ایک طرف چین،امریکا،برطانیہ
اورجرمنی افغان امن مذاکرات کیلئے پیداشدہ تعطل ختم کرنے اوراعلیٰ سطح کے
روابط بحال کرانے میں سرگرم ہیں لیکن دوسری طرف افغان مصالحتی عمل کو
سبوتاژ کرنے کیلئے افغانستان کے نائب صدراورجنبش ملی کے سربراہ جنرل دوستم
افغان حکومت اورطالبان مذاکرات میں ایک رکاوٹ بن گئے ہیں۔ایک طرف افغان
حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے دن رات کوششوں میں مصروف ہے جبکہ دوسری
طرف افگان نائب صدرجنرل دوستم دشمنی کی روایات اپناتے ہوئے طالبان کے ساتھ
لڑائیوں میں مصروف ہے۔طالبان نے قبائلی مذاکرات کاروں واضح کیاہے کہ ایک
طرف افغان حکومت پاکستان،ایران،چین ،سعودی عرب،امریکا،برطانیہ اورجرمنی
سمیت طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کررہے ہیں اوردوسری طرف جنرل دوستم طالبان
کے خلاف نہ صرف اسلحہ تقسیم کررہاہے بلکہ طالبان کے خلاف خودبھی دشمن
کاروائیوں میں حصہ لے رہاہے،مذاکرات اورجنگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے
،اگردوستم مذاکرات کی بجائے دوسراراستہ اختیارکرناچاہتاہے تواسے
یادرکھناچاہئے کہ وہ امریکااور اس کے اتحادیوں سے زیادہ طاقتورنہیں۔
طالبان نے گزشتہ دنوں کلیم جم ملیشیاء کے ٢٥سے زائداغواء شدہ اہلکاروں کو
ہلاک کردیاہے جس کے بعدسے طالبان اور دوستم کے درمیان فاریاب میں وقفے وقفے
سے جھڑپیں جاری ہیں۔طالبان نے دوستم کوقابوکرنے کیلئے حکمت عملی وضع کرلی
ہے اورافغان صدرکوصاف طورپربتادیاہے کہ جب تک دوستم کایہ رویہ ہے ،مذاکرات
نہیں ہوسکتے،جس پرافغان حکومت نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ برطرف کرنے پر
غورشروع کردیاہے تاہم ابھی تک افغان حکومت دوستم کوبرطرف کرنے میں کامیاب
نہیں ہوسکی۔دوستم کی وجہ سے طالبان اور افغان حکومت مذاکرات میں خلیج حائل
ہوگئی ہے جسے دور کرنے کیلئے افغان حکومت نے طالبان سے وقت مانگاہے۔
افغانستان کوجنوب مشرقی صوبہ ہلمندکادفاعی اہمیت کاحامل ضلع موسیٰ قلعہ
افغان حکومت کے ہاتھوں سے نکل رہاہے۔تازہ لڑائی میں ١٨پولیس اہلکارہلاک
اورمتعددزخمی ہوگئے ہیں جبکہ طالبان نے ٧٠فیصدسے زائدعلاقے پراپنا قبضہ
مضبوط کرلیا ہے۔طالبان کاقبضہ چھڑانے کیلئے گزشتہ روزکابل سے افغان فوجی
موسیٰ قلعہ کامحاصرہ ختم کرانے کیلئے ہلمندجارہے ہیں لیکن ہلمندمیں افغان
فوج کے دو اہلکاروں کی جانب سے امریکی فوجیوں کوفائرنگ کرکے ہلاک کرنے کے
واقعے نے ایک نئی بحث چھیڑدی ہے اوراب افغان فوج کیلئے نئی مشکلات کھڑی
ہوگئی ہیں۔ان اطلاعات کے بعدکہ افغان فوجیوں کی وردی میں امریکی لڑرہے
ہیں،طالبان نے قبائلیوں کے ساتھ مذاکرات معطل کردیئے ہیں جوفوج کو علاقے سے
نکالنے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے۔
دوسری جانب امریکی حکام نے کابل شہرسے کابل ایئر پورٹ تک سڑکوں کی نگرانی
اورفوج کی تعیناتی کو مسترد کردیاہے۔افغان حکومت نے امریکی حکام سے یہ اپیل
کی تھی کہ شہر سے کابل ایئرپورٹ تک سی آئی اے اورامریکی ایجنسیوں کے ان
پرائیویٹ کنٹریکٹرزکوجو گزشتہ ١٤سالوں سے جاسوسی،افغان قیدیوں سے معلومات
حاصل کرنے کیلئے ان کی تفتیش اورتشدد پرمامورتھے،انہیں کابل ایئر پورٹ سے
امریکابھجوانے میں مشکلات درپیش ہیں،اس لئے کابل ایئرپورٹ کی جانب جانے
والے تمام راستوں پرامریکی فوج کو تعینات کیا جائے ۔ گزشتہ ٤٥دنوں میں سی
آئی اے کے اہلکاروں پرچاربڑے خوفناک حملے ہو چکے ہیں جس میں سی آئی اے کے
اعلیٰ کنٹریکٹرزمارے جا چکے ہیں اس لئے ان پرائیویٹ کنٹریکٹرزکوبگرام
ایئرپورٹ سے بیرونِ ملک بھجواناممکن نہیں کیونکہ وہ پینٹاگون کی نگرانی میں
ہیں جبکہ سی آئی اے سویلین حکومت کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔امریکی حکام نے
کہا ہے کہ اگروہ اپنے فوجی تعینات کرتے ہیں توان پربھی حملے ہوں گے ،اس لئے
افغان پولیس اورفوج سی آئی اے کے کنٹریکٹرزکوافغانستان سے باہر نکالنے میں
ان کی مددکرے تاہم چاروں مرتبہ مزاحمت کاروں کوہی کامیابی ملی ہے اورگزشتہ
دنوں بھی سی آئی اے کے انتہائی ماہراورقیمتی چار کنٹریکٹرزہلاک ہوگئے تھے۔
موسیٰ قلعہ پرطالبان کے قبضے کے بعدنہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنی دھاک بٹھادی
ہے بلکہ افغان حکومت اورپوری دنیاپر واضح کردیاہے کہ افغانستان میں طالبان
ایک بڑی قوت ہیں اوران کی قوت دن بدن مزید بڑھ رہی ہے۔دوسری جانب طالبان کی
طرف سے ملاعمر کی وفات کودو سال تک چھپانے کی وضاحت بھی سامنے آئی ہے اوراس
وضاحت نے طالبان کے اندراپنی قوت کویکجاکرنے اوراپنے اندراختلافات پرقابو
پانے کوواضح کردیاہے کہ طالبان نے اپنے اختلافات پرقابوپانے کے بعد اب نہ
صرف اس کی تصدیق کردی ہے بلکہ اپنے امیرکی موت کوکیوں چھپایا گیاتھااس کی
بھی انہوں نے وضاحت کردی ہے۔پچھلے ہفتے طالبان کی جانب سے چھ زبانوں میں
اپنے نئے امیرکا تعارف جاری کیا گیا ہے جس میں کہاگیاہے کہ رہبرشوریٰ
اوراہم قائدین کوملا عمرکی وفات کاعلم تھالیکن یہ خبر مصلحتاًخفیہ رکھی گئی
تھی ۔
طالبان کے مطابق ٢٣اپریل ٢٠١٣ء کوجب ملاعمرکاانتقال ہواتو رہبری شوریٰ کے
کئی ارکان،علمائے کرام،گزشتہ ١٤سال کے دوران ملا عمرکے ساتھ رہنے والے ،ان
کے خصوصی قاصدوں اوران کے دائمی دوستوں،سب نے ملااختر منصورکے ہاتھ پر بیعت
کی اورانہیں امیرمتعین کیا۔طالبان کاکہناہے کہ رہبری شوریٰ ،اہم قیادت
،چندشیوخ اورعلمائے کرام نے اس وقت فیصلہ کیاتھاکہ مصلحت کاتقاضہ یہی ہے کہ
ملاعمرکی وفات کی خبرشوریٰ اوراہم قائدین تک محدودرکھی جائے۔ملااخترمنصورکا
تفصیلی تعارف جاری کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ منتخب امیرنے عملی طورپرقیادت کے
معاملات ملاعمر کی زندگی میں ہی سنبھالنا شروع کردیئے تھے ۔نئے امیر اپنی
تمامتر عسکری اور انتظامی مصروفیات کے ساتھ ساتھ میڈیاپرگہری نظررکھتے
ہیں۔عسکری فرنٹ پروہ محاذوں اورعسکری ذمہ داران سے ہمیشہ رابطے میں رہتے
ہیں۔دشمن پرہونے والے حملوں کے منصوبے بھی وہ خود دیکھتے ہیں۔جاری شدہ
تعارف کے مطابق ملامنصور،الحاج محمدجان کے بیٹے قندھارکے ضلع میوندکے گاؤں
تیمورمیں ١٩٦٨ء میں پیدا ہوئے۔ان کے والد نے ان کوسات سال کی عمر میں اپنے
ہی علاقے کے ایک مدرسے میں داخل کرادیا ،جس کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول
کیلئے انہوں نے مشہورمدارس کارخ کیا۔اسی دوران افغانستان کاسیاسی اقتدار
کیمونسٹوں کے ہاتھ چلاگیااور افغانستان کے مجاہدعوام نے ان کے خلاف اسلامی
تحریک کاآغاز کیا۔سوویت جارحیت کے درمیانے ادوارمیں ملا اختر منصورنے اپنی
دینی تعلیم ادھوری چھوڑدی،بعدازاں انہوں نے مستقل طور پر میدان جنگ
کاانتخاب کیا،اس وقت ان کی عمربیس سال تھی۔انہوں نے ١٩٨٥ء میںجنگی کاروائی
کیلئے قندھارکے مشہورکمانڈرعزیزاللہ کے محاذ سے اپنی عسکری زندگی
کاآغازکیا۔بعدمیں انہیں مولوی محمدیونس خالص کی تنظیم حزبِ اسلامی میں ذمہ
داری دی گئی۔طالبان کے نئے امیرکے اس تعارف کے بعدیہ بات سامنے آرہی ہے کہ
طالبان اوران کے درمیان اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔
ادھرجنرل راحیل شریف کی جانب سے علیحدگی پسندبلوچ قوم پرستوں کوقومی دھارے
میں لانے کیلئے کئے گئے اقدامات کے نتیجے میں بڑی تعدادمیں فراری
کمانڈرہتھیارڈال رہے ہیں جس سے بھارت کی علیحدگی پسند بلوچوں میں کی جانے
والی سرمایہ کاری بھی ڈوب گئی ہے ۔بلوچستان میں بھارت کے اہم مہرے بھی اس
کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں،اس صورتحال نے بھارت کوسخت پریشان کردیا ہے۔
کابل میں موجودذرائع کے مطابق براہمداخ بگٹی نے بھارت کے منصوبے کومکمل
طورپرمستردکرتے ہوئے پاکستانی حکام سے مذاکرات کی درخواست کی ہے۔بھارت
کواصل تکلیف بلوچستان میں اہم کمانڈروں کی جانب سے ہتھیارڈالنے پر
ہے۔براہمداخ کے جن ساتھیوں نے ہتھیار ڈالے ہیں انہوں نے براہمداخ کوبتایاکہ
ان کے ساتھ سیکورٹی اداروں کارویہ انتہائی دوستانہ ہے اوروہ اب پاکستانی
ہونے پرفخرمحسوس کررہے ہیں۔ حکومت کے ساتھ اس بے مقصدجنگ نے توان کے بچوں
کامستقبل بھی تاریک کردیاتھالہنداوہ اب اس کھیل کاقطعاًحصہ نہیں بنیں گے۔
دوسری طرف پاکستان کے خلاف شدیدالزامات ،سخت وناروازبان استعمال کئے جانے
کے باوجود پاکستان کی طرف سے صبرو تحمل کامظاہرہ کرنے،پاکستانی چوکیوں
پرحملوں کے بعدجوابی کاروائی نہ کرنے، افغان سفارتکاروں کو پاکستان میں
مکمل پروٹوکول دینے کے ساتھ ساتھ افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات
آگے بڑھانے پربھی بھارت سخت پریشان ہے جس کی بناء پر پاک افغان تعلقات
اورافغان طالبان مصالحتی عمل کوسبوتاژکرنے کیلئے پاکستانی سفارتی عملے
کواغواء اوران پرحملوں کی منصوبہ بندی کی سازش کاانکشاف ہواہے جس کیلئے
کابل میں بھارتی ''را''کے ایجنٹ افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے بھیس میں
پاکستانی سفارتی عملے کا پیچھا کر رہے ہیں جس کی بناء پرپاکستانی سفارتی
عملے نے سفارتخانے کے کمپاؤنڈمیں رہائش اختیارکر لی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی سفارتکاروں کے ممکنہ اغواء کے خدشے کے بعدقائم مقام
افغان وزیردفاع معصوم استنگزئی نے نہ صرف پاکستانی سفارتی عملے کے تحفظ کی
ہدایات جاری کردی ہیں۔اپنے بیان میں یہ بھی کہاہے کہ پاکستان کے ساتھ
تعلقات بہتربنانے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات فوری طوراٹھانے کاعمل بھی شروع
کردیاگیاہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تیاری مکمل کرچکے ہیں ۔اسی طرح
احمدضیاء مسعودکی جانب سے جہادی شوریٰ کے قیام اوراس کے پلیٹ فارم سے
مذاکرات کی حمائت پربھی بھارت کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔
بھارت کی یہ ایک واحدامیدتھی کہ وہ افغانستان سے بلوچ فراریوں کوبھیج کر
پاک چائنااقتصادی کوریڈورپراجیکٹ کوناکام بنائے گا لیکن اب یہ سازش بھی دم
توڑگئی ہے،اسی لئے آخری وارکے طور پراس نے کابل میں پاکستانی سفارت کاروں
کواغواء کرنے کامنصوبہ بنایاتھا۔ ادھر چائناکی انٹیلی جنس نے پاک بھارت کے
مستقبل کاایک نقشہ جاری کیاہے جس میں بھارت کودرجن سے زائد چھوٹی ریاستوں
میں تقسیم جبکہ موجودہ پاکستان کودگنابڑادکھایاگیاے جس میں کشمیرکے علاوہ
دیگرعلاقے بھی شامل دکھائے گئے ہیں۔ان حالات میں یہی کہا جاسکتاہے کہ ’’اب
تیراکیابنے گامودی کالیا‘‘۔
|