یکم ستمبر 2015ء کو وزیراعظم نوازشریف اور چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل راحیل شریف کے مابین ہونے والی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا
گیا ہے کہ کراچی آپریشن سیاسی مصلحت کے بغیر جاری رکھا جائے گا۔ یہ بھی
اتفاق کیا گیا کہ کراچی آپریشن پر کسی قسم کا سیاسی دباو قبول نہیں کیا
جائےگا۔ وزیراعظم اور سپہ سالار کی ملاقات میں کراچی میں رینجرز کی جانب سے
جرائم پیشہ افراد کے خلاف جاری آپریشن اور حالیہ گرفتاریوں پر بعض سیا سی
حلقوں کے تحفظات پر بھی بات چیت کی گئی۔ دو ستمبر کوکراچی کے حوالے
سےوزیراعظم نوازشریف کا آزادکشمیر باغ میں کہنا تھا کہ کراچی کے حالات
بہترہوگئے ہیں،جس پرکراچی کے لوگ بہت خوش ہیں،ہم کراچی میں ملزمان پرہاتھ
ڈالنے سے گھبرائے نہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اسی خطاب میں دہشت
گردی کے حوالے سے کہا ہے کہ فوج اور عوام طے کرچکے دہشت گردی کو ہر قیمت پر
ختم کیا جائے گا، دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کریں گے،
دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے عالمی برادری کو مستقل امن کا تحفہ دیناچاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان دہشت گردی کےلیے نہیں بنا، دہشت گردوں کی
حمایت کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ملک کے دو بڑے مسائل کراچی میں بدامنی اور دہشت
گردی کو گڈمڈ کردیا۔ ان دو مسائل کوفوجی اور نیم فوجی اداروں کی دو علیحدہ
علیحدہ قسم کی کارروائیوں کےذریعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک
آپریشن کو کراچی آپریشن کا نام دیا گیا ہے جبکہ دہشت گردوں کے خلاف ہونے
والے آپریشن کا نام پاک فوج نے “ضرب عضب” رکھا ہے۔ چارستمبر 2013ء کو وزیر
اعظم نواز شریف نے کراچی میں وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے
ہوئے بدامنی سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو مرکزی کردار دینے کی تجویز پیش کی۔
وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس آپریشن کی
نگرانی کرتی ہے۔ کراچی آپریشن شروع کرنے سے پہلے وزیراعظم نواز شریف نے
وعدہ کیا تھا کہ وہ اس آپریشن کی نگرانی کےلیے ایک مانیٹرنگ کمیٹی بنائیں
گے لیکن وعدے کے باوجود مانیٹرنگ کمیٹی نہیں بنائی گئی۔سندھ پولیس کے
مطابق5ستمبر 2013سے یکم ستمبر2015 تک کراچی آپریشن کے دوران ایک ہزار
171ملزمان مارے گئے اور64ہزار سے زائد ملزمان کوگرفتار کیا گیا۔اسی پولیس
رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران 250پولیس افسران اور اہل کار شہید ہوچکے
ہیں۔
کراچی کے ایک سماجی کارکن محمد طاہر کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن سے قبل
سیاسی و سماجی صورتحال نہایت ابتری کا شکار رہی ہے ۔لیکن جب سے رینجرز و
دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آپریشن شروع کیا ہے حالات بہتر سے
بہترین کی جانب گامزن ہیں۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خوف کی فضا ختم ہونے
کو ہے ۔ کراچی کی بدامنی میں جہاں غنڈہ عناصر سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی
حاصل کرتے تھے، وہیں اُن کی دیکھا دیکھی نوجوان نسل بھی محنت کے بجائے
“شارٹ کٹ”کے چکر میں تعلیم سے دور ہوکر “ٹی ٹی” کے قریب ہونے لگی تھی۔ گلی
محلوں میں مقامی بدمعاشوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ شریف انسان کا اس ماحول
میں جینا محال ہو چکا تھا، مگر جب کراچی آپریشن کے نتائج سامنے آنا شروع
ہوئے، جرائم پیشہ لوگ قانون کی گرفت میں آنا شروع ہوئے تو ان موسمی
بدمعاشوں نے بھی توبہ کرنا شروع کر دی ۔
اگر آپ کراچی میں رہنے والے ایک عام آدمی سے پوچھیں تو وہ یہ ہی کہے گا
کہ کراچی میں بہتری آئی ہے لیکن دوسری طرف سیاسی طور پر مشکلات بڑھتی
جارہی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ آپریشن کے شروع سے مانیٹرنگ کمیٹی کا مطالبہ
کرتی رہی ہے اور اس نے پچھلے دنوں اسی بنیاد پر استعفے بھی دیئے ہیں۔ ایم
کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ کراچی میں
ٹارگٹڈ آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ہمارے
کارکنوں کوتشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے
اقدامات کا جائزہ لیں، جوڈیشل کمیشن بنا دیں تو ہم اس میں پیش ہوکر انصاف
کے متقاضی ہیں۔ ایم کیو ایم نے حکومت کےساتھ مذاکرات ختم کردیئے ہیں اورایک
بار پھر اصرارکیا ہے کہ ان کے استعفے قبول کرلیے جائیں۔ جمعیت علمائے اسلام
کے سربراہ مولانا فضل الرحمان انہیں اسمبلیوں میں واپس لانے کے لیے حکومت
اور ایم کیو ایم میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مولانا نے بھی
مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کی حمایت کی تھی۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے
رکن امین الحق کا کہنا ہے کہ “ہم نے اس بار استعفے احساس محرومی کی کیفیت
تک پہنچے کے بعد دیئے ہیں۔ مانیٹرنگ کمیٹی کے علاوہ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے
کہ جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور جو کارکن لاپتہ ہیں انہیں بازیاب کرایا
جائے”۔
الطاف حسین اور آصف زرداری نے عسکری مقتدراعلیٰ کے خلاف اپنی تقاریر کا
حشر دیکھنے کے بعد اپنی توپوں کا رخ نواز شریف حکومت کی طرف موڑ دیا ہے،
لیکن نواز شریف کی مجبوری یہ ہے کہ اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، شاید
اُنہیں اور سندھ حکومت کو سندھ کے معاملات سے علیحدہ کردیا گیا ہے۔ اپنی
جماعت کے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کے سخت پیغام
کے جواب میں وزیراعظم نے حال ہی میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ مسلم
لیگ (ن)کے کل کے اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا نام
اب مخالفوں کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا
کہنا ہے کہ کراچی میں پچھلے ڈھائی برس میں ماورائے عدالت ہلاکتوں میں پانچ
گنا اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ
مانیٹرنگ کمیٹی کی اشد ضرورت ہے اور یہ حکومت کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کا آزادکشمیر باغ میں کہنا تھا کہ ہم کراچی میں ملزمان
پرہاتھ ڈالنے سے گھبرائے نہیں۔لیکن افسوس کہ وزیر اعظم نواز شریف نے جمعرات
20 اگست کو کراچی میں صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں ایم
کیو ایم کے مانیٹرنگ کمیٹی کےمطالبے پر غورہی نہیں کیا گیا۔ اجلاس میں شریک
ایک اہلکار نے بتایا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر اعلیٰ نے مانیٹرنگ
کمیٹی تذکرہ کیا۔ جب صورتحال اس قسم کی ہو کہ وزیر اعظم صاف طور پر بےبس
نظر آرہےہیں تو پھر آرمی چیف سے صرف اتنا کہنا ضروری ہوگا کہ جناب آپ
لوگ بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن کچھ ایسے کام بھی آپ کررہے ہیں جو آپ کو
نہیں سیاست دانوں کو کرنا چاہیئے۔ اگر قانون نافذکرنے والے ادارے اپنا کام
کریں اور سیاستدان اپنا کام کریں تو یقیناً کراچی آپریشن ایک اچھے نتیجے
پر ختم ہوگا اور کراچی میں پایئدارامن کی امید کی جاسکتی ہے، ورنہ کراچی
میں پہلے بھی 1992ء سے لےکر 1998ء تک تین مرتبہ آپریشن ہوچکے ہیں۔ کیا
کراچی کے عوام اپنے سیاستدانوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ امید
کرسکتے ہیں کہ اُن کے آپس کےتعاون سےجب تک آخری مجرم یا دہشت گرد ختم نہیں
ہوجاتا، کراچی آپریشن بغیر کسی کے ساتھ زیادتی کیے جاری رہے گا؟ |