سفرِحج ۔قدم بقدم

تقریباٍؔ پانچ ہزارسال پہلے جب حضرت ابراہیم ؑنے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ ’’اور لوگوں کو حججِ بیت اﷲ کے لیے بلاؤ۔ لوگ پیدل چل کر اور دور درازکی تنگ گھاٹیوں سے اپنی کمزور اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں گے ‘‘ تو اِسی وقت سے حج ِبیت اﷲ کا سلسلہ جاری ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ کئی کئی مہینوں کا سفر پیدل کرتے یا کسی دستیاب سواری پر سوار ہو کر اس فریضہ کی ادائیگی کرتے۔ لیکن آج بہت سی سفری سہولیات میسر ہیں، چند گھنٹوں میں دنیا کے کسی بھی کونے سے لوگ سر زمینِ حرم پہنچ جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے وزارت حج و مذہبی امور کی طرف سے بھر پُور انتظام و انصرام ہوتا ہے لیکن اِس کے باوجود جدہ ائیرپورٹ پر پہنچے کے بعدمکہ مکرمہ روانگی سے قبل آٹھ سے پندرہ گھنٹے کا وقت درکار ہوتاہے۔ جونہی جہاز لینڈ کرتا ہے تو بسوں پر سوار کرکے انتظار گاہ لے جایا جاتا ہے۔ جس ترتیب سے فلائٹ لینڈ ہوتی ہے اِسی ترتیب سے گروپوں کی صورت میں امیگریشن کے لیے بُلایا جا تا ہے۔ ہمیں یہاں پانچ گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ امیگریشن کے بعد سامان کے لیے ایک وسیع و عریض علاقہ مختص کیا گیاہے، وہاں سے اپنا سامان وصول کیا جاتا ہے۔ گروپ لیڈر تمام حجاج سے پاسپورٹ لے کر حج کے لیے ادا کیے گئے ڈرافٹ کی اسکیننگ کرواتے ہیں اور حج سے متعلقہ کچھ دستاویزات پاسپورٹ پر چسپاں کردی جاتی ہیں۔ اس کے بعد تمام گروپ کا سامان لے کر بڑی بڑی ٹرالیز میں متعلقہ زون میں چلی جاتی ہیں۔ لوگ بھی وہاں موجود انتظار گاہ میں بسوں کے لیے محوِانتظار ہوتے ہیں۔ یہاں ہمیں بھی تقریبا چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ تمام پاسپورٹس ڈرائیور کو دیے جا تے ہیں جو کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر متعلقہ معلّم کے دفتر میں جمع کرانے ہوتے ہیں۔ راستے میں اِستقبالیہ اور سکیورٹی چیک کے لیے رُکنا پڑتا ہے۔ اس طرح جدہ ائر پورٹ سے ہوٹل تک ساٹھ کلو میٹر کا سفر ہم نے ساڑھے چار گھنٹے میں طے کیا۔ کچھ دیر آرام کے بعد عمرہ کی ادائیگی کی۔ سرزمینِ حرم میں حجاج کرام کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ مسجد ِحرام میں نمازوں کے اوقات میں ارد گرد کے ساڑی سڑکیں بھی بھر جاتی ہیں۔ شاہراہ ابراہیم خلیل، شاہراہ ہجرہ اور شاہراہ اجیاد نمازوں کے بعد آہستہ آہستہ چلنے والی ٹرین کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ الحمدﷲ آٹھ ذوالحج کی صبح ہم نے احرامِ حج باندھا اور عازمِ منیٰ ہوئے۔منیٰ ایک وسیع وعریض وادی ہے، تین ملین کے قریب لوگ اِس میں ایامِ حج گزارتے ہیں، یہاں ہر طرف خیموں کا جال بچھا ہوا ہے۔ تمام خیمے فائر پروف اور ائر کنڈیشنڈ ہیں ۔ نمازوں کے اوقات میں اپنے اپنے خیمے یا کسی کُھلی جگہ پر گروپوں میں نماز با جماعت کا اہتمام ہوتا ہے۔ وضو خانے اور غسل خانے کا فی مقدار میں موجود ہیں لیکن پھر بھی حجاج کی کثرت کی وجہ سے لمبی لمبی قطاروں میں محوِانتظار رہنا پڑتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے سفرِحج کے دوران یہاں پر پانچ نمازوں کی ادائیگی فرمائی۔ آٹھ ذوالحج کی ظہر سے نو ذوالحج کی فجر تک،حجاج کرام اِس سُنت کو ادا کرتے ہیں اور ایک برکت والی رات ’’شبِ عرفہ‘‘ یہاں گزارتے ہیں۔ یہ رات گناہوں کی معافی اور دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے، رات کے تیسرے پہر میں منیٰ سے عرفات کی طرف حجاج ِکرام کی بسوں کے ذریعے ٹرانسفر شروع کر دی جا تی ہے، لہٰذا جو لوگ فجر سے پہلے میدانِ عرفات روانہ ہو جا تے ہیں وہ نمازِفجر میدانِ عرفات میں جا کر ادا کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ایک رات منیٰ میں گزاری اور فجر کے بعد میدانِ عرفات پُہنچ چُکے ہیں، یہ سطور بھی میدانِ عرفات کی با برکت فضاؤں میں ضبطِ تحریر لائی جا رہی ہیں۔ آج جملہ حجاجِ کرام نے حجِ بیتُ اﷲ شریف کا رکنِ اعظم ’’وقوفِ عرفات‘‘ ادا کرنا ہے۔ کوئی بھی حاجی اگر اِس کی ادائیگی نہ کرے تو اُس کا حج بھی ادا نہیں ہوتا، البتہ نو ذوالحج کے زوال سے دس ذوالحج کی صبح صادق تک یہاں اگر ایک لمحہ کے لیے بھی اگر قیام کر لے تو حج ادا ہو جائے گا۔ میدانِ عرفات وہی جگہ ہے جہاں حضرت آدم ؑوحواؑ کا فی عرصہ بچھڑے رہنے کے بعد ملے تھے۔ حدودِعرفات کا تعین کیا گیا ہے اور با ضابطہ سائن بورڈ نصب ہیں۔ یہاں ایک مشہور مسجد ہے، جِس سے خطبہِ حج دیا جا تا ہے اور دنیا بھر کے لوگ براۂ راست دیکھتے اور سُنتے ہی۔ اِس مسجد کا نام ’’مسجدِنمرہ‘‘ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ نے حج کے موقع پر آخری خطبہ ارشاد فر مایا تھا۔ آپ نے اِس خطبہ میں حقوقِ انسانی کا چارٹر بنی نوع انسانی کو عطا کر دیا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے تیرہ صدیاں بعد ہیومن رائٹس کا جو چارٹر تیار کیا ،ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس سے مربوط نظام اِس خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا۔ میدانِ عرفات میں ایک لباس پہنے انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا ہے، اپنی اپنی زبان اور لہجے میں رو رو کر اور گِڑ گِڑاکر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجائیں کر ریے ہیں۔ ہم نے یہاں عرفات میں اور منیٰ میں بھی، حجاج کی راہنمائی کے لیے سیمینار کا انعقاد کیا۔ بہت سے لوگ پہلی مرتبہ حج کے لیے جاتے ہیں، انہیں رہنمائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے، ہماری خُوش قسمتی کہ مشائخ اور علماء کے زیرِسایہ سفر کی یہ منزلیں طے ہو رہی ہیں۔ لوٹن سے شیخ احمد باغ، ہائی ویکم سے مولانا غلام جیلانی اور چشم سے مولانا عارف حسین سعیدی نے حجاجِ کرام کی رہنمائی کی بھر پور کو شش کی۔ مولانا رشید احمد صاحب نے بنگلہ اور اِنگلش میں حجاجِ کرام کو حج کے فضائل و برکات سے آگاہ کیا۔

دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جُملہ حجاج کے اِس سفر کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ جُملہ قارئین سے بھی التماس ہے کہ ہم سب کے لیے دعا کریں کہ مناسکِ حج کی ادائیگی اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں حاضری کے بعد خیروعافیت کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو لوٹیں۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219609 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More