فلسطینی اقوام متحدہ میں کشمیری سڑکوں پر

فلسطین کے صدر جناب محمود عباس30 ستمبر کو اقوام متحدہ کی ایسیجنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں جس میں 193 خود مختیار ریاستوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کا پرچم بھی لہرا رہا ہوگا۔جنرل اسمبلی کے 119ارکان نے قوام متحدہ ہیڈ کواٹر میں فلسطینی پرچم لہرانے کی حمایت کرکے حق خود ارادیت سے محروم فلسطینیوں کی جائز جدوجہد کا اعتراف کر لیا ہے ۔ اسی ہفتے ہونے والی رائے شماری میں امریکہ اور اسرائیل سمیت 8ممالک نے فلسطینی پرچم لہرانے کی قرارداد کی مخالفت کی، جبکہ 45ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ کشمیر اور فلسطین قوام متحدہ کے ایجنڈے میں موجود دو دیرینہ تنازعات ہیں ۔فلسطین اور کشمیر دو ایسے علاقے ہیں جہاں کے عوام دو طاقتور استعماری ریاستوں سے نبرد ازما ہیں ۔دونوں قوموں نے اپنے حق خودارادیت کے لیے نصف صدی سے متحرک جدو جہد شروع کر رکھی ہے۔ اس جدو جہد کی پاداش میں انہیں ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طاقتور ریاستیں اسرائیل اور بھار ت فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنے ، انہیں طاقت کے زور پر دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔

کشمیر ی اور فلسطینی عوام اپنے مقصد کے حصول کیلئے متحرک جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں۔ ان کے معمولات زندگی کا لازمی عنصر روزانہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا بھارت اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگانا ہے ، مذاحمت کی ساتھ ساتھ ان کی سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی جدوجہد جاری ہے۔ اس جدوجہد کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطینی قوم آگے بڑھتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھی پہنچ گئی۔ اب اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں 193ممبر ممالک کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کا جھنڈا بھی لہرایا جائے گا۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کے جھنڈوں کے ساتھ فلسطینی جھنڈا لہرایا جانا ایک علامتی عمل ہے تاہم یہ عمل فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کی طرف ایک قدم ضرور ہے یقیناً یہ بہت بڑی پیش رفت اور فلسطینی عوام کی کامیابی ہے ۔کشمیر کا مقدمہ بھی 1948سے اقوام متحدہ میں موجود ہے۔ یہ مقدمہ اس وقت پیش ہوا تھا جب اقوام متحدہ کے قیام کو صرف تین سال ہوئے تھے ۔ ریاست کے ایک شہری ہونے کے ناطے یہ سوچنا میرا کام ہے کہ یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ فلسطینی اقوام متحدہ میں پہنچ گئے اور کشمیری ابھی بھی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں ۔

غازی ملت سردار محمد ابراہیم اقوام متحدہ میں کشمیر کا کیس لڑنے گئے تھے۔ حالات اور معاملات ان کے کنٹرول میں نہ تھے پھر بھی ان کی مثال دی جاسکتی ہے کہ کوئی تھا جسے کشمیریوں کی نمائندگی کا حق حاصل ہوا تھا۔ یہ پہلی اور آخری کوشش نظر اآتی ہے ۔ اس کے علاوہ کسی کشمیر ی رہنما نے اس محاز پر کام کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ اقوام متحدہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس فورم پر کشمیر کا مقدمہ پاکستان نے لڑا اور چیلنجز کا سامنا کیا۔ 1948سے 1990اور 1990سے2015کے دوران کشمیری قیادت نے اقوام متحدہ کے میکانزم اور اس کی اہمیت کو سمجھنے، کی کوشش کی اور نہ ہی اس ادارے میں گھسنے کی ضرورت محسوس کی، ہاں کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تسبیح ضرور چلائی جاتی رہی ۔ اس عالمی ادراے کے ایجنڈے پر کشمیر یوں کے حق خودارادیت کا مقدمہ بڑا پرانا ہے۔ اس مقدمہ کے بعد دائر کیے جانے والے کئی مقدمات اپنے انجام کو پہنچے۔ مشرقی تیمور کی طرح نئی ریاستیں قائم ہوئیں حتی کے اقوام متحدہ کی ممبر ریاستوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے 193 تک جاپہنچی۔ سرینگر ، مظفر آباد اور گلگت میں قائم حکومتیں بھی اس سلسلے میں کوئی کام کرنے یا عالمی ادارے میں کشمیریوں کی شناخت ظاہر کرنے میں ناکام رہیں ۔مظفر آباد کی حکومت نے اپنا تعارف کرانے اور اپنی شناخت ظاہر کرنے کا ٹھیکہ حکومت پاکستان کو دے رکھا ہے ۔ فلسطینیوں نے یہ منزل مرحلہ وار طے کی ۔ کبھی یونیسکو کبھی ڈبلیو ایچ اور کبھی کسی ادارے کی رکنیت سے ان کا سفر بڑھتا گیا۔ عالمی محتسب فورم میں پاکستان نے آزاد کشمیر کی رکنیت دلوائی ، گزشتہ سال آزاد کشمیر کے (اس وقت کے) محتسب سردار مختیار خان نے کوریا میں ہونے والی کانفرنس مین آزاد کشمیر کی نمائندگی اسی طرح کرنی تھی جس طرح محتسب پاکستان نے پاکستان کی نمائندگی کرنی تھی ۔ مقامی سیاسی داو پیج کے گن چکر میں سردار مختیار خان کو ریاستی وزارت داخلہ نے غیر ملکی سفر کے لیے این او سی ہی نہیں دیا۔

اقوام متحدہ میں پہنچنے کے لیے فلسطینیوں کی جد و جہد کو دنیا نے تو سمجھ لیا کشمیریوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو حق خودارادیت کے راستے سے ہٹانے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ تمام حربے اور راستے اختیار کیے ہوئے ہے حتی لہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات مرحوم کے کمپاونڈ پر بھی بمباری کی گئی ۔ ان مشکل حالات میں بھی فلسطینیوں کی جدوجہد جاری رہی ۔ ان کا قائد یاسر عرفات اپنے دفتر میں سامنے والے ٹیبل پر اپنا پستول ضرور رکھتا تھا۔75 برس کی عمر میں نومبر 2004 کو اپنی وفات تک یاسر عرفات کا عزم تھا کہ میں اپنی قوم کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا اور اگر کبھی حالات ہاتھ سے نکل گئے تو میں سرنڈر کے بجائے مذاحمت کو ترجیح دوں گا۔۔ 9دسمبر 1998کو جنرل اسمبلی میں یاسرعر فات مرحوم کی فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کرتے ہوئے اسے اختیار دیا تھا کہ وہ اقوامتحدہ کے فورم پر فلسطین کی نمائدنگی کر سکتی ہے۔ اپنی نمائندگی کے اس حق کے لیے کسی درمیانی راستے کے بغیر براہ رساست ممبر ممالک سے رابطہ کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ اور ممبر ممالک سے خط کتابت کی جاسکتی ہے ۔ فلسطین کی طرف سے ایسی خط وکتابت اقوام متحدہ کی طرف سے افیشل تسلیم کی جائے گی ۔

اس دفعہ اقوام متحدہ کی جنرل اسبملی کا 70واں جنرل سیشن ایک ایسے موقع پر شروع ہو گیا ہے جب فلسطین کے صدر جناب محمود عباس30 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور اپنی قوم کی نما ئیندگی کریں گے ۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے ہیڈ کواٹر پر پہلی بار فلسطین کا پرچم بھی لہرا یا جائے گا۔ دوسری طرف کشمیر میں بڑے جانوروں کے ذبح کرنے پر پابندی کے خلاف ریاستی عوام سڑکوں پر ہیں ۔ہزاروں نہیں لاکھوں کشمیریوں کے جلوس نکلتے ہیں۔ بھارت نے اس دفعہ کشمیریوں کو بڑے گوشت پر پابندی کے چکر میں ڈال کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر دی ہے کہ کشمیر دراصل مذھبی معاملہ ہے ۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیری قیادت فلسطینیوں کی سیاسی جدوجہد کا مطالعہ کر ے۔ سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھے۔ عالمی فورمزپر اپنی نمائندگی اور اپنی رائے کے اظہار کا موقع بھی تلاش کرے ۔ میں خوشی سے فلسطینی عوام کو مبارکباد بھی دے رہا ہوں ساتھ ہی مایوسی بھی ہورہی ہے ۔ 25 سالوں لاکھوں قیمتی جانیں کھو دینے کے بعد بھی کشمیریوں کی کوئی منزل ، کوئی راستہ موجود نہیں ہے ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 56044 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More