بڑھتا ہوا تناؤ

تہذیبی اعتبار سے ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرے کا مطلب ایک ایسا معاشرہ ہے، جس نے اپنی مشترکہ بنیادی خصوصیات کو پہچان لیا ہو اور ماضی ، حال ،مذہب اور سائنس، جدّت پسندی اور تصوف،مادہ پرستی اور روحانیت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جو تناؤ سے پاک ہو ، جو بھر پور ثقافت کا حامل ہو۔

جس تناؤ کے دور سے ہم گزر رہے ہیں،وہاں ترقی یافتہ یا طاقتور معاشرہ بننے کے لئے ہمیں بہت جستجو کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ تناؤ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،ہماری ثقافت کا نام تک باقی نہیں رہ گیا ہے۔اس میں ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں۔ ہم اُن برائیوں کو جدّت سمجھ کر اپنے اندر سما چکے ہیں ،جن کو چھوڑنے کے لئے ترقی یافتہ قومیں ہر ممکن کوششیں کر رہی ہیں۔ جس معاشرے میں ہر کوئی اپنے آپ کو عقلِ قُل سمجھنا شروع کر دے،برائی کو برائی نہ سمجھا جائے،تنقید برائے تنقید کا دور دورہ ہو ، اپنے ہیروز کی قدر نہ کی جائے ، اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہو ،اُسے بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔وہاں معاشرہ نہ تو تناؤ سے باہر آئے گا اور نہ ہی ترقی کے سفر کا تسلسل قائم رہ سکتا ہے۔

پاکستان بہت عرصے کے بعد درست سمت پر چلنے کا آغاز کر چکا ہے ،اس میں حکومت ، تمام سیاسی قیادت ، پاکستان افواج اور دوسری ایجنسیز کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ ہمیں اندرونی اور بیرونی دہشتگردی سے ہر قیمت پر چھٹکارا پا نا ہے،کرپشن سے پاک ماحول استوار کرنا ہے، پھر ہی ہم ترقی کی جانب قدم بڑھا سکیں گے۔اسی سلسلے میں پاک افواج کی جانب سے بہت سی قربانیوں کے ساتھ ضرب عضب کی کامیابی کے بعد کراچی میں دہشگردی ،ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری ،لینڈ مافیا اور کرپٹ لوگوں پر بغیر کسی دباؤ کے آپریشن کیا جا رہا ہے ،لیکن متاثرہ لوگ خاص طور پر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی جنہوں نے کراچی عوام کو یرغمال بنا رکھا تھا ،چیخ و پکار شروع کر دی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی ایسا ہی آپریشن کیا جائے ۔اس لئے اب کرپشن کو ختم کرنے اور کرپٹ لوگوں کو سزا دینے کے لئے نیب اور مختلف ایجنسیاں متحرک ہو چکی ہیں۔یہ آپریشن آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیل رہا ہے،تاکہ ایک دفعہ پوری گندگی صاف کی جائے،مگر اگر اس ماحول کی آڑ میں حکومت پر بے جا دباؤ صرف اس لئے بڑھایا جائے کہ حکومت آپریشن کے معاملات میں کوئی نرمی کرے ،تو یہ ملک کے لئے ہر گز اچھا نہیں ہوگا۔

جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے ،بہت سے چیلنجز سے نبردآزما ہو رہی ہے۔ امن و امان کے بعد سب سے بڑا مسئلہ بجلی بحران کا ہے ،جو کسی طرح ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔مسلم لیگ (ن) نے عوام سے بجلی بحران کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے ،جس پر حکومت کے پہلے دن سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کوششیں کرنا شروع کر دی تھیں،کیونکہ بجلی کا بحران نہ صرف عوام کی بہتری بلکہ مسلم لیگ (ن) کے لئے الیکشن میں کامیابی کی ضمانت بھی ہے۔اسی سلسلے میں بجلی پیدا کرنے کے بہت سے منصوبے شروع کئے گئے ۔ان میں سے ایک نندی پورپاور پلانٹ کا منصوبہ بھی تھا ۔

نندی پور پاور پلانٹ منصوبے کو سابقہ پیپلز پارٹی حکومت نے شروع کیا ،اس کی مکمل لاگت تقریباً 22ارب روپے تھی ۔اس منصوبے کو کافی خرد برد کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ سات سال کی تاخیر ہو چکی تھی ،اس لئے تخمینہ 35 سے 54ارب روپے تک چلا گیا۔آخر مختلف وجوہات کی بنا پر 84ارب تک جا پہنچا ۔

اس مسئلے پر حکومت پر تنقید کی بارش کر دی گئی ہے۔لمحہ فکریہ ہے کہ جب یہ منصوبہ زیر تکمیل تھا، تو کسی کی جانب سے تنقید نہ ہوئی،مخصوص ٹائم پر حکومت کو دباؤ میں لانے کے لئے کیوں ایشوز کو اٹھایا جاتا ہے؟ جب کہ تمام نقصان ہو چکا ہوتا ہے، یہ پہلے کیوں تنقید نہیں ہوتی……؟یہ درست ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف مختلف چیلنجز کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اُن کے چند رفقاء کے علاوہ زیادہ تر سنجیدہ نظرنہیں آتے ، اُن کی اپنی وزارت ،عہدے اور ذاتی مفادات کی جانب توجہ زیادہ ہے۔انہیں کوئی غرض نہیں کہ ملک کن دشواریوں سے گزر رہا ہے۔ایک جانب دہشتگردی سے نبٹنا ،کرپشن پر ہاتھ ڈالنا ،معاشی ترقی کے لئے مختلف منصوبوں کی جانب توجہ دینا اور خاص طور پر بھارتی جنگی جنون کا مقابلہ کرنا ،افغانستان کے ساتھ ساتھ اندرونی کشیدہ سیاسی صورتحال سے نبردآزما ہونا ۔ اس کے لئے سب کو یک جان ہو کر ملک کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس پر میڈیا کی تنقید برائے تنقید اچھی علامت نہیں ہے۔اگر کسی نے مخلص ہو کر محنت کی ہے اور خواہش کی ہو کہ ملک میں جلد سے جلد بجلی کا بحران ختم کرنے کے لئے کام ہو ،کہنا کہ ’’سڑکیں اور پاور پلانٹ بنانا دو مختلف کام ہیں ، سڑکیں تو ریکارڈ ٹائم میں بنائی جا سکتی ہیں مگر پاور پلانٹ کیونکہ انجینئرنگ کا کام ہے اس لئے اسے ریکارڈ وقت میں بنانا مشکل ہے ‘‘۔

تنقید کرتے وقت سوچنا چاہئے ،یہ منصوبے کسی ایک کی ذمہ داری نہیں ،بلکہ بہت سوچ سمجھ کر بنائے جاتے ہیں ،ہر ایک ٹیم کو ذمہ داری دی جاتی ہے ،دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کہاں خراب ہوا ہے……؟اب اگر کسی ایک منصوبے کی ناکامی پر وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ کو استعفوں یا عدالتی کیس میں الجھانے کی بات کرنی ہے تو ہم ملک کو آگے نہیں پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔اگر کسی طور پر اس میں کرپشن ہوئی ہو، تو پھر معافی نہیں ہونی چاہئے ،کیونکہ یہ عوام کا پیسہ ہے ،اسے کرپشن کی نظر کرنا کسی کا حق نہیں بنتا،لیکن اگر دوسروں کی غفلت سے کہیں غلطی ہوئی ہے تو اس پر تحقیق کرنی چاہئے ،نہ کہ حکومت کے دوسرے کاموں کا مذاق اڑایا جائے ۔

نیا پاکستان بنانے کے لئے دھرنوں نے 126دن تک پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا ،ملک کو نا کابل تلافی نقصان پہنچایا گیا،لیکن الیکٹرانک میڈیا نے سوائے دھرنوں کے کسی خبر کو اہمیت نہیں دی ، کنٹینر پر کئی نام نہاد لیڈروں نے کسی کو الزام تراشی کے بغیر نہیں چھوڑا،گالی گلوچ ،گانے ،ڈانس ہوتے رہے،جسے برائے راست دکھایا جاتا رہا۔اسی میڈیا نے الطاف حسین کی مسلسل تقاریر نشر کیں ،کیا کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ موصوف کس حالت میں ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں،یہ ملک و قوم کے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ موقع تنقید برائے تنقید کا نہیں ، بلکہ آگے بڑھنے کا ہے۔یہ درست ہے کہ حکومت کی کسی بھی غلطی کی نشاندہی کرنا ہم سب کا فرض ہے اور خاص طور پر حزب اختلاف کا ،جسے ہر حکومتی غلطی کو پارلیمنٹ میں اٹھانا چاہئے۔اگر کوئی بھی مسئلہ ہو اس کی منصفانہ تفتیش ہو ،لیکن صرف نمبر سکورنگ یا حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کے لئے ہونا چاہئے۔پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کبھی اصل حزب اختلاف میسر نہیں آئی ۔دوستانہ حزب اختلاف نے محبّ الوطنی کی بجائے حکومت کو نیچا دکھانے اور اپنے اقتدار میں آنے کی راہوں کو صاف کرنے کے لئے تمام تر صلاحتیں صرف کی ہیں۔جس سے ملک و قوم کو شدید نقصان ہوا ہے۔

یہ وقت تناؤ سے پاک ماحول پیدا کرنے ، دور اندیشی ،اتحاد اور عملی کام کرنے کا ہے،آج نندی پور منصوبے پر شور مچانے والے اس سے پہلے کہاں تھے ،جب یہ رقم لگائی جا رہی تھی؟ اب حکومت کو دباؤ میں لانے اور اپنے مفادات پورے کرنے کے سوا کچھ مقصود نہیں ۔یہ رویہ ہمیں ترقی کی جانب نہیں بلکہ پستی کی جانب دھکیلے گا۔ایسی سازشوں کی بجائے بروقت تنقید برائے اصلاح کرنے کی روایت ڈالنی ہو گی تاکہ ملک میں جو بھی منصوبہ بنے کامیاب ہو اور اس کی جانب سے کسی قسم کی غفلت نہ برتی جائے ۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.