جنگ 65سے ضرب عضب تک

پاکستان کی قومی تاریخ میں 6ستمبر جرات و ولولوں سے لبریز ہے۔ اس دن ہم نے بحیثیت قوم ہماری بقاء اور سلامتی پر حملہ کرنے والے دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے اسے ایسا مقدم بنا لیا کہ یہ ’’یوم دفاع پاکستان‘‘ کہلایا۔ یوں تو ہم ہر سال اس یادگار دن کو جوش و خروش سے مناتے آئے ہیں، مگراس ستمبر میں ابھرنے والا اس کا پچاسواں سورج ایسی آب و تاب لئے ہوئے ہے کہ جس کی روشنی میں ہم اپنے ملک کے سنہری مستقبل کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں، جوامن و چین، ترقی اور روشنی سے عبارت ہوگا۔ 1965ء میں ہم نے بیرونی جارحیت کے خلاف ایسی یکجہتی، ایثار اور حب الوطنی کا مظاہرہ کیا تھا کہ تین گنا بڑا دشمن اس کی تاب نہ لاسکا تھا۔ اس کے بعد قومی تاریخ میں یہ دن کئی بار آیا مگرہم نے دیکھا کہ ہماری ملی یکجہتی، اتحاد و یگانگت ماند پڑتی رہی۔ ہماری صفوں میں لسانیت، صوبائیت، فرقہ واریت کے کانٹے پروان چڑھتے رہے۔ قومی وقار کی علامتیں مٹائی جانیں لگیں۔دہشت گردی اور شدت پسندی کے عفریت نے ہماری جڑوں کو ایسا کھوکھلا کیا کہ ہمارے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ ان کٹھن اور مشکل حالات میں ہماری آزادی اور وقار کا دیا جس نے بجھنے نہ دیا وہ صرف اور صرف ہماری افواج کی قربانیاں ہیں۔ وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے عناصر کے خلاف جرات و بہادری سے ڈٹ گئیں۔دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب میں انہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کرکے ملکی وقار اور سلامتی کا بھرپورانداز میں دفاع کیا ہے۔ آج یوم دفاع پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر اس آپریشن کی کامیابی نے ہمارے اعتماد کو بحال اور خوشیوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے ۔

ضرب عضب نام
’’العضب‘‘ نبی کریم صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کی تلوار کا نام ہے۔ عضب عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب "تیز" یا "کاٹنے والا" ہوتا ہے۔ یہ تلوار نبی کریم صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کو ایک صحابی نے غزوہ بدر سے قبل پیش کی تھی۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم نے یہ تلوار غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال کی تھی اور بعد میں یہ تلوار صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کے پاس رہی۔ اب یہ تلوار قاہرہ کی جامع مسجد الحسین میں موجود ہے۔ پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کا نام "ضرب عضب" اسی مناسبت سے رکھا گیاجو خوارج کی سرکوبی اور مکمل خاتمے تک جاری رکھا جائے گا۔

پس منظر
9/11کے بعد جب اتحادی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے بہت سے عسکریت پسند وں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے لی اور بتدریج ایسی سرگرمیاں شروع کردیں جن سے پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا۔ تحریک طالبان کے علاوہ ازبک، چیچن، ترکمانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے یہاں مکمل کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کرلیا۔ جہاں سے وہ ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔شمالی وزیرستان سے اٹھنے والی دہشت گردی کی ان سرکش موجوں نے ملک کے کونے کونے میں تباہی و بربادی کی انتہاء کردی ۔ پاک افواج پر حملے کئے گئے۔ بھرے بازاروں میں عام شہریوں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، نشانہ بنایا گیا۔سرکاری و نجی املاک تباہ و برباد ہوگئیں۔ترقی کا پہیہ رک گیا۔ معیشت نیم دیوالیہ ہوگئی اورعالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو شدید نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے بہت سے علاقوں میں سول انتظامیہ دہشت گردوں کے سامنے بے بس نظر آنے لگی۔دہشت گردی کا سلسلہ ملک بھر میں پھیل گیا۔ اسلام آباد کچہری، راولپنڈی ، پشاور، لاہور، کراچی، اٹک، کوئٹہ سمیت ملک کا کوئی کونہ محفوظ نہ تھا۔ ہزاروں شہری بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں شہید ہوگئے۔حکومت اور افواج نے دہشت گردی کی ان بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو روکنے کے لیے مذاکرات سمیت بہت سے اقدامات اٹھائے تاہم تمام کوششیں دہشت گردوں کی ہٹ دھرمیوں کے سامنے بے سود ثابت ہوئیں۔ افواج پاکستان نے گوکہ ماضی میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کئے لیکن انہیں جو کامیابیاں ملتی رہیں انہیں بعض وجوہات کے پیش نظر مستقل بنیادوں پر قائم نہ رکھا جاسکا۔ دہشت گرد مسلسل مختلف شہروں میں حملے کرکے ان کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ۔ان تمام کارروائیوں کے باوجود حکومت نے انہیں مذاکرات کاآخری موقع دیا۔ دہشت گردوں نے اسے سنجیدہ نہ لیا اور اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھیں۔ 9جون 2014ء کو دہشت گردوں نے جناح انٹرنیشنل ائر پورٹ کراچی پر حملہ کیا اور اگلے ہی روز پاکستان بھر میں اسی طرز کے دہشت گردحملوں کی دھمکی دے دی۔ 16دسمبر2014ء کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں اور اساتذہ پر ایسا ہولناک حملہ کیا کہ پوری دنیا کانپ اٹھی۔اس کے بعد پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر ملی جذبے سے اٹھی۔ اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم پاکستان کی زیر صدارت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں انتہائی اہم فیصلے کئے گئے ۔ ملک کی پوری سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا۔

ضرب عضب
ضرب عضب کا آغاز 15 جون 2014ء کو کیا گیا۔ دہشت گردوں کا کلی خاتمہ کرکے پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانا اس کی حتمی منزل قراردی گئی۔اس بات کا بھی عزم کیا گیا کہ یہ آپریشن بلا امتیاز کیا جائے گا ۔ آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے خلا ف پاک فوج کو بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور طے شدہ منصوبے کے مطابق وہ اپنے اہداف حاصل کرتی جارہی ہیں۔آپریشن کے ابتدائی اہداف میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کا پاک سرزمین سے مکمل خاتمہ ، ان کے ٹھکانوں کو مکمل طور پر تباہ کرنا، فاٹا اور ملحقہ علاقوں میں بحالی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز کرنا شامل تھے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ مختلف پہلوؤں پر جائزے کے بعد ان اہداف اور وسعت میں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے آپریشن کے آغاز پر ہی واضح کردیا تھا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے گا۔آپریشن کے چار بنیادی مرحلے طے کئے گئے تھے جن میں شمالی وزیرستان کے علاقوں سے مقامی ، غیر عسکری اور حکومت حامی آبادی کے انخلاء اور نقل مکانی کے ممکنہ راستوں اور مقامات کی نشاندہی ، زمینی آپریشن اور علاقے کی ’’فزیکل سرچ‘‘ ،از سرِ نو بحالی اور مقامی آبادی کی واپسی ونوآباد کاری شامل ہے۔متاثرہ علاقوں سے مقامی آبادی کے انخلاء کے بعدباقاعدہ زمینی آپریشن شروع کردیا گیا۔ پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں تباہ و برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاک فوج کے ز مینی آپریشن کے بعد انہیں کلیئر کیا گیا ۔آپریشن کے آغاز سے اب تک سارھے تین ہزار کے قریب دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ ایک ہزارسے زائد ٹھکانے اورکمین گاہیں تباہ کی جاچکی ہیں۔ علاوہ ازیں بھاری تعداد میں اسلحہ، ہتھیار اور سیکڑوں ٹن باروی مواد برآمد بھی برآمد کیا گیا ہے۔ تحصیل میر علی، میرانشان، بویا ، دتہ خیال، غلام خان اور اسپن وام سمیت تقریباََ نوے سے زائد علاقے کو کلیئر کیا جاچکا ہے جبکہ آپریشن کے دوران بہت سی نجی جیلیں، زیرزمین راستے اور پناہ گاہیں ملیں اور دہشت گردوں سے بھارتی تعداد میں اسلحہ اور بارود برآمد ہوا۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے قبضے سے برآمد ہونے والے اسلحہ سے مزید 15سال تک جنگ لڑی جاسکتی تھی۔ برآمد ہونے والا اسلحہ ایک انفنٹری بریگیڈ کے لئے کافی ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاوہ بعض دوسری ایجنسیوں میں چھوٹے موٹے گروپوں کی موجودگی کی اطلاعات پر ان کے خلاف بھی آپریشن جاری ہیں۔اس وقت شوال میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں جاری ہیں۔ ائرفورس نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر تابڑ توڑ حملے کرکے انہیں تباہ و برباد کردیا ہے۔ زمینی کارروائی کے دوران پاک فوج نے بہت سے علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ ضرب عضب کے دوران پاک فوج کے ساڑھے تین سو بہادر افسروں اور جوانوں نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا جبکہ 1200کے قریب زخمی ہوئے۔ قوم کو یقینا اپنے ان شہداء اور غازیوں کی قربانیوں پر فخر ہے۔ ضرب عضب آپریشن کے دوران تقریباََ دس لاکھ افراد نے نقل مکانی کی۔جن کی واپسی کا عمل شروع ؂ہوچکا ہے۔افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ حکومت اور ملک کے عوام نے عارضی طور پر نکل مکانی کرنے والے افراد (TDPs) کی خدمت کے لئے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی مثالی ہے۔ جس طرح پاک فوج کے افسر اور جوان بے جگری سے شدت پسندوں کے خلاف صف آراہوکر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں انہیں نہ صرف شمالی وزیراستان کے باسی بلکہ تمام محب وطن پاکستانی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

عالمی و مقامی سطح پر ’’ضرب عضب ‘‘ کی افادیت اور موثریت کا اعتراف
ضرب عضب آپریشن میں افواج پاکستان نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ ، امریکہ ، برطانیہ، چین اور روس سمیت بہت سے ممالک نے دہشت گردی کیخلاف ضرب عضب آپریشن میں پاک فوج کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ریاست مخالف تشدد پر نظر رکھنے والے معروف عالمی تحقیقاتی ادارے ’’دی کانفلکٹ مانیٹرنگ سینٹر‘‘ کی ماہانہ سیکورٹی رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں کی ماہانہ اوسط میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ حملوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی خیبر پختونخواہ میں ہوئی ہے ۔ اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی واضح طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ آپریشن سے قبل2009ء میں دہشت گردی سے 11ہزار585افرا د جاں بحق ہوئے ، جس کی یومیہ اوسط 32افراد بنتی ہے۔ ضرب عضب سے قبل2009ء میں 78خود کش حملے ہوئے جن کی ماہانہ اوسط6.5بنتی ہے۔ ضرب عضب کے بعد دہشت گردوں کے حملوں سے روزانہ کی بنیادوں پر ہلاکتیں 10سے بھی کم رہ گئی ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے دہشت گردی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں بھی 2014 کے دوران پاکستان، فلپائن، نیپال اور روس میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا اعتراف کیا ہے۔ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے آپریشن ضرب عضب کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ماننا ہے کہ فوج نے ضرب عضب آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کو شکست دی ہے۔ آپریشن کے نتائج انتہائی متاثر کن ہیں۔افغانستان میں اتحادی افواج کے نئے کمانڈر امریکی جنرل جان کیمپبل نے آپریشن ضرب عضب کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح کی کوششیں جاری رہیں گی۔ برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن نے اسلام آباد میں وزیر دفاع خواجہ آصف سے ملاقات میں ضرب عضب آپریشن میں کامیابیوں کو سراہا اور کہا کہ آپریشن ضرب عضب سے پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔اسی طرح برطانوی وزیر دفاع مائیکل فالان نے گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج کی قربانیوں کو سراہا اور خطے میں امن و استحکام کیلئے پاک فوج کی کوششوں کی تعریف کی۔جرمن وزیر خارجہ ڈاکٹر فرینک والٹر سٹین میئر نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کے چیلنج کا بڑی بہادری سے سامنا کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس کے شہریوں اور مسلح افواج کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔

پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف ان کامیاب کارروائیوں پر یقینا ہمارے دشمن انتہائی تشویش کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی طرف سے بھی پاکستانی چیک پوسٹ پر راکٹ فائر کئے گئے۔ ماہرین کے مطابق ایسے حربے یقینا ضرب عضب کی کامیابیوں کا ردعمل بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں کے باوجودمجموعی طور پر آپریشن ضرب عضب کے مثبت اثرات واضح نظر آرہے ہیں ۔ ملک بھر میں دہشت گردوں کے حملوں میں غیر معمولی کمی آئی ہے ۔جس سے امن عامہ کی مجموعی صورتحال قابل ذکر حد تک بہتر ہوئی ہے۔ ملک میں بے یقینی کا خاتمہ ہوا ہے۔ عوام کے اعتماد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے بلکہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز اور بلا خوف کارروائی پر عالمی سطح پر پاکستان کے امیج میں کافی بہتری آئی ہے ۔ ان تمام امور میں بہتری کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور ترقی کا گراف بھی اب بلندی پر ہے۔ ان تمام حوصلہ افزاء نتائج کو پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے دوسرے امور پر بھی توجہ دی جائے۔ خاص طور پر دہشت گردوں کو مالی اور اسلحی سپورٹ فراہم کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے۔ ان کے سہولت کاروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ ہمارے سیکورٹی اداروں نے اس حوالے سے بھی بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی لئے تو اس آپریشن کا دائرہ بڑھانے کے لیے عوامی حمایت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں جب اس طرح کے اقداما ت سے ہمارا ملک دہشت گردوں سے پاک اور امن و امان کا گہوارہ ہو گا۔
Muhammad Amjad
About the Author: Muhammad Amjad Read More Articles by Muhammad Amjad: 17 Articles with 17363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.