میدانِ حشر
(syed imaad ul deen, samandri)
روز قیامت کی قسم یاد فرماتا ہوں
اور اس جان کی قسم جو اپنے اوپر بہت ملامت کرے ،کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ
ہم ہر گز اس کی ہڈیا ں جمع نہ فرمائیں گے،کیوں نہیں ہم قادر ہیں کہ اس کے
پور ٹھیک بنا دیں،بلکہ آدمی چاہتا ہے کہ اس کی نگاہ کے سامنے بدی
کرے،پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہوگا،پھر جس دن آنکھ چوندھیائے گی ،اور چاند
گہے گا ،اور سورج اور چاند ملادیئے جائیں گے ،اس دن آدمی کہے گا کدھر بھاگ
کر جاؤں،ہر گز نہیں کوئی پناہ نہیں،اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا کر ٹھہرنا
ہے ،اس دن آدمی کو اس کا سب اگلا پچھلا جتا دیا جائے گا ،بلکہ آدمی خود ہی
اپنے حال پر پوری نگاہ رکھتا ہے،اور اگر اس کے پاس جتنے بہانے ہوں سب
لاڈالے،جب بھی نہ سنا جائے گا تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی
زبان کو حرکت نہ دو ،بے شک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمّہ ہے،تو جب
ہم اسے پڑھ چکیں اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو،پھر بے شک اس کی
باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمّہ ہے(سورۂ قیامہ1-19)
پھر جب اﷲ تعالیٰ چاہے گا، اسرافیل علیہ السلام کو زندہ فرمائے گا اور صور
کو پیدا کرکے دوبارہ پھونکھنے کا حکم دے گا، صور پھونکھتے ہی تمام اوّلین و
آخرین، ملائکہ و اِنس و جن و حیوانات موجود ہو جائیں گے۔ (1) سب سے پہلے
حضور انور ﷺ قبر مبارک سے یوں برآمد ہونگے کہ دَہنے ہاتھ میں صدیقِ اکبر ؓ
کا ہاتھ، بائیں ہاتھ میں فاروقِ اعظم ؓ کا ہاتھ (2)، پھر مکہ معظمہ ومدینہ
طیبہ کے مقابر میں جتنے مسلمان دفن ہیں، سب کو اپنے ہمراہ لے کر میدانِ حشر
میں تشریف لے جائیں گے۔ (3)
عقیدہ (۱): قیامت بیشک قائم ہو گی، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (4)
عقیدہ (۲): حشر صرف رُوح کا نہیں، بلکہ روح و جسم دونوں کا ہے، جو کہے صرف
روحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہ ہوں گے، وہ بھی کافر ہے۔ (5)
عقیدہ (۳): دنیا میں جو رُوح جس جسم کے ساتھ متعلق تھی اُس رُوح کا حشر
اُسی جسم میں ہوگا، یہ نہیں کہ کوئی نیا جسم پیدا کرکے اس کے ساتھ روح
متعلق کر دی جائے۔ (6)
عقیدہ (۴): جسم کے اجزا اگرچہ مرنے کے بعد متفرق ہوگئے اور مختلف جانوروں
کی غذا ہوگئے ہوں، مگر اﷲ تعالیٰ ان سب اجزا کو جمع فرماکر قیامت کے دن
اٹھائے گا (7)، قیامت کے دن لوگ اپنی اپنی قبروں سے ننگے بدن، ننگے پاؤں،
نَاخَتْنہَ شُدہ اٹھیں گے (8)، کوئی پیدل، کوئی سوار (9) اور ان میں بعض
تنہا سوار ہوں گے اور کسی سواری پر دو۲، کسی پر تین۳، کسی پر چار۴، کسی پر
د۱۰س ہوں گے۔ (10) کافر منہ کے بل چلتا ہوا میدانِ حشر کو جائے گا (11)،
کسی کو ملائکہ گھسیٹ کر لے جائیں گے، کسی کو آگ جمع کرے گی۔ (12)
یہ میدانِ حشر ملکِ شام کی زمین پر قائم ہوگا۔ (13) زمین ایسی ہموار ہو گی
کہ اِس کنارہ پر رائی کا دانہ گر جائے تو دوسرے کنارے سے دکھائی دے (14)،
اُس دن زمین تانبے کی ہوگی (15) اور آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ راوی
حدیث نے فرمایا:
''معلوم نہیں میل سے مراد سُرمہ کی سلائی ہے یا میلِ مُسَافت'' (16)، اگر
میل مسافت بھی ہو تو کیا بہت فاصلہ ہے...؟! کہ اب چار ہزار برس کی راہ کے
فاصلہ پر ہے اور اِس طرف آفتاب کی پیٹھ ہے(17) ، پھر بھی جب سر کے مقابل
آجاتا ہے، گھر سے باہر نکلنا دشوار ہوجاتا ہے، اُس وقت کہ ایک میل کے فاصلہ
پر ہوگا اور اُس کا منہ اِس طرف کو ہوگا، تپش اورگرمی کا کیا پوچھنا...؟!
(18) اور اَب مِٹی کی زمین ہے، مگر گرمیوں کی دھوپ میں زمین پرپاؤں نہیں
رکھا جاتا، اُس وقت جب تانبے کی ہوگی اور آفتاب کا اتنا قرب ہوگا، اُس کی
تپش کون بیان کرسکے...؟! اﷲ (عزوجل) پناہ میں رکھے۔ بھیجے کھولتے ہوں گے
(19) اور اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستّر گز زمین میں جذب ہوجائے گا
(20)، پھر جو پسینہ زمین نہ پی سکے گی وہ اوپر چڑھے گا، کسی کے ٹخنوں تک ہو
گا، کسی کے گھٹنوں تک، کسی کے کمر کمر، کسی کے سینہ، کسی کے گلے تک، اور
کافر کے تو منہ تک چڑھ کر مثلِ لگام کے جکڑ جائے گا، جس میں وہ ڈبکیاں
کھائے گا۔(21) اس گرمی کی حالت میں پیاس کی جو کیفیت ہوگی محتاجِ بیان
نہیں، زبانیں سُوکھ کر کانٹا ہوجائیں گی، بعضوں کی زبانیں منہ سے باہر نکل
آئیں گی، دل اُبل کر گلے کو آجائیں گے، ہر مُبتلا بقدرِ گناہ تکلیف میں
مبتلا کیا جائے گا، جس نے چاندی سونے کی زکوٰۃ نہ دی ہو گی اُس مال کو خوب
گرم کرکے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ پر داغ کریں گے (22)، جس نے
جانوروں کی زکوٰۃ نہ دی ہوگی اس کے جانور قیامت کے دن خوب طیار ہو کر آئیں
گے اور اس شخص کو وہاں لٹائیں گے اور وہ جانور اپنے سینگوں سے مارتے اور
پاؤں سے روندتے اُس پر گزریں گے، جب سب اسی طرح گزر جائیں گے پھر اُدھر سے
واپس آکر یوہیں اُس پر گزریں گے، اسی طرح کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ لوگوں
کا حساب ختم ہو(23) وعلی ھذا القیاس۔
پھر باوجود ان مصیبتوں کے کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہ ہوگا، بھائی سے بھائی
بھاگے گا، ماں باپ اولاد سے پیچھا چھڑائیں گے، بی بی بچے الگ جان چھڑائیں
گے (24)، ہر ایک اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار، کون کس کا مدد گار ہوگا...!
حضرت آدم علیہ السلام کو حکم ہو گا، اے آدم علیہ السلام! دوزخیوں کی جماعت
الگ کر، عر ض کرینگے: کتنے میں سے کتنے؟ ارشاد ہوگا: ہر ہزار سے نو سو
ننانوے،
یہ وہ وقت ہو گا کہ بچے مارے غم کے بوڑھے ہوجائیں گے، حمل والی کا حمل ساقط
ہو جائے گا، لوگ ایسے دکھائی دیں گے کہ نشہ میں ہیں، حالانکہ نشہ میں نہ
ہوں گے، لیکن اﷲ کا عذاب بہت سخت ہے (25)، غرض کس کس مصیبت کا بیان کیا
جائے، ایک ہو، دو۲ ہوں، ۱۰۰سو ہوں، ۱۰۰۰ہزار ہوں تو کوئی بیان بھی کرے،
ہزارہا مصائب اور وہ بھی ایسے شدید کہ الاماں الاماں...! اور یہ سب تکلیفیں
دو چار گھنٹے، دو چار دن، دو چار ماہ کی نہیں، بلکہ قیامت کا دن کہ پچاس
ہزار برس کا ایک دن ہوگا (26)، قریب آدھے کے گزر چکا ہے اور ابھی تک اھلِ
محشر اسی حالت میں ہیں۔ اب آپس میں مشورہ کریں گے کہ کوئی اپنا سفارشی
ڈھونڈنا چاہیے کہ ہم کو اِن مصیبتوں سے رہائی دلائے، ابھی تک تو یہی نہیں
پتا چلتا ہے کہ آخر کدھر کو جانا ہے، یہ بات مشورے سے قرار پائے گی کہ حضرت
آدم علیہ السلام ہم سب کے باپ ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اِن کو اپنے دستِ قدرت سے
بنایا اور جنت میں رہنے کو جگہ دی اور مرتبہ نبوت سے سرفراز فرمایا، اُنکی
خدمت میں حاضر ہونا چاہیے، وہ ہم کو اِس مصیبت سے نجات دلائیں گے۔
غرض اُفتاں و خیزاں کس کس مشکل سے اُن کے پاس حاضر ہو ں گے اور عرض کریں
گے: اے آدم علیہ السلام! آپ ابو البشر ہیں، اﷲ عزوجل نے آپ کو اپنے دستِ
قدرت سے بنایا اور اپنی چُنی ہوئی روح آپ میں ڈالی اور ملائکہ سے آپ کو
سجدہ کرایا اور جنت میں آپ کو رکھا، تمام چیزوں کے نام آپ کو سکھائے، آپ کو
صفی کیا، آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں...؟! آپ فرمائیں گے میں اس
لائق نہیں، مجھے اپنی پڑی ہے(27)، تم کسی اور کے پاس جاؤ! (28) عرض کریں
گے، کہ آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں...؟ فرمائیں گے(29): تم ابراہیم خلیل
اﷲ علیہ السلام کے پاس جاؤ(30)، کہ اُن کو اﷲ تعالیٰ نے مرتبہ خُلّت سے
ممتاز فرمایا ہے(31)، لوگ یہاں حاضر ہوں گے، وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں
اِس کے قابل نہیں، مجھے اپنا اندیشہ ہے۔
مختصر یہ کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ و السلام کی خدمت میں بھیجیں گے،
وہاں بھی وہی جواب ملے گا،پھر موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ و
السلام کے پاس بھیجیں گے، وہ بھی یہی فرمائیں گے: کہ میرے کرنے کا یہ کام
نہیں(32)، آج میرے رب نے وہ غضب فرمایا ہے، کہ ایسا نہ کبھی فرمایا، نہ
فرمائے، مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ(33)، لوگ عرض
کریں گے: آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں؟ فرمائیں گے: تم اُن ﷺ کے حضور حاضر
ہو، جن کے ہاتھ پر فتح رکھی گئی، جو آج بے خوف ہیں ﷺ (34)، اور وہ تمام
اولادِ آدم کے سردارہیں ﷺ ، تم محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو، وہ خاتم
النبیین ﷺ ہیں، وہ آج تمہاری شفاعت فرمائیں گے، اُنھیں کے حضور حاضر ہو، وہ
یہاں تشریف فرما ہیں۔ ﷺ (35)
اب لوگ پھِرتے پھِراتے، ٹھوکریں کھاتے، روتے چلّاتے، دُہائی دیتے حاضرِ
بارگاہِ ﷺ بے کس پناہ ہو کر عرض کریں گے(36): اے محمد ﷺ! (37) اے اﷲ کے نبی
ﷺ! حضور ﷺ کے ہاتھ پر اﷲ عزوجل نے فتحِ باب رکھا ہے، آج حضور ﷺ مطمئن
ہیں(38)، اِن کے علاوہ اور بہت سے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے: حضور ﷺ
ملاحظہ تو فرمائیں ہم کس مصیبت میں ہیں! اور کس حال کو پہنچے! حضور ﷺ
بارگاہِ خداوندی میں ھماری شفاعت فرمائیں اورہم کو اس آفت سے نجات دلوائیں۔
(39) جواب میں ارشاد فرمائیں گے ﷺ: ((أَنَا لَھَا))(40) میں اس کام کے لیے
ہوں، ((أنَا صَاحِبُکُمْ))(41) میں ہی وہ ہوں جسے تم تمام جگہ ڈھونڈ آئے،
یہ فرماکر بارگاہِ عزّت میں حاضر ہوں گے اور سجدہ کریں گے، ارشاد ہوگا:
((یَا مُحَمَّدُ! ارْفَعْ رَأسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہ
وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ))(42)
''اے محمد ﷺ ! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو، تمھاری بات سنی جائے گی اور مانگو جو
کچھ مانگو گے ملے گا اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت مقبول ہے۔
'' دوسری روایت میں ہے:
((وَقُلْ تُطَعْ))(43)
''فرماؤ! تمہاری اِطاعت کی جائے۔''
پھر تو شفاعت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے
دانہ سے کم سے کم بھی ایمان ہوگا، اس کے لیے بھی شفاعت فرماکر اُسے جہنم سے
نکالیں گے ﷺ ، یہاں تک کہ جو سچے دل سے مسلمان ہوا اگرچہ اس کے پاس کوئی
نیک عمل نہیں ہے، اسے بھی دوزخ سے نکالیں گے ﷺ ۔ (44) اَب تمام انبیا علیہ
السلام اپنی اُمّت کی شفاعت فرمائیں گے(45)، اولیائے کرام رَحْمَۃُ اللّٰہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ (46)،
شہدا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (47)، علما رَحْمَۃُ اللّٰہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ (48)، حُفّاظ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (49)،
حُجّاج رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (50)، بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی
منصبِ دینی عنایت ہوا، اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کریگا رَحْمَۃُ اللّٰہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ ۔(51) نابالغ بچے جو مرگئے ہیں، اپنے ماں باپ کی شفاعت
کریں گے(52)، یہاں تک کہ علما کے پاس کچھ لوگ آکر عرض کریں گے: ہم نے آپ کے
وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھر دیا تھا(53)، کوئی کہے گا :کہ میں نے آپ
کو استنجے کے لیے ڈھیلا دیا تھا (54)، علما اُن تک کی شفاعت کریں گے
رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۔
عقیدہ (۵): حساب حق ہے، اعمال کا حساب ہونے والا ہے۔ (55)
عقیدہ (۶): حساب کا منکر کافر ہے (56)، کسی سے تو اس طرح حساب لیا جائے گا
کہ خُفیۃً (57) اُس سے پوچھا جائے
گا: تو نے یہ کیا اور یہ کیا؟ عرض کریگا: ہاں اے رب! یہاں تک کہ تمام
گناہوں کا اقرار لے لے گا، اب یہ اپنے دل میں سمجھے گا کہ اب گئے، فرمائے
گا: کہ ہم نے دنیا میں تیرے عیب چھپائے اور اب بخشتے ہیں۔ (58) اور کسی سے
سختی کے ساتھ ایک ایک بات کی باز پرس ہوگی، جس سے یوں سوال ہوا، وہ ھلاک
ہوا۔ (59) کسی سے فرمائے گا: اے فلاں! کیا میں نے تجھے عزت نہ دی...؟! تجھے
سردار نہ بنایا...؟! اور تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ وغیرہ کو مُسخّر نہ
کیا...؟! ان کے علاوہ اور نعمتیں یاد دلائے گا، عر ض کریگا: ہاں! تُو نے سب
کچھ دیا تھا، پھر فرمائے گا: تو کیا تیراخیال تھا کہ مجھ سے ملنا ہے؟ عرض
کریگا کہ نہیں، فرمائے گا: تو جیسے تُو نے ہمیں یاد نہ کیا، ہم بھی تجھے
عذاب میں چھوڑتے ہیں۔
بعض کافر ایسے بھی ہوں گے کہ جب نعمتیں یاد دلا کر فرمائے گا کہ تُو نے کیا
کیا؟ عرض کریگا: تجھ پر اور تیری کتاب اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا، نماز
پڑھی، روزے رکھے، صدقہ دیااو ر ان کے علاوہ جہاں تک ہوسکے گا، نیک کاموں کا
ذکر کر جائے گا۔ ارشاد ہو گا: تو اچھا تُو ٹھہر جا! تجھ پر گواہ پیش کیے
جائیں گے، یہ اپنے جی میں سوچے گا: مجھ پر کون گواہی دیگا...؟! اس وقت اس
کے مونھ پرمُہرکر دی جائے گی اور اَعضا کو حکم ہوگا: بول چلو، اُس وقت اُس
کی ران اور ہاتھ پاؤں، گوشت پوست، ہڈیاں سب گواہی دیں گے کہ یہ تو ایسا تھا
ایسا تھا، وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(60)
نوٹ: حوالہ جات کے نیچے حصہ دوم بھی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـ
1۔۔۔۔۔۔ ''شعب الإیمان''، باب في حشر الناس۔۔۔ إلخ، فصل في صفۃ یوم
القیامۃ، الحدیث: ۳۵۳، ج۱، ص۳۱۲۔۳۱۴.
2۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب المناقب، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لأبي
بکر ثم عمر: ((ہکذا نبعث یوم القیامۃ))، الحدیث: ۳۶۸۹، ج۴، ص۳۷۸ .
3۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب المناقب، باب أنا أول من تنشق عنہ الأرض، ثم
أبو بکر وعمر، الحدیث: ۳۷۱۲، ج۵، ص۳۸۸.
4۔۔۔۔۔۔ (وَاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَا) پ ۱۷، الحج: ۷.
في ''الشفا''، فصل في بیان ما ہو من المقالات، ج۲، ص۲۹۰: وفي ''منح الروض
الأزہر'' للقاریئ، فصل في المرض والموت والقیامۃ، ص۱۹۵.
5۔۔۔۔۔۔ في ''المعتقد المنتقد''، ھل الروح أیضاً جسم فلا حشر إلاّ جسماني؟،
ص۱۸۱
6۔۔۔۔۔۔ ( قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ وَعِنْدَنَا
کِتَابٌ حَفِیْظٌ) پ۲۶، ق: ۴. في ''تفسیر روح البیان''، ج۹، ص۱۰۴، تحت ہذہ
الآیۃ
7۔۔۔۔۔۔ عکرمۃ مولی ابن عباس، الحدیث: ۴۳۷۴، ج۳، ص۳۸۹. وفي ''البدور
السافرۃ في أمور الآخرۃ''، للسیوطي، ص۴۱. .
8۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب فناء الدنیا...
إلخ، الحدیث: ۲۸۶۹، ص۱۵۲۹. ''صحیح البخاري''، کتاب أحادیث الأنبیائ،
الحدیث: ۳۳۴۹، ج۲، ص۴۲۰.
9۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب التفسیر، باب: ومن سورۃ النحل، الحدیث:
۳۱۵۳، ج۵، ص۹۶.
10۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب الرقاق، باب کیف الحشر، الحدیث: ۶۵۲۲، ج۴،
ص۲۵۲. ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب فناء الدنیا...
إلخ، الحدیث: ۲۸۶۱، ص۱۵۳۰. وفي''المرقاۃ''، کتاب الفتن، تحت الحدیث: ۵۵۳۴،
ج۹،ص
11۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب صفات المنافقین وأحکامھم، یحشر الکافر علی
وجھہ، الحدیث: ۲۸۰۶، ص۱۵۰۸. ''صحیح البخاري''، کتاب الرقاق، باب کیف الحشر،
الحدیث:۶۵۲۳، ج۴، ص۲۵۳.
12۔۔۔۔۔۔ ''سنن النساءي''، کتاب الجنائز، البعث، الحدیث: ۲۰۸۳، ص۳۵۰.
13۔۔۔۔۔۔ ''المسند''، للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۰۰۴۲، ۲۰۰۵۱ ج۷،
ص۲۳۵۔۲۳۷.
14۔۔۔۔۔۔ ''ملفوظات اعلٰی حضرت''، حصہ چہارم، ص۴۵۵.
15 ۔۔۔۔۔۔ (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ) پ۱۴، إبراہیم:۴۸.
في''تفسیر الطبري' (''تفسیر الطبري''، ج۷، ص۴۷۹۔۴۸۳)۔ (''البدور السافرۃ''
للسیوطي، الحدیث: ۷۴، ص۴۷). (''تفسیر مظہري''، تحت الآیۃ ۴۸، ج۵، ص۳۴۴،
مترجم).
16۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الجنۃ... إلخ، باب في صفۃ یوم القیامۃ...إلخ،
الحدیث: ۲۸۶۴، ص۱۵۳۱۔۱۵۳۲.
17۔۔۔۔۔۔ في ''المرقاۃ''، ج۹، ص
18۔۔۔۔۔۔ ''ملفوظات اعلٰی حضرت''، حصہ چہارم، ص۴۵۴۔۴۵۵.
19۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۲۲۴۸، ج۸، ص۲۷۹.
20۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب الرقاق، الحدیث: ۶۵۳۲، ج۴، ص۲۵۵.
21۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۷۴۴۴، ج۶، ص۱۴۶.
22۔۔۔۔۔۔ پ۱۰، التوبۃ:۳۴۔۳۵.
23۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم'' ، کتاب الزکاۃ ، باب إثم مانع الزکاۃ، الحدیث: ۹۸۷،
ص۴۹۳.
24۔۔۔۔۔۔ (یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہٖ
وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہٖ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ
یُّغْنِیْہِ). (پ ۳۰، عبس: ۳۴۔۳۷).
25۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب أحادیث الأ نبیائ، باب قصۃ یأجوج ومأجوج،
الحدیث: ۳۳۴۸، ج۲، ص۴۱۹۔۴۲۰.
26۔۔۔۔۔۔ (فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ، خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ)، پ۲۹،
المعارج: ۴. في ''الدرالمنثور''، ج۸، ص۲۷۹،
27۔۔۔۔۔۔ ملتقطاً، المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۵۴۶، ج۱، ص۶۰۳.
28۔۔۔۔۔۔ ((اذھبوا إلی غیري)). ''صحیح البخاري''،کتاب التفسیر،
باب:(ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِ نَّہ،... إلخ)، الحدیث:
۴۷۱۲، ج۳، ص۲۶۰.
29۔۔۔۔۔۔ ((فیقولون: إلی من تأمرنا؟ فیقول)).''الخصائص الکبری''، باب
الشفاعۃ، ج۲، ص۳۸۳.
30۔۔۔۔۔۔ ((لکن ائتوا إبراہیم خلیل اللہ علیہ السلام)). ''المسند'' للإمام
أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۵۴۶، ج۱، ص۶۰۳.
31۔۔۔۔۔۔ (( فإن اللہ ۔عزوجل۔ اتخذہ خلیلاً)). ''المسند'' للإمام أحمد بن
حنبل، الحدیث: ۱۵، ج۱، ص۲۱.
32۔۔۔۔۔۔. ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۵۴۶، ج۱، ص۶۰۳۔۶۰۴.
33۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب التفسیر، باب: (ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا
مَعَ نُوْحٍ اِنَّہ،... إلخ)، الحدیث: ۴۷۱۲، ج۳، ص۲۶۰.
34۔۔۔۔۔۔ ''الخصائص الکبری''، باب الشفاعۃ، ج۲، ص۳۸۳، ملتقطاً.
35۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۵، ج۱، ص۲۱.''المسند''
للإمام أحمد بن حنبل: الحدیث: ۲۵۴۶، ج۱، ص۶۰۴.
36۔۔۔۔۔۔ اعلی حضرت امام اھلسنت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا
خان علیہ الرحمۃ الرحمن اپنے مخصوص انداز میں ان الفاظ کے ساتھ اس محشر کے
دن کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں :''اب وہ وقت آیا کہ لوگ تھکے ہارے ،
مصیبت کے مارے ، ہاتھ پاؤں چھوڑے ، چار طرف سے امیدیں توڑے ، بارگاہِ عرش
جاہ، بیکس پناہ، خاتم دورہ رسالت ، فاتح بابِ شفاعت، محبوب باوجاہت، مطلوب
بلند عزت، ملجاء ِعاجزاں، ماوٰی بیکساں، مولائے دوجہان، حضور پرنور محمد
رسول اللہ شفیع یوم النشور، افضل صلوات اللہ واکمل تسلیمات اللہ وازکیٰ
تحیات اللہ وانمی برکات اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وعیالہ میں حاضر آئے، اور
بہزاراں ہزار نالہائے زار ودلِ بیقرار وچشمِ اشکبار یوں عرض کرتے ہیں۔
''الفتاوی الرضویۃ''، ج۳۰، ص۲۲۳.
37۔۔۔۔۔۔ (( یا محمد)). ''صحیح البخاري''، کتاب التفسیر، باب: (ذُرِّیَّۃَ
مَنْ حَمَلْنَا... إلخ)، الحدیث: ۴۷۱۲، ج۳، ص۲۶۰.
38۔۔۔۔۔۔ ((یا نبي اللہ! أنت الذي فتح اللہ بک وجئت في ھذا الیوم آمنا)).
''الخصائص الکبری''، باب الشفاعۃ، ج۲، ص۳۸۳، ملتقطاً.
39۔۔۔۔۔۔ ((اشفع لنا إلی ربک، ألا تری إلی ما نحن فیہ؟ ألا تری إلی ما قد
بلغنا)). ''صحیح مسلم''، کتاب الإیمان، الحدیث: ۳۲۷، ص۱۲۵.
40۔۔۔۔۔۔ ((فأقول: أنا لھا)). ''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، باب کلام
عزوجل تعالی یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم، الحدیث: ۷۵۱۰، ج۴، ص۵۷۷.
41۔۔۔۔۔۔ ((أنا صاحبکم)). ''المعجم الکبیر'' للطبراني، الحدیث: ۶۱۱۷، ج۶،
ص۲۴۸.
42۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ
مع الأنبیاء وغیرھم، الحدیث: ۷۵۱۰، ج۴، ص۵۷۷. وفي روایۃ: ''صحیح مسلم'':
((فیقال: یا محمد! ارفع رأسک، قل تسمع، سل تعطہ، اشفع تشفع)). کتاب
الإیمان، باب أدنی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا، الحدیث: ۳۲۲ (۱۹۳)، ص۱۲۲.
43۔۔۔۔۔۔ وفي روایۃ ''المسند'' للشاشي: ((فیقال: ارفع رأسک، قل تطع، واشفع
تشفع)). الحدیث: ۱۱۱۵، ج۳، ص۳۵۳.
44۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ
مع الأنبیاء وغیرھم، الحدیث:۷۵۱۰، ج۴، ص۵۷۷۔۵۷۸.
45۔۔۔۔۔۔ ''المعجم الأوسط'' للطبراني، الحدیث: ۳۰۴۴، ج۲، ص۲۰۹، و''مجمع
الزوائد''، الحدیث: ۱۸۵۲۹، ج۱۰، ص۶۸۹. ''سنن ابن ماجہ''، أبواب الزھد، باب
ذکر الشفاعۃ، الحدیث: ۴۳۱۳، ج۴، ص۵۲۶.
46۔۔۔۔۔۔ في ''فتح الباري''، کتاب الرقاق، باب الصراط جسر جہنم، ج۱۱، ص۳۹۰
47۔۔۔۔۔۔ ''سنن أبيداود''، کتاب الجہاد، باب في الشہید یشفع، الحدیث: ۲۵۲۲،
ج۳، ص۲۳.
48۔۔۔۔۔۔ ''شعب الإیمان''، باب في طلب العلم، الحدیث: ۱۷۱۷، ج۲،
ص۲۶۸.''مسند الفردوس'' للدیلمي، الحدیث: ۸۵۱۷، ج۲، ص۵۰۳.
49۔۔۔۔۔۔ ''سنن ابن ماجہ''، أبواب السنۃ، باب فضل من تعلم القرآن وعلّمہ،
الحدیث: ۲۱۶، ج۱، ص۱۴۱.
50۔۔۔۔۔۔ ''البحر الزخار بمسند البزار''، مسند أبي موسی الأشعري، الحدیث:
۳۱۹۶، ج۸، ص۱۶۹.''المصنف'' لعبد الرزاق، باب فضل الحج، الحدیث: ۸۸۳۸، ج۵،
ص۵.
51۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ما جاء في الشفاعۃ...
إلخ، الحدیث: ۲۴۴۸، ج۴، ص۱۹۹.''المعجم الکبیر''،للطبراني، الحدیث: ۸۰۵۹،
ج۸، ص۲۷۵.
52۔۔۔۔۔۔ ''البدور السافرۃ في الأمور الآخرۃ''، الحدیث: ۱۱۵۵۔۱۱۵۶، ص۳۶۲.
''کنز العمال''، کتاب القیامۃ، الحدیث: ۳۹۳۰۱، ج۱۴، ص۲۰۰.
53۔۔۔۔۔۔ ''سنن ابن ماجہ''، کتاب الأدب، باب فضل صدقۃ المائ، الحدیث: ۳۶۸۵،
ج۴، ص۱۹۶.''مشکاۃ المصابیح''، کتاب أحوال القیامۃ وبدء الخلق، ج۲، ص۳۲۷،
الحدیث:۵۶۰۴.
54۔۔۔۔۔۔ في ''المرقاۃ''، ج۹، ص۵۶۹،
55۔۔۔۔۔۔ في ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۱۰۴
56۔۔۔۔۔۔ في ''منح الروض الأزہر'' للقاري، فصل في المرض والموت والقیامۃ،
ص۱۹۵ وفي ''الشفا''، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، ج۲، ص۲۹۰
57۔۔۔۔۔۔ پوشیدہ۔
58۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب المظالم، باب قول اللہ تعالٰی: (اَلَا
لَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی الظَّالِمِیْنَ)، الحدیث: ۲۴۴۱، ج۲، ص۱۲۶.
59۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب التفسیر، باب: (فَسَوْفَ یُحَاسَبُ
حِسَابًا یَّسِیْرًا)، الحدیث: ۴۹۳۹، ج۳، ص۳۷۵. في ''فتح الباري''، کتاب
الرقاق، تحت الحدیث: ۶۵۳۶، تحت قول: من نوقش الحساب عذّب: (والمراد
بالمناقشۃ الاستقصاء في المحاسبۃ والمطالبۃ بالجلیل والحقیر وترک المسامحۃ،
یقال انتقشت منہ حقي أي: استقصیتہ). ج۱۱، ص۳۴۲.
60۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الزھد والرقائق، الحدیث: ۲۹۶۸، ص۱۵۸۷.
معاد و حشر کا بیان حصہ دوم (2)
نبی ﷺ نے فرمایا: میری اُمّت سے ستّر ہزار بے حساب جنت میں داخل ہوں گے اور
ان کے طفیل میں ہر ایک کے ساتھ ستّر ہزار اور رب عزوجل ان کے ساتھ تین
جماعتیں اور دے گا، معلوم نہیں ہر جماعت میں کتنے ہوں گے، اس کا شمار وہی
جانے۔(1) تہجد پڑھنے والے بِلا حساب جنت میں جائیں گے۔(2) اس امت میں وہ
شخص بھی ہوگا، جس کے ننانوے دفتر گناہوں کے ہوں گے اور ہر دفتر اتنا ہوگا،
جہاں تک نگاہ پہنچے، وہ سب کھولے جائیں گے، رب عزوجل فرمائے گا: ان میں سے
کسی امر کا تجھے انکار تو نہیں ہے؟ میرے فرشتوں کراماً کاتبین نے تجھ پر
ظلم تو نہیں کیا؟ عرض کریگا: نہیں اے رب! پھر فرمائے گا: تیرے پاس کوئی عذر
ہے؟ عرض کریگا: نہیں اے رب! فرمائے گا: ہاں تیری ایک نیکی ھمارے حضور میں
ہے اور تجھ پر آج ظلم نہ ہوگا، اُس وقت ایک پرچہ جس میں ''أَشْھَدُ أَنْ
لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ
وَرَسُوْلُہٗ'' ﷺ ہو گا نکالا جائے گا اور حکم ہوگا جا تُلوا، عرض کرے گا:
اے رب! یہ پرچہ ان دفتروں کے سامنے کیا ہے؟ فرمائے گا: تجھ پر ظلم نہ ہوگا،
پھر ایک پلّے پر یہ سب دفتر رکھے جائیں گے اور ایک میں وہ، وہ پرچہ ان
دفتروں سے بھاری ہو جائے گا۔ (3) بالجملہ اس کی رحمت کی کوئی انتہا نہیں،
جس پر رحم فرمائے، تھوڑی چیز بھی بہت کثیر ہے۔
عقیدہ (۷): قیامت کے دن ہر شخص کو اُس کانامہ اعمال دیا جائے گا(4) ، نیکوں
کے دہنے ہاتھ میں اور بدوں کے بائیں ہاتھ میں(5)، کافر کا سینہ توڑ کر اُس
کا بایاں ہاتھ اس سے پسِ پشت نکال کر پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ (6)
عقیدہ (۸): حوضِ کوثر کہ نبی ﷺ کو مرحمت ہوا، حق ہے۔ (7) اِس حوض کی مسافت
ایک مہینہ کی راہ ہے(8) ، اس کے کناروں پر موتی کے قُبّے ہیں(9) ، چاروں
گوشے برابر یعنی زاویے قائمہ ہیں(10) ، اس کی مٹی نہایت خوشبودار مشک کی
ہے(11) ، اس کا پانی دُودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا (12) اور مشک
سے زیادہ پاکیزہ (13) اور اس پر برتن ستاروں سے بھی گنتی میں زیادہ(14) جو
اس کا پانی پیے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا(15) ، اس میں جنت سے دو پر نالے ہر
وقت گرتے ہیں، ایک سونے کا، دوسرا چاندی کا۔ (16)
عقیدہ (۹): میزان حق ہے۔ اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے
(17)، نیکی کا پلّہ بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اوپر اُٹھے، دنیا کا سا
معاملہ نہیں کہ جو بھاری ہوتا ہے نیچے کو جھکتا ہے۔ (18)
عقیدہ (۱۰): حضور اقدس ﷺ کو اﷲ عزوجل مقامِ محمود عطا فرمائے گا، کہ تمام
اوّلین وآخرین حضور (ﷺ) کی حمد و ستائش کریں گے۔ (19)
عقیدہ (۱۱): حضورِ اقدس ﷺ کو ایک جھنڈا مرحمت ہو گا جس کو لواء الحمد کہتے
ہیں، تمام مومنین حضرت آدم علیہ السلام سے آخر تک سب اُسی کے نیچے ہوں گے۔
(20)
عقیدہ (۱۲): صراط حق ہے ۔یہ ایک پُل ہے کہ پشتِ جہنم پر نصب کیا جائے گا،
بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا (21)، جنت میں جانے کا یہی
راستہ ہے، سب سے پہلے نبی ﷺ گزر فرمائیں گے، پھر اور انبیا و مرسلین علیہ
السلام ، پھر یہ اُمّت پھر اور اُمتیں گزریں گی(22) اور حسبِ اختلافِ اعمال
پُلِ صراط پر لوگ مختلف طرح سے گزریں گے، بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں
گے جیسے بجلی کا کوندا کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہوگیا اور بعض تیز ہواکی
طرح، کوئی ایسے جیسے پرند اڑتا ہے
اور بعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض جیسے آدمی دوڑتا ہے، یہاں تک کہ بعض
شخص سُرین پر گھسٹتے ہوئے اور کوئی چیونٹی کی چال جائے گا(23) اور پُل صراط
کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے (اﷲ (عزوجل) ہی جانے کہ وہ کتنے بڑے ہونگے)
لٹکتے ہوں گے، جس شخص کے بارے میں حکم ہوگا اُسے پکڑلیں گے، مگر بعض تو
زخمی ہو کرنجات پا جائیں گے اور بعض کو جہنم میں گرا دیں گے (24) اور یہ
ھلاک ہوا۔
یہ تمام اھلِ محشر تو پُل پر سے گزرنے میں مشغول، مگر وہ بے گناہ،
گناہگاروں کا شفیع پُل کے کنارے کھڑا ہوا بکمالِ گریہ وزاری اپنی اُمّتِ
عاصی کی نجات کی فکر میں اپنے رب سے دُعا کر رہا ہے: ((رَبِّ سَلِّمْ
سَلِّمْ))(25)، اِلٰہی! ان گناہگاروں کو بچالے بچالے۔ اور ایک اسی جگہ کیا!
حضور (ﷺ) اُس دن تمام مواطن میں دورہ فرماتے رہیں گے، کبھی میزان پر تشریف
لے جائیں گے، وہاں جس کے حسنات میں کمی دیکھیں گے، اس کی شفاعت فرما کر
نجات دلوائیں گے اور فوراً ہی دیکھو تو حوضِ کوثر پر جلوہ فرما ہیں ،
پیاسوں کو سیراب فرمارہے ہیں اور وہاں سے پُل پر رونق افروز ہوئے اور
گِرتوں کو بچایا۔ (26)
غرض ہر جگہ اُنھیں کی دُوہائی، ہر شخص اُنھیں کو پکارتا، اُنھیں سے فریا
دکرتا ہے اور اُن کے سوا کس کوپکارے...؟! کہ ہر ایک تو اپنی فکر میں ہے،
دوسروں کو کیا پوچھے، صرف ایک یہی ہیں، جنہیں اپنی کچھ فکر نہیں اور تمام
عالم کا بار اِن کے ذمّے۔
''صَلّی اللہ تعالی علیہ وَعلٰی آلِہٖ وأَصْحَابِہٖ وَبارَکَ وَسَلَّمَ
اَللّٰھُمَّ نَجِّنَا مِنْ أَھْوَالِ الْمَحْشَرِ بِجَاہِ ھٰذَا النَّبِيِّ
الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ أَفْضَلُ الصَّلاَۃِ
وَالتَّسْلِیْمِ، اٰمِیْنَ !
یہ قیامت کا دن کہ حقیقۃً قیامت کا دن ہے، جو پچاس ہزار برس کا دن ہوگا
(27)، جس کے مصائب بے شمار ہوں گے، مولیٰ عزوجل کے جو خاص بندے ہیں ان کے
لیے اتنا ھلکا کر دیا جائے گا، کہ معلوم ہوگا اس میں اتنا وقت صَرف ہوا
جتنا ایک وقت کی نمازِ فرض میں صَرف ہوتا ہے (28)، بلکہ اس سے بھی کم (29)،
یہاں تک کہ بعضوں کے لیے تو پلک جھپکنے میں سارا دن طے ہو جائے گا۔
(وَمَآ اَمْرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ھُوَ اَقْرَبُ
)(30)
''قیامت کا معاملہ نہیں مگر جیسے پلک جھپکنا، بلکہ اس سے بھی کم۔''
سب سے اعظم و اعلیٰ جو مسلمانوں کو اس روز نعمت ملے گی وہ اﷲ عزوجل کا
دیدار ہے، کہ اس نعمت کے برابر کوئی نعمت نہیں،
جسے ایک بار دیدار میسّر ہوگا، ہمیشہ ہمیشہ اس کے ذوق میں مستغرق(31) رہے
گا، کبھی نہ بھولے گا اور سب سے پہلے دیدارِ الٰہی، حضور اقدس ﷺ کو ہوگا۔
(32)
یہاں تک تو حشرکے اہوال و احوال مختصراً بیان کیے گئے، ان تمام مرحلوں کے
بعد اب اسے ہمیشگی کے گھر میں جانا ہے، کسی کو آرام کا گھر ملے گا، جس کی
آسائش کی کوئی انتہا نہیں، اس کو جنت کہتے ہیں۔یا تکلیف کے گھر میں جانا
پڑے جس کی تکلیف کی کوئی حد نہیں، اسے جہنم کہتے ہیں۔
عقیدہ (۱۳): جنت ودوزخ حق ہیں(33)، ان کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (34)
عقیدہ (۱۴): جنت ودوزخ کو بنے ہوئے ہزارہا سال ہوئے اور وہ اب موجود ہیں،
یہ نہیں کہ اس وقت تک مخلوق نہ ہوئیں، قیامت کے دن بنائی جائیں گی۔ (35)
عقیدہ (۱۵): قیامت و بعث و حشر و حساب و ثواب و عذاب و جنت و دوزخ سب کے
وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں، جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے،
مگر ان کے نئے معنی گھڑے (مثلاً ثواب کے معنی اپنے حسنات کو دیکھ کر خوش
ہونا اور عذاب اپنے بُرے اعمال کو دیکھ کر غمگین ہونا، یا حشر فقط روحوں کا
ہونا)، وہ حقیقۃً ان چیزوں کا منکر ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔(36)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۷۰۶، ج۱، ص۴۱۹.''سنن
الترمذي''، کتاب صفۃ القیامۃ، الحدیث: ۲۴۴۵، ج۴، ص۱۹۸.
2۔۔۔۔۔۔ (تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ
خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ) پ۲۱، السجدۃ:۱۶.
في ''تفسیر الطبري''، ج۱۰، ص۲۳۹، ''شعب الإیمان''، باب في الصلاۃ، تحسین
الصلاۃ والإکثار منھا، الحدیث: ۳۲۴۴، ج۳، ص۱۶۹. في ''المرقاۃ'' ج۱، ص۱۹۴،
3۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب الإیمان، باب ما جاء فیمن یموت وھو یشھد أن
لا إلہ إلاّ اللہ، الحدیث: ۲۶۴۸، ج۴، ص۲۹۰۔۲۹۱.
4۔۔۔۔۔۔ پ۱۵، بني إسرائیل: ۱۳۔۱۴.
5۔۔۔۔۔۔ پ۲۹، الحاقۃ: ۱۹۔۲۰. پ۲۹،الحاقۃ:۲۵. سنن ابن ماجہ''، کتاب الزہد،
باب ذکر البعث، الحدیث: ۴۲۷۷، ج۴، ص۵۰۶.
6۔۔۔۔۔۔ پ۳۰، انشقاق: ۱۰۔۱۲. في ''الجامع لأحکام القرآن'' للقرطبي، ج۱۰،
ص۱۹۲، تحت الآیۃ
7۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۳۵۷۹، ج۴، ص۴۹۱.و
''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۲۵۴۴، ج۴، ص۳۰۵ . في ''شرح
العقائد النسفیۃ''، والحوض حق، ص۱۰۵
8۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب الرقاق، باب الحوض، الحدیث: ۶۵۷۹، ج۴،
ص۲۶۷، . و''صحیح مسلم''، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبیّنا...إلخ،
الحدیث: ۲۲۹۲، ص ۱۲۵۶.
9۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب الرقاق، باب الحوض، الحدیث:۶۵۸۱، ج۴، ص۲۶۸.
وفي ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۳۵۷۹، ج۴، ص۴۹۱.
10۔۔۔۔۔۔ (( وزوایاہ سوائ)). ''صحیح مسلم''، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض
نبیّنا...إلخ، الحدیث: ۲۲۹۲، ص ۱۲۵۶.
11۔۔۔۔۔۔ ((فضربت بیدي إلی تربتہ، فإذا ہو مسکۃ ذفرۃ)). ''المسند'' للإمام
أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۳۵۷۹، ج۴، ص۴۹۱.
12۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبینا وصفاتہ،
الحدیث: ۲۳۰۰، ص۱۲۶۰.
13۔۔۔۔۔۔ ((وأطیب من المسک)). ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث:
۲۳۳۷۷، ج۹، ص۸۹.
14۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبینا وصفاتہ،
الحدیث:۲۳۰۰، ص۱۲۶۰.
15۔۔۔۔۔۔ ((من شرب منہ لم یظمأ بعدہ)). ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل،
الحدیث: ۲۳۳۷۷، ج۹، ص۸۹.
16۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبینا صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم وصفاتہ، الحدیث: ۲۳۰۱، ص۱۲۶۰.
17۔۔۔۔۔۔ في''منح الروض الأزہر''، ص۹۵
18۔۔۔۔۔۔ پ۲۲، فاطر: ۱۰. في ''تکمیل الإیمان''،ص ۷۸: (میزان آخرت برعکس
میزان دنیا است، وعلامت ثقل ارتفاع کفہ بود وعلامت خفت انخفاض). یعنی:
علماء فرماتے ہیں کہ:'' آخرت کی میزان کا بھاری پلڑہ دنیاوی ترازو کے برعکس
ہوگا یعنی بھاری پلڑے کی علامت اس کے اونچے اور مرتفع ہونے اور ھلکے پلڑے
کی علامت اس کے نیچے ہونے کی شکل میں ہوگا۔''
اعلی حضرت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ
الرحمن'' فتاوی رضویہ'' شریف میں فرماتے ہیں: ''وہ میزان یہاں کے ترازو کے
خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا
پلّہ نیچے بیٹھے گا، قال اللہ عزوجل: (اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ
الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ)، پ۲۲،فاطر:۱۰. ترجمہ: اسی
کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اسے بلند کرتا ہے (ت) ،
جس کتاب میں لکھا ہے کہ نیکیوں کا پلہ نیچا ہوگا غلط ہے۔ ''الفتاوی
الرضویۃ'' ، ج۲۹، ص۶۲۶.
19۔۔۔۔۔۔ پ۱۵، الإسرائ: ۷۹.في ''الدر المنثور''، ج۵، ص۳۲۵، وفي ''المسند''
للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۳۷۸۷، ج۲، ص۵۶.
20۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، کتاب المناقب، باب سلوا اللہ لي الوسیلۃ،
الحدیث: ۳۶۲۵، ج۵، ص۳۵۴.
21۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۴۸۴۷، ج۹، ص۴۱۵.''صحیح
مسلم''، کتا ب الإیمان، باب معرفۃ طریق الرؤیۃ، الحدیث: ۳۰۲، ص۱۱۵.
وفي ''شرح العقائد النسفیۃ''، والصراط حق، ص۱۰۵: وفي ''الحدیقۃ الندیۃ''،
ج۱، ص۲۶۸
22۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب الأذان، فضل السجود، الحدیث: ۸۰۶، ج۱،
ص۲۸۲.وفي روایۃ: ''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، الحدیث:۷۴۳۷، ج۴، ص۵۵۱.
في ''فتح الباري''، کتاب الرقاق، باب الصراط جسر جہنم، ج۱۱، ص۳۸۴، تحت
الحدیث: ۶۵۷۳، وفیہ أیضاً، ص۳۸۷
23۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الإیمان، باب معرفۃ طریق الرؤیۃ ، الحدیث:
۳۰۲، ص۱۱۴. وفي ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۱۲۰۰، ج۴، ص۵۱.
24۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الإیمان، باب أدنی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا،
الحدیث: ۳۲۹، ص۱۲۷.
25۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الإیمان، باب أدنی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا،
الحدیث: ۳۲۹، ص۱۲۷.
26۔۔۔۔۔۔ ''سنن الترمذي''، أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق... إلخ، باب ما جاء
في شأن الصراط، الحدیث: ۲۴۴۸، ج۴، ص۱۹۵. و''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل،
الحدیث: ۱۲۸۲۵، ج۴، ص۳۵۶.
27۔۔۔۔۔۔ (ِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ)(پ۲۹،
المعارج : ۴) انظر ص۴۹، تخریج نمبر ۴.
28۔۔۔۔۔۔ ''شعب الإیمان''، باب في حشر الناس بعد ما یبعثون من قبورہم،
الحدیث: ۳۶۲، ج۱، ص۳۲۵.''مشکاۃ المصابیح''،کتاب أحوال القیامۃ وبدء
الخلق،ج۲، الحدیث:۵۵۶۳، ص۳۱۷.
29۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' لللإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۱۷۱۷، ج۴، ص۱۵۱.''شعب
الإیمان''، باب في حشر الناس بعد ما یبعثون من قبورہم، الحدیث:۳۶۱، ج۱،
ص۳۲۴.
30۔۔۔۔۔۔ پ۱۴، النحل: ۷۷.
31۔۔۔۔۔۔مشغول۔
32۔۔۔۔۔۔ ''حجۃ اللہ علی العالمین''، ذکر الخصائص الذي فضل بہا علی جمیع
الأنبیائ، ص۵۳.في روایۃ ''سبل الہدی والرشاد'' ، ج۱۰، ص۳۸۴
33۔۔۔۔۔۔ پ۴، اٰل عمران: ۱۳۳. في تفسیر الخازن''، ج۱، ص ۳۰۱، تحت الآیۃ:
پ۱، البقرۃ:۲۴. في ''تفسیر ابن کثیر''، ج ۱، ص ۱۱۱، تحت الآیۃ وفي''شرح
العقائد النسفیۃ''، ص۱۰۵: ( والجنۃ حق والنارحق).
34۔۔۔۔۔۔ في ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱، ص۳۰۳: وفي ''الشفا''،ج۲، ص۲۹۰
35۔۔۔۔۔۔ في ''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۱۰۵۔۱۰۶:وفي ''منح الروض الأزہر''،
ص۹۸
36۔۔۔۔۔۔ وفي الشفا''،ج۲، ص۲۹۰: ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۲۹، ص۳۸۳۔۳۸۴.
|
|