کسی نے سوچا تک نہیں تھا
کہ کوئی عائشہ ممتاز آئے گی اور ملاوٹ کرنے اورگوشت ،دودھ کے نام پہ گند
بیچنے والوں کی بھی کوئی باز پرس ہوگی ،عائشہ بی بی کے چھاپوں نے جہاں اس
گھناؤنے دھندے پر سے پردہ اٹھایا ہے وہیں اس نے محکمہ در محکمہ پھیلے ہوئے
اس’’ نظامِ رشوت ‘‘کے منہ پر بھی جھانپڑ رسید کیا ہے جس میں غریب ملک کی
عیاش مزاج بیورو کریسی سب اچھا کی رپورٹ دے کر حکومت کی آنکھوں میں ہر روز
دھول جھونکتی ہے ،پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں کے بعد گوشت خوروں کے لئے
مسلسل بری خبریں آرہی ہیں اور رکنے کانام ہی نہیں لے رہیں ،حرام اور مضر
صحت گوشت کی خریدو فروخت کا یہ دھندہ ان افسران کی ناک کے نیچے جاری ہے جن
کی پر تعیش زندگی میں اس ملک کے پسے ہوئے طبقے کا بھی ٹیکس شامل ہے اور جو
کبھی کبھار ہی گوشت کھانے کی جرات کرتا ہے لیکن گوشت کے نام پر بکتی
بیماریوں نے اسے اب اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ اب وہ گوشت خریدنے کا سوچ
بھی سکے ،حرام و مضر صحت گوشت کی فروخت سے پردہ تو اٹھا ہے لیکن شاید ابھی
اس بات کو سامنے لانے کی زیادہ ضرورت باقی رہ گئی ہے کہ کرپٹ بیورو کریسی
کے مالی مفادات کی وجہ سے یہ دھندہ خوب چمکا ہوا تھا یہاں تک کہ پنجاب کے
کئی شہروں میں تو سؤر کا گوشت بھی بک رہا تھا ، اس حوالے سے صو ر ت حال
اتنی بھیانک ہے کہ یہ کہنا اب بہت مشکل ہے کہ ہم میں سے نہ جانے کون کب
اورکہاں گدھے سمیت کن حرام جانوروں کا گوشت کھا کر مزے سے ڈکار مارتا رہا
ہے اور چھوٹے بڑے ریسٹورنٹس میں کس نے خدا خوفی کی اور کس نے محض مال بنانا
ہی افضل جانا کچھ پتا نہیں، گوشت کا روبار کرنے والا ایک دوست بتا رہا تھا
کہ انتہائی مضر صحت گوشت تو مارکیٹ میں آتا ہی نہیں بلکہ اسے مکمل رازداری
کے ساتھ براہ راست ہوٹلوں میں پہنچایا جاتا ہے اور گوجرانوالہ میں اس گوشت
کو ہوٹل مالکان 180سے 200سو روپے کلو کے حساب سے انتہائی سستے داموں خریدتے
ہیں اس گوشت سے بعض اوقات سڑاند بھی آرہی ہو تی ہے جسے لہسن پیاز اور دیگر
مسالے دال کر ختم کیا جا تا ہے،محکمہ لائیو سٹاک کے افسران نے بازاروں میں
مضر صحت اور پانی لگا گو شت فروخت کرانے کے لئے دوکانداروں کو مہریں بنوا
کر دے رکھی ہیں جو خود ہی اس گوشت پر ٹھوک کر اسے چوک چوراہے میں لٹکا کر
سر عام بیچتے ہیں،آپ نے بھارتی فلم’’ اینا مینا ڈیکا‘‘ کا نام اور چرچا تو
سن رکھاہو گا لیکن ہمارے بازاروں میں نوزائدہ بچھڑے کا گوشت بھی فروخت کیا
جاتا ہے جسے ’’ڈیکا‘‘ بولتے ہیں ،اسی طرح بوڑھے لاغر اور بیمار جانوروں کے
گوشت کو بھی مہریں لگا لگا کر اور جعلی پرچیاں بنا کر سر عام فروخت جاتا ہے
،گوجرانوالہ کے مذبحہ خانے کے بھی بڑے چرچے ہیں سنا ہے کہ اس قدر گندا اور
بدبو دار ہے کہ وہاں گندگی میں کیڑے چل رہے ہوتے ہیں لیکن ان افسران کی ناک
چونکہ سکہ رائج الوقت سے بند کر دی گئی ہوتی ہے اس لئے اس بدبو کو سونگھنے
سے قاصر رہتی ہے ،خادم پنجاب کو اعتراف کرنا ہو گا کہ بیورو کریٹس کی ان کی
ٹیم زیادہ تر روایتی نالائقوں سے بھری ہوئی ہے کیونکہ اگر عائشہ ممتاز کام
کر کے دکھا سکتی ہے تو آخر باقی افسران کو کیا بیماری ہے کہ وہ اپنے ٹھنڈے
کمروں سے باہر نکلنے کو تیارنہیں ہیں، جو بھی ہوگوشت اتنا بدنام ہو گیا ہے
کہ بعض وہمی لو گ اب واقعی عید کے عید ہی گوشت کھانے کی ہمت کریں گے اور
سارا سال گوشت سے کنی کترا کے گزر جایا کریں گے،پنجاب میں ہر روز بہت بڑی
تعداد میں گدھوں کی کھالیں اتر رہی ہیں جو اب اس منظم جرم کے سامنے آنے کے
بعد اس میں ملوث اس کرپٹ مافیا کی اترنی چاہئیں جو اس سارے کھیل کے پیچھے
چھپا ہوا ہے۔
یہ تو تھی گوشت کی بپتا لیکن بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہو تی بیورو کریسی کے
مزید کارناموں سے بھی حکومت کی’’ نیک نامی‘‘ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے
اووربلنگ کا یہ عالم ہے کہ ایک دو بتیاں اور ایک پنکھا چلانے والے مسکینوں
کو بھی پندرہ بیس ہزار بل بھجوا دیا گیا ہے اس پر بل ٹھیک کروانے کے لئے
دفتروں میں دھکے کھانے والوں کے ساتھ گیپکو افسران کا رویہ اس قدرخراب ہے
کہ انہیں بھکاریوں کی طرح دھتکارا جا رہا ہے ،اوور بلنگ براہ راست عوام کے
سر پر بم پھوڑنے کے مترادف ہے اور اس میں ملوث افسران اور عملہ کو سزا دینے
کے ساتھ ساتھ گیپکو چیف کو چاہئے کہ وہ ایکسئین اور ایس ڈی او حضرات کو بلا
کر سمجھائیں کہ وہ پولیس جیسی بد اخلاقی کی راہ پر نہ چلیں اور اخلاقیات کا
کچھ لحاظ کر لیا کریں اور اگر معاملات کو بہتر انداز میں چلانا آپ کے بس
میں نہیں تو عہدے سے سبکدوش ہو جائیں،ویسے بھی عوام بد دعائیں تو ہر وقت
آپکے ساتھ ساتھ رہتی ہیں ،بد دعاؤں سے یاد آیا کہ گوجرانوالہ کے تاجروں نے
پچھلے دنوں بنک ٹرانزیکشن ٹیکس کے خلاف یوم بد دعا منایا ،حکومت کے لئے یہ
لمحہ ء فکریہ ہونا چاہئے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی و
بیرونی حالات کے پیش نظر حکومت کو بد دعاؤں کی نہیں عوام کی دعاؤں کی بہت
ضرورت ہے ،اسحاق ڈار پہلے دن سے کاروباری طبقے میں غیر مقبول ہیں ، بنکوں
کا بیڑہ غرق کرنے اور کاروباری برادری کو تکلیف پہنچانے کی بجائے تاجروں کو
بٹھا کر ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لئے صلاح مشورہ کر لیا جائے تو کو ئی نہ
کوئی حل نکل آئے گا،حکومتوں کوضد زیب نہیں دیتی مگر اسحاق ڈار کو یہ بات
شاید سمجھ نہیں آرہی ہے ۔ |