آہ ! معصوم ایلان کردی

غم احساس کی علامت ہے جبکہ بے حسی فرد اور قوم دونوں کے لیے ایک روگ ہے ، فرد کی بے حسی تنہا زوال کی علامت ہوتی ہے جبکہ قوم کی بے حسی اجتماعی زوال کی علامت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے٭ قبا چاہئے اس کو خون عرب سے

ترکی کے ساحل پر مردہ حالت میں اوندھے منہ پڑی تین سالہ معصوم بچہ کی تصویر نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے، زندہ دل لوگوں کی آنکھیں اشکبار ہیں، ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہے، غم کا ایک طوفان امڈ پڑا ہے، سوچتے ہوئے دل کانپتا ہے، بے ضمیر حکمرانوں سے گلہ ہے کہ کوئی اسے اپنی سرزمین پر پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوا…مگر پس مرگ ہر ملک کے اخبار نے اسے اپنی زینت بنا کر شائع کیا ، وہ معصوم ایک ایلان کردی تھا جس کی تصویر نے ہر انسانیت نواز دل میں ہلچل پیدا کردی ہے لیکن اس جیسے سینکڑوں ایلان کردی ہردن دنیا کے مختلف خطے میں انسانیت سوز مظالم اور غربت وافلاس کے شکار ہورہے ہیں، مگر امن عالم کے خود ساختہ پیامبر کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی ہے، خود کو انسانیت کا مسیحا کہنے والے انسانیت کے دشمن افواج کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں، شام کی خانہ جنگی میں لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، جبکہ پچاس لاکھ سے زائد افراد دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جن کی بے کس وکسمپرسی کو کیمرہ کی آنکھ میں قید کرکے لذت وتسکین کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں، اپنی ٹی آر پی بڑھائی جارہی ہے، امریکہ اور اس کی زرخرید لونڈی اقوام متحدہ شام کے خلاف صرف قرار داد پر قرارداد پیش کررہی ہے، ہر اجلاس میں ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے اور دوسرے اجلاس میں اس پر بحث کرنے کے بعد شام کے حالات پر مگر مچھ کے آنسو بہار کر داد وطلب وصول کرکے خاموش ہوجاتے ہیں۔

لیکن افسوس اتنے مسلم ممالک کے رہتے ہوئے شام وبرما، افغان و بوسنیا اور کشمیر وفلسطین کے مسلمان بے یارو مددگار پھر رہے ہیں، کوئی انہیں سہارا دینے والا نہیں ، کوئی ان کی دادرسی کرنے والا نہیں، کوئی پرسان حال نہیں، واہ رہے مسلمان ماتم ہے تمہاری عقل پر جس مسلمان کے بارے میں رسول اکرم ؐ نے المسلم اخ المسلم ، مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں قرار دیا ہے، آج وقت کے فرعونوں اور دجالی قوتوں کی سازش کا شکار ہوکر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہارہا ہے۔ شام میں جنگ کے تین محاذ قائم ہیں دو باطل قوتوں کے ااور ایک حق کے پاسبانوں کا لیکن باطل قوتوں کے مقابلے حق کے پاسبان کمزور وبے بس ہیں محض خدائی آسرے پرباطل سے لوہے لیے ہوئے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح حق کے پاسبانوں کو بشارالاسد اور داعش کے دہشت گرد تباہ کررہے ہیں۔ شامی مسلمان چار سالہ خانہ جنگی سے تنگ آکر ہجرت پر مجبور ہیں لیکن کوئی مسلم ملک پناہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ انجیلا مریکل کا جملہ دل کو کھٹکتا ہے ، کاش ان کا یہ جملہ عرب حکمرانوں کاضمیرجگاسکے ۔انجیلا نے کہا ’’ہم آئندہ اپنی آنے والی نسلوں کو بتائیں گے کہ مسلمان ادھر ہماری طرف بھاگے آرہے تھے حالانکہ مکہ ان کو زیادہ قریب پڑتا تھا۔

طارق بن زیاد نے جس ساحل پر اپنی کشتی جلا دی تھی اس عزم کے ساتھ کہ کشتیاں ہم نے جلادی ہیں بھروسے پہ ترے اب نہیں لوٹ کے جانے والے، آج اسی ساحل پرطارق بن زیادہ کے فرزند کی بے گوروکفن لاشیں پڑی ہیں۔ آہ !مظلوموں کی فریاد رسی اور ظالموں کی سرکوبی اور وامعتصماہ کی صدا لگانے والوں کے حلق خشک ہوچکے ہیں، ان کی دادرسی کرنے والوں کے انتظار میں آنکھیں پتھراگئی ہیں، امیدیں دم توڑ چکی ہیں، صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہے، شامی عوام غیر واضح منزل کی جانب رواں دواں ہیں، ایوبی وقاسم جیسے قائد کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ماتم ہے مسلم ممالک کے سربراہوں و خلفیوں پر جنہیں امریکہ کی شاباشی سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز عزیز نہیں ہے،جو ایک فرماں بردار غلام کی طرح آقا کی ایک تھپکی پر جان ومالک، عزت وآبرو کو سربازار لٹانے اور گنوادینے کو اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتے ہیں، جن کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے،جو فتنوں کے بیج کو سینچ سینچ کر تناور درخت بنانے کے لیے دل وجان سے لگے ہوئے ہیں، اور عالمی صہیونیت کی ہر سازش اپنے مطلوبہ کم وکیف کے ساتھ اپنے مقررہ وقت میں بغیر کسی تاخیر کے برباد ہوتی جارہی ہے۔ آج شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد غاروں چٹانوں کہساروں خون کو منجمد کردینے والی یخ بستہ راتوں اور دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے معصوموں ، روتے بلکتے بچوں اور عفت مآب دوشیزائوں کے ساتھ در بدرہ کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، چہار جانب سے اسلامی سلطنت کے جابر وظالم اور امریکہ کے حاشیہ بردار حکمرانوں نے اپنے دروازہ بند کرلیے ہیں، بلکہ یہ ممالک ان غریب مہاجرین کے لیے ایک کمین گاہ ہیں،اگر کوئی پردیسی بھولے بھٹکے ان کے زیر دام آیا تو اس پر دہشت گرد او رملک کے لیے خطرہ قرار دے کر زندانوں کا حصہ بنادیتے ہیں۔تہہ بہ تہہ مسہریوں اور نرم گرم قالین سے سمائے گئے منقش کمروں ، آرام دم اور پرسکون صوفوں اور ایئر کنڈیشن محلات میں بیٹھ کر عالم اسلام کو اجڑتا دیکھنے والے مسلم حکمرانوں کو کاش یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ خدا کا یہ دین حق چند موہوم سی باد صرصر سے بجھنے والا نہیں ہے۔انہیں یاد رکھنا ہوگا اور تاریخ محفوظ کرے گی اوردنیا دیکھے گی کہ اس دین حق کے حفاظت کی خاطر پھر کوئی صلاح الدین ایوبی موجودہ فراعنہ مصر و ملعون بشار الاسد پر پر ضرب موسوی بن کر نمودار ہوگا، پھر کوئی محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد اپنا لہو دے کر خدا کے اس دین کی آبیاری کرے گا اور عنقریب ہی موسیٰ بن غسان کی للکار پھر سنائی دے گی، الاسلام یعلوا ولا یعلیٰ کی صدائیں پھر سے بلند ہوں گی ۔ انشاء اللہ ۔

شامی معصوم مہاجر بچے کی اس تصویر کو دیکھیں جسے سمندر نے اپنی آغوش میں لے کر پرسکون نیند سلا دیا ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام دیا ہے امت مسلمہ کے ان بے ضمیر حکمرانوں اور نوجوانوں کو کہ تم خواب خرگوش میں اپنے بلندوبالا محلات میں نرم و گداز مخملی بستروں پہ سوتے رہو اور اس دن کا انتظار کرو جس دن یہ معصوم بچہ دامن گیر ہوگا کہ کوئی نہیں تھا ہماری دادرسی کرنے والا ،کوئی نہیں تھا ہمیں ظالم بشارالاسد سے نجات دلانے والا…معصوم کی خاموش لاش کہہ رہی ہیں اے خدا اب تو کسی یارو مددگار کو بھیج اب تو کسی قاسم للکار کو بھیج اب تو کسی ایوبی سالار کو بھیج…مسلمانوں اتنا یاد رکھیں کوئی ماں کے پیٹ سے قاسم ،ایوبی ، موسیٰ، علی بن سفیان بن کے نہیں آتا بلکہ اسی درد و کرہن کو محسوس کرکے پیدا ہوتا ہے اسی اقصی و فاطمہ کی آواز پر کوئی کشتی جلاتا ہے تو کوئی راجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجاتا ہے۔ اتنا یاد رکھیں اس وقتی خاموشی میں جب کہ ان غریب مسلمانوں کے لیے کوئی بھی صدائے احتجاج جنبش نہیں پیدا کررہی ہے، بڑے بڑے قائدین ملت کی زبانوں پر بندش کے تالے پڑے ہوئے ہیں، خود ساختہ احتیاط کی زنجیروں میں مقید ہیں، ایسے حالات میں اس وقت مالک ذوالجلال ہی کی طرف سے ہاتھ اٹھتا ہے جو مظلوموں کی دعائیں کبھی رد نہیں کرتا۔ تمنا لب کے ساتھ دعا بن کر جڑتی ہے کہ یارب شمع امید کو سرشام بجھا نہ دینا کہ ابھی رات لمبی ہے، ابھی بات لمبی ہے۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.