سابق آمر حکمران جنرل(ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی
لیفٹنٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’ یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں کئی
انکشافات کئے ہیں اور مشرف دور میں پاکستان کے وسیع تر مفادات کے خلاف ان
کے اقدامات پر کڑی تنقید کی ہے۔وہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے اتنے اعتما د کے
ساتھیوں میں شامل تھے کہ وزیراعظم نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ
تیا رکرنے کے تین ذمہ داروں میں شامل تھے ،جو منصوبہ فوجی بغاوت سے پہلے سے
ہی ان کے کمپیوٹر میں محفوظ تھا۔انہوں نے کتاب میں کرگل لڑائی،نائن الیون
کے بعد حاکم جنرل(ر) پرویز مشرف کے خفیہ اقدامات ،جنہیں وہ اپنے قریبی
ساتھیوں سے بھی پوشیدہ رکھتے اور معلوم ہونے ،استفسار پر ’’ need to know‘‘
کی حکمت عملی کا جواب ملتا۔کرگل لڑائی کی منصوبہ بندی کو فاش غلطی قرار
دیتے ہوئے شاہد عزیز لکھتے ہیں کہ ،
’’ یہ ہماری تاریخ ہے اور اس قوم کے نوجوانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ میں
سمجھتا ہوں اگر حقیقت نہ بیان کی گئی تو ان کا لہو رائیگاں جائے گا۔ہم نے
1971ء کی جنگ کی بھی حقیقتیں چھپا کر رکھیں ا ور آج پھر اسی راہ پر چل رہے
ہیں۔جب سچ پر پردہ ڈال دیا جائے تو اس سے کیا سبق کوئی سیکھے ؟جب سب ٹھیک
تھا ،کوئی غلطی نہیں ہوئی تو یقینا آئندہ بھی ویسے ہی کیا جائے گا۔پھر
تاریخ کے کڑوے لمحے پلٹ کر آئیں گے ،ہمارا خون بہائیں گے اور ہمارے حکمران
ایسے ہی جھوٹ بولیں گے،جسے آج ہم سیاسی مصلحت کہنے لگے ہیں،جھوٹ نہیں۔اب نہ
تو اس کی کوئی گنجائش رہ گئی ہے اور نہ ہی حوصلہ‘‘۔وہ لکھتے ہیں کہ انہوں
نے چیف آف جنرل سٹاف کی حیثیت سے2002ء میں فوج کی کمزوریاں سامنے لانے اور
لڑائی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے کر گل جنگ کے بارے میں ایک مطالعاتی
ریسرچ شروع کرائی تو جنرل پرویز مشرف نے سخت ناراضگی اور خفگی کا اظہار کر
تے ہوئے ’’سٹڈی‘‘ بند کرا دی۔شاہد عزیز نے کرگل میں اپنے مورچوں کو دشمن کے
قبضے میں آنے سے اور ان میں پھنسے ہوئے جوانوں کو بچانے کے لئے کشمیر میں
ایک اور محاذ کھولنے کی تجویز دی تو جنرل مشرف ان پر برس پڑے۔وہ لکھتے ہیں
کہ ہندوستان ہمارے کسی مزید حملے سے خائف تھا۔
شاہد عزیز نے اپنی اس کتاب میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے
کی منصوبہ بندی بھی بیان کی ہے جس کی تیاری جنرل پرویز مشرف کے دورہ سری
لنکا سے پہلے ہی کی جا چکی تھی۔وہ لکھتے ہیں ،’’ پاکستان کے آئین پر میں نے
بھی قسم اٹھائی تھی،مگر صرف میں نے ہی نہیں ،تمام حکمرانوں اور ججوں نے بھی
تو قسم اٹھائی تھی۔ان میں سے تو کسی کو آئین کا کوئی پاس نہ تھا۔سپریم کورٹ
پر حملہ بھی کیا،کسی نے نہ پوچھا کہ آئین کہاں گیا؟کیا چور بازاری کی آئین
اجازت دیتا تھا؟ کیا سیاسی مفاد میں اپنے ہی لوگوں کا قتل عام آئین کا حصہ
ہے؟ کیا عدالتوں میں ججوں کی خریداری آئین کے مطابق ہوتی ہے؟ کیا پولیس
آئین کے مطابق عوام پر ظلم کرتی ہے؟کیا عوام کا خون چوس کر جیبیں بھرنا
میرے گناہ سے کم تھا،اس کی آئین میں اجازت تھی؟ کیا صرف میں ہی مجبور تھا
کہ آئین کا پاس کرتا ؟کیا آئین کی اہمیت صرف حکمران کی کرسی بچانے تک ہے جس
کو ہلانے کی سزا موت لکھی گئی ہے؟ باقی ہر گناہ کی معافی ہے‘‘۔ شاہد عزیز
لکھتے ہیں کہ گوادر میں امریکی فوج اتر کربکتر بند گاڑیوں اور فوج سمیت
سمندری راستے سے اتر کر زمینی راستے سے افغانستان چلی گئی لیکن ’’ need to
know‘‘ کے تحت ان کے علاوہ کئی متعلقہ افراد سے بھی یہ بات چھپائی گئی۔شاہد
عزیز نے کشمیر پر جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کو کشمیر پر پاکستان کے موقف
سے منہ موڑنے کی پردہ پوشی ،کشمیر کو ہندوستان کا حصہ ماننے کی راہ میں
پہلا قدم قرار دیا ۔وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت بندوق
کی نوک پر جاگیر دارانہ،مورثی سیاسی نظام ختم کر کے نیا سیاسی نظام لانا
چاہتے تھے لیکن بعد میں اس بات پہ قائل ہوئے کہ فرق نظام سے نہیں مضبوط
حاکمیت سے پڑتا ہے۔
لیفٹنٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے آزاد کشمیر کی سیاست کے بارے میں بھی ایک
دلچسپ واقعہ اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے جس سے آزاد کشمیر کے سیاسی طریقہ
کار کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔لیفٹنٹ جنرل (ر) شاہد عزیز لکھتے ہیں کہ
وہ مری میں ڈویژن کمانڈر تعینات ہوئے،کشمیر کے علاقے کے ذمہ دار تھے جہاں
سیاسی حکومت بدستور قائم تھی،2001ء میں کشمیرکے الیکشن کا انتظام کر رہا
تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ معلومات کے لئے وہاں (آزاد کشمیر) کے لوگوں سے بھی مل
لیتا۔لیفٹنٹ جنرل (ر) شاہد عزیز لکھتے ہیں کہ ’’ایک ایسی ہی چائے پر میں نے
معمول کے مطابق لوگوں سے بات کی اور کہا کہ اچھے لوگوں کو ووٹ دیں تاکہ
اچھی حکومت آئے اور آپ سب کا فائدہ ہو ،وغیرہ وغیرہ۔جب اپنی سنا چکا تو ان
بزرگ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اپنے پاس بٹھا لیا،کہنے لگے،آپ نے اچھی
باتیں کیں لیکن اگر ہم آپ کے کہنے کے مطابق اچھے لوگوں کو ووٹ دیں تو ہمارے
علاقے کا اچھا نمائندہ مظفر آباد میں بیٹھ کر اچھی اچھی باتیں کرے گااور
اپنے تمام ساتھیوں کو ناراض کر دے گا،کیونکہ وہ باتیں ان سب پر چوٹ ہوں
گی،پھر ہمارے سارے کام کیسے ہوں گے؟میں سنتا رہا۔کہنے لگے ہمیں تو ایسا
نمائندہ جو باقی علاقوں کے ترقیاتی بجٹ موڑ کر ہمارے علاقے میں لگا دے،باقی
سب کے بچوں کو پیچھے دھکیل کر ہمارے بچوں کو نوکریاں دلائے،ہمارے تھانہ
کچہری کے تمام معاملات نمٹائے،اب بھلا بتائیں کہ کیا ایک اچھا آدمی یہ سب
کچھ کر سکے گا؟میں نے سر ہلایا تو کہا کہ پھرہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں
ماریں؟میں زمین کو تکتا رہا۔اس نظام میں جہاں سارا گند آتا ہو ،اچھے آدمی
کا کیا کام؟وہ تو نہ جیت سکتا ہے اور نہ ہی جیت کر کچھ کر سکتا ہے،جب نظام
اچھا ہو گا تو ہم اچھے لوگوں کو چنیں گے‘‘۔لیفٹنٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی اس
کتاب کے کئی حصے کراچی کے ایک روزنامہ اخبار میں بھی شائع ہو چکے ہیں ۔کتاب
میں دیگر کئی امور سے متعلق بھی اہم معلومات فراہم کی گئی ہے۔انٹر نیٹ ،سوشل
میڈیا کے جدید دور میں عقل و شعور اور آگاہی کو مخفی ،پابند رکھنا ممکن
نہیں ، اس بات کو تسلیم نہ کرنے کو ملک و عوام کے مفاد میں قرار دینا بہت
ہی مشکل ہے۔پاکستان کو بہتری کی راہ پہ ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے
بھی اس کتاب میں ایسے کئی اہم انکشافات ہیں جس سے پاکستان میں اقتدار کی
صورتحال ، حکومتوں کی پالیسیوں کی بنیادوں اور ملک میں عوام سے پوشیدہ رکھے
جانے والے کئی دیگر اہم امور کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔
|