تبدیلی پرانے کھلاڑیوں سے اور وزیراعلیٰ
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
گزشتہ روز کے کالم میں پی ٹی آئی
کار کنوں کی طرف سے ملا جلا فیٹ بیک آیا کسی نے میری حقیقت پسندی کو
سراہاجب کہ بعض نے میرے کالم کو پی ٹی آئی کے خلاف قرار دیا ۔بحر کیف سب کا
شکریہ میرا کام ہے کہ جو میں دیکھوں اور محسوس کرواس کو اپنی دانش کے مطابق
بیان کرو۔ باقی حقیقت چھپ نہیں سکتی باقول عمران خان اﷲ تعالیٰ برحق ہے وہ
حق کو ظاہر کر تا ہے۔ اس بلد یا تی نظام میں عمران خان نے کئی غلطیاں کی ہے
جو ان سے غیر دانستہ طور پر ہوئی ہے اوران کو احساس بھی ہوا ہے۔ پہلے تو
اتنے زیادہ لو گو ں کو منتخب نہیں کرنا چاہیے تھا ۔پارٹی بنیاد پر ناظم اور
نائب ناظم کا انتخاب کیا جاتا جس کے لیے علاقے کو ووٹوں کے حساب سے تقسیم
کرتے یعنی مثال کے طور پر چار ہزار ووٹوں پر مشتمل علاقے کے لیے ایک ناظم
اور نائب ناظم جو علاقے کے مسائل حل کرتے وہ کافی تھے ۔ سات ممبران کا
انتخاب کسی بھی لحاظ سے درست نہیں تھا۔ اس الیکشن میں جہاں پر دوسری
زیادتیاں ہوئی وہاں پر کونسلروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے گھروں ،
رشتہ داروں اور پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوئے۔ایسے ایسے لوگ کونسلر بن
گئے جن کو اپنے نام کے سوا گاؤں کا ایڈریس بھی لکھنا نہیں آتا ،وہ بھی
منتخب ہوئے۔ پیسوں کازور ہر الیکشن میں زیادہ ہوتا جارہاہے ۔ امیدوار کے
لیے کوئی شرائط نہیں تھے ۔ یہی سسٹم اب دوسرے صوبوں میں آپنا یا جا رہاہے۔
کم از کم دوسرے صوبوں کو کونسلروں کے انتخاب سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
خاندانی سیاست کے خاتمے کے لیے ،اہل اور پارٹی ورکر کو آگے لانے کے لیے
ضروری تھا کہ پارٹی ایم این اے ، سنیٹرزاور ایم پی اے کا بھائی ، بیٹا اور
رشتہ دار الیکشن لڑنے کے لیے ناہل ہوتے اور پارٹی ٹکٹ صرف تنظیم کے مشورے
پر دیے جاتے تو پی ٹی آئی کے اندر اور صوبے میں تبدیل کا آغاز اسی طرح کیا
جاتا، زیادہ تر اہل لوگ سامنے آتے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ زیادہ
ٹکٹپرانے کھلاڑیوں نے ہی تقسیم کیے۔ اس بلدیاتی انتخابات میں جہاں الیکشن
لڑنے کے لیے ہر جماعت نے لاکھوں روپے لگائے وہاں پر ناظم اور نائب ناظم
تحصیل اور ضلع کے لیے تین اور چار کروڑ کی بھولی بھی لگی ،یہ لوگ اب عوام
کی خدمت کر یں گے تو ایسے لوگ عوام کی کیا خد مت کریں گے؟دوسرا اہم مسئلہ
پی ٹی آئی میں پرانے کھلاڑی ، نظر یاتی کارکنوں کو بدنام کررہے ہیں ۔ اب
مجھے حقیقت نہیں معلوم کہ سابق وزیرمعد نیات ضیاء اﷲ آفریدی پرکرپشن کے
الزامات میں کتنی حقیقت ہے۔میں صرف اب تک کے حالات پر تجزیہ کروں گا۔ ضیاء
اﷲ آفریدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ پرویزخٹک سے تعلقات
اچھے نہیں تھے اسلئے ان کو وزیراعلیٰ نے پھانسیاں،ان باتوں سے قطع نظراب تک
ان پر الزامات کیوں ثابت نہیں ہوئے 45دنوں سے وہ تفتیش میں ہے لیکن ان
پرفرد جرم عائد نہیں ہوئی۔گزشتہ روز اسمبلی اجلاس میں انہوں نے تمام
الزامات کی تر دید کی اور کہا کہ مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا
ہے۔ انہوں نے احتسا ب کمیشن پر بھی الزام لگایا کہ انہوں نے بغیر ثبوت کے
مجھے پکڑا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ان پر اب تک جرم ثابت نہیں ہوا اور اتنے
دنوں سے وہ حراست میں ہے تو اس احتساب کمیشن کے اہلکاروں کی کیا سزا ہوگی۔
آیا عمران خان ان کے مستعفی ہونے کامطالبہ کریں گے؟ایسے لوگوں کی سزا کیا
ہوگی جو بغیر ثبوت کے پکڑتے ہیں اس بارے میں بھی قانون سازی کرنی چاہیے۔
ویسے یہ باتیں بھی اب گرداش کررہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پرانی
سیاسی روش کو آپناتے ہوئے اپنے پارٹی کے ممبران کو سیاسی انتقام کا نشانہ
بنا رہے ہیں۔عمران خان کو اس مسئلے پر خودمعلومات حاصل کرنی چاہیے اگر
وزیراعلیٰ واقعی انتقامی کارروائی کررہے ہیں تو ان سے یہ منصب لینا
چاہیے۔دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طرح
یہ باتیں بھی کی جارہی ہے کہ بہت سے اداروں میں میرٹ سسٹم اعلیٰ عہدے کے
لیے وزیر اعلیٰ سے تعلقات ہے وہ اپنی مرضی سے لوگوں کو لگا تے ہیں۔
مجھے بعض اوقات لگتا ہے کہ عمران خان نے تبدیل کا جو نعرہ لگایا تھا اور
نواجون جو امید لگا ئے بیٹھے ہیں وہ تبدیلی شاید ملک میں نہ آئے ۔ وجہ یہ
ہے کہ پارٹی کے اندر زیادہ تر نظر یاتی کم اور مفاد پرست زیادہ آگئے ہیں
جبکہ اعلیٰ سطح پر بھی نظر یاتی لوگوں کو سائٹ لائن لگایا جارہاہے۔ عمران
خان کو مفاد پرست ٹولہ نظر یاتی لوگوں سے دور کر رہے ہیں۔ عمران خان کی
خلوص اور نیت پر آج بھی کسی کو شک نہیں لیکن پارٹی میں جو پرانے سیاسی
کھلاڑی داخل ہوچکے ہیں ان سے پارٹی کو کیسے نجات دلائی جا سکیں ۔یہ وہ سوال
ہے جس پر پی ٹی آئی کے اندر کافی تشویش پائی جاتی ہے ۔ یہ بھی نہیں کہ
پارٹی میں سارے مفاد پرست آگئے ہیں بلکہ پارٹی میں توسابق گورنر پنجاب محمد
سرور جیسے لوگ بھی آئے ہے جنہوں نے گورنر شپ چھوڑ کر ملک میں نظام کی
تبدیلی کیلئے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی لیکن شاید ان کو اس طرح فعال
کردار نہ دیا جائے جس کا وہ مستحق ہے ۔ اسی طرح دوسرے قابل اور نظریاتی لوگ
آگے پیچھے ہوگئے جب کہ رائٹ اور لفٹ پر شاہ محمود قریشی اور جانگیر ترین
بیٹھ گئے اور پیچھے لال حویلی کا فر زند شیخ ر شید ۔۔ ۔اﷲ خیر کریں کہ
عمران خان ان پرانے کھلاڑیوں سے ملک میں تبدیلی کیسے لا سکیں گے۔خود عمران
خان خاندانی سیاست کے خلاف ہے لیکن ان کے ممبران صرف اپنے لوگوں کو نواز
رہے ہیں۔ جنرل الیکشن میں معلوم نہیں کس بنیاد پر ان کے کزن کو ٹکٹ نہیں
دیے گئے ہیں حالاں کہ وہ ٹکٹ کے اہل تھے۔آیاان کوجان بوجھ عمرا ن خان سے
دور تو نہیں کیا گیا؟بحر کیف ملک میں تبدیلی کے لیے آج سب کی نظر یں صرف
عمران خان پر ہے انہوں نے جونعرہ لگایا تھا وہ نعرہ صرف اس کا نہیں بلکہ ہر
محب وطن کا ہے ۔ عمران خان کو تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ پرانے کھلاڑ یوں
کو سائٹ لائن کریں اور نئے لوگوں کو موقع دیں جس کے لیے تحریک انصاف بنائی
گئی تھی۔ |
|