ذوالحجہ کا مہینہ اور اس کے اعمال؛ قرآن و سنت کی روشنی میں

ذو الحجہ کے مہینے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر متعدد مخصوص اعمال عائد کیے ہیں، جن میں سے سب سے اہم ’حج ‘ہے، جس کی مناسبت سے اس مہینے کا نام ہی ذی الحجہ یا ذوالحجہ پڑ گیا یعنی حج والا مہینہ، اس کے علاوہ اس مہینے میں ایک خاص حکم ہےجانوروں کی’قربانی‘کا، جو کہ’ عید الاضحی‘کے موقع پر کی جاتی ہے۔ان کے علاوہ یا ان ہی سے متعلق چند اعمال اور ہیں، جن سے بعض عوام میں غفلت برتی جاتی ہے، اس لیے ہم یہاں ان تمام پر اجمال کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ ان شاء اللہ

عشرۂ ذی الحجہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ’والفجر، ولیال عشر‘ میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے، وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق یہی عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔ ( معارف القرآن:۸؍۷۳۹)ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اعمال ذی الحجہ کے (شروع) دس دنوں کی نیکیاں ہیں۔ کسی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی (ان دونوں کے علاوہ میں) جہاد کرے، تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دوسرے دنوں کا جہاد بھی اس کی برابری نہیں کرسکتاالبتہ کوئی شخص اپنی جان ومال دونوں جہاد میں خرچ کردے، تو وہ بے شک اس عشرے کے اعمال سے بہتر ہوسکتا ہے۔ (بخاری:۹۶۹)یہ حدیث عشرۂ ذی الحجہ کے احترام، برکت، فضیلت اور عظمت کی بیّن دلیل ہے اور چوں کہ یہ دن برکت والے ہیں، اس لیے ان میں ذکرِ الٰہی وانابت الی اللہ بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔

صیام وقیام
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کے پہلے عشرےمیں ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، ان دنوں (یعنی یکم ذی الحجہ سے ۹؍ ذی الحجہ) میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے نفلی روزوں کے برابر اور ایک رات میں قیام کا ثواب شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔ (ترمذی:۷۵۸)

حجِ بیت اللہ
اسلام کے جو پانچ ارکان ہیں، ان میں ایک اہم رکن’حج‘ ہے، شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں، مخصوص فعل سے، مخصوص مکان کی زیارت کرنے کو’حج‘ کہتے ہیں۔ (عمدۃ الفقہ:۴؍۱۲) اس کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے،قرآنِ کریم میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:وَلِلّٰہِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللہَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ۔لوگوں پر اللہ کا حق یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر (کعبہ) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہلِ عالَم سے بے نیاز ہے۔(آل عمران:۹۷)

حج کے فضائل احادیث میں بڑی کثرت سے وارد ہوئے ہیں، یہاں بطور نمونہ ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے۔ حضرت ابو ہرہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نےحضرت نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص رضاء الہٰی کے لیے حج کرتا ہے، اس طرح کہ اس میں کسی قسم کی فحش اور برائی کی بات نہ کرے اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلا نہ ہو تو وہ حج کے بعد اپنے گھر، گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر واپس لوٹے گا، جس طرح پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک، دنیا میں آیا تھا۔ (بخاری:۱۳۹۹)

خیال رہے جس طرح حج کرنے پر فضائل کی کثرت ہے، اسی طرح اس عظیم ترین عمل سے کوتاہی برتنے پر سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے، رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:جو شخص باوجود استطاعت کےحج نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے، چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ (ترمذی:۸۱۲)

عرفہ کا روزہ
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ (یعنی ۹؍ ذی الحجہ) کا روزہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم:۱۱۶۲)

بال وناخن
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمھارا قربانی کا ارادہ ہو تو تم اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رکے رہو۔ (مسلم:۱۹۷۷)یہ حکم استحبابی ہے اور صرف قربانی کرنے والوں کے ساتھ خاص ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ زیرِ ناف اور بغلوں کی صفائی اور ناخن کاٹے ہوئے ۴۰؍ روز نہ گزر گئے ہوں، اگر چالیس روز گزر گئے ہوں تو امورِ مذکورہ کی صفائی واجب ہے۔ ( احسن الفتاوی:۷؍۴۹۷) اور حدیث میں مذکور ’نہی‘ خلافِ اولیٰ پر محمول ہے۔ (اعلاء السنن:۱۶؍۸۰۰۴)

تکبیرِ تشریق
۹؍ ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے۱۳؍ ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ تکبیرِ تشریق ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، آزاد ہو یا غلام، جماعت سے نماز پڑھنے والا ہو یا منفرد، البتہ ان دنوں کی کوئی نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کے وقت تکبیرِ تشریق پڑھنے کی ضرورت نہیں، اسی طرح پہلے کی کوئی قضا نماز جو کہ واجب الادا تھی، ان دنوں میں اس کی قضا کرے، تو بھی تکبیرِ تشریق نہیں کہی جائے گی۔یہ تکبیر مرد متوسط بلند آواز سے اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔ (خلاصۃ الفتاویٰ:۱؍۲۱۶)علماء نے لکھا ہے کہ نمازِ عید کے بعد بھی تکبیرِ تشریق کا وجوب معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، اگرچہ فی نفسہ فرض نہیں، اسی پر مسلمانوں کا توارث ہے۔ (بحرالرائق:۲؍۲۸۹)تکبیرِ تشریق یہ ہے:اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ (کنز العمال:۱۲۷۵۸)

عید کی رات
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص عیدین(عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں میں شب بیداری اور عبادت کا اہتمام کرے، اس کا دل قیامت کے دن اس وقت بھی زندہ رہے گا، جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ:۱۷۸۲)

عید الاضحیٰ
’عید‘ لفظ ’عود‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں’بار بار آنا‘، چناں چہ اس دن کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن بار بار یعنی ہر سال آتا ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس دن کا نام ’عید‘ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ عود کرتا ہے یعنی بندوں پر اپنی رحمت او ر بخشش کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔ (مظاہر حق جدید:۲؍۲۴۷) ’عید اضحی‘ یا ’عید الاضحی‘ کا مطلب ہے ’بقر عید‘ یعنی مسلمانوں کا وہ تہوار جو دس ذی الحجہ کو منایا جاتا ہے، جس میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ (فیروز اللغات:۹۰۸)

رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ (جن کی اکثریت اب ایمان لاچکی تھی) کے لوگوں کے دو دن کھیل کود (تفریح وغیرہ) کے لیے مقرر تھے۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: یہ دونوں دن کس بات کے لیے ہیں؟ ان لوگوں نے بتایا کہ ایامِ جاہلیت میں ہم لوگ کھیل کود کرتے تھے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو ان دونوں دنوں کے بدلے دوسرے دو دن عنایت فرمائے ہیں اور یہ ان سے بہتر ہیں؛ ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ ( ابو داؤد: ۱۱۳۴)

قربانی
’القربان‘کے معنی ہیں ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی قُرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعنی ’نسکیۃ‘ یعنی ’ذبیحۃ‘ کے آتے ہیں۔ (مفردات القرآن:۴۴۶)قربانی کرنے کا مطلب ہے؛عیدِ اضحی کو اونٹ یا دُنبہ وغیرہ قربان کرنا، ذبح کرنا۔ اس لفظ میں یاے تمنائی زائد ہے، کیوں کہ فارسی والوں کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات عربی مصدر کے آگے یاے مصدر ’ی‘ یا زائدہ اکثر بڑھا دیا کرتے ہیں، جیسے: خلاص سے خلاصی وغیرہ۔ (فرہنگِ آصفیہ:۲؍۱۴۶۸)رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: عید الاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (ترمذی:۱۴۹۳)

حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تمھارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انھوں نے عرض کیا: اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی اور فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے (بھی) ایک نیکی۔(ابن ماجہ:۳۱۲۷)نیزرسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو صاحبِ نصاب، باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ (ابن ماجہ:۳۱۲۳)

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347304 views (M.A., Journalist).. View More