بَداصل وبَداعمال ،بَدعہد وبَدکار ،بَدباطن وبَداطوار
طالبان نامی دہشت گردمسلمان توکجا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں۔ لازمۂ
انسانیت سے تہی یہ نابکار وناہنجار ناستک ہیں، پکّے ناستک کہ ادیانِ عالم
میں سے کسی دین کے ساتھ بھی اِن کاکوئی تعلق نہیں کہ کوئی بھی دین وحشت
وبربریت کی اجازت نہیں دیتا۔ لادین وحشیوں کا یہ بزدِل ٹولہ دینِ مبیں کی
آڑمیں گاہے بگاہے اپنی یزیدیت کے ثبوت فراہم کرتارہتا ہے۔ کہنے کوتو
یزیدبھی مسلمان ہی تھالیکن حقیقت یہ کہ
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
میرادین توبچوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور ہتھیارنہ اٹھانے والوں کے لیے جائے
اماں ہے لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جن کازور ہی معصوم اوربے گناہ لوگوں پہ
چلتاہے۔ اِن بَدخُو و بَدنہاد وحشیوں کی دست بردسے کوئی مسجد محفوظ ہے نہ
مکتب۔ پہلے جی ایچ کیو راولپنڈی کی پریڈلین مسجدمیں بارگاہِ ایزدی میں جھکے
نمازیوں پر حملہ آورہوئے اورمسجدکے درودیوار کومعصوم شہیدوں کے پاکیزہ
لہوسے رنگین کرگئے پھرآرمی پبلک سکول پشاورکے معصوم فرشتوں کو خونم خون
کیااور اب پشاورکے نواحی علاقے بَڈھ بیرکے متروک فضائی مستقرکی اقامتی
کالونی پرچڑھائی کی اورنشانہ یہاں بھی ربّ ِ لَم یَزل کی بارگاہ میں سجدہ
ریزنمازی ۔افواجِ پاکستان کے جذبۂ شوقِ شہادت سے لبریزجرّی جوانوں نے ہرجگہ
اورہر مقام پراِن وحشیوں کو واصلِ جہنم کیا۔فضائی مستقر ( ایئربیس کیمپ)
پرحملہ کرنے والے تمام ، 13 دہشت گرد جہنم کاایندھن بنے لیکن 20 نہتے
نمازیوں سمیت 29 افرادبھی شہادت کا جام پی کر بارگاہِ ایزدی میں سرخ
رُوہوئے ۔ یہ شوقِ شہادت ہی تھاجونوجوان کیپٹن اسفندیار بخاری کومتروک
فضائی مستقرتک کھینچ لایا۔ اُن کاتو کوئیک ریسپانس فورس سے براہِ راست کوئی
تعلق ہی نہیں تھا لیکن جونہی اُنہوں نے دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں سنا،
اُن کے تَن بدن میں شوقِ شہادت انگڑائیاں لینے لگا۔ وہ اپنے آفیسرسے اجازت
لے کرکوئیک ریسپانس فورس میں شامل ہوئے اور یوں یہ ثابت کرچلے کہ
جان دی ،دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
عشقِ حقیقی سے لبریز اِن جری جوانوں کا تو مطلوب ومقصودہی شہادت ہوتاہے ۔اسی
ایئربیس کے 3 ٹیکنیشنز اگرچاہتے تواپنی جان بچاسکتے تھے۔ ویسے بھی ایک
ٹیکنیشن کاتو جنگ سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہوتالیکن یہ بھی نعرۂ تکبیربلند
کرتے ہوئے نکلے اوردہشت گردوں پر ٹوٹ پڑے ،5 دہشت گردوں کو واصلِ جہنم
کیااورخودبھی رتبۂ شہادت سے سرفرازہوئے۔ باقی 8 وحشیو ں کو کوئیک ریسپانس
فورس نے جہنم کاایندھن بنایا۔اِس سانحے کے فوری بعدچیف آف آرمی سٹاف جنرل
راحیل شریف اورایئرچیف مارشل سہیل امان پشاورپہنچ گئے، وزیرِاعظم میاں نواز
شریف بھی اپنا’’لواری ٹنل‘‘ کادورہ منسوخ کرکے پشاورپہنچے اورزخمیوں کی
عیادت کے علاوہ شہداء کی نمازِجنازہ میں بھی شرکت کی ۔اعلیٰ ترین سیاسی
وعسکری قیادت کایوں اکٹھے ہونابہرحال یہ توثابت کرگیاکہ جہاں قومی وقارکا
سوال اُٹھے گا، وہاں پوری قوم ایک صفحے پرہو گی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ
دہشت گردوں کی کمرٹوٹ چکی اورروزانہ کی بنیادپر ہونے والے بم دھماکے اور
دہشت گردحملے اب مہینوں میں ہوتے ہیں۔ اِس لیے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ یہ
بجھتے دیئے کی ’’آخری لَو‘‘ہے ، دیاجب بجھنے لگتاہے تواُس کی لَوایک دفعہ
بھڑکتی ضرورہے ۔ہماری سیاسی وعسکری قیادت کواب صرف اِس ’’بھڑکتی لَو‘‘ کاہی
سدّ ِباب کرناہے۔ شنیدہے کہ سول اورملٹری قیادت اگلے تین دنوں میں کسی بھی
وقت سَڑجوڑ کراِس اَمرکا جائزہ لینے کے لیے بیٹھے گی کہ اِس ’’بھڑکتی لَو‘‘
کاسدّ ِباب کیونکرممکن ہے۔
آئی ایس پی آرکے ترجمان میجرجنرل عاصم باجوہ نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ
حملہ آورنہ صرف افغانستان سے آئے تھے بلکہ حملے کی منصوبہ بندی بھی افغان
سرزمین پرہی کی گئی اورافغانستان سے ہی اُنہیں ہدایات مِل رہی تھیں۔ اُنہوں
نے یہ بھی فرمایاکہ دہشت گردی کی اِس واردات میں افغان حکومت یاریاست ملوث
نہیں۔ ماناکہ افغان حکومت اِس دہشت گردی میں براہِ راست ملوث نہیں ہوگی
لیکن یہ تو اب کوئی رازنہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پاکستان میں دہشت
گردی کے واقعات میں ملوث ہے اورافغانستان اِس کابیس کیمپ جہاں بھارت نے
دہشت گردوں کی تربیت کے لیے اڈے قائم کررکھے ہیں اور اِن اڈوں کے عوض افغان
حکمرانوں کو بھاری رقوم بھی عطاکی جاتی ہیں۔ حملہ آوروں کا نمازِ فجرکے وقت
خانۂ خُدامیں گھُس کرنمازیوں کوبے دریغ شہیدکرنا ثابت کرتاہے کہ یہ دہشت
گرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ یقیناََاسلام اورپاکستان دشمن قوتوں کے آلۂ
کارتھے اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بھارت اورامریکہ کواقتصادی راہداری
قبول ہے نہ پاکستان میں امن وامان ۔ایک طرف لائن آف کنٹرول پرچھیڑچھاڑ
اوردوسری طرف افغانستان کے راستے دہشت گردی کوبھارت نے اپناوطیرہ بنارکھا
ہے۔ مقصدوہی جس کاہم اپنے کالموں میں کئی بارذکر کرچکے کہ ایٹمی پاکستان کی
اقتصادی مضبوطی بھارت کوکسی بھی صورت قبول نہیں کیونکہ اگرایسا ہوگیا تو
خطے میں ایک تواُس کی چودھراہٹ پربراہِ راست ضرب پڑے گی جوبھارتی دہشت
گردوں کے لیے یقیناََ ’’ضربِ عضب‘‘سے کم تَرنہیں ہوگی اوردوسرے
انتہاپسندانہ ذہنیت کے حامل مخبوط الحواس بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کا
’’اکھنڈبھارت‘‘ کاخواب بھی ریزہ ریزہ ہوجائے گا ۔دوسری طرف امریکہ بہادرکو
بھی پاک چائنا اقتصادی راہداری قبول نہیں کہ جہاں ایک طرف اُس کے دِل
میں’’ایٹمی پاکستان‘‘ کانٹے کی طرح کھٹکتاہے تودوسری طرف یہ ’’عالمی چودھری‘‘
نہیں چاہتاکہ چین جیسی کوئی طاقت اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراُس کی ’’چودھراہٹ‘‘
کو چیلنج کرے ۔ وہ تو گوادرکی بندرگاہ پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے بہانہ بناکر
افغانستان پرحملہ آورہوا تھامگر ہوایہ کہ اُس نے افغان جنگ میں اپنی معیشت
کوتباہی کے دہانے پرپہنچا دیالیکن پھربھی گوادرکی بندرگاہ ہاتھ آئی نہ
’’گریٹر بلوچستان‘‘ کاخواب پوراہوا۔اقتصادی راہداری پراُس کی تلملاہٹ کااصل
سبب یہ ہے کہ نہ صرف اقتصادی طورپر مضبوط چین مزید مضبوط ہوجائے گابلکہ
پاکستانی معیشت بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجائے گی جوامریکہ اوربھارت
دونوں کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہوگا ۔ |