تم برے ہو تو ہم بھی برے ہیں

آج یعنی 18 ستمبر کے خبارات میں فاروق ستار صاحب کا بیان شائع ہوا ہے کہ" برے لوگ دوسری جماعتوں میں ہیں تو ایم کیو ایم میں بھی ہو سکتے ہیں ۔"پہلے زمانے میں کراچی میں تانگے چلا کرتے تھے تو اس میں گھوڑے کی آنکھ کے پاس ایک چمڑے کا پٹا باندھا جاتا تھا وجہ اس کی یہ بتائی جاتی تھی کہ اس سے گھوڑا صرف سامنے کی طرف دیکھ سکتا ہے یعنی جس راستے پر اسے جانا ہے وہ صرف اسی کو دیکھتا رہے ۔انسان تو اشرف المخلوقات ہے جو ان گھوڑوں سے کہیں بالا تر ہے اس لیے اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ نہ صرف دوسروں کی طرف دیکھے بلکہ اپنی ذات کی طرف سے آنکھیں بند کرلے ،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دوسروں کی رائی برابر برائی کو پہاڑبنا کر پیش کرے اور اپنی ٓنکھ کا شہتیر بھی اس کو نظر نہ آئے۔یعنی میری جماعت میں برے لوگ اس لیے ہیں کہ دوسری جماعتوں میں بھی ہیں ارے بھئی اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں تعداد کے تناسب اس کی سنگینی کو دیکھا جاتا ہے ۔دوسری جماعتوں میں کتنے ٹارگٹ کلر ز،ڈکیتی مارنے والے اور لوگوں کو اغوا کرنے والے ہیں جتنے کے آپ کے پاس ہیں ۔

فاروق ستار صاحب کا یہ معصومانہ بیان اس حقیقت کو کیسے جھٹلا سکتا ہے کہ آپ کے یہاں تو ٹارگٹ کلر پکڑے جارہے ہیں جو ایک نہیں بلکہ دس دس بیس بیس قتل کا اعتراف کررہے ہیں جب کہ دوسری جماعتوں میں کچھ ہنگامہ آرائی کرنے والے ،احتجاجی مظاہروں میں ایجی ٹیشن کرنے والے تو ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں ۔اس طرح آپ نے کم برے لوگوں کو وحشی قاتلوں کی صف میں کھڑا کردیا ۔ویسے ایم کیو ایم میں سارے لوگ برے نہیں ہیں لیکن آپریشن کے حوالے سے جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس میں نوے فی صد کا تعلق ایم کیو ایم سے نکل رہا ہے اس لیے اس صورتحال نے ایم کیو ایم کی ایک خوفناک شکل بنادی ہے ایم کیو ایم کو اس اسٹیج تک لانے میں کسی اور کا نہیں خود ایم کیو ایم کی قیادت کا ہاتھ ہے ۔جس وقت ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کے ساتھ تھی اور یہ نوجوان بڑے ذوق شوق اور امنگوں کے ساتھ تنظیم میں شامل ہوئے تھے کہ اس میں ان کو اپنے مسائل کے حل کی امید نظرا ٓرہی تھی ۔جتنی بڑی نوجوانوں کی تعداد جوش و جذبے کے ساتھ ایم کیو ایم کے ساتھ آئی تھی اگر قیادت چاہتی تو ان سے بہت سے تعمیری کام لیے جاسکتے تھے لیکن ہم نے ان کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر ہتھیار پکڑا دیے ،ان کی زبان سے ادب و تہذیب والے الفاظ کی جگہ مادر پدر آزاد لہجہ اورزبان دے دی ،جو نوجوان اپنے بزرگوں کے سامنے نظریں اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے وہ ان کے سامنے ہتھیار اٹھا کر بات کرنے لگے ۔ان کے نام کے ساتھ لولا، لنگڑا،اندھا،کانا اور گٹا لگادیا گیا۔

ہماری جو نسل ہندوستان سے ہجرت کر کے آئی تھی اس نے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے بچوں کی تر بیت کی۔ہمارے ایک پختون تحریکی ساتھی بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں بڑے بوڑھے پختون بزرگ جب آپس میں مل بیٹھتے تھے تو اکثر وہ یہ بات کہتے تھے کہ دیکھو یہ اردو اسپیکنگ والے لوگ یعنی مہاجر جو لٹے پٹے ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے ان کے پاس کھانے کو رہنے کو کچھ نہیں تھا مگر آج اسلام آباد میں بڑے بڑے افسران ان ہی اردو اسپیکنگ کی اولادیں ہیں تم فوج میں دیکھ لو ،سول اداروں میں دیکھ لو جس طرف جس ادارے میں دیکھو تمھیں یہی مہاجر چھائے ہوئے نظر آئیں گے ۔اس ہی محفل میں ہمارے دوسرے پختون بزرگ ان کو جواب دیتے کہ تمھارے یہاں بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو تم اسے کہیں کسی ہوٹل میں بیرا گیری کے لیے لگادیتے کہیں جوتا پالش کرنے میں ڈال دیتے ہو کہ یہ دو پیسے کما کر لائے گا ،اور یہ لوگ بھارت سے لٹ پٹ کر آئے تھے یہاں ان کو معاشی پریشانی تھی رہنے کو ٹھیک سے گھر نہیں تھا لیکن ان سب پریشانیوں کے باوجود انھوں نے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اکثر ایسا بھی ہوا کہ ماں باپ خود بھوکے رہ گئے اور اپنے بچوں کو ان پیسوں کی کتابیں اور کاپیاں دلادیں کہ ان کی پڑھائی میں کوئی خلل نہ آئے ۔اتنی قربانیاں دے کر جو لوگ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں گے تو پھر ان کے بچے ہر جگہ نہیں نظر آئیں گے تو پھر کون نظر آئے گا ۔یعنی یہ ایک حقیقت پسندانہ تاثر تھا کہ خود راقم کو جب میٹرک کے بعد کالج میں ڈاخلے کی ضرورت تھی تو اس کی والدہ نے اپنا زیور گروی رکھ کر داخلہ دلایا تھا ۔چنانچہ قیام پاکستان سے لے 1972تک کراچی و حیدرآباد کے نوجوان اپنی صلاحیتو ں کی بنا پر میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہے پھر جب پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور اس نے سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ کیا تو اس سے سندھ کے شہری نوجوانوں کی حق تلفی ہونے لگی جب با صلاحیت لوگوں کو ان کی تعلیم اور صلاحیت کی بنیاد پر ملازمتوں کے حصول سے محروم کیا گیا تو اس سے سندھ کے شہری نوجوانوں میں غصہ میں اور اشتعال پھیلنے لگا ۔اس نفرت و اشتعال کو ہماری اسٹبلشمنٹ نے اپنے حق میں استعمال کیا اور سندھ کے شہری علاقوں سے دینی جماعتوں کے غلبے کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو وجود بخشاگیا ۔شروع کے دنوں میں ایم کیو ایم کے ساتھ نوجوانوں کی ا تنی بڑی تعداد تھی کہ اگر ایم کیو کی قیادت چاہتی تو بڑے بڑے پرامن مظاہرے کرکے پرامن احتجاجی تحریکیں چلا کر نوجوانوں کے مسائل حل کراتی کوٹہ سسٹم ختم کرواتی ،کراچی کے ادارے جس میں کے ڈی اے ،کے ایم سی کراچی واٹر بورڈ کراچی گیس کمپنی اور دیگر کراچی کے اداروں میں ملازمتوں کو کراچی کے نوجوانوں کے لیے مختص کروایا جاتا اس طرح کے اور مطالبات منوائے جا سکتے تھے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت نے ان نوجوانوں کو غلط مقاصد کے حصول میں استعمال کیا اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے انھیں ہر طرح کی کھلی چھوٹ دی ۔اور دلچسپ بات یہ کہ جس پیپلز پارٹی نے کوٹہ سسٹم نافذ کر کے شہری نوجوانوں کو ان کے حق سے محروم کیا اسی پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کر کے ایم کیو ایم نے برسوں اقتدار کے مزے لوٹے اور پھر ان کے کچھ خاص لوگوں نے نے اقتدار اور کاروبار کو اپنی ترقی کا ذریعہ بنایا اور وہ کنگال پتی سے ارب اور کھرب پتی بن گئے جب کہ اس تنظیم کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں ہزاروں نوجوان آپس کے تصادم میں مارے گئے ہزاروں نے روپوشی کی زندگی اختیار کی ،ہزاروں نجوان ملک سے باہر فرار ہو گئے اور ہزاروں نوجوان مختلف مقدمات کے بوجھ تلے دب کر آزاد زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہو گئے ۔

سیاسی جماعتوں کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کی مثبت انداز میں تربیت کریں انھیں معاشرے کا اچھا شہری بنانے کی کوشش کریں اور انھیں قانون کے دائرے میں کام کرنے کی تلقین کریں۔ تمام قومی و دینی جماعتیں ان ہی اصولوں کی روشنی میں کام کرتی ہیں ہر دینی جماعت ایسے تربیتی پروگرام تشکیل دیتی ہیں جس سے وہ اپنے کارکنان میں قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کا ذہن بناتی ہیں ،ایم کیو ایم کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کارکنان سے بھتا وصولی ،مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ ، اور دیگرجرائم کو چھڑا کر انھیں قانون پسند شہری بنائیں اور یہ کہ سرکاری اداروں میں جن لوگوں کو ملازمتیں دلائی گئی ہیں ان سے اپنا تنظیمی کام لینے کے بجائے انھیں سرکاری کا م کرنے کی طرف راغب کرائیں۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.