مستقبل کا کشمیر سردار ابراہیم کی نظر میں
( سردار عاشق حسین , اسلام آباد)
اگر ہمیں لڑنا پڑا تو ہم لڑیں
گے،انگلستان میں پڑھائی کے دوران اس نے فیصلہ کر لیا تھا ۔یہ کہانی ہے ایک
ایسے جنرل کی جو فوجی تو نہیں تھا مگر اس نے فوجی کمانڈر کی طرح اپنی قوم
کے لیے عسکری اور سیا سی لشکر کی قیادت کی تھی، عسکری جدوجہد کے بعد سیاسی
جدوجہد اور پھر اقوام متحدہ میںاپنی قوم کا مقدمہ لڑا تھا ۔ گاندھی اپنی
قوم کی آزادی کی جدوجہد میں عدم تشدد کا نظریہ جنوبی افریقہ سے لایا
تھاجبکہ سردار محمد ابراہیم خان نے کشمیر کی آزادی کے لیے سیا سی اور عسکری
جدوجہد کامن انگلستان میں ہی بنا لیا تھا، ۔ ہر دور کی آمرانہ حکومتوں سے
ٹکرا جانے والے سردار محمد ابراہیم خان کی زندگی کے 88 سالہ سفر میں ڈوگر
راج کے خلاف مسلح جدوجہد میں ان کے قائدانہ کردار کی بدولت ریاست کے ایک
حصے کو اپنی شناخت ملی ۔انقلاب آفریں اور ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک اور چار
بار آزاد کشمیر کی صدارت کے منصب پر فائز ہونے والے سردار محمد ابراہیم
خان31جولائی 2003 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ان کی موت نے تاریخ کا ایک
باب بند کردیا ۔ سدوزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے سردار محمد ابراہیم خان
22 اپریل 1915 کو راولا کوٹ کے نواحی قصبے ہورنہ میرہ میں پیدا ہوئے۔ان کے
والد محمد عالم خان ایک زمیندار تھے۔۔1933 میں پونچھ کے ہائی سکول سے میٹرک
کا امتحان پاس کیا۔ 1938 میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ قانون کی
تعلیم حاصل کرنے کے لیے سردار محمد ابراہیم خان 1940 میں انگلستان چلے گئے
1942 میں بار ایٹ لا کا امتحان پاس کر کے واپس آئے تو ریاست جموں و کشمیر
کے پہلے بیرسٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ انگلستان سے واپسی پر ان کے
انقلابی ذہن میں سیاست ، مذاحمت اور بغاوت کے جذبات نے پختہ جگہ بنالی تھی
حتی کہ مہاراجاہری سنگھ کی حکومت کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی ملازمت سے
استعفی دے کر انتخابات میں حصہ لیا۔1944 میں کشمیر اسمبلی،جسے ''پرجاسبھا''
کہا جاتا تھا کے رکن منتخب ہوئے۔ان دنوں برصغیر کی سیاسی کشمکش عروج پر تھی
۔پرجاسبھا کے نوجوان رکن سردار محمد ابراہیم خان برصغیر میں رونما ہونے
والے حالات و واقعات کا بغور مشائدہ کررہے تھے ڈوگرہ راج کے شکنجے میں جکڑی
ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی جماعتیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس
اور نیشنل کانفرنس کشمیر کے مستقبل کے لیے کوئی فیصلہ کرنے میں تذبذب کا
شکار تھیں۔ ایک طبقہ کشمیر کے الحاق کا پرجوش حامی تھا اور دوسرا طبقہ
کشمیر کو ایک آزاد ریاست بنانے کا علمبردار تھا۔سردار محمد ابراہیم خان نے
اس تذبذب سے نکلنے کے لیے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں قائدانہ کردار
ادا کیا ۔ سری نگر میں آبی گزر کے مقام پر سردار محمد ابراہیم خان کے گھر
میں 19 جولائی 1947 کومسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس نے
ایک قرارداد کے زریعے کشمیری مسلمانوں کے لیے ایک نئے راستے کا انتخاب کیا
تھا۔ کشمیر کی تاریخ میں اس قرارداد کو ''قراردادالحاق پاکستان'' کے نام سے
یاد کیا جاتا ہے ۔ قرارداد میںکشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا
گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ18 جولائی 1947 کو بھی آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس کے اجلاس میں ایک قرارداد پاس ہوئی تھی۔ 18 جولائی کی قرارداد کے
زریعے کشمیر کو خود مختار ریاست بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ قرارداد خود
مختار کشمیر بارے کوئی مستند حوالہ موجود نہیں ۔سردار محمد ابراہیم خان نے
بھی اس بارے میں کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مقدمے کی
بنیاد 19 جولائی 1947 کی قرارداد الحاق پاکستان ہی ہے۔مہارا جا ہری سنگھ کی
طرف سے کسی اقدام سے قبل بھارت نے کشمیر میںفوج اتار کر ریاست پر قبضے کی
مہم شروع کر دی اور مہارا جا ہری سنگھ کو نئی دہلی بلا کر ریاست کے بھارت
سے الحاق کا ڈرامہ رچایا گیا برطانوی مورخ الیسٹر لیمب کہتے ہیں کہ ریاست
کا بھارت سے الحاق نہیں ہوا تھا اور یہ کہ بھارت کے پاس الحاق کی کوئی
دستاویز موجود نہیں۔ انہی دنوںسردار محمد ابراہیم خان کر سری نگر سے مظفر
آباد منتقل ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قہ برقعہ پہن کر سری نگر
سے مظفر آباد منتقل ہوے تام غازی ملت نے اپنی کتاب The Kashmir Saga میں ان
افواہوں کو رد کیا ہے ۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف مذاحمت میں سردار
محمد ابراہیم کا قائدانہ کردار تھا مسلح جدو جہد کے نتیجے میںکشمیر کے وہ
علاقے جو مہاراجا کی عملداری سے نکل گئے ، آزاد کشمیر کے نام سے ریاست کا
روپ دھار لیاان علاقوں کا انتظام چلانے کے لیے 24 اکتوبر 1947کو آزاد کشمیر
حکومت قائم کی گئی جس کا پہلا صدر سردار محمد ابراہیم خان کو منتخب کیا گیا
۔ آزاد کشمیر کی عبوری حکومت کا دارلحکومت موجودہ ضلع سدھنوتی کا علاقہ
جونجال ہل قرار پایا۔ آزاد کشمیر کی سب سے پہلی حکومت کے سربراہ کی حیثیت
سے سردار محمد ابراہیم خان دو ٹوک اعلان کیا تھاریاست کی دونوں ہمسایہ
مملکتوں یعنی پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کے الحاق کا
فیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزانہ منشا اور ووٹ سے رائے شماری کے ذریعے کریں
گے اور عبوری حکومت اس مقصد کے لیے جلد ہی انتظامات کرے گی اور وہ غیر
جانبدار مبصرین کو بھی مد عو کریگی تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ عوام نے اپنی
آزاد نہ منشا سے الحاق کا فیصلہ کیا ہے۔سردار محمد ابراہیم خان کی زندگی
تقسیم کشمیر سے پہلے اور تقسیم کے بعد جدوجہد سے عبارت تھی ۔ سردار محمد
ابراہیم خان 20 نومبر 1948 کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں
شِرکت کیلئے تشریف لے گئے، واپس آتے ہوئے برطانیہ میں قیام کے دوران انہوں
نے کشمیر میں جنگ بندی کی مخالفت کی تھی ان کا کہناتھا کہ بھارت استصواب
رائے کے وعدہ میں مخلِص نہیں محض وقت حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ میں کی
مدد حاصل کی ہے۔ سردار محمد ابراہیم خان طویل غیرملکی دورہ سے واپس وطن
پہنچے تو اس وقت کے وزیرِ امور کشمیر نواب مشتاق احمد گورمانی نے ان کو
بتایا کہ وہ صِرف انکی طے کردہ شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد ہی صدر رہ سکتے
ہیں سردار ابراھیم نے ایسی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور نتیجہ کے
طور پر ان کو منصبِ صدارت سے ہٹا دیا گیا۔ وزارتِ امور کشمیر نے علی احمد
شاہ کو صدارت کے منصب پر فائز کر دیا سردار ابراہیم خان سب سے بڑت ریاستی
منصب کے عزت وقار پر کوئی سودے بازی کے حق میں نہ تھے ۔۔1957 میں انہیں
دوسری بار آزاد کشمیر کا صدر بنایا گیا پھر1959 میں انہیں منصب صدارت سے
ہٹانے کے بعد گرفتار کر کے سینٹرل جیل راولپنڈی میں قید کر دیا گیا۔اس کے
رد عمل میں پونچھ کے عوام نے مسلح مذاحمت کا راستی اختیار کیا ۔ آخر کار
حکومت پاکستان کو سردار محمد ابراہیم خان کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑی، جس کا
اعلان راولا کوٹ میں کیاگیا جہاں ایک طرف سردار محمد ابراہیم خان تو دوسری
طرف فیلڈ مارشل ایوب خان کے دست راست اور وزیر امور کشمیر نواب مشتاق
گورمانی بنفس نفیس موجود تھے۔1975 میں آزاد کشمیر میں پارلیمانی انتخابات
کے بعد سردار محمد ابراہیم کو صدر منتخب کیا گیا پھر 1996 میں وہ چوتھی بار
آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔1960 کی دہائی میں انہوں نے اپنی خود
نوشت''متاعِ زندگی'' کے عنوان سے کتاب لکھی بعد ازاں ان کی ایک اور کتاب
The Kashmir Saga انگریزی زبان میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے پڑھنے سے اندازہ
ہوتا ہے کہ سردار محمد ابراہیم ریاست جموں وکشمیر کو سوئیزرلینڈ کی طرح
آزاد اور خود مختار ملک بنانے کا خواب دل میں سجائے ہوے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں
'' کشمیر کا کیس بطور ایک ملک اس قدر نمایاں ہو گیا ہے کہ اگر تمام فریقین
اس نکتہ نظر سے اس پر بحث وتمخص اور سنجیدہ غور کریں تو اس کو آسانی سے حل
کیا جا سکتا ہے۔کشمیر کا کیس بطور ملک کے اس قدر طاتور ہو گیا ہے جیسا
سوئزرلینڈ یہ اتنا ہی خوبصورت ہے۔جتنا سوئیزرلینڈ، اگر سوئیز لینڈ کو دو
عالمی جنگوں سے علیحدہ رکھا جا سکتا ہے تو ایسے ہی کشمیر کو بھی سارے
تنازعوں سے باہر رکھا جا سکتا ہے اور اس طرح کشمیر پورے مشرق کا سوئیزرلینڈ
ہو گا۔ ایسی صورت میں بھارت اور پاکستان دونوں اس زمین میںبغیر ویزہ کی
پابندی کے پہنچ سکتے ہیں جیسا کہ ایسا ہی انتظام 1946 تک رہا ہے۔بہر حال
میری رائے میں اگر کشمیر کو ایک ملک کے طور پر منظر پر لایا جاتا دنیا کے
ممالک اسے تسلیم کر لیتے اور اقوام متحدہ میں داخلہ مل جاتا تو یہ مستقبل
کا کشمیر آسانی سے ایک منی پاکستان ہوتا'' ۔ نئی نسل کو مستقبل کے کشمیر کا
اچھا خواب دینے وا لے سردار ابراہیم خان سے میری کئی بار ملاقات ہوچکی ہے
میں نے انہیں اصول پسند قد آور سیاسی رہنما اور ایک نفیس شخص پایا۔ سردار
ابراہیم خان 31 جولائی 2003 کو اس دنیا سے چل بسے تھے۔
|
|