حضرت ابراہیم علیہ السلام
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
فرشتے محو حیرت تھے، ہوا میں،
فضاء میں انگشت بدنداں اور بوڑھا آسمان حیرت سے پلک جھپکنا بھول چکا تھا۔
روز اول سے کرہ ارض پر کروڑوں انسان آئے، کھایا، پیا، افزائش نسل کا حصہ
بنے اور پیوند خاک ہوگئے۔ چشم فلک عشق و محبت کے ہزاروں مناظر دیکھ چکی
لیکن عشق الٰہی تعبداری جرات اور ثابت قدمی کا جو مظاہرہ آج دیکھ رہا تھا
یہ شائد پہلی اور آخری بار دیکھ رہا تھا۔ بت پرستوں کے پاس جب کوئی جواب نہ
رہا وہ بحث و مناظرے کے میدان میں بری طرح شکست کھا گئے‘ ان کے پاس کسی قسم
کی دلیل باقی نہ رہی تو انہوں نے وہی پرانا ظامانہ طریقہ اپنایا جو ہر سرکش
شکست کھانے کے بعد اپناتا ہے اس بار حق پرست‘ توحید پرست بندہ خدا اور
خدائے بزرگ و برتر کے عظیم عاشق حضرت ابراہیمؑ کیلئے یہ سزاء تجویز کی گئی
کہ آپ کو آگ کے آلاؤ میں پھینک دیا جائے اس کیلئے ایک بہت بڑا گڑھا بنایا
گیا بت پرستوں نے لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں حتی کہ ان میں سے جب کوئی
عورت بیمار ہوتی تو وہ یہ نذر مانتی کہ اگر وہ تندرست ہو گئی تو وہ حضرت
ابراہیمؑ کو جلانے کیلئے لکڑیاں اکٹھی کرے گی پھر اس گڑھے کو لکڑیوں سے
بھردیا گیا اور آگ لگا دی گئی اس آگ کو مسلسل کئی روز دہکایا گیا جب آگ خوب
جل اُٹھی تو اس کے شعلوں سے قرب و جوار کی اشیاء جھلسنے لگیں تو آپ کو آگ
میں ڈالنے کی تیاری شروع کی گئی۔ حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں پھینکنے کا پس
منظر یہ تھا حضرت ابراہیم ؑ عراق کے قصبہ ’’ اور‘‘ کے باشندے تھے آپ کی قوم
بت پرستی کے سمندر میں غرق ہو چکی تھی آپ کے والد کا نام ازر تھا جو اپنی
قوم کے مختلف قبائل کیلئے لکڑی کے بت بناتا اور فروخت کرتا‘ رب کائنات نے
شروع سے ہی حضرت ابراہیم ؑ کو بصیرت اور رشد و ہدایت عطاء فرمائی تھی وہ
بھی بچپن سے یہ دیکھتے آ رہے تھے کہ ان کا باپ مورتیوں کو اپنے ہاتھ سے
بناتا ہے ‘جس طرح چاہتا ہے بتوں کے ناک، کان، آنکھیں اور جسم تراشتا ہے تو
یہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں‘ انہی سوالات نے آپ کو تلاش حق کی طرف لگایا لہٰذا
آپ نے سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو دعوت اسلام دی باپ پر آپ کی دعوت کا
بالکل اثر نہ ہوا بلکہ باپ نے کہا اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار
کر دوں گا جب حضرت ابرا ہیم ؑ نے یہ دیکھا تو باپ سے کہا کہ اگر آپ بت
پرستی سے باز نہیں آتے تو میں آپ سے آج سے جدا ہوتا ہوں لیکن میں خدا سے آپ
کی ہدایت کی دعا کرتا رہوں گا۔باپ سے جدا ہو کر اب حضرت ابراہیمؑ نے دعوت
حق کیلئے پوری قوم سے رابطہ کیا مگر قوم باپ دادا کی بت پرستی کسی بھی صورت
چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھی اور دعوت حق کے سامنے اپنے باطل معبودوں کے حق
میں گونگے بہرے بن گئے تو حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کی اصلاح کیلئے اعلان
کیا کہ میں تمہارے بتوں کو دشمن جانتا ہوں اعلان جنگ کرتا ہوں یہ میرا کچھ
نہیں بگاڑ سکتے میرا پروردگار تو وہی خدا ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔ رزق، صحت
اور ہدایت دی جب آپ کی دعوت حق کا قوم پر اثر نہ ہوا تو ایک بار جب آپ کی
قوم سالانہ جشن یا میلے کیلئے شہر سے باہر گئی تو آپ فوری طور پر بتوں کی
طرف گئے۔ بتوں کے سامنے بہت خوبصورت اور لذیر کھانے پڑے ہوئے تھے آپ نے
طنزاً بتوں سے کہا تم یہ کھانے کھاتے کیوں نہیں؟ پھر ہتھوڑے سے بتوں کو
توڑنا شروع کردیا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر
دیا اور پھر ہتھوڑا بڑے بت کے کندے پر رکھ دیا کہ بڑے بت نے غصے میں آکر
چھوٹے بتوں کو توڑ دیا ہے جب لوگ واپس آئے تو اپنے چھوٹے معبودوں کی یہ
حالت دیکھ کر غضب ناک ہوگئے اور انہیں حضرت ابراہیم ؑ کا یہ قول یاد آیا اﷲ
کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گئے میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک چال
چلوں گا پھر تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے اور حضرت ابراہیمؑ کو بلایا گیا
اور کہا ہمارے خدا ؤں کے ساتھ یہ سب کچھ تم نے کیا تو حضرت ابراہیمؑ بولے
میں نے نہیں بلکہ اس بڑے بت نے یہ کام کیا ہے یا اگر یہ بت بولتے ہیں تو آپ
لوگ ان سے ہی پوچھ لو کہ کس نے ان کے ٹکڑے کئے ہیں حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم
کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ ان کے جھوٹے خدا تو بولنا بھی نہیں جانتے
یہ تمام لکڑی، پتھر کے بے جان ٹکڑے ہیں جو اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے
‘قوم ابراہیمؑ آپ کے دلائل کے سامنے بے بس لاچار ہو گئی لیکن ابلیس کی روش
رکھنے والوں نے ڈھٹائی سے کام لیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر
دیوتاؤں کی خوشنودی چاہتے ہو تو اس کو گستاخی کی سزا کے طور پر دہکتی آگ
میں جلا ڈالو تاکہ اس کی تبلیغ و دعوت کا قصہ ہی تمام ہو جائے۔ اسی دوران
یہ باتیں بادشاہ وقت تک بھی پہنچ گئیں اس زمانہ میں عراق کا بادشاہ کا لقب
نمرود ہوتا تھا اور رعایا بادشاہ کو رب کا درجہ دیتی تھی بادشاہ نے حکم دیا
کہ حضرت ابراہیمؑ کو اس کے دربار میں پیش کیا جائے جب حضرت ابراہیم کو
دربار لایا گیا تو بادشاہ نے کہا تو باپ دادا کے دین کی مخالفت کیوں کرتا
ہے اور مجھے رب ماننے سے انکار کیوں کرتا ہے تو حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا
میں خدائے واحد کا پرستار ہوں اور لکڑی، پتھر کے تراشیدہ بت میرے لئے لکڑی،
پتھر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی تمہیں رب مانتا ہوں میں اس ہستی
کو رب مانتا ہوں جو روزانہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب لے جاتا ہے
اگر تم خدا ہو تو سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق میں چھپا، بادشاہ یہ سن کر
بے بس اور لا جواب ہوگیا‘ بادشادہ وقت نے دلائل و براہین کی قوت کے مقابلے
میں مساوی طاقت و سطورت کا مظاہرہ شروع کیا اور آپ کو سزاء کے طور پر آگ
میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور جب آگ کے شعلے بہت زیادہ بلند ہوگئے تو حضرت
ابراہیم کو ایک منجنیق میں ڈال کر آگ میں ڈالا جانے لگا جب حضرت ابراہیمؑ
کو باندھا جا رہا تھا تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے تیرے سواء کوئی معبود
بر حق نہیں اے تمام جہانوں کے پروردگار تو پاک ہے تیرے لئے ساری تعریف ہے
تیرے لئے ساری بادشاہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں اور جب پھینکا جانے لگا
تو آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے ہمیں اﷲ ہی کافی ہے اور وہی اچھا کارساز ہے۔
حضرت ابوھیرہ سے مروی ہے کہ سرتاج الانبیاء نے فرمایا جب حضرت ابراہیمؑ کو
آگ میں پھینکا گیااور وہ ہوا میں تھے تو انہوں نے کہا اے اﷲ تو آسمان میں
اکیلا ہے اور میں زمین پر تیرا اکیلا عبادت گزار ہوں بعض علماء نے بیان کیا
کہ فضاء میں حضرت جبرائیل آپ کے پاس آئے اور کہا اے ابراہیم ؑ کیا آپ کو
کوئی ضرورت ہے تو آپ نے کہا میرا رب بہتر جانتا ہے مجھے آپ سے کوئی کام
نہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کا یقین اور خدا پر ایمان دیکھ کر خدا کی رحمت جوش
میں آئی۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ بارش کے فرشتے نے کہا مجھے بارش
برسانے کا حکم دیا جائے لیکن اس سے پہلے ہی اﷲ کا حکم جاری ہو چکا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ہم نے فرما دیا کہ اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم
کیلئے سلامتی بن جا۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں اس روز زمین کے انسانوں میں سے
کسی نے بھی آگ سے فائدہ نہ اُٹھایا اور آگ نے صرف حضرت ابراہیم ؑ کی وہ
رسیاں ہی جلایں جن سے انہیں باندھا گیا تھا۔ منہال بن عمرو سے مروری کہ
ابراہیمؑ آگ میں 40 یا 50 دن تک رہے اور فرمایا کہ جتنی خوشگوار زندگی میں
نے ان دنوں میں گزاری ہے ان کے علاوہ کبھی نہیں گزاری۔ میری خواہش ہے کہ
میری ساری زندگی اسی طرح کی ہو جائے۔ کافروں نے حضرت ابراہیمؑ سے بدلا لینا
چاہا لیکن خود ذلیل ہوئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے دنیا میں انہیں ناکامی اور
ذلت نصیب ہوئی اور آخرت میں ایسی آگ میں پھینکا جائیگا جس میں نہ تو ٹھنڈک
ہوگی اور نہ سلامتی، انہیں اس میں سلام بھی نہیں کیا جائیگا۔ خدا پر پختہ
یقین اور عشق کی وجہ سے خالق ارض و سماء نے جو مقام اور شان حضرت ابراہیمؑ
کو بخشی وہ کسی کو نہ بخشی، حضرت ابراہیمؑ کو اپنا دوست خلیل اﷲ کہا ‘خانہ
کعبہ کی تعمیر آپ سے کرائی۔ قربانی قیامت تک کیلئے لازمی قرار دی حج کی شان
سے نوازا اور سب سے بڑھ کر نبیوں کے سردار شہنشاہ دو عالم کو آپ کی اولاد
میں سے پیدا کیا۔
|
|