آزاد کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
بھارتی وزیر اعظم نریندر درموداس
مودی اس سال نومبر میں برطانیہ کا سرکاری دورہ کریں گے۔ اس سے پہلے اس ماہ
کے آخر میں امریکہ بھی جائیں گے۔ مودی اقتدار میں آنے کے بعد 115 ممالک کا
دورہ کر چکے ہیں ۔ مودی کے ان دوروں کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ بھارت
ایک ابھر تی ہوئی معاشی طاقت اور ذمہ دار جوہری طاقت ہے چناچہ ترقی یافتہ
ممالک بین الاقوامی معاملات میں بھارت کی اہمیت سمجھتے ہوئے سلامتی کونسل
میں مستقل نشست کے لیے اس کی حمایت کریں۔ دوسری طرف جنوبی ایشیاء میں ایک
اور جوہری ریاست پاکستان دنیا کو یہ باور کروانا چاہتی ا ہے کہ بھارت ایک
غیر ذمہ دار ریاست ہے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزام سے خطے کا امن دائو پر
لگا ہوا ہے۔ بلخصوص مسئلہ کشمیر پر بھارتی ہٹ درمی نے خطے کو ایٹمی فلش
پوائنٹ بنا دیا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کی یہ رقابٹ دراصل کشمیر کے تناظر
میں ہے۔ اس رقابت نے سرحدیں عبور کرتے ہوئے امریکہ ،برطانیہ سمیت کئی ممالک
میں پاکستان بھارت لابیز کو جنم دے دیا ہے ۔ 17ستمبر کو آزادکشمیر کی ساری
سیاسی قیادت اور حریت کانفرنس کے رہنما وں کی ایک میز پر موجودگی سے سب کو
حیرت ہوئی ہوگی تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ اس محفل میں بھی ملٹری ڈیموکریسی
اور سیاسی ڈیموکریسی نے جھڑپ کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ سردار عتیق احمد
خان سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اب جنرل راحیل کے قصیدے پڑھتے نظر
آئے جبکہ فاروق حیدر ملٹری ڈیموکریسی کوتسلیم کرنے پر تیار نہیں ۔جماعت
اسلامی کے امیر سراج الحق کی میزبانی میں اس مجلس میں کئی دوسری باتوں کے
علاوہ اس موقع پر یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ برطانیہ میں مقیم کشمیری تارکین
وطن اور پاکستانی مودی کی آمد پر احتجاج کریں گے۔ حکومت برطانیہ کو یہ
بتانے کی کوشش کریں گے کہ مودی اور اس کی حکومت تنازعہ کشمیر میں اصل رکاوٹ
ہے۔ اس رکاوٹ کی وجہ سے یہ خطہ جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ کئی کشمیری
تنظیموں اور ان کے رہنمائوں نے مودی کی برطانیہ آمد پر احتجاج کے سلسلے میں
ان دنوں روائتی بیانات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔کشمیری تارکین وطن کے
مقابلے میں برطانیہ میں مقیم بھارتی لابی بھی اس لڑائی میں کسی سے پیچھے
نہیں۔ بھارتی لابی اس دفعہ عملاً اس لڑائی میں کود پڑی ہے ۔ بھارتی لابی نے
کشمیر کے سلسلے میں برطانوی پارلیمنٹ کا دروازہ کھٹکھٹادیا ہے۔ اگرچہ برطا
نوی پارلیمنٹ میں پیش ہونے والی کسی قرارداد کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ قرار
داد ہوا کا رخ موڑ دے گی اور کسی ملک کو سخت فیصلہ کرنے پر مجبور کر دے گی
تاہم یہ قراردادیں رائے عامہ ہمورا کرنے اور پراپگنڈا مہم میں موثر ثابت
ہوتی ہیں۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی کے نئے سربراہ جیرمی کاربن JERMY
CORBYNسمیت 9ارکان پارلیمنٹ نے ارلی موشن ڈے 393پیش کر دی ہے۔ اس قرارداد
میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آزادکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو
رہی ہے، ممبر پارلیمنٹ ورندرا شرما کے مطابق ہندو احمدی ، کر سچن اور دوسری
اقلیتیں امتیازی سلوک کا شکار ہیں ۔ قرارداد میں پاکستان سے بھی مطالبہ کیا
گیا ہے کہ وہ کشمیر میں 1947سے پہلے کی پوزیشن پر چلا جائے ۔ لائن آف
کنٹرول کے ذریعے سرحد پار دہشت گردی کا سلسلہ ختم کردے۔ اس قرارداد کو
بھارت نواز ممبر پارلیمنٹ باب بلیک مین نے سپانسر کیا ہے جبکہ بھارت نواز
ممبر پارلیمنٹ ورندرا شرما VIRENDAR SHARMAقرار داد کے اصل محرک ہیں۔
ماہرین کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں ارلی ڈے موشن( قرارداد )دراصل پبلسٹی
کا بہترین موقع ہوتی ہے۔ ایسی قراردادوں کے ذریعے مختلف لابیز اپنی
پراپگنڈا مہم کو متحرک اور فعال بناتی ہیں۔ اہم بات یہ کہ اس قرارداد پر
لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کاربن کے دستخط ہیں۔ حالانکہ ان کی پارٹی مسئلہ
کشمیر کے سلسلے میں دو ٹوک رائے رکھتی ہے وہ یہ کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں
کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ 1995میں
لیبر پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو پارٹی نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ایک قرار
داد کے ذریعے اپنی پالیسی متعین کی تھی۔ اس پالیسی کا مرکز و محور کشمیریوں
کی خواہشات کے مطابق تنازعے کا حل تھا ۔اگرچہ لیبر پارٹی کئی بار اقتداد
میں آئی تاہم تنازعہ کشمیر کے حل کے سلسلے کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام
رہی۔ میری معلومات کے مطابق آزاد کشمیر 13ہزار 297مربع کلو میٹر کا ایک خطہ
ہے جس کی آبادی 45لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو ، سکھ، عیسائی، اور بودھ مت مذہب کے ماننے والے
بھی موجود ہیں تاہم آزاد کشمیر میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ آزاد کشمیر
کے 10اضلاع میں مجھے کبھی بھی کوئی ہندو کوئی سکھ مقامی شہری نظر نہیں آیا
ہاں احمدی ہو سکتے ہیں جو کئی وجوہات کی بنا پر اپنے شناخت ظاہر کرنے سے
قاصر ہیں۔ اگر ریاست کے اس حصے میں ہندو کرسچن موجود نہیں ہیں تو پھر
امتیازی سلوک کا نشانہ کیسے بن رہے ہیں؟ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی
شکایت کی بنیاد کیاہے؟ ورندرہ شرما ،باب بلیک مین اورجیرمی کاربن ، کریس
لائ، ریچل مشکیل، پالاشرف، ڈیوڈ سمن، کرسٹوفرسٹیفن نے جس قرارداد پر دستخط
کیے ہیں وہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا مہم کا حصہ تو ہو سکتی ہے ٹھوس حقائق
کا اس قرارداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لندن میں قائم تنظیم کشمیر ڈیولپمنٹ
فائونڈیشن کے صدر سردار افتاب نے اس قرارداد کی طرف میری توجہ مبذول
کروائی۔ سردار افتاب کے خیال میں آزادک کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں سیاسی
کارکنوں کو بعض پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان کے اظہار رائے پر بھی پابندی ہے،
حال ہی میں آزاد کشمیر میں بعض کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ گلگت
بلتستان میں بابا جان کرنل نادر حسن اور دوسرے قوم پرست رہنمائوں کو ایسی
ہی پابندی کی باعث پابند سلاسل کیا گیا تاہم انہیں برطانوی پارلیمنٹ میں
پیش کی جانے والی قرارداد سے انہیں اتفاق نہیں۔سردار افتاب کہتے ہیں اس
قرار داد کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان رقابت میں کسی ایک پارٹی کی
پراپیگنڈا مہم کا حصہ بننا ہے ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور بھارت تنازعہ
کشمیر کے حل کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے میں ناکام رہے ہیں تاہم
قرارداد پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے ۔جیریمی کاربن کے دستخطوں سے پیش کی جانے
والی قرارداد اگرچہ ایک علامتی نوعیت کی ہے تاہم اس قرار داد سے یہ اندازہ
لگانا مشکل نہیں کہ برطانوی پالیسی سازی اور برطانوی پارلیمان میں بھارت
نواز عناصر کو کتنا غلبہ حاصل ہے ۔ برطانیہ میں مقیم کشمیری اور پاکستانی
تارکین وطن کو مودی کی آمد پر احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے تاہم ایسا احتجاج
ان کے کاز کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا جس میں کشمیری گروپ باہم متحارب
نظر آئیں۔ نامناسب ہوگا پاکستان کے اندر کی سیاسی لڑائی برطانیہ میں لڑئی
جائے۔ جس طرح ملین مارچ کے دوران سیاسی گروپوں نے ایک دوسرے کے کلاف نعرے
لگائے، ایک دوسرے پر جوتے پھینکے، ایسا احتجاج کسی کاز کو اجاگر نہیں کرے
گا بلکہ جگ ہسائی کا باعث بنے گا۔ |
|