اوفامذاکرات کے مشترکہ اعلامیہ
کے بعدموجودہ حکومت پرجومحاسبہ ہوا،اس کے فوری بعد پاکستان کی سیاسی وعسکری
قیادت نے بھارت کے حوالے سے روایتی دفاعی پالیسی ترک کرنے کاجواصولی فیصلہ
کیااس کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں۔اندرکی خبررکھنے والے ذرائع کاکہنا ہے کہ
اس معاملے میں عسکری قیادت نے بنیادی کرداراداکیا،ورنہ سیاسی سطح پرتواب
بھی چونکہ چنانچہ والامعاملہ چل رہاتھا تاہم اب سیاسی وعسکری قیادت بھارتی
رویے کے خلاف ایک بیباک حکمت عملی اختیارکرنے پر متفق ہوچکی ہے جس میں طے
کیا گیا ہے کہ مذاکرات سمیت ہرمیدان میں بھارت کے خلاف جارحانہ لائحہ عمل
اپنایا جائے گا۔نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سطح پرمنسوخ ہونے والے حالیہ
مذاکرات میں بھی اسی حکمت عملی کو مدنظر رکھا گیاتھا۔اس سارے سنیاریومیں
ستمبرمیںجنرل اسمبلی سے وزیراعظم نوازشریف کاخطاب اب انتہائی اہمیت
اختیارکرگیاہے۔
نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی سطح پردوروزہ پاک بھارت مذاکرات ٢٣/اور٢٤/اگست
کوہونے تھے تاہم بھارت کی ہٹ دھرمی کی کے سبب یہ منسوخ ہو گئے۔بھارت کی
خواہش تھی کہ اس بات چیت میں صرف دہشتگردی کے موضوع پربات ہو جبکہ
کشمیراوردیگرباہمی تنازعات کوکسی اوروقت کیلئے چھوڑدیاجائے۔ان مذاکرات سے
قبل سرتاج عزیزکے ساتھ کشمیری رہنماؤں کی مجوزہ ملاقات پربھی بھارت چراغ
پاتھا۔پاکستان کواپنے ذرائع سے یہ پتہ چل گیاتھاکہ بھارت ان مذاکرات میں
ممبئی حملوں اوران میں ملوث ذکی الرحمان لکھوی کی ضمانت پررہائی کے علاوہ
گورداسپورواقعے کواٹھاناچاہتاہے۔اس طرح دہلی سرکارنہ صرف بین الاقوامی
برادری کویہ پیغام دیتی کہ پاکستان سے مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہے بلکہ
کشمیراور دیگرباہمی تنازعات کوبات چیت سے باہررکھ کراپنے مطلب کے
ایشوزکواٹھانے میں کامیاب ہوجاتی۔واضح رہے کہ ٹھوس شواہد کے بغیرممبئی
حملوں اوراب گورداسپورکے واقعے کاالزام بھی پاکستان پرلگارہاہے جبکہ اس کے
برعکس کراچی اوربلوچستان میں ''را''کی دہشتگردی کے ناقابل تردیدشواہدکے
باوجوداس ایشوزپروہ پاکستان سے کسی فورم پربات کرنے کی بجائے اس نے راہِ
فرار میں اپنی نجات سمجھی۔
ذرائع کاکہناہے کہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرسطح پرمجوزہ مذاکرات میں بھارتی
الزامات کو کاؤنٹرکرنے کیلئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے جوحکمت
عملی اپنائی تھی،اس کے تحت فیصلہ کیاگیاتھاکہ بات چیت میں نہ صرف یہ کہ
کشمیر،سرکریک،سیاچین سمیت دیگرتمام باہمی تنازعات کواٹھایاجائے گابلکہ
سمجھوتہ ایکسپریس واقعہ کی منصوبہ سازکی رہائی کے معاملے پربھی شدیداحتجاج
کیاجاناتھا،ساتھ ہی کراچی اوربلوچستان میں ''را''کی مداخلت سے متعلق تمام
آڈیوز،ویڈیوز اوردستاویزی شواہدبھی پیش کئے جاتے،بھارت کواس کااندازہ ہو
گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے تواس نے یہ کہہ کرجان بچانے کی کوشش کی کہ
حالیہ مذاکرات صرف دہشتگردی کے ایشوتک محدودرکھے جائیں اورجامع مذاکرات
بعدمیں کیے جائیں گے تاہم اس معاملے پرپاکستان کے اٹل مؤقف پردال گلتی نہ
دیکھ کرمذاکرات سے منہ موڑلینے میں عافیت جانی۔واضح رہے کہ یہ دوسراموقع ہے
جب بھارت مذاکرات سے بھاگ نکلاہے۔
پاک بھارت پرگہری نظررکھنے والے ذرائع کاکہناہے جب تک پاکستان ایٹمی قوت
نہیں بناتھاتویہ بات چیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ اسلام آبادکویہ
خدشہ لاحق رہتاتھاکہ تعلقات مزید کشیدہ ہونے ہونے پرکہیں دہلی سرکارجنگ
مسلط نہ کر دے چنانچہ یہ خدشہ پاکستان کوہمیشہ دفاعی حکمت عملی اختیارکرنے
پرمجبوررکھتاتھا جبکہ بھارت اپنی شرائط پرہی مذاکرات کی
میزپربیٹھاکرتاتھاتاہم ایٹمی پاکستان کے بعدیہ صورتحال بالکل تبدیل ہوچکی
ہے۔اس نیوکلیر فیکٹر کی وجہ سے بھارت کی جانب سے حملے کاخطرہ نہیں
رہا،پھریہ کہ اقتصادی کوریڈورکے سبب چین بھی اس سارے معاملے میں ''انٹر''ہوچکاہے۔اب
بین الاقوامی پریشرہی ایک ایسافیکٹر ہے جو دونوں ممالک کومذاکرات کیلئے
آمادہ ہونے پرمجبورکرتاہے اوردونوں میں جوبھی ملک مذاکراتی عمل سے پیچھے
ہٹتاہے اسے ''عالمی تنہائی ''کاخدشہ رہتاہے۔
بین الاقوامی برادری بالخصوص امریکا،پاک بھارت کشیدگی سے اس لئے پریشان
ہوتاہے کہ اگر دونوں ممالک میں ایٹمی جنگ چھڑجاتی ہے توری ایکشن کاٹائم بھی
نہیں بچتا۔اس سے نہ صرف یہ کہ امریکابلکہ اس کے ہمنواممالک کے اس خطے میں
مفادات شدیدمتاثرہوسکتے ہیں لہندا پاکستان اوربھارت کومذاکرات پرآمادہ کرنے
میں سب سے زیادہ پریشر امریکاکاہوتاہے ۔ خوش قسمتی سے حالیہ مذاکرات بھارت
کی جانب سے منسوخ کیے گئے ہیں لہنداسارابین الاقوامی پریشردہلی پرآئے گا
جبکہ مذاکرات نہ ہونے سے پاکستان کوفائدہ ہواہے ۔ایک تویہ کہ بھارت کی ہٹ
دھرمی کے آگے ٹھوس مؤقف اپناکرحکومت نے پاکستانی اورکشمیری قوم کے دل جیت
لیے ہیں دوسرایہ کہ روس کے شہراوفاکے اعلامیے میں وزیر اعظم کی جانب سے
مسئلہ کشمیرنہ اٹھانے پرناراض حریت کانفرنس اوردیگر کشمیری رہنماء اب خاصے
مطمئن اورخوش نظر آتے ہیں اوران بھارتی رویے اوربیجاضدنے ساری دنیامیں
مسئلہ کشمیرکوایک مرتبہ پھر اجاگرکردیاہے۔
اب طے کیاگیاہے کہ ماہ رواں ستمبرمیں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نہائت زور دارطریقے سے
پاکستانی مؤقف پیش کریں گے ۔ اس سلسلے میں جومشاورت کی جارہی ہے اس کے تحت
وزیراعظم نہ صرف یہ کہ کشمیر ایشو پوری شدت سے اٹھائیں گے بلکہ دنیابھرکے
سربراہان مملکت کی موجودگی میں ''را''کی دہشت گردی پربھی کھل کربات کریں گے
جس کے شواہد وہ ساتھ لیکرجائیں گے۔اس تناظرمیں جنرل اسمبلی میں وزیراعظم
نوازشریف کامجوزہ خطاب خاصی اہمیت اختیارکرگیاہے۔ نیشنل سیکورٹی
ایڈوائزرسطح کے مذاکرات ہوجاتے توشایدپھربھی جنرل اسمبلی میں پاکستان کچھ
ہاتھ ہلکارکھ لیتا ۔بھارت کوبھی اس صورتحال کاادراک ہے اوروہ خاصاپریشان ہے
کہ مجوزہ خطاب کے بعدقومی سلامتی کی مستقل نشست کے حصول کے حوالے سے اس
کادیرینہ خواب تعبیرسے مزیددورہو جائے گا۔ بھارت پہلے ہی کافی دباؤ میں ہے۔
مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کی لہرایک بارپھرپوری شدت کے ساتھ ابھری ہے۔وہاں
پہلے کبھی اتنی بڑی تعدادمیں پاکستانی پرچم نہیں لہرائے گئے بالخصوص سیدہ
اندرابی جیسی مجاہدہ نے تودخترانِ ملت کے پلیٹ فارم سے جس دلیری کے ساتھ
پاکستانی پرچم کی حرمت کاحق اداکیاہے اس سے کشمیری قوم کی دلیری،بیباکی
اورشجاعت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے اوردوسری جانب خالصتان کی تحریک نے
دوبارہ بڑی منظم اندازمیں بھرپورانگڑائی لی ہے۔
بھارت کے حوالے سے مذاکرات سمیت ہرمیدان میں بیباک حکمت عملی اختیارکرنے سے
متعلق ذرائع کاکہناہے کہ عسکری قیادت کی جانب سے واضح طورپرکہاگیاہے کہ ایل
اوسی اورورکنگ باؤنڈری پربھارت مسلسل گولہ باری کرکے اب تک بیس عام شہریوں
کوشہیداورسوسے زائدکو زخمی کرچکاہے ،بھارت کایہ عمل باقاعدہ جنگ کے زمرے
میں آتاہے،ایسے میں اگرپاکستان کی طرف سے مسلسل روایتی دفاعی پالیسی جاری
رکھی گئی تواس سے نہ صرف عوام مایوسی کا شکارہوں گے بلکہ بھارت کے حوصلے
بھی بڑھنے کاامکان ہے چنانچہ وقت آ گیا ہے کہ چالاک دشمن کے خلاف روایتی
پالیسی ترک کرکے جارحانہ نقطہ نظراپنایاجائے۔ماضی کے مقابلے میں پاکستان
کیلئے صورتحال اس لیے بھی موافق ہے کہ اب وہ عالمی تنہائی کے خطرے سے دوچار
نہیں ہوگااورپھریہ کہ اس کے پاس آڈیوز،ویڈیوزاوردہشتگردوں کے اعترافی
بیانات کی شکل میں ''را''کی دہشتگردی کے ٹھوس شواہدموجودہیں جنہیں بین
الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرکے پاکستان بھارت کوبیک فیٹ پردھکیل سکتا
ہے۔ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں بھارت سے متعلق اپنائی جانے والی اس
پالیسی کے عملی اقدامات بھی دیکھنے کوملیں گے۔
ان تمام حالات میں میاں نوازشریف صاحب پربڑی بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ
وہ پوری دیانتداری کے ساتھ اقوام متحدہ کے اس پلیٹ فارم کواستعمال کرتے
ہوئے بھارت کی طرف سے ہونے والی دہشتگردی کے تمام شواہداورمسئلہ کشمیرکی
بھرپوروکالت کرتے ہوئے مجبورومقہور مظلوم کشمیریوں کامقدمہ اقوام عالم کے
سامنے رکھیں ۔وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ
الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ
الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل
لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا۔ اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور
اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے
ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں
اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی
کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔
میاں صاحب کویہ بات یقیناً یاد ہوگی کہ ایوانِ قتدارمیں ان کی یہ آخری باری
ہے،اس خطاب میں وہ اپنی آئندہ کی تمام سیاسی زندگی کیلئے بڑانام بھی
کماسکتے ہیں اور عقبیٰ آخرت کی نجات کاوسیلہ بھی ڈھونڈسکتے ہیں۔ اس منزل کے
حصول کیلئے اوّلین شرط مرعوبیت کے لباس سے نجات حاصل کرناضروری ہے ۔ |