غلاف کعبہ....ماضی سے حال تک
(عابد محمود عزام, karachi)
دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے
خانہ کعبہ انتہائی مقدس اور اہم مقام ہے، جہاں ہر سال ہر نسل و رنگ کے
مسلمان اکٹھے ہو کر فریضہ حج ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ روز دنیا بھر سے سعودی
عرب میں 25 لاکھ سے زاید فرزندان توحید نے مناسک حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ
ادا کیا۔ اس سے قبل مکرمہ میں روح پرور تقریب میں غلاف کعبہ تبدیل کیا گیا۔
غلاف کعبہ کی تیاری میں 670 کلوگرام خالص ریشم جس کی تیاری پر2 کروڑ 20لاکھ
ریال خرچ ہوئے ہیں۔ غلاف کعبہ ریشمی، سوتی دھاگوں، سونے اور چاندی کے ریشوں
سے تیار کیا جاتا ہے۔ غلاف کعبہ خادم الحرمین شریفین کی جانب سے بطور ہدیہ
پیش کیا جاتاہے۔ اتارے گئے غلاف کے ٹکڑوں کو سعودی حکومت کی جانب سے مختلف
ممالک کے سربراہان کو بطور ہدیہ بھجوائے جاتے ہیں۔ غلاف کعبہ کی 658 مربع
میٹر ہے اور یہ 47 حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کی لمبائی 14 میٹرطویل اور 95 سنٹی
میٹر چوڑائی ہوتی ہے۔ غلاف کعبہ کی تبدیلی کی یہ پروقار تقریب ہر سال 9
ذوالحج کو منعقد کی جاتی ہے۔ یہ مقدس غلاف چار دیواروں کے ساتھ ساتھ بڑے
دروازے پر بھی ڈالا جاتا ہے۔ غلافِ خانہ کعبہ کی تبدیلی نہ صرف صدیوں پرانی
روایت ہے، بلکہ اب بیت اللہ کے غلاف کی تیاری سعودی عرب میں باقاعدہ ایک فن
اور آرٹ کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔
خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل علیہ السلام نے چڑھایا تھا۔ ابن
ہشام اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم نے
تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ غلاف کا اہتمام بھی کیا تھا۔ ظہور اسلام سے 700برس
اور ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے220برس قبل یمن کے بادشاہ تبع ابوکرب
اسعدنے خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ شریف پرغلاف چڑھا رہا ہے ۔ واپسی پر وہ
مکہ مکرمہ سے گزرا تو اس نے یمن سے قیمتی کپڑے کا غلاف بنوا کر خانہ کعبہ
پر چڑھایا۔ زمانہ جاہلیت میں خالد بن جعفر بن کلاب نے کعبہ پر پہلی مرتبہ
دیباج کا غلاف چڑھایاتھا۔ قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت
سے 5 سال پہلے کعبہ کی تعمیر نو کی تو بڑے اہتمام سے غلاف بھی چڑھایا۔
زمانہ قبل اسلام کی طرح غلاف کعبہ کی روایت عہد اسلامی میں بھی برقرار رہی۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”القباطی“ نامی
کپڑے سے غلاف کعبہ تیار کرایا تھا۔ یوں یہ اسلامی عہد میں پہلا غلاف کعبہ
تھا۔ فتح مکہ کی خوشی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا تیار کیا
ہوا سیاہ رنگ کا غلاف اسلامی تاریخ میں پہلی بار چڑھانے کا حکم دیا۔ نو اور
دس ہجری میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف
چڑھایا گیا۔ خلفائے راشدین میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں القباطی اور یمانی کپڑوں کے غلاف تیار کیے
گئے۔ حضرت عثمان بن عفان نے نیا غلاف تیار کرنے کی بجائے بہ یک وقت دو غلاف
چڑھا دیے تھے۔ ایک ہی وقت میں خانہ کعبہ کے دو غلافوں کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر اور حجاج بن یوسف نے بھی غلاف چڑھائے۔
خلفاءابن عباس نے اپنے500 سالہ دورحکومت میں ہر سال بغداد سے غلاف بنوا کر
مکہ مکرمہ روانہ کیے، عباسیوں نے اپنے دور حکومت میں غلاف کعبہ کی بنوائی
میں خصوصی دلچسپی لی اور اس کو انتہائی خوبصورت بنایا۔ خلیفہ ہارون الرشید
نے سال میں 2 مرتبہ اور مامون الرشید نے سال میں تین مرتبہ غلاف کعبہ کو
تبدیل کرنے کا اہتما م کیا۔ مامون الرشید نے سفید رنگ کا غلاف چڑھایا تھا۔
خلیفہ الناصر عباس نے پہلے سبز رنگ کا غلاف بنوایا، لیکن پھر اس نے سیاہ
ریشم سے تیار کروایا۔ اس کے دور سے آج تک غلاف کعبہ کا رنگ سیاہ ہی چلا
آرہا ہے۔ 140ھ سے غلاف پر لکھائی شروع ہوگئی، جو آج تک جاری ہے۔ 751 ہجری
میں مصر کے بادشاہ منصور بن ناصر نے غلاف کی تیاری پر اٹھنے والے مصارف کے
لیے قاہرہ کے چند دیہات کی آمدنی وقف کر دی تھی۔ وہ ہر سال بڑے تزک و شان
اور اہتمام سے غلاف کعبہ تیار کروا کر مکہ مکرمہ روانہ کیا کرتا تھا۔ 761
ہجری میں والی مصر سلطان حسن نے پہلی مرتبہ کعبہ کے بارے میں آیات قرآنی کو
زری سے کاڑھنے کا حکم دیا۔ 810 ہجری میں غلاف کعبہ بڑے خوبصورت انداز میں
جازب نظر بنایا جانے لگا۔ مصر پر سلطنت عثمانیہ کے قبضے کے بعد سلمان اعظم
نے مزید 7 گاﺅں کی مزید آمدنی غلاف کعبہ کے لیے وقف کر دی۔ 19 ویں اور 20
ویں صدی عیسوی کے اوائل تک غلاف کعبہ مصر ہی سے تیار ہو کر آیا کرتا تھا۔
یہ قاہرہ کے ایک خصوصی کارخانہ میں بنایا جاتا تھا، جو صرف غلاف کعبہ ہی
تیار کرتا تھا۔ شوال کی 21 تاریخ کو غلاف تیار ہو کر مصر سے مکہ روانہ کیا
جاتا، یہ دن مصر میں چھٹی کا دن ہوتا تھا۔ محمود غزنوی نے ایک مرتبہ زرد
رنگ کا غلاف بھیجا۔ سلمان دوم کے عہد حکومت سے غلاف مصر سے جاتا تھا، جب اس
رسم میں جاہلانہ باتیں شامل کرلی گئیں تو مصریوں کا تیار کردہ غلاف لینے سے
انکار کردیا گیا۔ 1333 ھ میں شریف حسین کا بنوایا ہوا غلاف پہلی جنگ عظیم
چھڑ جانے کی وجہ سے بروقت نہ پہنچ سکا، اس لیے مصری غلاف ہی چڑھانا پڑا۔
1927ءمیں شاہ عبد العزیز السعود نے وزیر مال عبداللہ سلیمان المدن اور اپنے
فرزند شہزادہ فیصل کو حکم دیا کہ وہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے جلد ازجلد
ایک کارخانہ قائم کریں اور 1346 ہجری کے لیے غلاف کی تیاری شروع کر دیں۔
چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایک کارخانہ قائم کر کے ہندوستانی کاریگروں کی
نگرانی میں غلاف کی تیاری شروع کر دی اور یوں سعودیہ کے کارخانے میں تیار
ہونے والا یہ پہلا غلاف کعبہ تھا۔ 1962ءمیں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان
کے حصے میں بھی آئی۔ 1928ءمیں امرتسر سے غلاف تیار کر کے بھیجا گیا۔ آل
سعود خاندان کے شاہ عبدالعزیز پہلے حکمراں تھے، جنہوں نے 1346ھ میں غلاف
کعبہ تبدیل کیا۔ انہی کے دور میں 1403ھ کو غلاف کعبہ کا اندرونی کپڑا تبدیل
کیا گیا اور 1417ھ کو دوبارہ مکمل غلاف تبدیل کیا گیا۔
غلاف کعبہ کی تیاری میں دنیا کا سب سے بہترین کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔
670 کلو گرام خالص سفید ریشم اور 720 کلو گرام مختلف رنگ اس کو رنگنے کے
لیے استعمال ہوتا ہے۔ کل کپڑا تقریبا 660 مربع میٹر ہوتا ہے۔ پورا غلاف
کعبہ 54 ٹکڑوں سے بنتا ہے اور ان میں ہر طول 14 میٹر اور عرض 95 سینٹی میٹر
اور پورے غلاف کی پیمائش 2650 مربع میٹر ہوتی ہے، جبکہ غلاف کی پٹی کا گھیر
45 میٹر اور عرض 95 سینٹی میٹر ہوتا ہے، جو مختلف 16 ٹکڑوں کو ملا کر جوڑا
جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کا دروازہ خالص سونے کا بنا ہوا ہے۔ غلاف کعبہ کی
موٹائی 98 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ غلاف کعبہ کی اونچائی 14 میٹر ہے۔ رکنین کی
جانب سے غلاف کی چوڑائی 10 اعشاریہ 78 میٹر ہوتی ہے۔ ملتزم کی جانب سے غلاف
کی چوڑائی 12 اعشاریہ 25 میٹر، حجر اسود کی سمت سے 10 اعشاریہ 29 میٹر،
جبکہ باب ابراہیم کی جانب سے 12 اعشاریہ 74 میٹر ہوتی ہے۔ یکم ذی الحجہ کو
غلاف کعبہ کی ”سدنہ“ یعنی متولی خاندان کو حوالے کرنے کی رسم ادا کی جاتی
ہے۔ ہر سال 09 ذی الحجہ کو غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے۔ غلاف کی تیاری پر
20 ملین ریال کی لاگت آتی ہے۔ باب کعبہ کی جانب سے غلاف کے نیچے 6 اعشاریہ
32 میٹر اونچا اور تین اعشاریہ تیس میٹر چوڑا اضافہ کپڑا جوڑا جاتا ہے،
تاکہ غلاف کو چھونے سے بچایا جا سکے۔ غلاف کے چاروں اطراف میں مربع شکل میں
سورہ اخلاص کی کڑھائی کی جاتی ہے، غلاف کے اوپر قرآن کریم کے حج سے متعلقہ
آیات مبارکہ اور اس کے نیچے اللہ سبحان تعالی کے نام کاڑھے جاتے ہیں۔ آیات
قرآنی کی کتابت خط سوسل میں شیخ عبدالرحیم بخاری نے کی۔ پان کے پتے کی شکل
میں ”یا حی یا قیوم“، ”الحمد رب العالمین“ اور اس کے نیچے تکون کی شکل میں
”اللہ“، اس کے نیچے ”یا حنان یا منان“ اور اس کے نیچے ”سبحان اللہ و بحمدہ“
سبحان اللہ العظیم“ کڑھائی کیا جاتا ہے۔ کعبہ مشرفہ کی پٹی اور در کعبہ
بنانے کے لیے 11 ماہ درکار ہوتے ہیں۔
خانہ کعبہ کے غلاف کی تیاری کے لیے شاہ عبدالعزیز کے حکم پر 1977ءمیں ام
الجود بندرگاہ پر جدید اور خودکار مشینوں پر مشتمل ایک کارخانہ بنایا گیا،
جو ہر سال غلاف کعبہ تیار کرتا ہے۔ اس کارخانہ کو دارالکسوة کہتے ہیں، جو
پورے سال میں صرف 2 عدد غلاف کعبہ تیار کرتا ہے۔ ایک غلاف جو سیاہ ہوتا ہے،
بیرونی دیواروں پر ڈالا جاتا ہے، جب کہ دوسرا غلاف بیت اللہ کی اندرونی
دیواروں پر ڈالنے کے لیے سبز رنگ کا ہوتا ہے۔ غلاف کعبہ میں نہایت خوب صورت
طریقے سے لفظ ”یااللہ“ اور ”لا الہ الا للہ“ کپڑے کے اندر ہی لکھا ہوا نظر
آتا ہے۔ اس کارخانے میں انتظامیہ اور عملے کے علاوہ تقریباً 200 ماہر کاری
گر کام کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر کاری گر گونگے اور بہرے ہیں۔
غلاف کعبہ کی تیاری کے کئی مراحل ہیں۔ اس دوران کپڑے کی سلائی کے لیے
ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جو سونے اور چاندی کی تاروں سے اس کی
سلائی کرتے ہیں۔ غلاف کعبہ کو صرف وہی لوگ ہاتھ لگا سکتے ہیں جو اس کی
تیاری پر کام کرتے ہیں یا خانہ کعبہ کے غلاف کی تیاری کے لیے انتظامی کمیٹی
کے ارکان اس کے قریب جاسکتے ہیں۔
غلاف خانہ کعبہ کی تیاری کے لیے نہایت عمدہ ”السرسین“ نامی ریشم کا دھاگا
استعمال کیا جاتا ہے۔ دھاگے کو گرم پانی میں دھویا جاتا ہے، جس کے بعد غلاف
کے بیرونی حصے کے دھاگے پر سیاہ اور اندرونی حصے پر سبز رنگ کیا جاتا ہے۔
لیبارٹری کے شعبے میں غلاف کعبہ کی تیاری میں استعمال ہونے والے ریشمی اور
سوتی دھاگے کی کوالٹی اور معیار کو چیک کیا جاتا ہے۔ چند برس قبل تک غلاف
کعبہ کی تیاری کا تمام کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا۔ غلاف کی سلائی
کڑھائی،آیات قرآنی کی لکھائی سمیت تمام سوئی یا دستی آلات کی مدد سے طے کیے
جاتے تھے۔ یہ یقیناً مشکل اور صبر آزما کام تھا اور اس طرح خانہ کعبہ کی
تیاری میں کافی وقت صرف ہوتا تھا۔ آل سعود کے ابتدائی دور میں بھی دستی
آلات کی مدد سے غلاف تیار کیا جاتا رہا ہے، لیکن اب اس کی جگہ جدید مشینوں
نے لے لی ہے۔ اب غلاف کعبہ کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کی تیاری کے
ساتھ ساتھ ان پر ہونے والی کشیدہ کاری، لکھائی اور سلائی کے لیے ”جاکارڈ“
نامی ایک سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک میٹر غلاف
کعبہ میں 9.986 دھاگے استعمال ہوتے ہیں۔ غلاف کعبہ کی تیاری میں طباعت کا
مرحلہ اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ اس میں دھاگوں کی مدد سے آیات قرآنی کپڑے پر
منقش کرنا ہوتی ہیں۔ آیات کی طباعت کے مرحلے کے لیے غلاف کے سادہ کپڑے کو
دو اطراف سے مضبوط لکڑیوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس پر پہلے
عام ریشم اور پھر ریشمی کپڑا چڑھایا جاتا ہے۔ اس کپڑے پر منقش آیات کی
پٹیاں چسپاں کی جاتی ہیں۔ مشین کے ذریعے پرنٹنگ کے مرحلے کے بعد سفید اور
زرد دھاگوں سے اس پر کشیدہ کاری کرتے ہیں۔ کڑھائی کے لیے مختلف کثافتوں کے
سوتی دھاگے لیے جاتے ہیں اور سوتی اور ریشمی دھاگوں کی مدد سے پہلے سے
مطبوعہ آیات یا نقوش سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ کشیدہ کاری کے لیے سوتی،
ریشمی دھاگوں کے علاوہ آیات کی تزئین کے لیے سونے اور چاندی کے ریشے بھی
استعمال کیے جاتے ہیں۔ کڑھائی کے کام میں خاص طور پر غلاف پر 12 شمعوں،
غلاف کے چار کونوں پر سورہ اخلاص منقش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ غلاف پر
مختلف آیات قرآنی پر مشتمل 16 پٹیاں الگ سے جوڑی جاتی ہیں۔ ایک بڑی پٹی
غلاف کعبہ کے سامنے باب کعبہ کی طرف لگائی جاتی ہے، جس پر غلاف کی تیاری کے
حوالے سے ”مملکت سعودی عرب کی کاوش“ کے عربی الفاظ لکھے جاتے ہیں۔ |
|