کی خرابیوں
اور غلطیوں کو ٹھیک کرے، جس سے ملک کی معیشت بہتر ہوگی، لیکن اگر حکومت ان
غلطیوں کو ٹھیک نہیں کرتی اور تاجروں کے پیچھے پڑی رہے گی تو اس کا مطلب یہ
ہے کہ حکومت مخلص نہیں ہے۔
شاہد حسن صدیقی(ماہر اقتصادیات)
حکومت کی طرف سے ود ہولڈنگ ٹیکس کا لگایا جانا پاکستان کے لیے خسارے کا
سودا ہے، یہ غیر منصفانہ اور حکومت کا اپنے اختیارات سے تجاوز ہے۔ حکومت اس
کے ذریعے بڑے بڑے ٹیکس چوروں کو بچانا چاہتی ہے۔ ملک میں 32 لاکھ ایسے
افراد ہیں جو بے انتہا دولت مند ہیں اور ٹیکس چور ہیں۔ یہ سب حکومت کے ساتھ
ہیں۔ تمام صنعت کار بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی
اسمبلیاں حکومت کے ساتھ ہیں، جہاں ٹیکس چور بیٹھے ہیں۔ دراصل حکومت
ودہولڈنگ ٹیکس لگا کہ ان تمام افراد کو بچانا چاہتی ہے۔ اگر کوئی ٹیکس چور
شخص بینک کے ساتھ 25 لاکھ روپے کا لین دین کرتا ہے اور یہ رقم بینک سے
نکلواتا ہے تو وہ اس پر ودہولڈنگ ٹیکس ادا کرے گا، جو کہ صرف ساڑھے سات
ہزار روپے بنتے ہیں، حالانکہ اس کو انکم ٹیکس ادا کرناچاہیے، جو کہ اس کی
آمدنی پر لگے کا، وہ بہت زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت دراصل بڑے لوگوں کو
سپورٹ کررہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ
تاجروں نے جو بینکوں سے لین دین کو محدود کیا ہے، یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں
چل سکے گا۔ملک میں تاجروں کی تعداد صرف 7 لاکھ ہے۔ تمام بڑے لوگ اور ٹیکس
چور حکومت کے ساتھ ہیں۔ حکومت کو تمام ٹیکس چوروں سے پورا ٹیکس لینا ہوگا،
ٹیکس نہ لینے سے ملک کو خطرہ ہے۔ یہ میری بات نہیں، بلکہ برطانیا کے ایک
ادارے نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں ٹیکس چوری ہوتی رہی تو پاکستان کے وجود
کو خطرہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کررہی
ہے، یہ آپریشن اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب ٹیکس چوروں سے ٹیکس لیا جائے،
کیونکہ ملک میں انتہا پسندی، غربت، بے روزگاری اور ناانصافی سے آتی ہے، اگر
ٹیکس چوروں سے ٹیکس لیا جائے تو ان میں کافی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ |
|