جنرل شاہ نواز خاں

پورے ہندوستان پرانگریزوں کی حکومت پوری طرح سے مسلط ہو چکی تھی۔ظلم اور بربریت کا بول بالا ہو رہا تھا۔عوام پس رہے تھے،بعض ہندوستانی حکمراں بھی انگریزوں کی چاپلوسی میں انگریزوں سے دو چار قدم آگے ہی چل رہے تھے۔ان میں جے چند تھے اور میر صادق اور میر جعفر بھی تھے۔اور یہی لوگ انگریزوں کی توپوں کی خوراک بھی بنتے تھے لیکن اپنی ہرکتوں سے باز نہیں آ رہے تھے۔آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر، نواب سراج الدولہ، ٹیپو سلطان،جھانسی کی رانی پہلی جنگ آزادی میں یہ لوگ انگریزوں سے ہارے صرف گھر کے بھیدیوں کی وجہ سے۔

اسی آزادی کے سلسلہ کی دوسری جنگ میں مہاتما گاندھی جی نے انگریزوں سے لڑنے کی عدم تشدّد کی راہ اختیار کی ادھر نیتاجی سبھاش چند بوس نے اپنے دوسرے ساتھیوں جنرل موہن سنگھ،میجر جنرل ایم ․زیڈ․کیانی، میجر جنرل شاہ نواز خاں، کرنل پریم کمار سہگل اورکرنل شوکت علی ملک کے ساتھ آ زاد ہند فوج (Indian National Arma) بنائی۔انہیں بھارتی قوم پرستوں کے گروپ کے ایک بہادر جنرل جو بعد میں سیاست میں بھی رہے کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران انڈیئن نیشنل آرمی میں جنرل شاہ نواز خاں کیپٹن کے عہدے پر تعینا ت تھے، جنگ کے دوران۱۹۴۲؁ء میں سنگا پور میں جاپانیوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔جنگی قیدی کی حیثیت سے انھوں نے سبھاش چند بوس کی تقاریر سنی اور تقاریر سے متاثر ہوئے۔ ان کی تقوریر کا مفہوم ہوتاتھا کہ ’جنگی قیدی انڈئین نیشنل آرمی میں شامل ہوں اور بھارت کی آزادی کے لیے لڑیں۔ان کی تقاریر نے شاہ نواز خاں میں ’نوم توجہ(hypnotize)‘ پیداکر دیا تھا۔انھوں نے بھارت کا ایساخاکہ پیش کیا کہ شاہ نواز خاں کو لگا کہ وہ بھارت کو ہندوستانی کی حیثیت سے پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔تقاریر کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ ۱۹۴۳؁ء میں شاہ نواز خاں نے ’انڈین نیشنل آرمی میں شامل ہو گئے۔آزاد ہند کی عارضی حکومت میں بھی شامل کیا گیا۔بوس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ریجیمنٹ کے لائق لوگوں کو پیش رفت میں ہندوستان بھیجا جائے۔شاہ نواز خان نے شمال مشرقی بھارت میں حسب منشا سبھاش چند بوس، فوج کی قیادت کی۔دسمبر ۱۹۴۴؁ء شاہ نواز خاں کو’ منڈالے‘پر فرسٹ ڈیویژن کمانڈر تعینات کیا گیا۔

شاہ نواز خان، جنرل پریم سہگل اور کرنل گر بخش سنگھ ڈھلن پر فوجی بغاوت کا مقدما ،فوجی عدالت میں چلا تھا۔ یہ عدالت لال قلعہ میں لگائی گئی تھی۔ان لوگوں کی دفع میں’سر تیج بہادر سپرو‘، ’جواہر لعل نہرو‘، ’آصف علی‘، ’بھولا بھائی دیسائی‘، ‘کیلاش ناتھ کاٹجو اور بہت سے لوگ تھے۔ان لوگوں کی پیروی کے باوجود جنرل شاہ نواز خاں کو عدالت نے پھانسی کی سزا دے دی لیکن کمانڈر ان چیف نے ،شدید عوامی حمایت اورزبردست قومی ہمدردی کی وجہ سے ان کی سزائیں معاف کر دیں۔

آزاد بھارت میں شاہ نواز خاں نے سیاسی راہ اختیار کی اورانڈین نیشنل کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے۔آزاد بھارت کی پہلی لوک سبھاجس کی مدّت ۱۷؍اپریل ۱۹۵۲؁ء سے۴؍اپریل۱۹۵۷؁ء تک تھی کے ممبر میرٹھ سے چُن کر آئے اور کابینہ کے وزیر بھی بنے۔اس لوک سبھا میں ان کے علاوہ۲۰؍ مسلم ممبران اور تھے۔ جن کے نام ذیل میں دیے جا رہے ہیں:
۱۔محی الدین احمد ، حیدر آباد، ۲۔طاہر علی مالّا عبداﷲ بھائی، مدھیہ پردیش، ۳۔ عبد الستّار، مغربی بنگال، ۴۔ عابد علی،۵۔ امجد علی، آسام، ۶۔ ڈاکٹر شوکت اﷲ شاہ انصاری، حیدرآباد، ۷۔مولانا ابوالکلام آزاد، اتر پردیش، ۸۔خان غلام قادر بھٹ، جموں کشمیر، ۹۔ڈاکٹر ایس․اے․ایبنزر، حیدرآباد، ۱۰۔ایم حفظ الرحمن، اتر پردیش،۱۱۔ اے ․ابراھیم، بہار، ۱۲۔سیدمحمد کاظمی، اتر پردیش، ۱۳۔ سعادت علی خاں، حیدر آباد، ۱۴۔رفیع احمد قدوائی، اتر پردیش، ۱۵۔مولانا محمد سعید مسعودی، جموں کشمیر، ۱۶۔صوفی محمد اکبر، جموں کشمیر، ۱۷۔محمد اسلام الدین، بہار، ۱۸۔محمد خدا بخش، مغربی بنگال، ۱۹۔سعید اﷲ خاں رزمی، بھوپال، ۲۰۔ڈاکٹر سید محمود، بہار۔(ذھیب جنرل نالج)

شاہ نوازخاں کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راوپلنڈی کی تحصیل ’کہوٹا‘کے گاؤں ’مٹورے‘کے جنجوا راجپوت خاندان سے تھا۔ان کے والد کا نام سردار ٹکّا خاں تھا(جنرل ٹکّا خاں نہیں)۔ان کی پیدائش ۲۴؍جنوری؍۱۹۱۴؁ء کوہوئی۔ تعلیم’راشٹریہ انڈین ملٹری کالج،دہرادون میں ہوئی۔ان کے گاؤں میں بڑے نامور لوگ پیدا ہوئے جیسے ’راجہ ظفرالحق‘، ’جنرل ٹکّا خان، جنرل ظہیر الاسلام اور دنیا کے مشہور مکّے باز عامر خان۔

جنرل شاہ نواز خان کے تین بیٹے’محمود نواز خاں‘، ’اکبر نواز خاں‘ اور ’اجمل نواز خاں‘ اور تین بیٹیاں’ممتاز‘، ’فہمیدا‘ اور گود لی ہوئی بیٹی ’لطیف فاطمہ‘ جن کی کوکھ سے بالی ووڈ کی مشہور شخْصیت ’شاہ رخ خان‘ہیں۔

شاہ نواز خاں کے بڑے بیٹے محمود نواز خاں کے تین بیٹے: ’محبوب‘،’ اسد‘ اور’ علی‘ یہ تینوں شادی شدہ ہیں۔ محبوب کے دو بیٹے سعد اور ابراھیم، اسد کے ایک بیٹا ’احمد‘ ہے اور علی نواز بھی شادی شدہ ہیں اور انکے بھی ایک بیٹا ہے۔اس بچے کا نام پر دادا کے نام پر ’شاہ نواز خاں‘ ہی رکھا گیا ہے۔منجھلے بیٹے اکبر نواز خاں کے دو لڑکے: ’عادل‘ اور ’اعظم‘ جس میں عادل کی شادی ہو چکی ہے۔اور چھوٹے بیٹے اجمل نواز خاں کے تین بیٹے: ’ایان‘، ’افان ‘اور ’ادنان‘۔

بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں وزیر رہے۔میرٹھ لوک سبھا سیٹ سے چار بار ۱۹۵۱، ۱۹۵۷،۱۹۶۲ اور ۱۹۷۱ میں منتخب ہو ئے لیکن ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۷ میں ہار گئے تھے ۔ ان کے پاس ’ریلوے و ٹرانسپورٹ‘، ’اسپات اور کان‘، ’پٹرولیم اور کیمکل‘، ’ لیبر اور امپلائیمنٹ‘، ’اگری کلچراور کوآپریشن‘ کی وزارت رہی۔’نیشنل سِیڈ کارپوریشن‘ اور’فوڈ کارپوریشن آف انڈیا‘ کے چئیر مین بھی رہے۔شاہ نواز خاں کا انتقال ۹؍دسمبر۱۹۸۳؁ء کو ہوا

’سبھاش چند بوس‘ کے انتقال کی وجوہات کا پتہ لگانے کی غرض سے ۱۹۵۶؁ء میں جنرل شاہ نواز کی سربراہی میں حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ اس کمیٹی میں سبھاش چند بوس کے بڑے بھائی ’سریش چند بوس ‘ بھی شامل تھے۔کمیٹی نے اپنا کام اپریل ۱۹۵۶؁ء میں شروع کیا اور چار ماہ میں،تین ممبروں میں دو ممبر(سریش چند بوس کو چھوڑ کر) اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہوائی جہاز حادثہ میں فار موسیٰ جو اب تائیوان کے نام سے جانا جاتا ہے میں ۱۸؍اگست ۱۹۴۵؁ء کو ان کا انتقا ل ہو گیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان کی راکھ ’رینکوجی مندر ‘ میں محفوظ ہے جو بھارت لائی جا سکتی ہے۔

۱۹۶۵؁ء میں پاکستان کے جنگ کے دوران جنرل شاہ نواز کا بیٹا ’محمود نواز خاں‘ پاکستان کی فوج میں آفیسر تھا۔ یہاں کی حزب اختلاف نے یہ مانگ رکھی کہ حکومت سے شاہ نواز خاں کو ہٹا دیا جانا چاہئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے حزب اختلاف کی مانگ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’انڈین نیشنل آرمی‘ میں ان کی بے لوث خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67412 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.