ہر طرف بے راہ روی کا دور دورہ
ہے مدتوں سے ہمارے شہر علم و دانش سے نا آشنا ہو کر خالی برتن کی طرح ہو
چکے ہیں جو بجتے ذیادہ ہیں لیکن ناکارہ ہیں۔ ہمارے ارد گرد ایک ایسا ہجوم
رقص کناں ہے جو ایک دھن میں مگن ہے یہ ہجوم نہ تو کسی کی بات پر کان دھرتا
ہے اور نہ ہی کچھ سمھنے کی کوشش کرتا ہے بس یہ ایک ایسی عجیب و غریب نسل ہے
جو نسل آدم کی بگڑی ہوئی اور خالی الذہن وہ اولاد ہے جسکے پاس نہ حافظہ ہے
اور نہ ہی اپنے حال کی فکر ہے اور نہ ہی مستقبل پر نظر رکھ کر آنے والے وقت
پر کمند ڈالنے کی کوئی سعی۔ ہماری اس قوم کا مقدر حال میں گم ہے جبکہ
مستقبل میں اتھاہ گہرائیاں ہیں اور دور دور تک کوئی روشنی دکھانے والا نہیں
ہے ۔ یہ وہ نسل ہے جو اپنے وجود میں انتہائی غیر طبعی ہے ۔ اسے نہ ہی علم
حاصل کرنے کی جستجو ہے اور نہ ہی اسکے پاس زمانے کی گھتیوں کو سلجھانے
کیلئے وہ زہن ہے جو انسان کے امر ہونے میں معاون ہوتا ہے۔ ہم مغرب کے در کے
وہ کتے ہیں جو ٹیکنالوجی سے لیکر صحت اور تعلیم کے میدان میں انکے پیچھے
راندوں کیطرح بھاگتے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو انکی دی ہوئی بھیک پر
گزارہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے اسلاف کے قصے سنا سنا کر اپنے مخدوش اور مکد ر زہن
میں انکے ذائقوں کو محسوس تو کرتے ہیں مگر انہیں اپنانے کی ذرہ برابر بھی
کوشش نہیں کرتے جس سے ہمارے مکروہ ارادوں اور کمینے پن کا پتہ چلتا ہے۔ ہم
صبح سے لیکر شام تک اپنے آباؤ اجداد اور مقدم ہستیوں کا راگ تو الاپتے ہیں
مگر انکی پیروی کرنے میں اپنے ذاتی مفادات کو آڑے لا کر اپنے ہی حال میں
معلق رہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں دولت کے لالچ نے اندھا کر دیا ہے۔ ادب، فلسفہ،
تاریخ، جغرافیہ، سائینس کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب حرام کاری
کی نسبت سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم مکار ہیں، دھوکے باز ہیں، جھوٹے ہیں
، اس ملک اور قوم کے لٹیرے ہیں، ہم وہ وحشت ناک اور کم ظرف ہیں جو گوشت کے
ایک ٹکڑے کیلئے گلی میں کھڑی ہوئی بھینس کے جسم کو کاٹ کر اپنی ضرورت پوری
کر لیتے ہیں بھینس پر کیا گزرے گی ہم کبھی سوچتے ہی نہیں۔ ہم وہ شکست خوردہ
قوم ہیں جو شرم ناک شکست کھا کر بھی بجائے شرمندہ ہونے کے اس شکست میں بھی
اپنی جیت کے پہلو ڈھونڈ کر پوری قوم کو اندھیرے میں بھٹکانا چاہتے ہیں۔ جو
اپنے ماضی سے نہیں سیکھے گا اسے اتھاہ گہرائی میں دھکیل کر تمام عمر کیلئے
اندھیرا طاری کر دیا جائیگا اور اسے اس گہرائی میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا
جائیگا کہ اندھیرے میں راستہ تم نے خود تلاش کرنا ہے کوئی تمہیں وہاں راستہ
دکھانے کیلئے نہیں آئیگا۔ جو قومیں علم و دانش کی حامل ہوا کرتی ہیں وہ سب
دنیا پر حکومت کیا کرتی ہیں ۔ راندئے درگاہ کو کبھی بھی تخت شاہی نصیب نہیں
ہوتا وہ ہمیشہ مارا مارا پھرتا رہتا ہے کیونکہ وہ کوشش نہیں کرتا ۔ وہی
قومیں آسمانوں اور ستاروں پر کمند ڈالا کرتی ہیں جو محنت کرتی ہیں اور جس
ماں کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں اسکی عزت و تکریم کیلئے جان دینے کیلئے تیار
ہوتی ہیں۔ہماری زمین ہماری ماں ہے جو ہمیں اپنی چھاتی سے دودھ پلا کر ہمیں
پالتی ہے مگر ہم وہ بد ذات ہیں جو اپنی ہی دھرتی ماں کے سینے کو نوچ نوچ کر
کھارہے ہیں۔ جواب دو کہ ایسا کیوں ہے؟؟ تم نے تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھا
؟؟ تم نے وطن سے پیار کرنا کیوں نہیں سیکھا؟؟ تم نے قوم کو اغیار کے ہاتھوں
گروی کیوں رکھ دیا ؟ تم نے ہنر کی نقالی کو مات دینے کا کیوں سوچا؟؟ کیا
کسی ہنر کی نقالی کرکے تمہارا ضمیر مطمعن ہو سکتا ہے؟؟ کیاتمہاری غلط
کاریوں اور غلط کوشیوں کو سزا یاب نہیں ہونا؟؟ جو قومیں وقت سے ہٹ کر چلنا
چاہیں اور وقت کی قدر کھو دیں اور وقت پر راستے کا تعین نہ کرسکیں انکا حال
تمہارے آباؤ اجداد دیکھ چکے ہیں تم نے ان سے کیا سیکھا؟؟ کیا تم طاقت کے بل
بوتے اور حرام کی دولت جو تم نے لوگوں کا خون پسینہ ایک کرکے اور اس دھرتی
ماں کی لوٹ مار کرکے کمائی ہے اور اسے اغیار کے خزانوں میں رکھ کر محفوظ
سمجھ رہے ہو یہ دولت تمہیں اپنے وطن کے خزا ے اور دھرتی کی غداری پر بچھوؤں
اور سانپ کی شکل میں تمہیں ضرور ڈسے گی۔ ہمیں اس وقت کا شدت سے انتظا ر ہے
جب ہم تمہیں فرانس کے بادشاہ کنگ لوئس اور اسکی ملکہ میری جسے 1793ء میں
انقلاب فرانس کے دوران ایک بہت بڑے انقلابی جتھے نے محل پر حملہ کرکے دونوں
کو گرفتار کر لیا او ر بعد میں ہزاروں لوگوں کے درمیان گنڈاسوں سے انکے سر
تن سے جدا کر دئے گئے۔ ہمیں اسوقت کا انتظار ہے جب فرانس کی ملکہ اور
بادشاہ کو زندان میں ڈالا گیا اور وہ تمام رات ٹھٹھرتی ہوئی سردی سے بچنے
کیلئے کمبل کیلئے تڑپتے رہے مگر انہیں ساری رات سردی میں جاگ کر گزارنا پڑی
اور پھر انکا انجام رہتی دنیا تک لوگوں کیلئے ایک سبق کی حیثیت اختیار کر
گیا۔ ایسے کرداروں کو آخر کار سزا یاب ہونا ہی ہوتا ہے ، انہیں انکے انجام
تک پہنچنا ہی ہوتا ہے جلد یا بدیر۔ کیا اگر ہم تاریخ سے ہٹ کر چلینگے تو وہ
ہمیں راستہ دے دیگی؟ نہیں ! ہرگز نہیں، جمہوریت کا راگ الاپ کر اس قوم کو
لوٹنے والو تمہاری سرمایا دارانہ حکومت آخر کار عوام کے مقابلے میں شکست سے
ضرور دوچار ہوگی۔ ہمیں حیرت ہے کہ ہم دولت اور طاقت کے زعم میں یہ کیوں
بھول جاتے ہیں کہ ان چیزوں میں کوئی حقیقیت نہیں ہے اور حقیقیت وہی ہے جو
تمہارے لئے دیوار پر لکھی جا چکی ہے۔ ہم برسو ں سے تاریخ کے دسترخوان پر
حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے مگر حقیقت سے انکار کرنے والے یہ
بھول چکے ہیں کہ یہ حرام خوری ایک روز ضرور انکے جبر کو توڑے گی اور یہ قوم
تمہاری چابک دستیوں اور مظالم سے ضرور نجات حاصل کریگی۔ جو قومیں مخصوس
تناظر میں اپنے حالات کا جائزہ لیکر سنبھلنے کی کوشش نہیں کر تیں انکی
تباہی لازمی ہے۔ ہمارے خیالات انتہائی بودے، رقیق اور پست ہیں ۔ عالم، ادیب،
مفکر، مصنف ، سائنسدان، شاعر ہمارے حکمرانوں اور رنام نہاد بدبو دار لیڈروں
کی نظر میں اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ وہ تو رقص و سرود کی محافل ، پر تکلف
تناول، نقالوں، بھانڈوں، لطیفہ گوئی کرنے والوں، اداکاروں، مسخروں اور بے
ہنگم نچنیوں اور گویوں کے رسیا ہیں۔ سو ہمیں اس تناظر میں دیکھنے کیلئے
دیدہ بینا کی ضرورت ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں، ہمارے لچھن کیا ہیں، یہ باتیں
مسلۂ فیسا غورس کی مانند نہیں ہیں جو ہماری سمجھ سے بالا تر ہوں۔ ہم سب کچھ
جانتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ پر منتر پڑھ کر انتہائی کھولتے ہوئے پانی میں اس
امید پر کہ ہمارا ہاتھ نہیں جلے گا اسے جلانے کے درپے ہیں۔آگ کا کام جلانا
ہے۔ یہ وہ آتش نہیں جسمیں موسیٰ کود جائے اور وہ گلنار بن جائے۔ اب نہ ہی
موسیٰ پیدا ہوگا اور نہ ہی وہ آگ کہ جو موسیٰ کے کودنے سے گلنار ہوجائے یہ
تشہیبات ہیں، استعارات ہیں انہیں سمجھنے کیلئے گویوں، بھنڈارچیوں اور ناچنے
والوں کے دماغ کی نہیں بلکہ مفکرانہ اور صلاحیتوں سے بھرپور دماغ کی ضرورت
ہے۔ سو ہمیں اپنے انجام اور مقسوم کو سمجھنے میں کوئی الجھن یا پھر کوئی
خوش فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ کارہائے مملکت کو چلانے کیلئے جنسی محرکات،
کھانے کے رسایاؤں، جسم و جمال کے پروردہ، عریانی کے دلداہ، رقص اور ہیجان
انگیز مناظر کے دل گفتاؤں اور پراگندہ حکمرانوں کی نہیں بلکہ علم کے
میناروں، تہذیب کے پاسبانوں، سائینسی سوچ کے حامل، اور انتہائی مخلص اور
دیانتدار رہنماؤں کی ضرورت ہے جو عنان حکومت کے اس مرجھاتے ہوئے درخت کو
آکاش بیل سے بچا کر پھلنے پھولنے اور تناور ہونے میں اپنی جان کی قربانی
پیش کرتے ہوئے اس ملک کی نیا کو ڈوبنے سے بچا لیں۔ جن حکمرانوں کے دل خوف
سے لرزاں ہیں ، اپنے ارد گرد حصار بنا کر خود کو محفوظ کرنے والے ، بندوقوں
کے سائے میں بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر باہر نکلنے والے یہ سہمے ہوئے اور
وحشت زدہ بزدل جو رات کو نہ جانے کتنی سکون آور گولیاں کھا کر سوتے ہیں
بھلا قوم کو بہادری کا کیا درس دینگے۔ دہشت گردوں کے خوف سے انکی ہاں میں
ہاں ملانے والے ، انکی مدد سے عنان حکومت میں آنے والے ۔ انکی سر پرستی
کرنے والے، انکے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے والے ۔ لاشوں پر لاشے
بکھیرنے والے۔ کون نہیں جانتا انہیں ، اب تو انکے اجسام سے سیاہی چھٹ چکی
ہے۔ ہمیں انکے بارے میں خبر ہو چکی ہے۔ ہم نے اب ان خونریز حادثوں سے بہت
کچھ سیکھ لیا ہے۔ ہم ان مجرموں کو جانتے ہیں جنہوں نے ان پیشہ ور مجرموں ،
قاتلوں ، مقابر، مساجد، عبادتگاہوں اور اسکولوں میں معصوم بچوں کے لاشے
گراکر ہمیں سوگوار کیا۔ جنہوں نے ہماری بہنوں کے سہاگ کو خون میں لت پت کیا،
جنہوں نے ماؤں سے بیٹے جدا کر دئے، جنہو ں نے معصوم اور بیگناہوں کے سر تن
سے جدا کر دئے اور ہم ہیں کہ تا حال اپنی مصلحتوں کا شکار ہیں۔ یہ چاہتے
ہیں کہ ہم اونچی اونچی قلعہ نما دیواروں کے درمیان ان حادثوں کی گرم بازاری
میں اپنا کاروبار چلا تے رہیں کہ یہی انکے مفاد میں ہے۔ سرخ موت انکے
انتظار میں ہے اور اب وہ ان سے حقیقت پسند ی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر یہ
مطالبہ پورا نہ ہوا تو تم اسوقت کی تیاری کر لو جب اس عوام کا ہاتھ تمہارے
گریبانوں میں ہوگا اور تمہارے لئے جائے پناہ تنگ کر دی جائیگی۔ |