حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
اپنی تصنیف حیاۃ الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے
ہیں ہم لوگ حضور ؐ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے ۔حضور ؐ جب سجدے میں
جاتے تو حضرت حسین ؓ اور حضرت حسن ؓ کود کر آپؐ کی پیٹھ پر چڑھ جاتے جب آپؐ
سجدے سے سر اٹھاتے تو نرمی سے پکڑ کر ان دونوں کو پیٹھ سے اتار دیتے ۔آپؐ
جب دوبارہ سجدے میں جاتے تو یہ دونوں پھر چڑھ جاتے ۔حضورؐ نے جب نماز پوری
کر لی تو دونوں کو اپنی ران پر بٹھا لیا میں کھڑے ہو کر حضورؐ کی خدمت میں
گیا اور عرض کیا یا رسول اﷲ ؐ ان دونوں کو گھر چھوڑ آؤں؟ آپؐ نے فرمایا
نہیں ۔اتنے میں بجلی چمکی تو حضور ؐ نے ان دونوں سے فرمایا اپنی ماں کے پاس
چلے جاؤ ۔بجلی کی روشنی اتنی دیر رہی کہ یہ دونوں اپنی والدہ کے پاس پہنچ
گئے۔
قارئین! ایک عرصے بعد آپ کی خدمت میں حاضری ہو رہی ہے ۔یقینا تبدیلی ہی ایک
مستقل چیز ہے بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ ’’کالم نگاری اور صحافت‘‘ تضیعِ
اوقات اور گلا پھاڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ
در حقیقت ایمان کی دوسری طاقت ور علامت یہی ہے کہ غلط کو غلط اور صحیح کو
صحیح قرار دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کی جائیں۔یہی خیال لے کر آج
دوبارہ قلم اٹھایا ہے اور آپ کی خدمت میں آج کا سلگتا ہوا مسئلہ لے کر حاضر
ہیں
قارئین! اس وقت آزادکشمیر بھر میں محکمہ صحت دو گھنٹے کی علامتی ہڑتال پر
جا چکا ہے اور حکومت وقت ’’اپنی چار سالہ اعلیٰ کارکردگی‘‘ کے ’’ٹل کھڑکا‘‘
رہی ہے محکمہ صحت میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ،لیڈی ڈاکٹرز، نرسز، پیرا
میڈیکل سٹاف، وارڈ بوائے سے لے کر تمام عملہ ہڑتال میں شامل ہے اور
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کی تمام کابینہ کے شامل باجے یہ نوید دے
رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی بے مثال کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ الیکشن
جیت کر عوام کی مزید ’’پانچ سالہ خدمت‘‘ کا سفر جاری رکھے گی ۔محکمہ صحت
تباہی کے آخری کنارے تک پہنچ چکا ہے اور حکومت آزادکشمیر زمین کو آسمان سے
ملانے والے ایسے ایسے دعوے کر رہی ہے کہ جنھیں سن کر سمجھ نہیں آتا کہ دل
کو روئیں یا جگر کو پیٹیں اچھا ہوا کہ جگر مراد آبادی موجودہ وقت دیکھنے سے
بہت پہلے اس دنیا سے تشریف لے گئے کیوں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو نجانے ان کے
قلم سے کیا کیا نگارشات برآمد ہوتیں ہمارے ملک میں ایک عجیب وغریب قسم کی
رسم ہے کہ کسی بھی انسان یا شعبے کو اس کا حق روئے بغیر نہیں دیا جاتا رلا
کر حق دینے کی یہ رسم اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ اکثر اوقات ہم سوچتے ہیں کہ
حکومت شاید نام ہی اس ’’طوطا یا مینا‘‘ کا ہے جو اپنے عشاق کے صبر کا
امتحان لینے کے لیے تخلیق کی گئی ہے اس وقت محکمہ صحت آزادکشمیر دو گھنٹے
کی علامتی ہڑتال شروع کر چکا ہے اور چند دنوں تک اگر پاکستان میڈیکل ایسوسی
ایشن کے مختلف مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو مکمل ہڑتال کی کال بھی دے دی
گئی ہے اس حوالے سے ہم نے جب حقائق جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ چیف
سیکرٹری آزادکشمیر ، سیکرٹری مالیات، سیکرٹری صحت عامہ سے لے کر ڈائریکٹر
جنرل ہیلتھ سمیت تمام لوگ دل سے اس بات کے قائل ہیں کہ ہیلتھ الاؤنس ،
میڈیکل آفیسرز کے لیے چار درجاتی فارمولے کی نئی درجہ بندی، کوالیفیکشن
الاؤنس، پوسٹ گریجویشن کے لیے چودہ آسامیوں سمیت دیگر تمام ایشوز پر متفق
ہیں کہ یہ جائز مطالبات ہیں تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میڈیکل
ایسوسی ایشن آزاد کشمیر کے صدر ڈاکٹر آفتاب میر اور دیگر تمام ذمہ داران
ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہو گئے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب
میر ،ڈاکٹر مرتضی بخاری ، ڈاکٹر طارق مسعود، ڈاکٹر سردار حلیم خان، ڈاکٹر
شکیل آصف، ڈاکٹر صادق، ڈاکٹر کرامت اﷲ، ڈاکٹر عنایت اﷲ، ڈاکٹر رفعت، ڈاکٹر
عطیہ شاہد، ڈاکٹر سہیلہ عابد، ڈاکٹر ثمرہ یوسف ، ڈاکٹر عبدالغفور قریشی
،ڈاکٹر ایوب قریشی، ڈاکٹر احسان اکرم ، ڈاکٹر راجہ افتخار نیاز، ڈاکٹر طارق
بھٹی ، ڈاکٹر زاہدہ قاسم، ڈاکٹر وسیم عباسی، ڈاکٹر شوکت و دیگر نے انتہائی
درد دل کے ساتھ بتا یا کہ چیف سیکرٹری آزادکشمیر سے ہونے والی میٹنگ کی
روشنی میں محکمہ مالیات اور محکمہ صحت عامہ ہیلتھ الاؤنس سمیت ہمارے دیگر
تمام مطالبات سے عقلی بنیادوں پر ہمیشہ اتفاق کرتے آئے ہیں اور ہم نے ہمیشہ
اپنی ہڑتال کی کال کو اس وجہ سے موخرکیا تاکہ عام غریب مریض کے دکھ اور
تکلیف میں اضافہ نہ ہو لیکن اصل دکھ اور تکلیف اس وقت پہنچی جب ہم نے
موجودہ بجٹ2015-16کی تفصیل دیکھی بجٹ کی تفصیلات کے مطابق 2012میں گلگت
بلتستان اور وفاق کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی طرح آزادکشمیر کے
محکمہ صحت کے ملازمین کے لیے ہیلتھ الاؤنس کی مد میں پچاس کروڑ روپے کی رقم
ظاہر تو کر دی گئی لیکن ابھی تک وہ رقم مستحقین تک نہیں پہنچ سکی جو
انتہائی پر اسرار قسم کی حرکت دکھائی دے رہی ہے اس سلسلہ میں یہ بات بھی
ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 27اگست کو آزادکشمیر کے سیکرٹری مالیات اور 28اگست کو
چیف سیکرٹری آزادکشمیر نے حکومت پاکستان کو آزادکشمیر کے ڈاکٹرز او رمحکمہ
صحت عامہ کے دیگر ملازمین کو ہیلتھ الاؤنس کی ادائیگی کرنے کے لیے بقیہ رقم
جس کی مالیت 77کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ اعتراف
بھی کیاگیا کہ اس سے پہلے ملنے والی قسط میں پچا س کروڑ روپے وصول کیے جا
چکے ہیں اب یہ بات تحقیق طلب ہے کہ پہلے سے ملنے والی پچاس کروڑ روپے کی
رقم کس طریقے سے اور کون سی مد میں ’’ٹھکانے ‘‘ لگائی گئی ہے کیوں کہ جن
لوگوں کے نام پر یہ رقم وصول کی گئی ہے وہ تو اس وقت تک اس سے محروم ہیں تو
پھر آخر یہ خطیر رقم کہاں خرچ کی گئی ہمیں یقین ہے کہ ’’روٹی، کپڑا اور
مکان‘‘ کا نعرہ لگانے والی اور آزادکشمیر میں چار سال کے قلیل عرصے میں تین
میڈیکل کالجزاور چار یونیورسٹیاں بنانے کے علاوہ گذشتہ ساٹھ سالوں سے بہتر
کارکردگی کا دعوی کرنے والی ’’درویش و مجاور حکومت‘‘ برا منائے بغیر ہمارے
سوالوں کا جواب ضرور دے گی او ر ہمیں یہ بھی پکا یقین ہے کہ ہمارے اس
سوالنامے کو ـ’’نیشنل ایکشن پلان ‘‘ کے خلاف کوئی سازش تصور نہیں کیا جائے
گا ۔امیر وقت یہ یاد رکھیں کہ ان کی کرسی اور اقتدار کے تخت کے پائے عوام
ہی کی مرہون منت ہیں۔
بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد ،شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا! جذبہ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے
وہ بد خو اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مختصر،قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
ادھر وہ بدگمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے، اے ناامیدی! کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیال ِ یار، چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف بر طرف ،نظارگی میں بھی سہی ، لیکن
وہ دیکھا جائے ، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے ، نبردِعشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ،نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے، مدعی کا ہم سفر غالب!
وہ کافر ،جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
قارئین! کالم لکھنے کے سلسلے میں تعطل سے پہلے آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے
آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے غیر سنجیدہ اور لاابالی انداز میں ایک چھوٹے سے
علاقے میں تین میڈیکل کالجز شروع کرنے کے معاملے پر آپ سب لوگوں کی توجہ
مبذول کروائی تھی عقلی لحاظ سے ہم آج بھی پختہ یقین رکھتے ہیں کہ آزادکشمیر
بھر میں صرف ایک میڈیکل کالج آئندہ پچاس سال کے طبی تقاضے پورے کرنے کے لیے
کافی تھا لیکن وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کو مجبوراً تینوں
ڈویژنز میں ایک ایک میڈیکل کالج دینا پڑا او ر آج صورتحال یہاں تک خراب ہو
چکی ہے کہ اگر سر ڈھانپا جائے تو پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں اور اگر پاؤں کو
چادر کے اندر رکھا جائے تو سر کی حرمت پامال ہو جاتی ہے اس سے بھی بڑا ایشو
ابھی تک یہ بنا ہو اہے کہ آزادکشمیر کے محکمہ صحت میں کام کرنے والے سپشلسٹ
ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف کو میڈیکل کالجز کی ’’پردیسی افسر شاہی ‘‘ قبول کرنے
اور انہیں ان کا حق دینے پر تیار دکھا ئی نہیں دیتی جبکہ میڈیکل کالجز میں
کام کرنے والے’’پردیسی پرندے‘‘ مقامی لوگوں پر عدم تعاون کا الزام عائد
کرتے دکھائی دیتے ہیں یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اگر محکمہ صحت عامہ
آزادکشمیر اپنے سپشلسٹ ڈاکٹرز کو میڈیکل کالجز میں ڈپیوٹیشن پر بھیج دے تو
درجنوں آسامیاں بھی خالی ہو سکتی ہیں جہاں نئے سپشلسٹ ڈاکٹرز کو تعینات کر
کے بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اسی طرح ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں
کام کرنے والے سینئر ڈاکٹرز کی عزت نفس بھی بہتر اندا زمیں بحال ہو سکتی ہے
جو اس وقت احساس محرومی کا شکار ہو رہے ہیں یہاں ہم یہ بات بھی بتاتے چلیں
کہ گذشتہ دنوں وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید میرپور میں محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج کی نئی تعمیر ہونے والی عمارت کا سنگ بنیاد
رکھنے کے لیے جب تشریف لائے تو اس موقع پرراقم کی خصوصی ملاقات تینوں
میڈیکل کالجز کے پرنسپلز پروفیسر ڈاکٹر ظہیر عباسی، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء اور
پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کے علاوہ سیکرٹری ہیلتھ بریگیڈئیر طارق سے
بھی ہوئی اس موقع پر آزادکشمیر کے پہلے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل
سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بشیر چوہدری ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز بھی موجود تھے۔راقم نے
اس موقع پر سیکرٹری صحت عامہ بریگیڈئیر طارق سے مودبانہ گزارش کی کہ اس وقت
ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادکشمیر کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار
سینئر ڈاکٹرز کی پوری کھیپ سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ شعبہ
نفسیات میں آزادکشمیر کے پہلے ایف سی پی ایس سپشلسٹ ڈاکٹر شکیل آصف ، آرتھو
پیڈک سرجن ڈاکٹر شعیب انجم، نیوروسرجن ڈاکٹر عبدالغفور قریشی ،میرپور ڈویژن
کے پہلے ایف سی پی ایس کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر سعید عالم سمیت تمام نوجوان
سپشلسٹ ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے
میڈیکل کالجز کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے ایک سنہری مثال قائم کی جائے
بریگیڈئیر طارق نے انتہائی مدبر انداز میں وعدہ کیا کہ وہ ان نوجوان سپشلسٹ
ڈاکٹرز کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں گے
قارئین! اگر مسیحا خود بیمار ہوجائے تو سوچیئے کس نوعیت کا طوفان کھڑا ہو
سکتا ہے اس وقت آزادکشمیر بھر کے مسیحا بیمار ماحول میں دکھی انسانیت کی
خدمت کر رہے ہیں ان لوگوں کی اشک شوئی ضروری ہے ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹرز کے
جائز مطالبات کو پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن ،پی ٹی آئی اور مسلم کانفرنس سمیت
تمام سیاسی جماعتیں ’’ ایک سیاسی مسئلہ‘‘ بنانے کی بجائے عقلی بنیادوں پر
دیکھیں گی ۔تعلیم اور صحت کی سہولیات صرف کشمیریوں نہیں بلکہ تمام انسانوں
کے بنیادی حقوق کہلاتے ہیں اﷲ کرے کہ ہم درست معنوں میں ایک ’’انسانی
معاشرہ‘‘ تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جائیں آمین
آخر میں حسب ِروایت لطیفہ پیش خدمت ہے
پختہ عمر کی ایک عورت ایک ماہر ڈاکٹر کے پا س گئی اور کہنے لگی
’’میرے چہرے کو خوبصورت بنانے کی کتنی فیس ہو گی‘‘
ڈاکٹر نے بتایا۔’’ پچاس ہزار روپے‘‘
عورت نے حیران ہو کرکہا۔’’یہ تو بہت زیادہ ہیں آپ کوئی سستا علاج بتائیں
۔‘‘
ڈاکٹر نے جل کر جواب دیا۔’’ضرور کیوں نہیں۔آپ گونگھٹ نکالنا شروع کر
دیجیے۔‘‘
قارئین! پیپلز پارٹی کی موجودہ مجاور اور درویش حکومت آزادکشمیر میں جو
چہرہ رکھتی ہے جو بہت خوبصورت نہیں ہے اور رہی بات وفاق کی تو وہاں تک ہما
ری پہنچ نہیں ہے اﷲ کرے کہ آزادکشمیر کے لوگوں کے مسائل تائید غیبی سے ہی
حل ہو جائیں ۔آمین! |