حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ایک
آدمی نے پوچھا یارسول اﷲ ﷺ کون سی چیز میری جہالت کی حجت کو ختم کرے گی ؟
آپ ﷺ نے فرمایا علم پھر اس نے پوچھا کون سی چیز علم کی حجت کو ختم کرے گی
آپﷺ نے فرمایا عمل۔
قارئین ! اس دنیا میں علم کا عمل کے ساتھ وہی تعلق ہے جو جسم کا روح کے
ساتھ ہے دونوں ایک دوسرے کے بغیر کسی کام کے نہیں ۔ ہم نے شعبہ طب کے حوالے
سے درجنوں آرٹیکلز لکھتے ہوئے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی ہے کہ وہی علم فائدہ
مند ہے جس کا نفع ایک عام انسان اور ایک غریب آدمی کو پہنچتا ہے بدقسمتی سے
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا طبقہ یہی غریب آدمی ہے
جو وطن کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں بھی دیتا ہے، جو مشکل وقت آنے پر ایک
آواز دینے پر پاک فوج کا ساتھ دینے کے لیے سرحدوں پر بھی پہنچ جاتا ہے ، جو
قرض اتارو ملک سنوارو کا پکارہ پڑھنے پر اپنی تھوڑی بہت جمع پونجی بھی
خزانے میں جمع کرا دیتا ہے ، جو کینسر کے علاج کے لیے بننے والے مہنگے ترین
ہسپتال کے لیے اپنی دیہاڑیاں بھی چندے میں دے دیتا ہے ، جو سیلاب آنے پر
پہلے تو خود پانی کے خونی ریلوں کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے بعد تباہ ہونے
والے دیگر بہن بھائیوں کی مدد کے لیے اپنا سب کچھ ان کی نذر کر دیتا ہے اور
آخر میں اس عام آدمی کے ساتھ یہ سلوک بھی ہوتا ہے کہ کسی بھی سرکاری تقریب
میں اسے جوتوں کے پاس بیٹھنے کی جگہ دی جاتی ہے ، وہ علاج کروانے کے لیے
سرکاری ہسپتال جائے تو ڈسپرین کی گولی تھری ناٹ تھری کی لاتعلقی اور حقارت
والی بندوق میں ڈال کر اس کے وجود پر داغ دی جاتی ہے ، اس کی عزت نفس ہر اس
جگہ پر پامال کی جاتی ہے جہاں پر اس کا حق بنتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے ۔
ہمیں بہت سے پڑھنے والے دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ ہم نے اپنے قلم کی
توپ کا رخ صرف ایک طرف ہی رکھا ہوا ہے اور ہم ڈاکٹر ز اور محکمہ صحت میں
کام کرنے والے لوگوں کے حقوق کا ٹھیکہ لے کر دشمن کے کیمپوں پر گولے برسائے
جا رہے ہیں ہمیں ان دوستوں نے نصیحت کی کہ ہمیں عام انسانوں اور مریضوں کے
حق میں لکھناچاہیے ۔ یہاں ہم یہ کہتے چلیں کہ ہماری تمام تحریر وں کا
مرکزنگاہ صرف اور صرف ایک عام غریب آدمی ہے اگر ہم محکمہ صحت کے نظام کی
درستگی ، برین ڈرین کو روکنے کے لیے ڈاکٹرز ، انجینئرز ، ماہرین زراعت اور
سائنسدانوں اور دیگر تمام پڑھے لکھے لوگوں کو ان کے جائز ترین حقوق دینے کی
بات کرتے ہیں تو اس کا تمام تر فائدہ مجموعی طور پر ایک عام آدمی ہی کو
ہوتا ہے اگر ہڑتال پر جانے والے ڈاکٹرز کی جائز ترین ڈیمانڈ زکو پورا کرنے
کے لیے ہم لٹھ لے کر وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید ،چیف سیکرٹری
آزادکشمیر ،سیکرٹری مالیات ،سیکرٹری صحت عامہ ،ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر سردار
محمود اور دیگر تمام لوگوں کے ’’آلے دوالے ‘‘گھومتے ہوئے ان کی ’’ منتیں
اور ترلے ‘‘ دھمکیوں کے پردے میں کر رہے ہیں تو ان مقتدر ہستیوں کو بھی
ہمارا کچھ پردہ رکھنا چاہیے ۔ہمارے علم میں یہ بات بہت اچھی طرح ہے کہ ’’
لوکل پرچیز ‘‘ جو بنیادی طور پر ’’ زکواۃ فنڈ‘‘ ہے اس مد میں محکمہ صحت سے
مفت ادویات حاصل کرنے والے وزراء سے لے کر ایسے بڑے بڑے آفیسر ہیں کہ اگر
اس آرٹیکل میں ہم ان کے نام شائع کر دیں تو ہمارے جان بخشی مشکل ہو جائے
کیونکہ اس سے ’’ ہتک عزت ‘‘ کے دعوے بھی کر دیئے جائیں گے اور بہت سے بڑے
بڑے لوگوں کا ’’ استحقاق ‘‘ بھی مجروح ہو جائے گا ۔ان ظالموں کو سوچنا
چاہیے کہ غریب مریض کو تو ٹکے ٹکے کی دوائی بھی خریدنے کے لیے اپنی عزت سے
لے کر نہ جانے کیا کچھ نیلام کرنا پڑتا ہے اور یہ نا م نہاد بڑے لوگ زکواۃ
کے پیسے پر عیاشی کر رہے ہیں اگر ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کے نمائندوں
کو بر وقت ان کا حق دے دیا جاتا تو نہ تو آج پورے آزادکشمیر میں چالیس لاکھ
سے زائد غریب لوگ علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم ہوتے اور نہ ہی ڈاکٹرز
،نرسز ،پیرا میڈیکل سٹاف سے لے کر غریب ترین لوگ جلسے جلوسوں پر مجبور ہوتے
۔
قارئین ہیلتھ ایمپلائزایسوسی ایشن اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ہڑتال
کی وجہ سے میرپور ڈویژن میں ہسپتالوں میں ہو کا عالم طاری ہوگیا ہے ہزاروں
مریضوں نے ڈاکٹرز اور نرسز کے ہڑتالی کیمپ کو جوائن کر لیا ہے میرپور کے
سرکاری ہسپتال اور ڈویژن بھر کی تمام علاج گاہوں میں تالے پڑگئے ۔ پورے
آزاد کشمیر میں ہیلتھ الاؤنس کے لیے جاری اس ہڑتال کے دوران بہت بڑے پیمانے
پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں ۔ میرپور ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں PMAکی
طرف سے منعقدہ احتجاجی جلسے میں ڈاکٹرز ، نرسز کے علاوہ ہزاروں کی تعداد
میں مریضوں اور عام شہریوں نے بھی شرکت کرتے ہوئے ’’ مجید حکومت ہائے ہائے
، بیوروکریسی مردہ باد ، ہیلتھ الاؤنس منظور کرو ، ہم نہیں مانتے ظلم کے
ضابطے ‘‘ کے علاوہ سیکرٹری مالیات اور لینٹ آفیسر ز کے خلاف شدید نعرے بازی
کی ۔ مکمل ہڑتال کے دوسرے روز تمام ڈاکٹرز ، نرسز ، پیرا میڈیکل سٹاف کے
علاوہ شہریوں کی بہت بـڑی تعداد میرپور ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ہڑتالی
کیمپ میں اکھٹی ہو گئی اس موقع پر منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرطارق
مسعود، ڈاکٹر مرتضےٰ بخاری ، ڈاکٹرایوب قریشی ،ڈاکٹرسردار محمد حلیم خان
،ڈاکٹر مرزا عرفان جرال ،ڈاکٹرطارق بھٹی،ڈاکٹرشکیل آصف ،ڈاکٹریاسر سرفراز
،ڈاکٹرسرجن ریاض چوہدری ،ڈاکٹرسرجن زرداد خان،ڈاکٹرسرجن ارشد محمود
،ڈاکٹرجاوید اعظم،ڈاکٹرکرامت اﷲ ،ڈاکٹررضاگورسی ،ڈاکٹریوسف چوہدری
،ڈاکٹرخواجہ شفیق،ڈاکٹرحمید ،ڈاکٹرشہزاد شیخ ،ڈاکٹرامجد محمود،ڈاکٹرممتاز
بانڈے ،ڈاکٹر عبدالغفور ، ڈاکٹروسیم عباسی ،ڈاکٹرخواجہ بشیر
،ڈاکٹرعبدالمجید ،ڈاکٹرفیصل شبیر ،ڈاکٹرعطیہ ، ڈاکٹر عامرہ ،ڈاکٹرثمرہ
،ڈاکٹرسہیلہ ،ڈاکٹررفعت،ڈاکٹرفوزیہ ،ڈاکٹراحسان الحق ،ڈاکٹروسیم عباسی
نیوروسرجن ، ڈاکٹرراجہ فتخار نیاز ،ڈاکٹرفیصل بشیر ،ڈاکٹرشاہد قریشی
،ڈاکٹرسردار ظفر ،ڈاکٹرعنایت اﷲ ،ڈاکٹرتنویر صادق سرجن،جب کہ پیرا میڈیکل
سٹاف و نرسز ایسوسی ایشنز کے نمائندگان شہزاداحمد ، چوہدری قمرالزمان ،
جمیلہ رجب ، شمشاد بیگم ، زاہدہ خان، انیلہ بیگم ، سٹاف عابدہ،سٹاف شازیہ ،
سٹاف شمشاد ، سٹاف عظمت ، چوہدری انیس ، شیخ طارق ، راجہ محمد رشید ، نصیر
احمد ، قاضی محمود ،چوہدری عارف، محمد حنیف ، عبدالوحید جمالی ، اشرف بھٹی،
افراز احمداور دیگر کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت سے تعلق رکھنے والا ہر فرد
اتحاد کی لڑی میں پرویا جا چکا ہے حکومت ہمارے ساتھ دھوکے بازی کر رہی ہے
اب تک جاری کیے جانے والے دونوں نوٹیفیکیشن فراڈ ہیں اور لینٹ آفیسر فنانس
سیکرٹری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہیلتھ الاؤنس دینے کی بجائے ایک
سوچی سمجھی سازش کے تحت محکمہ صحت کے ڈاکٹر ز اور ملازمین کو تقسیم کرنے کی
کوشش کررہے ہیں ہم وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے اندر
ہیلتھ الاؤنس انصاف کے ساتھ دینے کا نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوا تو آزاد کشمیر
کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی چیک اپ بند کرنے کے علاوہ پوسٹمارٹم اور
میڈیکولیگل کیسز کا بھی بائیکاٹ کر دیں گے ہم وزیرصحت سردار قمرالزمان کے
مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمارے حق کی خاطر زبردست سٹینڈ لے رکھا ہے ۔ میڈیا
اور تمام اخبارات کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے جائز ترین
مطالبات کو زبردست طریقے سے اجاگر کیا ہے ۔ مقررین نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں
کسی بھی قسم کا انتظامی مسئلہ بھی پیدا نہ ہواور کسی انسانی جان کو نہ تو
نقصان پہنچے اور نہ ہی علاج معالجے سے مریضوں کو محروم رکھا جائے ہم مجبور
ہو کر اپنا حق لینے کے لیے ہڑتال پر مجبور ہوئے ہیں ۔
بقول چچا غالب ہم یہاں یہ کہتے ہیں
غنچہ ناشگفتہ کو ،دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں ،منہ سے مجھے بتا کہ یوں
پرسش طرزِ دلبری کیجیے کیا کہ بن کہے
اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں
رات کے وقت مے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں
غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہاتو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا یوں
بزم میں اس کے رو برو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدعا یوں
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
اس وقت حکومت آزادکشمیر یا تو سو رہی ہے یا پھر کسی بہت ضروری کام میں اتنی
زیادہ مصروف ہے کہ اسے نہ تو روتے ہوئے ڈاکٹرز نظر آرہے ہیں اور نہ مرتے
ہوئے مریض دکھائی دے رہے ہیں اﷲ کرے کہ ڈیڈ لاک کی یہ کیفیت ختم ہو اور
آزادکشمیر کے غریب ترین لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں دوبارہ میسر آ
سکیں ۔آمین
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک عادی شرابی کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ یوگا کی مشق کیا کرے اس طرح شراب
سے جان چھوٹ جائے گی
دس ماہ کے بعد شدید مشقت کر کے وہ شخص یوگا میں ماہر ہو گیا
کسی نے اس کی بیوی سے پوچھا
’’ کیا یوگا کی مشقوں سے کوئی فائدہ ہوا ‘‘
اس کی بیوی نے جواب دیا
’’جی ہاں اب وہ سر کے بل کھڑا ہو کر بھی شراب پی سکتا ہے ‘‘
قارئین حکومت آزادکشمیر نے ڈاکٹرز ،مریضوں اور محکمہ صحت میں کام کرنے والے
غریب ترین اہلکاروں کو ترسا ترسا کر اس حد تک مشقت کروا دی ہے کہ شدید
ہڑتال کے اس موسم میں بھی وہ ایمرجنسی کو سنبھالے ہوئے ہے اور کوئی جانی
نقصان نہیں ہونے دے رہے اس میں جہاں ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے عملے کی انسان
دوستی قابل تعریف ہے وہیں پر عام مریضوں کی ہمت کو بھی داد دینی پڑتی ہے جو
مسئلے کی اصل جڑ نا اہل ترین حکومت اور ان کے نام پر اکٹھے ہونے والے پیسے
سے عیاشیاں کرنے والی بیوروکریسی کو اب بھی برداشت کر رہے ہیں اﷲ سب کے حال
پر رحم کرے آمین ۔ |