امریکا میں پہلی بار پاکستانیوں کی اتنی ناز برداری

بھارت کو پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ پر مروڑ کیوں..... ؟
پاکستان (ن) لیگ کی رٹ پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات اور آئینی پیکچ کا کوئی علم نہیں
نواز شریف کی 25 مارچ کی پریس کانفرنس حکومت سے پنگا ....یا سیاسی بصیرت.....؟

ٓیہ پاکستان کے تمام اگلے پچھلوں کے لیے بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ امریکی سرزمین پر قدم رکھنے والے مسٹر چوہدری احمد مختار وہ پہلے پاکستانی وزیر دفاع ہیں جنہیں پینٹاگون آمد پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ورنہ اِن سے قبل پاکستان کی 62سالہ تاریخ میں تو کوئی بھی ایسا وزیر دفاع نہیں گزرا ہے کہ جس کی امریکیوں نے اتنی بلائیاں جو کبھی لی ہوں کہ جتنی مسٹر چوہدری احمد مختار کی لی ہیں اور اِنہیں گارڈ آف آنر پیش کر کے اِن کی اتنی ناز برداری کی ہے کہ آج پوری پاکستانی قوم خود ششدر ہو کر رہ گئی ہے کہ امریکیوں کے اِس خوشامدی روئے پر تو اَب یہ شک ہونے لگا ہے کہ پاکستان اورامریکا کے مابین ہونے والے دو روزہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ(مذاکرات) کے دوران امریکی اپنی خوشامدانہ پالیسی سے پاکستان کی جانب سے ہونے والے اِس مطالبے کو جس کے مطابق پاکستان نے اپنی ترجیحی بنیادوں پر امریکا سے یہ کہا ہے کہ امریکا سول ونیو گلیئر اور ڈرون ٹیکنالوجی کی فراہمی سمیت توانائی کے وسائل کے تمام شعبوں تک بلا امتیاز پاکستان کو رسائی دے جس کا امریکا نے یہ جواب دیا ہے کہ امریکا پاکستان کو 125ملین ڈالر دے گا ،3 بجلی گھروں کی تعمیر میں تعاون کرنے کا امریکا وعدہ کرتا ہے، منڈیوں تک رسائی، پی آئی اے کو مزید5امریکی شہروں تک آپریشن کی اجازت، پاک فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی منصوبہ بندی کرنے سمیت اور بہت سے اِسی نوعیت کے پروگراموں کو کرنے کے ساتھ ساتھ اِن میں معاونت کرنے کا بھی وعدہ یہ کہہ کر کیا کہ یہ سب کچھ راتوں رات کچھ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ اِس کے لئے ایک وقت درکار ہے اور اِس کے بعد تو اِن دو روزہ پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات کے اختتام پر بالخصوص ہم پاکستانیوں کو یہ خوش فہمی ہو چلی ہے کہ پاک امریکا یہ مذاکرات پوری طرح سے کامیاب ہوئے ہیں اور یہ اُمید کی جانی چاہئے کہ اَب امریکا پاکستان کو اپنے وعدے کے مطابق وہ سب کچھ ضرور دینے اور پاکستان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا پابند ہے جنہیں کرنے کا امریکا پاکستان سے وعدہ کرچکا ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ خوش فہمی بھی چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے کہ ہم پاکستانیوں نے امریکیوں سے وہ سب کچھ نکلوا لیا ہے جس کی ہم پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر کے امریکا گئے تھے اور اِسی طرح اُدھر امریکی بھی اِس گمان میں مبتلا ہیں کہ ہم نے پاکستانیوں سے سب کچھ دینے کا وعدہ تو ضرور کیا ہے مگر اِس کے عوض ہم نے اِنہیں کئی ایسے نئے شکنجوں میں بھی جکڑ دیا ہے کہ یہ اِس سے بھاگ بھی نہیں سکیں گے۔ اگرچہ یہ ایک اُمید اور حوصلہ افزا امر ضرور ہے کہ اِس مرتبہ ہمارا پاکستانی وفد بھی پوری تیاری سے امریکا گیا تھا جس کا آج ایک مثبت اور تعمیری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان اور امریکا اپنے اپنے تئیں اِن مذاکرات سے بڑی حد تک مطمئن ضرورنظر آرہے ہیں۔

جبکہ پاک امریکا کی جانب سے مذاکرات کی کامیابیوں کے بہت سے دعووؤں کے بالکل برعکس پاکستان کے بعض سیاستدانوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستانی مطالبے پر امریکا اپنے خوشامدانہ لب و لہجے سے پاکستانی وفد میں شامل اہم اشخاص کو اِن کی خواہشات کے عین مطابق سب کچھ دینے پر ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی صرف وعدے کر کے بھول جانے پر ہی کامیاب ہوا ہے اور بس ..... اور یوں امریکا نے اپنے جھوٹے وعدوں کے سہارے پاکستانی وفد کو اپنا گرویدہ بنایا اور اِسے یہ کہتے ہوئے تسلی دی کہ” تم ہمارے لئے کام کرو .....تو ہم بھی تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھیں گے“ اور پاکستانیوں کو یہ کہتے اور نصیحت کرتے ہوئے اِن سب کو اِن کے دیس پاکستان واپس بھیج دیا ۔

جبکہ اُدھر دو روزہ مذاکرات کے دوران ہمارے وزیر خارجہ جو شاہ بھی ہیں تو محمود اور قریشی بھی ...... اُنہوں نے اپنی بلا کی جاذب نظری اور ہنسی مذاق سے اپنی ہم منصب امریکی لیڈی ہلیری کلنٹن کو ایسا زیر یعنی اپنے تابعِ کیا کہ بعض مواقعوں پر تو بس ایسا لگا کہ شائد دونوں جانب سے کچھ مذہبی اور تہذیبی پابندیاں اِن دونوں کے بیچ حائل تھیں ورنہ وہ (ہلیری )اِدھر یا ....یہ (شاہ جی )اُدھر ہوتے میرا مطلب ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ہوجاتے ......اور تو پھر مذاکرات بھی ہوتے ہی رہتے بہرحال! اِس دوران جو ہوا اِسے قوم بھول جائے اور آگے کی سوچے کہ اَب کیا کرنا ہے۔

اور اُدھر اَبھی پاک امریکا مذاکرات جاری ہی تھے کہ اِدھر بھارت کے پیٹ میں اِن مذاکرات کی بھر پوری کامیابی کے خدشات کے پیشِ مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے تھے جس کا اظہار بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے یہ کہہ کر کیا کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کے ساتھ نیوکلئیر ڈیل کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت بھارت کے لئے تشویش کا باعث ہے اور بھارتی وزیر خارجہ نے اپنا ایسا بیزاری کے احساس والہ منہ بناتے ہوئے کہ جیسے وہ کریلے چبا رہے ہوں کہا کہ” امریکا بھارت کو پہلے ہی یہ یقین دلاچکا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کرے گا کہ جس سے بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچے اور اِس کے ساتھ اُنہوں نے اپنا سینہ ٹھونک کر اور چیخ کر کہا کہ بھارت امریکا پر یہ واضح کرچکا ہے کہ پاکستان اور امریکا کی نیو کلئیر ڈیل بھارت کے مفادات کے منافی ہوگی اور اُنہوں نے انتہائی غصے سے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ”پاکستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ پر بھارت گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

میرا خیال یہ ہے کہ یہاں بالخصوص امریکا کے لئے سنجیدگی سے سوچنے اور غور کرنے کی ایک بات تو یہ ہے کہ پاک امریکا مذاکرات سے بھارت کو کیا نقصان ہے .....؟جو بھارت پاکستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے پاگل ہوچکا ہے اور اُوٹ پٹانگ بک رہا ہے۔ اَب امریکا کو یہ فیصلہ خود کرنا چاہئے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم رول پاکستان ادا کر رہا ہے یا بھارت . ....؟اِس بنیاد پر امریکا اگر واقعی پاکستان کے ساتھ مخلص ہے تو اِسے پاکستان کے ساتھ کئے گئے اپنے تمام وعدے ضرور پورے کرنے چاہئیں۔ ورنہ اگر وہ بھارت کے دباؤ میں آکر اِس مرتبہ بھی پاکستان کے لئے سرد مہری کا مظاہرہ حقیقی معنوں میں کرے گا تو اِس سے پاکستان یہ مقصد لے کہ امریکا پاکستان کو سِوائے بول بچن دینے کے اِسے صرف اپنے مقاصد کے لئے ہی استعمال کرنا چاہتا ہے اور اِس کی تمام مہربانیاں اور نوازشیں تو بھارت کے لئے ہیں اور پاکستان کے لئے صرف جھوٹے وعدے اور دعووؤں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

جبکہ اُنہی دنوں جب امریکا میں پاک امریکا مذاکرات اپنے عروج پر تھے کہ اِدھر یعنی خود ہمارے یہاں قائد حزبِ اختلاف چوہدری نثار علی خان نے پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات کے حوالے سے یہ تک انتہائی افسوس ناک انداز سے کہہ دیا ہے کہ امریکا سے اسٹرٹیجک مذاکرات کس بنیاد پر ہو رہے ہیں، کسی کو علم نہیں اِن کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کو اسٹرٹیجک مذاکرات کے لئے ایوان کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا اور اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے حکومت پر کھلی تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت تاریخ کی سب سے زیادہ گونگی بہری حکومت ہے کیوں کہ بقول اِن کے اِنہوں نے گزشتہ 25سالوں کے دوران ایسی حکومت نہیں دیکھی کہ کوئی اپوزیشن حکومت کو اپنا کندھا دے اور حکومت چلے اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ آخر کب تک کوئی اپوزیشن حکومت کو کندھا دے گی۔اِس کے بعد راقم الحرف اِس نتیجے پر پہنچ پایا ہے کہ چوہدری نثار علی خان آخر کس منہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت امریکا سے اسٹرٹیجک مذاکرات کس بنیاد پر ہو رہے ہیں کہ میں یہاں اِن سے صرف اپنا یہ ایک ہی سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اُنہوں نے اِس حوالے سے اپنی یا اپنی جماعت کی طرف سے کتنی دلچسپی لی کہ حکومت اِن سے رابطہ کرتی جب کسی کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تو پھر حکومت کو خود ہی یہ قدم اُٹھانا پڑا جس کو آج بیس بنا کر نثار علی خان حکومت پر کھلی تنقید کر رہے ہیں۔

اگرچہ یہ بھی ایک مصمم حقیقت ہے اِن دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن)خود پر فرینڈلی اپوزیشن کی چھاپ لگنے کے بعد اپنے آپ کو ایک طاقتور مگر پنگے باز سیاسی جماعت یا گروپ کی صورت میں سامنے لانے کے لئے اِس کلئے پر عمل پیرا ہے کہ ”میری تو مان لے .....ورنہ میں تیری بھی نہیں چلنے دوں گا“ کے سہارے کیا کچھ کر گزرنے پر تلی ہوئی ہے کہ اِس کا اِسے یہ احساس تک ہی نہیں ہو رہا ہے کہ یہ اپنے اِسی غیر جمہوری غیر سیاسی اور غیر اخلاقی رویوں کے باعث ا پنی اِس ضد نما کلئے کی وجہ سے عوام میں اپنا بنا بنایا وقار کتنا مجروح کر رہی ہے کہ آج پی ایم ایل (ن) کے اِس عمل سے ملک کا ایک انتہائی سنجیدہ اور باشعور طبقہ اِس جماعت سے اپنی سیاسی اور اخلاقی ہمدردیاں بھی کم کرتا جا رہا ہے کیوں کہ یہ طبقہ آج یہ سمجھ رہا ہے نواز شریف اور اِن کی جماعت کے اراکین ایک جمہوری صدر زرداری کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنا کر اور ذرا ذرا سے مسئلے کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کر کے ملک میں جاری جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لئے کوئی اچھا کام اور اچھی سیاست نہیں کر رہے ہیں بلکہ اِن کے اِس عمل سے آج یہ بات اچھی طرح سے ظاہر ہو رہی ہے کہ یہ لوگ (پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور اِن کی پارٹی کے اراکین )محض وقت گزاری اور موجودہ حکومت کے لئے قدم قدم پر مشکلات اور پریشانیاں پیدا کرنے کے لئے ہی ایوانوں میں موجود ہیں اور اَب یہ کسی کا باقاعدہ آلہ کار بن کر جمہوریت کے خلاف کام کررہے ہیں۔

اور اَب پاکستان میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) جو پاکستان کی پہلی اور دنیا کی شائد وہ انوکھی مصالحت پسند حزبِ اختلاف جماعت ہے جس کا کردار اِس کی جانب سے دانستہ طور پر میثاقِ جمہوریت کے سبوتاژ کئے جائے اور معاہدہ بھور پن کے خاتمے کے فوراََ ہی بعد برسر ِاقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور عوام کے نزدیک پہلے ہی روز سے مشکوک رہا ہے اور تب سے ہی اِس جماعت نے بالخصوص حاکم الوقت صدر مملکت آصف علی زرداری کی شخصیت کو بُری طرح سے مجروح کرنے کا کوئی بھی موقعہ اپنے ہاتھ سے جانے دیئے بغیر اِن کی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست پر جس انداز سے(اِس فرینڈلی اپوزیشن جماعت کہلانے والی پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سربراہ اور پارٹی اراکین نے) تازیانے برسائے ہیں اور اِنہوں نے اپنے اِس کردار کو اَب تک اپنی اِنہی میٹھی میٹھی باتوں اور چالاکی، ہوشیاری اور چابکدستی سے کس قدر ادا کیا ہے وہ بھی آج نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ ساری دنیا کے بھی سامنے ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اِس جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور اِن کی پارٹی کے اراکین نے اپنایہ غیر جمہوری و غیر اخلاقی اور غیر سیاسی کردار صدر زرداری کی ذات پر کیچڑ اُچھال کر کچھ اِس طرح سے بھی نبھایا ہے کہ اِس پر ملک میں موجود جمہوریت کے مخالف ایک بڑے اور انتہائی طاقتور ترین ٹولے کو چاہئے کہ وہ بغیر کوئی لمحہ ضائع کئے اِس جماعت پی ایم ایل (ن) کو موجودہ صدر اور اِن کی حکومت کے خلاف اپنا ایسا پریشان کُن مگر منافقانہ رول ادا کرنے پر کسی بڑے اور تاریخی ایوارڈ سے ضرور نوازے ورنہ اِسے اپنی اتنی انتھک محنت اور مشقت کے بعد بھی بڑی مایوسی اور اپنی حق تلفی ہوتی ہوئی محسوس ہوگی اِسے اِس کام کے عِوض کوئی انعام نہیں ملا ہے۔

اور پھر آئندہ یہ کسی بھی برسرِ اقتدار حکومت سے باہر رہ کر اِس کے جمہوری عمل میں روڑے اٹکانے کا ایسا عمل اِس جمہوریت مخالف ٹولے کے لئے ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر پائے گی کہ جیسا رول یہ جماعت پی ایم ایل (ن) آج پاکستان پیپلز پارٹی کی اِس جمہوری حکومت کے کاموں میں اِن دنوں اپنی کوئی نہ کوئی ٹانگ فضول میں اڑا کر ادا کر رہی ہے۔ اور ملک میں جمہوریت مخالف ٹولے کو خوش کر کے اپنی سیاست چمکانے اور عوام کو اپنے پُرجوش اور پُرفریب نعروں سے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بے وقوف بنانے کے لئے کمر بستہ ہے۔

یعنی یہ کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اِن دنوں اپنے قول و فعل سے پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ٹڈی دل جیسا کردار ادا کر رہی ہے کیوں کہ پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ایک طرف تو حکومت کو اپنی چکنی چپڑی اور لچھے دار باتوں سے اُلجھائے رکھنے کا اپنا فنی مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو اُدھر ہی یہ دوسری طرف اپنے بِن مانگے اور بِن پوچھے مشورے بھی حکومت کی جانب اُچھال اُچھال کر اِنہیں حکومت کو زبردستی دینے کی کوشش میں پڑے ہوئے ہیں اور صدر زرداری اور اِن اراکین کو حکومتی اُمور ٹھیک طرح سے انجام نہیں دینے دے رہے ہیں اور اِس پر سونے پہ سہاگہ یہ آمر جنرل (ر) مرحوم ضیا الحق کی باقیات میاں نواز شریف اپنی غضب ناک سیاسی بصیرت اور دیگر دوسرے زاویوں سے بھی آئے روز نظروں سے اُوجھل ایسا کوئی نہ کوئی سیاسی اور قانونی نقطہ اپنی بغل میں گٹھری کی شکل میں دبائے بمعہ اپنے اراکین کے صدر زرداری اور حکومت کے سامنے لاکر حکومت کے لئے ایک نیا پنگا کھڑا کر دیتے ہیں کہ اِس سے بھی یہ اور اِن کی پارٹی کے لوگ صدر زرداری اور اِن کی حکومت کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہوتے ہیں۔ جس سے اِس اچھی بھلی جمہوری حکومت کے اراکین اور عوام تلملا اٹھتے ہیں اور نواز شریف اور اِن کے پارٹی کے اراکین اپنا اپنا سر جھکائے اور نظریں نیچی کئے یہ کہتے ہوئے کھسک جاتے ہیں کہ” ہم یہ سب کچھ عوام اور ملک کے بہتر مفادات کے لئے ہی تو کر رہے ہیں۔“اِن کے ایسے ہی ملک اور قوم کے لئے کئے گئے مفادات کی ایک مثال جمعرات 25مارچ کی شام پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جناب میاں محمد نواز شریف کی عجلت میں کی گئی ایک ہیبت ناک پریس کانفرنس سے بھی سامنے آئی کہ جس کے بعد جمعہ26 مارچ کو طلب کئے گئے پارلیمنٹ کے اُس مشترکہ اجلاس جس میں 18ویں آئینی ترمیم کا وہ بل پیش ہونا تھا جس کا پوری پاکستانی قوم کو مدتوں سے انتظار تھا اور اِسے یہ یقین تھا کہ اِس اٹھارویں آئینی ترمیم سے ملک میں بہت سی مثبت اور نمایاں تبدیلی رونما ہوں گیں اور اِس لحاظ سے یہ دن ملکی تاریخ میں اہمیت اختیار جائے گا اور بڑا ہی اہمیت کا حامل دن ہوگا کہ اِس روز ملک میں 18ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا گیا تھا اور اپنی نوعیت کے اِس انتہائی اہم ترین اجلاس سے جس سے صدر مملکت آصف علی زرداری کو اپنا تاریخ ساز خطاب کرنا تھا اِس حوالے سے سارے اگلے روز کے لئے کی گئیں تمام حکومتی تیاریوں پر نواز شریف کی اُس اچانک پریس کانفرنس نے پانی پھیر دیا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ایک تو پختون خوا کے حوالے سے ابھی ہمارے شدید تحفظات موجود ہیں تو دوسرا ججز کی تعیناتی کے بارے میں قائم کئے جانے والے کمیشن سے ہم مطمئین نہیں ہیں اور اِس کے بعد پھر کیا ہوا ....؟یہ آج سب کے سامنے ہے اور نواز شریف اپنی پریس کانفرنس میں اپنے اور ایسے بہت سے کئی نکات پر تحفظات کا اظہار کر کے ایک نیا پنگا لا کر 26مارچ کے سارے حکومتی پروگرام کا ملیامیٹ کر کے ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دے کر اگلے ہی روز اپنے تمام تحفظات پر یوٹرن لے کر اپنا دامن صاف کرتے ہوئے پھر کسی نئے سیاسی اور قانونی نقطے کی تلاش میں متحرک ہوگئے ہیں۔

اگرچہ نواز شریف اور اِن کی جماعت کی اِس قسم کی پنگے بازیوں سے آج ملک کا ہر بچہ بچہ بھی اچھی طرح سے واقف ہوچکا ہے کہ نواز شریف اور اِن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین اپنی اپنی جگہ رہ کر صدر زرداری اور اِن کی حکومت کے لئے کیسی کیسی مشکلات پیدا کر کے اِنہیں پریشان کر رہے رہیں کہ اِن کے اِس عمل سے میاں نواز شریف سمیت اِن کی پارٹی کے ہر رکُن کی شخصیت اور اِن کی جمہوریت مخالف سوچ بھی اَب کھل کر عوام کے سامنے آچکی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور اِن کی پارٹی کے اراکین کا اِس جمہوری حکومت کو کس طرح جمہوریت کی پٹری سے ڈی ریل کرنا اور ملک میں جاری اِس کمزور مگر مفلوج جمہوری عمل کو روکنا چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرانا ہے کہ موجودہ حکومت عوام الناس کے لئے کوئی کام نہیں کر رہی ہے اِس کا کام تو بس صرف اپنے ہی مسائل میں الجھ کر اِنہیں حل کرانا رہ گیا ہے۔ اگر ہماری حکومت ہوتی تو ہم عوامی مسائل کو پہلے حل کرتے اور پھر اپنی حکومت بچانے کی کوئی بات کرتے ....... پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اِن اُوچھے اور جمہوری دشمن اقدامات اور سازشوں کے بعد اَب نواز شریف اور اِن کی جماعت کے اراکین سات سمندر کے پانی سے بھی غسل کر کے آئیں اور عوام میں جا کر یہ چیخ چیخ کر بھی کہیں کہ اِن سب نے اَب تک جو کچھ بھی کیا ہے اور یہ آئندہ اسمبلی کے اندر اور باہر رہ کر بھی اپنا جو کردار ادا کریں گے یا کر رہے ہیں کیا وہ سب کا سب ملک اور قوم کے مفاد میں ہے یا یہ ایسا کر کے اُلٹا اپنی ہی سیاست کو چمکا رہے ہیں ......؟میرے قارئین! اِس صورتِ حال میں اَب آپ ہی ملکی سیاست میں ایسا بھیانک کردار ادا کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کیا خیال کریں گے اِس کے ایسے غیر سیاسی، غیر اخلاقی حربوں کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نااہلی قرار دیں گے یا سیاسی چالبازی گری تصور کرتے ہوئے اِس پارٹی کے صدر زرداری سے سیاسی کم مگر زیادہ ذاتی بغض و کینہ کہیں گے کہ جس نے ایوان میں اپنا روائتی کردار ادا کرنے کے بجائے کھلم کھلا صدر زرداری کے خلاف ایک ذاتی محاذ کھول رکھا ہے اور اِن کی حکومت پر تنقید برائے تنقید کا ایک اسٹیج سجایا ہوا ہے کہ جس پر پی ایم ایل (ن) کے قائد سے لے کر ایک ادنا سا کارکن بھی صدر زرداری کی شخصیت کے خلاف بولنا اور اِن کی موجودہ حکومت کو بُرا بھلا بولنا اپنا حق سمجھتا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889851 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.