نئی دہلی میں مقیم کشمیر کے سینئر اور معروف صحافی افتخار
گیلانی نے ’’ میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن‘‘ کے عنوان سے اپنے نئے
کالم میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے صنعت کار ،تاجر اور عام لوگ بھی یہی
سمجھتے ہیں کہ آزاد کشمیر بہت پسماندہ خطہ ہے، آ زاد کشمیر کے لوگ خطہ
افلاس سے نیچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ساتھ ہی ہندوستانی لوگوں
کا یہ خیال بھی ہے کہ ہندوستانی کی ’’ کرم فرمائیوں ‘‘ کی بدولت وادی
کشمیر،سرینگر کے علاقے خاصے ترقی یافتہ ہیں۔افتخار گیلانی بتاتے ہیں کہ
ہندوستانی صنعت کار اس بات پہ بھی حیرت زدہ تھے کہ آزاد کشمیر میں آخر کیسے
متحدہ عرب امارات،ترکی،سعودی عرب،چین وغیرہ بلا روک ٹوک کام کر رہے ہیں
جبکہ انہی صنعت کاروں کو 2008ء کے زلزلے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے اوڑی علاقے
میں امدادی کام کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ اس بارے میں حیران تھے کہ کیا
واقعی مظفر آباد میں سڑکیں،یونیورسٹی،پاور پلانٹ اور ہسپتال ہیں؟افتخا ر
گیلانی لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے ایک نیوز چینل کے اینکر نے انہیں یہ میسج
کیا کہ سرینگر اور دہلی میں مقیم کشمیری صحافیوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی
’آئی ایس آئی‘ مظفر آبا دکے دھوکے میں کہیں اور لے گئی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں نے گزشتہ دنوں مظفر آباد کا ایک مختصر دورہ کیا
اور ان کی محض چند تصاویر او ر تحریر سے ہی ہندوستانیوں میں کھلبلی مچ
گئی۔اگر اس کشمیری وفد کے لئے مظفر آباد میں آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی کے
بارے میں سرکاری بریفنگ(جس کی تجویز میں نے زور دیتے ہوئے دورے کے منتظمین
اور وزیر اعظم آزادکشمیر کے میڈیا ایڈوائزر کو دی تھی) کا اہتما م کیا جاتا،
تو اس کی تفصیل ہندوستانیوں کے لئے کتنی ندامت اورپریشانی کا باعث بنتی،اس
کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔مجھے2012ء میں دوسری بار مقبوضہ کشمیر
جانے کا موقع ملا تو وہاں کئی افراد نے مجھ سے تعمیر و ترقی کے حوالے سے
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے موازنے کا سوال کیا۔ان سوالات پرمیں نے کہا
کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا آپس میں موازنہ کرنا درست نہیں ہے
کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں سال سے سرکاری ،شہری نظام قائم ہے جبکہ
آزاد کشمیر کے خطے میں1947ء سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔اس وقت اگر کسی
سرکاری ملازم کا تبادلہ مظفر آباد ہوتا تو اسے ایک پسماندہ علاقے کے طور پر
قابل سزا سمجھا جاتا تھا۔تاہم 1947ء کے بعد مظفر آباد ،آزاد کشمیر کے خطے
میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے،آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کی نسبت کئی سو
گنا زیادہ ترقی ہوئی ہے،مقبوضہ کشمیر میں جس طرح کی ترقی ارتقائی طور پر
ہونی چاہئے تھی،وہ نظر نہیں آتی۔
سرینگر کی ایک خاتون صحافی شاہانہ بٹ،جو پاکستان اور مظفر آباد کا دورہ
کرنے والے کشمیری صحافیوں کے وفد میں شامل تھیں،نے ایک نوجوان کی کہانی
میڈیا میں رپورٹ کی ،جو مظفر آباد میں پیدا ہوا،اس کا لڑکپن وہیں گزرا
۔وہ2013ء میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ وادی نیلم کے پہاڑ عبور کر کے آزاد
کشمیر سے مقبوضہ کشمیر چلا گیا تھا اوراب کپواڑہ میں مقیم ہے۔اس نوجوان کا
کہنا ہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں معاملات میں زیادہ فرق نہیں ہے تاہم
آزاد ی کا جو احساس مظفر آباد میں تھا ،وہ یہاں (ہندوستانی مقبوضہ کشمیر )
میں نہیں ہے۔وہ نوجوان بتاتا ہے کہ مظفر آباد میں اسے آزاد ماحول میسر
تھا،کوئی مداخلت نہیں تھی۔اب اس نوجوان کو مظفر آباد کی آزادی کی یاد ستاتی
ہے۔ شاہانہ لکھتی ہیں کہ جب اس نوجوان سے باتوں کے دوران مظفر آباد کا ذکر
آتا تو اس کی آنکھوں میں چمک آ جاتی تھی۔وفد میں شامل سرینگر کے ایک نوجوان
صحافی ریاض ملک نے اس دورے کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں کشمیر کے دونوں
حصوں میں جابرانہ طور پر ایک دوسرے سے بچھڑے رہنے پر مجبور کشمیریوں کی بے
بسی اور گہرے دکھ کا اظہار نہایت خوبصورت اور بے ساختہ انداز میں کیا
ہے،جسے ہر کشمیری کے دل کی آواز کہا جا سکتا ہے۔
یہی وہ آزادی کا احساس ہے جو کشمیریوں کو آزادی کی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے
مسلسل قربانیوں پر آمادہ کرتا ہے۔آزادی کے لئے کشمیری ہر قسم کی قربانیاں
دیتے چلے آ رہے ہیں اور وہ آزادی پر معاشی بہتری یا کسی اور محرک کو کسی
طور بھی حاوی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔آزاد کشمیر پر دنیا کے دروازے کھلے ہیں
لیکن مقبوضہ کشمیر میں زلزلے،سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں ،ہزاروں انسانی
ہلاکتوں کے باوجود ہندوستان بیرون ملک تو کیا ہندوستان سے بھی مدد پہنچانے
کی اجازت نہیں دیتا۔سرینگر ،مظفر آباد بس سروس سے آتے ہوئے،بارہمولہ،اوڑی
سے لائین آف کنٹرول(سیز فائر لائین ) تک بھارتی فوجی تنصیبات مسلسل نظر آتی
ہیں اور بھارتی فوجیوں کی بہت بڑی تعداد حالت جنگ کی طرح مصروف نظر آتی
ہے۔اس کے برعکس چکوٹھی میں کمان پل عبور کرکے آزاد کشمیر میں داخل ہوتے ہی
،وہاں سے مظفر آباد تک پاکستانی فوج کی کچھ تنصیبات تو ضرور ہیں لیکن کوئی
پاکستانی فوجی نظر نہیں آتا۔کمان پل عبور کرتے ہی آزادی کا واضح احساس ہونے
لگتا ہے اور زمینی صورتحال کے اس گہرے فرق کے تاثر کو مقبوضہ کشمیر سے آنے
والے زیادہ بہتر طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔
|