سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت

اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوہریرہؓ کو نبی کریم ﷺ کی دعا کی وجہ سے عظیم حافظہ عطا فرمایا تھا ۔
ایک دفعہ مروان بن الحکم الاموی نے ان کچھ حدیثیں لکھوائیں اور اگلے سال کہا کہ وہ کتاب گم ہوگئی ہے ، وہی حدیثیں دوبارہ لکھوادیں۔انہوں نے وہی حدیثیں دوبارہ لکھوا دیں۔ جب دونوں کتابوں کو ملایا گیا تو ایک حرف کا فرق نہیں تھا۔ (المستدرک للحاکم ۵۱۰/۳ و سندہ حسن، الحدیث : ۳۲ ص۱۳،۱۴)

سیدنا ابوہریرہؓ جب حدیثیں بیان کرتے تو سب سے پہلے فرماتے :ابوالقاسم الصادق المصدوق (سچے)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ((من کذب عليّ متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار.)) جس نے جان بوجھ کر مجھ سے جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا (جہنم کی ) آگ میں بنا لے ۔ (مسند احمد ۴۱۳/۲ ح ۹۳۵۰ و سندہ صحیح)

آپ اللہ کی قسم کھا کر فرماتے تھے کہ میں بھوک کی شدت کیو جہ سے زمین پر لیٹ جاتا تھا اور بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ (صحیح بخاری: ۶۴۵۲)

سیدنا ابوہریرہؓ اپنی بیٹی سے فرمایا کرتے تھے :”لا تلبسي الذھب فإني أخشی علیک اللھب” سونا نہ پہنو کیونکہ مجھے تم پر (آگ کے ) شعلوں کا ڈر ہے ۔(حلیۃ الاولیاء ۳۸۰/۱ و سندہ صحیح)
امام شافعیؒ نے فرمایا :پوری دنیا میں حدیث کے سب سے بڑے حافظ ابوہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تھے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۵۳/۷۱ و سندہ صحیح)
سیدنا ابوہریرہؓ فرمایا کرتے تھے :”…..اللّٰھم لا تدرکني سنۃ ستین” اے میرے اللہ ! مجھے ساٹھ ہجری تک زندہ نہ رکھ ۔ (تاریخ دمشق لابی زرعۃ الدمشقی : ۲۳۴ و سندہ صحیح)
سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے تھے :”اللھم لا تدرکني إمارۃ الصبیان”
اے میرے اللہ ! مجھے بچوں کی حکومت تک زندہ نہ رکھ ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۴۶۶/۶ و سندہ صحیح)

سیدنا ابوہریرہؓ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ! میرے لئے ان میں برکت کی دعا فرمائیں.نبی کریم ﷺنے ان کھجوروں کو اکٹھا کرکے برکت کی دعا فرمائی اور ان سے کہا : ان کھجوروں کو لے کر اپنے اس توشہ دان (تھیلی) میں ڈال لو، اس میں سے جب بھی کھجوریں لینا چاہو تو ہاتھ ڈال کر نکال لینا اور انہیں (ساری باہر نکال کر) نہ بکھیرنا۔

سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کھجوروں میں اتنے اتنے وسق اللہ کے راستے میں خرچ کئے ۔ ہم ان میں سے کھاتے بھی تھے اور کھلاتے بھی تھے۔یہ توشہ دان ہر وقت میری کمر سے بندھا رہتا تھا حتیٰ کہ (سیدنا) عثمانؓ شہید ہوگئے تو یہ پھٹ (کر گم ہو) گیا۔ (سنن الترمذی: ۳۸۳۹ وقال: “حسن غریب” وسندہ حسن، وصححہ ابن حبان ، الاحسان: ۶۴۹۸) ساٹھ ساع یعنی ۱۵۰ کلو کو ایک وسق کہتے ہیں۔

سیدنا ابوہریرہؓ کے فضائل بہت زیادہ ہیں۔ سات سو سے زیادہ تابعین نے آپ سے علمِ حدیث حاصل کیا اور جلیل القدر صحابہ کرام بشمول سیدنا عمرؓ نے آپ پر اعتماد کیا ۔آپ اپنی دعا کے مطابق ساٹھ ہجری سے پہلے ۵۷،۵۸ یا ۵۹؁ھ میں فوت ہوئے ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
آپؓ کے بارے میں ابوبکر محمد بن اسحاق الامام رحمہ اللہ نے بہترین کلام فرمایا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
سیدنا ابوہریرہؓ پر چار طرح کے آدمی کلام (جرح) کرتے ہیں:
۱: معطل جہمی (جو صفاتِ باری تعالیٰ کا منکر ہے)
۲: خارجی (تکفیری جو مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کا قائل ہے )
۳: قدری (معتزلی جو تقدیر اور احادیثِ صحیحہ کا منکر ہے)
۴: جاہل (جو فقیہ بنا بیٹھا ہے اور بغیر دلیل کے تقلید کی وجہ سے صحیح احادیث کا مخالف ہے ) دیکھئے المستدرک للحاکم (۵۱۳/۳ ح ۶۱۷۶ و سندہ صحیح)
سیدنا ابوہریرہؓ فرمایا کرتے تھے کہ “یبصر أحدکم القذاۃ في عین أخیہ وینسی الجذع أو الجذل في عینہ” تم میں سے ہر شخص دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھ لیتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر انداز کردیتا ہے ۔ (کتاب الزہد للامام احمد ص ۱۷۸ ح ۹۹۲ و سندہ صحیح)
یہ روایت مرفوعاً بھی مروی ہے ۔ (زوائد زہد ابن المبارک لابن صاعد : ۲۱۲ و سندہ حسن ،صحیح ابن حبان، الموارد: ۱۸۴۸)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فقہ میں سے دو اہم مسئلے
۱: سیدناابوہریرہؓ نے فاتحہ خلف الامام کے بارے میں اپنے ایک شاگرد سے فرمایا:
“اقرأ بھا في نفسک” اسے اپنے دل میں (سراً) پڑھو۔ (صحیح مسلم: ۳۹۵)
سائل نے پوچھا : جب امام جہری قراءت کررہا ہو تو کیا کروں؟
انہوں نے فرمایا : اسے اپنے دل میں (سراً) پڑھو۔ (جزء القراءۃ للبخاری: ۷۳ و سندہ حسن)
سیدنا ابوہریرہؓ نے فرمایا: جب امام سورۂ فاتحہ پڑھے تو تُو بھی اسے پڑھ اور اسے امام سے پہلے ختم کرلے ۔ (جزء القراءۃ: ۲۸۳ و سندہ صحیح ، نصر الباری فی تحقیق جزء القراءۃ للبخاری ص ۲۷)
معلوم ہواکہ دل میں پڑھنے سے مراد ہونٹ بند کرکے خیالی طور پر پڑھنا نہیں ہے بلکہ ہونٹ ہلاتے ہوئے آہستہ آواز میں پڑھنا ہے۔

۲: سیدنا ابوہریرہؓ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد (تینوں مقامات پر) رفع یدین کرتے تھے۔ (دیکھئے جزء رفع الیدین للبخاری : ۲۲ و سندہ صحیح، نور العینین فی اثبات مسئلۃ رفع الیدین ص ۱۶۰)
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دل سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تمام صحابہ و تابعین اور اہل ایمان کی محبت سے بھر دے ۔ آمین
Usman Ahmed
About the Author: Usman Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.