بہارالیکشن:این ڈی اے بنام ڈی این اے
(محمدشارب ضیاء رحمانی, NEW DELHI)
بہارمیں انتخابی صورپھونکے جانے
کے بعدسیاست اورگرم ہوگئی ہے ۔جہاں بی جے پی اسے نتیش کے جانے کااعلان
قراردے رہی ہے وہیں جدیونے اپنی پانچ سالہ کارکردگی پراظہاراطمینان کرتے
ہوئے عوام کے سامنے سرخروہونے کی امیدظاہرکی ہے۔سیکولرمحاذمیں شامل کانگریس
اورراجد،مودی حکومت کی ناکامیوں ،مہنگائی،تحویلِ اراضی بل پرحکومت کوگھٹنے
ٹیکنے پرمجبورکرنے،بدعنوانیوں پرمودی کی چشم پوشی اورلوک سبھاالیکشن کے
وعدوں سے بی جے پی کے یوٹرن کونشانہ بنائے گی۔ مجموعی طورپراین ڈی اے
کواپنے وزیراعظم کے ڈی این اے والے تبصرہ اورجملہ پرحملہ کے چیلنج
کاسامناکرناہوگا۔راجداورجدیونے اس مقابلہ کوبراہ راست این ڈی ے بنام ڈی این
اے بنادیاہے۔دوسری طرف مرکزکی این ڈی اے سرکار بہاریوں کے ڈی این اے کوپی
ایم اوکے کوڑاگھرمیں تلف بھی کرے گی ۔اس کوبھی بہارکے وقارکے ساتھ
کھلواڑقراردیتے ہوئے دونوں پارٹیاں بی جے پی کونشانہ پرلے سکتی ہیں۔ایک بات
یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کوایکزٹ پول پرمکمل پابندی لگانی چاہئے،لوک
سبھاالیکشن کی طرح کچھ چینلوں نے اپناپراناکھیل کھیلناشروع کردیاہے۔
بی جے پی نے نتیش کے محاذ کے خلاف اپنے اسٹارپرچارک کواتاردیاہے لیکن سی
ایم کے مقابلہ میں پی ایم کواتارکراس نے اپنے لیڈرکی کوئی عزت افزائی نہیں
کی ہے۔ ایسالگتاہے کہ مودی جی اپنی آفس سے زیادہ پارٹی ورک میں وقت صرف
کررہے ہیں۔وزیراعظم دہلی میں کم ،بیرون ملک اوراس سے بچے وقتوں میں پارٹی
کے لئے ملک بھرکاچکرلگارہے ہیں۔حالانکہ انہیں توبحیثیت وزیراعظم حکومتی
کاموں پرتوجہ دینی چاہئے تھی۔ملک نے انہیں کام کرنے کیلئے اس عہدہ
پربیٹھایاہے ،انہوں نے خودبھی خودکوپردھان منتری نہیں پردھان سنتری
بتایالیکن وہ پوری طرح سنگھ کے پردھان سیوک نظرآرہے ہیں بلکہ آرایس ایس کے
پرچارک وسیوک ہونے پرانہوں نے برملااظہارفخربھی کیاہے۔ابھی ایسالگتاہے کہ
پوری مرکزی حکومت پٹنہ آگئی ہے۔چودہ ماہ تک بہارکوالٹ کربھی نہ دیکھنے والے
اب ہردن وہاں ایک وزیرکوبھیج رہے ہیں۔
بہارکی ترقی کاتنہاکریڈٹ جدیوکولینے کاجوازخودبی جے پی کے
سپراسٹارنریندرمودی جی نے دے دیاہے۔انہوں نے بہارکوبیماروریاست بتاتے ہوئے
ریاست کے ترقیاتی کاموں سے اپنی پارٹی کی سات سالہ حکومت میں شراکت کو الگ
کرلیاہے یعنی بہارکی ترقی میں ان کی پارٹی کاکوئی کردارنہیں ہے۔حالانکہ ان
کی پارٹی کی ریاستی قیادت اور’’دوسرے مودی ‘‘اسی کاباربارحوالہ دے رہے تھے
لیکن یہ ایشواس کے ہاتھ سے وزیراعظم نے نکال پھینکاہے۔بی جے پی وزیراعلیٰ
کے انتخاب میں پس وپیش میں مبتلاہے،سی پی ٹھاکر،سشیل کمارمودی کے علاوہ
مانجھی اورکشواہابھی خواب میں وزیراعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔لیکن ابھی
تونریندرمودی ہی این ڈی اے کے ’’ سی ایم کینڈیڈٹ‘‘ ہیں ۔سوال یہ ے کہ
کیابہارکاڈین این اے گجراتی لیڈرکوقبول کرے گاجب کہ ہاردک پٹیل نے رول ماڈل
کی پوری پول کھول دی ہے ۔بہارسے ٹرین میں لوڈکرکے نوجوانوں کومہاراشٹرماڈل
دکھانے کے لئے بی جے پی لے گئی ہے حالانکہ چھ ماہ میں660کسانوں کی خودکشی
والی ریاست اگررول ماڈل ہے توبہارکواس کی ضرورت نہیں جہاں ہردن کسان خودکشی
پرمجبورہیں۔دوسری طرف بی جے پی لیڈرکاوزن اتنابڑھ رہاہے کہ وہ لفٹ میں پھنس
جارہے ہیں لیکن غریبوں کے پیٹ خالی ہیں۔اوراسی خالی پیٹ اورکمزورجان سے
یوگاکروایاجارہاہے ۔مہنگائی نے بی جے پی سرکارکی ساری جملہ بازیوں
کوننگاکردیاہے ۔امیدتویہی ہے کہ شکست کی صورت میں نریندرمودی جی نہیں کسی
کرن بیدی کوتلاش کرکے ان پرشکست کاٹھیکراپھوڑدیاجائے گا۔سیٹوں کی تقسیم
پربی جے پی بری طرح پھنس چکی ہے۔اس کے علاوہ بی جے پی نے ایک میان میں
جودوتلواریں رکھی ہیں وہ باہرآگئی ہیں۔رام ولاس پاسوان ،’’باہرسے آئے
مانجھی ‘‘کوقبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں کیونکہ اس سے ان کی حیثیت پرحرف
آنالازمی ہے۔ مانجھی بھی کسے خاطرمیں لاسکتے ہیں، انہوں نے کھری کھوٹی
پاسوان کوسنا دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کی طرف سے ڈانٹ پڑنے کے
بعدوہ اب صفائی دے رہے ہیں۔ ادھراڈوانی خیمہ کے شتروگھن سنہانے مودی کے
خلاف مورچہ کھول رکھاہے۔اگروہ بی جے پی میں ہی رہ کراپنایہ تیوربرقراررکھتے
ہیں تویہ جدیوکے لئے مفیدہوگا۔
دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ سیکولرمحاذکے دَل تومل
گئے ہیں،دِل نہیں ملے ہیں۔ظاہرہے کہ پچیس برسوں تک زمینی سطح کے دونوں
پارٹیوں کے کارکنان باہم دست وگریبان رہے ہیں،ایسے میں ان کے دلوں
کاملناآسان نہیں ہے،راجداورجدیوکے لئے یہ اہم چیلنج ہے جسے نظراندازنہیں
کیاجاسکتاہے۔لالواورنتیش کواپنے ضلعی اورپنچایتی لیڈران کی میٹنگ بلانی
چاہئے اورپنچایت سطح پرکام کرناچاہئے۔ خصوصاََنوجوان ہندوطبقہ شدت
پسندہوگیاہے وہ ذات برادری سے قطع نظرصرف ہندوتوکودیکھ
رہاہے۔سیکولرمحاذکوان کٹروادوں کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کے علاوہ ان کی
تقسیم کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ادھرجنتاپریوارکے مکھیااورلالویادکے سمدھی
ملائم اورسخت ہوگئے ہیں۔انہوں نے نہ صرف یہ کہ’’پریوار‘‘کواپنی فطرت کے
مطابق دھوکہ دیاہے بلکہ اتحادکے سیکولرزم پربھی سوال اٹھادیاہے ۔اب توان کے
نزدیک نتیش سیکولربھی نہیں رہے۔انہوں نے سوال کیاہے کہ بی جے پی کے ساتھ
سات برس تک سرکارچلانے والے نتیش سیکولرکیسے ہوسکتے
ہیں؟۔لالویادواورشردیادونے انہیں منانے کی جتنی کوشش کی کہ اگروہ یہ کوشش
طارق انورکومنانے کی کرتے توکامیاب ہوسکتے تھے،لیکن یہ بھی حیرت ہے کہ
سیکولراتحادکوملائم سنگھ کی توفکررہی لیکن طارق انورکی نہیں۔یہ الگ بات ہے
کہ طارق انورکواچانک یہ معلوم ہوگیاکہ لالواورنتیش نے مسلم سیاسی قیادت
کوبڑھنے نہیں دیاہے،یہ کشف ابھی ہی انہیں کیوں ہوا؟۔ویسے محترم اپنی پارٹی
کے جنرل سکریٹری توضرورہیں لیکن ان کی اپنی پارٹی میں ان کی کیاوقعت ہے،اس
کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ مہاراشٹرالیکشن کے نتائج کے بعدانہوں نے
یہ واضح کردیاتھاکہ بی جے پی اورشیوسیناکے ساتھ حکومت سازی کی کوئی کوشش
نہیں ہوسکتی کیونکہ ان سے ہمارانظریاتی اختلاف ہے لیکن جب ان کے
سپریموشردپوارنے ان کے بیان کوبے وزن کرتے ہوئے ان فرقہ پرست پارٹیوں کے
ساتھ(سی بی آئی سے بچنے کے لئے ہی سہی)حکومت سازی کی کوشش بھی شروع کردی
تھی تواب جناب کی اپنی پارٹی میں کیااہمیت رہی ؟۔
لالو،نتیش کوملائم سنگھ کے ذریعہ دھوکہ دینے کے پیچھے سی بی آئی، مضبوط وجہ
بتائی جارہی ہے نیزوہ نریندرمودی سے استوارہوتے رشتے کوبگاڑنانہیں چاہتے
چاہتے۔ خواہ اس کے لئے مکھیاجی کواپنے پریوارکونقصان پہنچاناہی
پڑجائے۔دوسری بات یہ کہ ملائم سنگھ کی نظرراجداورجدیوکے ناراض ممبران
اسمبلی پرہے۔وہ یہ سوچتے ہیں کہ ناراض سیٹنگ ایم ایل اے اپنے چہرے کی
بنیادپران کے سیاسی وجودکوبہارمیں ثابت کرپائیں گے،پریوارمیں رہتے ہوئے یہ
ممکن نہیں ہوگا۔اطلاع یہ بھی ہے کہ وہ طارق انورکے ساتھ تیسرے محاذکیلئے
کوشاں ہیں ایسے میں بی جے پی کاکام آسان ہوجائے گا۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ
جولوگ اویسی کی بہارکی سیاست میں انٹری کی مخالفت کررہے تھے کہ اس سے
سیکولرمحاذکونقصان پہونچے گاتواب ان کے پاس مسلمانوں کے مسیحااوران کے محسن
ملائم سنگھ اورمانجھی کوروکنے کیلئے کیاپلان ہے؟۔اب تووزیراعظم نریندرمودی
نے پارلیمنٹ کے اندراورباہرملائم سنگھ کی قصیدہ خوانی شروع کردی
ہے۔اگراویسی بہارمیں الیکشن لڑتے ہیں توسیکولرمحاذکمزورہوگااورمسلمان بھی
کمزورہوجائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ملائم سنگھ کی پارٹی کی نمائندگی
ہوجاتی ہے تواس سے مسلمان کتنے مضبوط ہوں گے،اس بات کی کیاضمانت ہے کہ
اویسی کے بہارمیں الیکشن نہ لڑنے سے بی جے پی کی کامیابی نہیں ہوگی؟۔
سیمانچل کی 24سیٹوں میں سے 13سیٹیں پہلے سے ہی بی جے پی کے پاس
ہیں،اورجدیوکے پاس صرف چارنشستیں ہیں۔ایسے میں اگراویسی الیکشن لڑتے ہیں
توکون سافائدہ بی جے پی کوہوجائے گا اورپہلے اسے کون سانقصان ہواہے ۔پھراویسی
کی یوپی اوربہارکی سیاست میں انٹری سے سب سے زیادہ نیندکانگریس کی اڑی ہے ۔دگ
وجے سنگھ کاالزام اورمیم افضل کاخط اسی کاغمازہے ۔یہاں اویسی کے الیکشن
لڑنے یانہ لڑنے پربحث نہیں ہے۔بلکہ ان ہمدردان قوم وملت کوآئینہ دکھاناہے
کہ رفیق الملک اورسیکولرزم کے علمبردارملائم کوروکنے کیلئے بھی اقدام
کریں۔تھرڈفرنٹ کے آنے سے نقصان کیاسیکولرمحاذکونہیں ہورہاہے؟۔ایسے میں یوپی
کے مسلمانوں کارول اہم ہوگاکہ وہ ہرمحاذپراورکھل کراعلان کریں کہ
اگربہارمیں تھرڈفرنٹ کی کوشش ہوئی تومکھیاجی کویوپی میں خمیازہ بھگتنے
کیلئے تیاررہناچاہئے۔حیرت اس پرہوتی ہے کہ جب مسئلہ کسی مسلم قیادت کاآتاہے
توطعن وتشنیع اورالزامات کی بوچھارلگ جاتی ہے،لیکن جب یہی مرحلہ اوروں
کاہوتاہے توزبانیں گنگ اورقلم زنگ آلودہوجاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ
سیکولرمحاذمسلمانوں کی صحیح نمائندگی کویقینی بنائے اورٹکٹ کی تقسیم میں
منصفانہ عمل اپنائے تاکہ مسلمان،نام نہادہی سہی سیکولرمحاذکے تئیں کوئی
واضح فیصلہ لے سکیں۔ابھی تک مسلمان کانگریس،راجداورجدیواتحادکی پالیسی میں
پس پشت ہے،اس پرگہری نگاہ رکھنی ضروری توہے ہی ،اتحادکی قیادت سے ملاقات
کرکے مسلم مسائل کوشامل کرنے اوران کی نمائندگی کویقینی بنانے کی کوشش بھی
کرنی چاہئے ۔ اس کے بعدہی مسلمان اپنے ووٹ کاحتمی فیصلہ کریں۔ |
|