بداعتمادی اور کشیدگی کی مارکیٹ
( سردار عاشق حسین , اسلام آباد)
وزیر اعظم نواز شریف کی سوچ کے
مطابق پاکستان اور بھارت مشترکہ تجارتی منڈی تو نہ بن سکے تاہم ایک دوسرے
کے خلاف بداعتمادی اور کشیدگی کی مارکیٹ ضرور بن گئے ہیں ۔پاکستان اور
بھارت کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ مسلہ کشمیر کو قرار دیا جاتا ہے
چنانچے ان دونوں ممالک میں کشمیر کے نام پر خرید و فروخت کا کئی طرح کا کام
جاری ہے ۔کشمیر کے نام پر خرید و فروخت کی اس منڈی میں اب بھارت کی خفیہ
ایجنسی ریسرچ اینڈ اینیلیسس ونگ(را)کے سابق سربرا ہ امرجیت سنگھ دلت بھی
اپنا سامان لے کر پہنچ گئے ہیں ۔ ان کی دکان پر پاکستان کے سابق صدر جنرل (
ر )پرویز مشرف اور سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور کے اہم
واقعات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ، پاکستان اور بھارت کے حکام حریت کانفرنس
کے رہنماوں اور عسکری قائد سید صلاح الدین کے بارے میں کیسے خیالات رکھتے
یہ سب کچھ کشمیر واجپائی کے دور اقتدار میں موجود ہے ۔کشمیر واجپائی کے دور
اقتدار میں امرجیت سنگھ دلت کی کتاب کا نام ہے ۔ جس طرح ہالی وڈ یا بالی وڈ
میں کسی فلم کی تیاری کے بعد اسکی پروموشن مہم شروع ہوتی ہے اسی طرح ان
دنوں دلت نے اپنی کتاب کی پروموشن مہم شروع کر رکھی ہے ۔ اس کتاب میں کل
جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماوں ، جہاد کونسل کے سربراہ کے بارے میں جو کچھ
لکھا گیا ہے اسے درست تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے تاہم پاکستان اور بھارت کی
حکومتیں کشمیری رہنماوں کے بارے میں کس طرح کے خیالات رکھتی ہیں،اس معاملے
میں پیسے کی کتنی اہمیت ہے ، دلت کی کتاب یہ معامالت سمجھنے میں مدد دیتی
ہے ۔ دلت لکھتے ہیں پاکستان کے سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف نے 2007 میں
مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں حریت کانفرنس کی شمولیت کی حمایت کر
دی تھی۔ 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں
سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں جنرل پرویز مشرف نے حریت رہنمائوں سے کہا تھا
کہ وہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کریں۔ میر
واعظ عمر فاروق نے کشمیر کے اسٹیٹس کو تسلیم کر لیا تھا تاہم وہ عوامی سطح
پر اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مشرف نے میرواعظ اور دوسرے حریت
رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی بھارت کو ختم نہیں کر
سکتا،بھارت اپنی سلامتی پر سودے بازی نہیں کرے گا، سرحدیں تبدیل نہیں ہو
سکتی ہیں اس لیے موقع ہے انتخابات کے زریعے اپنی حیثیت منوانے کا۔،دلت کے
خیال میں جنرل ( ر )مشرف کا یہی کشمیر فارمولا تھا۔مشرف نے حریت رہنمائوں
سے دوٹوک کہہ دیا تھا ، واپس کشمیر جائیں اور اگلے سال انتخابات کی تیاری
کریں۔ مئی 2003 میں رات کے کھانے پر میرواعظ سے ملاقات کا زکر کرتے ہوے دلت
لکھتے ہیں میرواعظ نے میرے سامنے تین تجاویز رکھیں ،کشمیر کو اٹانوی دی
جائے، سرحدیں کھولی جائیں، سری نگر مظفر آباد بس سروس شروع ہونی چاہیے میں
نے جواب میں کہا کیوں نہیں ایسا ہوسکتا ہے ، بعد میں یہ تجاویز واجپائی کے
قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا کے سامنے رکھیں چنانچہ ایک وقت آیا جب سری نگر
مظفر آباد بس سروس شروع ہوگئی ۔ مسٹر دلت نے انڈیا ٹوڈے ٹی وی اور این ڈی
ٹی وی سے صرف دو انٹرویوز کے زریعے اپنی کتاب کی اس قدر پبلسٹی کر دی ہے کہ
ہو سکتا ہے ان کی کتاب سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کا درجہ پالے ۔
امر جیت سنگھ 17سال پہلے بھارتی خفیہ ادارے کی سربراہی سے سبکدوش ہو گئے
تھے۔ اپنی ملازمت کے آخری دنوں میں امرجیت سنگھ نے اٹل بہاری واجپائی کے
ساتھ بھی کام کیا۔ یہ وہ دور تھا جب کشمیر میں عسکریت زوروں پر تھی ایک
موقع پر سید صلاح الدین کی حزب المجاہدین نے واجپائی حکومت سے مذاکرات کے
لیے جنگ بندی تک کر لی تھی ، بات چیت کی ناکامی کے بعد جنگ بندی ختم کر دی
گئی تھی دلت نے کشمیری حریت پسند قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر
فاروق ، یسین ملک ، شبیر احمد شاہ، سید صلاح الدین کو شک کے دائرے میں کھڑا
کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم نہ صرف ان رہنماوں کی
مدد کرتے تھے بلکہ ان سے رابطے میں بھی رہے ، دنیا کی ہر انٹیلی جنس ایجنسی
کے قابل افراد میں انہی کو شمار کیا جاتا ہے جو دشمنوں کے اندر اپنے تعلقات
قائم کر لیں، چنانچے دلت سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق ، یسین ملک ،
شبیر احمد شاہ، سید صلاح الدین کی مدد کا دعوی کرکے اپنی قابلیت ظاہر کرنا
چاہتے ہیں ، سوال یہ بھی ہے کہ اگر دلت اس قدر قابل انٹیلی جنس افسر تھے تو
وہ کیوں کہتے ہیں اگر آج بھی علی گیلانی سے ملاقات ہو جائے ، علی گیلانی اس
کے لیے امادہ ہوجائیں تو میری خوش قسمتی ہوگی ۔ دلت دراصل یہ سمجھاتے نظر
آتے ہیں کہ کس طرح خفیہ ایجنسیاں کشمیریوں کو دام میں پھنسانے میں مصروف
ہیں ۔یہ درست ہے کہ حریت رہنما دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں۔ جموں و کشمیر
لبریشن فرنت کے سپریم ہید امان اللہ خان کے داماد سجاد لون ان دنوں بھارتی
کشمیر میں سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں، حالیہ انتخابات میں وہ بی جے پی
کے اتحادی تھے وہ فخر سے کہتے ہیں مجھے بھارتی بنانے میں را کا کلیدی رول
ہے ۔ سجاد لون کے بارے میں بھی دلت نے انکشافات کیے ہیں اگر سجاد کی مثال
دی جائے تو دلت اپنے مقصد میں کامیاب نظر آرہا ہے ۔ یہ وہی سجاد لون ہین جن
کی وجہ سے کل جماعتی حریت کانفرنس ٹوٹ گئی تھی، میر واعظ اور علی گیلانی کے
الگ الگ گروپ بن گئے تھے ۔میر واعظ عمر فاروق کے بارے میں دلت کا کہنا ہے
کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیںآگے بڑھ سکتے ہیں مگر وہ پاکستان سے
ڈرتے ہیں۔ سید صلاح الدین کے بارے ان کا کہنا ہے کہ ان کے بھارت کے ساتھ
رابطے تھے انہوں نے اپنے بیٹے کو میڈیکل کالج میں داخل کرانے کے لیے بھارتی
انٹیلی جنس افیسر سے رابطہ کیا تھا۔متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح
الدین نے دلت کے الزام پر ردعمل میں کہنا تھا کہ را کے سابق سربراہ نے
کشمیر کی آزادی پسند قیادت پر الزام لگا کر ہمالیہ سے بھی بڑا جھوٹ بولا ہے۔
ایک ٹی وی انٹرویو سید صلاح الدین کا کہنا تھا کہ الزامات کی کوئی حقیقت
نہیں ہے۔ صلاح الدین کہتے ہیں یہ بالکل سفید جھوٹ ہے کہ وہ بھارتی حکومت سے
بات چیت کے بعد بھارت جانے پر تیار ہو گئے تھے۔ 2002 میں جو سیزفائر ہوا اس
کو انھوں نے ہی واپس لیاتھا۔ وہ 28 سال سے سرگرم عمل ہیں اور ممکن ہی نہیں
کہ کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے یہاں سے وہاں ( آزاد کشمیر سے
مقبوضہ کشمیر )جائیں۔ دلت کی کشمیر ی رہنماوں بالخصوص سید صلاح الدین کے
خلاف چارج شیٹ کی اہمیت نہیں ہے ۔ اہمیت ہے اس اعترافی بیان کی جو گجرات
مین دو ہزار مسلمانون کے قتل بارے ہے ۔ دلت کے مطابق سابق بھارتی وزیر اعظم
اٹل بہاری واجپائی نے اعتراف کر لیا تھا کہ 2002میں گجرات میں مسلمانوں کا
قتل بڑی غلطی تھی۔ اس غلطی کے معافی طلب کی جانی چاہیے۔ دوسری اہم بات کہ
1999میں بھارتی طیارہ ہائی جیک کر کے 155بھارتی مسافروں کے بدلے مسعود اظہر
اور مشتاق لٹرم کی رہائی ہے دلت کے مطابق بھارتی طیارہ ہائی جیک ہونے
پربھارتی انتظامیہ مکمل طور پر فیل ہوتے نظر آئی ۔ کوئی ایسی اتھارٹی موجود
نہیں تھی جو فوری فیصلہ کرے۔
|
|