کراچی کے رنگ
(Abida Rahmani , Frisco, USA )
اس مرتبہ کراچی میں میری آمد کے
موقع پر موسم غیر متوقع طور پر بے حد سہانا ہو گیا تھا ۔ہلکی ہلکی پھوار ،
ٹھنڈی ہوائیں اور پھر حد درجہ خیال رکھنے والے میزبان ۔۔ جس سے بھی ملو بات
کرو وہ حالات کے سدھرنے ، بہتر ہونے کی بات کرتا یوں لگ رہا تھا کہ مدتوں
کے انتشار،بد آمنی اور خونریزی کے بعد کراچی والوں نے سکھ کا سانس لیا ہے
اللہ کرے کہ یہ سکون اور امن دیر پا ہو اور پھر کسی نئے فساد اور انتشار کا
آغاز نہ ہو ۔۔
اس تباہی و برباد ی نے اس شہر کو گہنا دیا تھا کوئی دن نہ جاتا تھا جب -15
-20 بے گناہ اس بد آمنی کی بھینٹ نہ چڑھ جاتے ۔۔مہاجروں یا اردو داں طبقے
کی نمائندگی کرنے والے سیاسی گروہ کی تشدد کا نشانہ بیشتر اردو داں ہی تھے
۔۔ اسطرح کے دوسرے لسانی اور سیاسی گروہوں کے علمبرداروں نے اس آگ اور خون
کے کھیل کا مزید ہوا دی۔۔
دعا ہے کہ جرائم و جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع ہوجائے ۔۔ اس مرتبہ کی عید
اور رمضان کراچی کی رونق کو دوبالا کئے ہوئی تھی۔۔
کراچی کے ساتھ اچھے برے وقتوں کا ایک طویل ساتھ ہے اب اس ساتھ کو چھوٹے بھی
طویل عرصہ بیت گیا ۔۔ بیتنے کا کیا ہے وقت ہے کہ گزرا ہی چلا جاتا ہے۔
مدتوں کے بعد بحیرہ عرب پر ہاکس بےپر ایک خوبصورت آرام دہ ہٹ میں دن گزارا
۔موہنے سے بچے کی سالگرہ ،اونٹ کی سواری ،سمندر کی موجیں ، سانپ اور نیولے
کا تماشہ ،ساحل پر لطف اندوز ہونیوالوں کا ہجوم لیکن ہر آنیوالی موج کے
ساتھ آتا ہوا کوڑا کچرا کہ پورا ساحل کوڑے سے اٹا ہوا ۔۔جی میں تو بہت آیا
کہ اعلان کروں کہ ہر ایک شخص ایک تھیلا لے اور کوڑا چننا شروع کردے ۔۔لیکن
ہر شخص بے نیاز دکھائی دیا ۔۔کراچی میں یوں بھی جہاں جاؤ کوڑے کے ڈھیر کے
ڈھیر دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک کرمفرماکے گھر کا حدود اربعہ بھول گئی تھی تو
انہوں نے اسطرح نشاندہی کی کہ پہلی کچرا کنڈی کو چھوڑکر دوسری سے سیدھے
ہاتھ مڑجائیں۔۔محل نما مکانات کی پہچان کوڑے اور گندگی کے ڈھیر سے،ہے تو
انوکھی بات!میرے میزبان بتانے لگے کہ اوّل اوّل تویہ غلاظتیں کافی ناگوار
تھیں لیکن اب انکو کراچی شہر سے کوڑے اور گندگی سمیت پیار ہوگیا۔۔
چڑھتے اترتے فلائی اوورز یا بالائی گزر گاہیں جسنے ٹریفک کو رواں دواں کیا
ہوا ہے ۔۔ اس مرتبہ دو دریا کا دیدار ہوا نام سے کچھ اچنبھا ہو رہا تھا
لیکن یہ نام لب سمندر یا لب بحر ہوتا تو کہیں بہتر تھا۔۔ مائی کلاچی میں
ڈیڑھ گھنٹا انتظار تھا تو دوسرا ریسٹورنٹ ہی غنیمت جانا ۔۔سمندر کے اندر
بنے ہوئے کاٹج کے اندر خوراک کا انتظام لطف دے گیا۔۔
پچھلے مئیر مصطفے کمال کی آمد کی باز گشت سنی ۔۔کراچی کا حلیہ درست کرنے
میں انکا کردار مشہور ہے ۔۔ معلوم ہوا کہ اپنے قائد کے زیر عتاب ہیں اور
بھاگے ہوئے ہیں کوئی بتا رہا تھا کہ دوبئی کے شیخ نے انکو دوبئی کو مزید
خوشنما بنانے پر بحال کیا ہوا ہے کسی نے انکے گورنر بنانے کی نوید سنائی،
کراچی کی بہتری کا کام انسے پہلے میئر نعمت اللہ خان صاحب نے شروع کیا
تھا۔۔
اسوقت تو شہر کی بدحال صورتحال کو دیکھ کر یوں لگا کہ شہر کا کوئی پرسان
حال نہیں۔۔ لوگ امن و امان سے ہی بے حد خوش و مطمئن تھے ۔۔صفائی جاۓ بھاڑ
میں۔۔ ملیر چھاؤنی میں یوں محسوس ہوتا ہے کراچی سے کہیں اور پہنچ گئے۔۔صاف
ستھرے اطراف ناقابل یقین ہیں۔۔
جہاں آدھے شہر پر پانی کے ٹینکروں کا راج ہے وہاں ایک عزیز ایسے بھی ہیں کہ
برسوں سے انکے ہاں چھت والی ٹنکی پر براہ راست پانی چڑھ جاتا ہے ۔۔پانی کا
ذکر تو میرے اپنے زخموں کو تازہ کر دیتا ہے ۔کوئل کی کوک کراچی میں کافی
عرصے کے بعد سنی۔۔شاخوں میں چپھی ہلکی سی نظر آرہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ
میرے تمام پھل دار درختوں کو ٹھونک بجا کر دیکھتی تھی اور کوک کوک کر برا
حال ہو جاتا۔۔ میں سوچتی کاش کہ یہ خاموش ہوجائے!
قائد اعظم ہاؤس میوزیم کی سیر کا بے حد لطف آیا ۔۔ اسکو فلیگ اسٹاف ہاؤس
کہا جاتا تھا۔۔
My visit to the historical house of Quaid I Azam in Karachi.
There Rasheed guided us . A Pakhtun from Manki sharif , he serves this
house for the last 35,years. A great devot of Quaid and Fatima Jinnah ,
he himself is a history. He has devoted himself to that house and the
artifacts ,knowing each and every detail about its make and history .
This nation servives because of these legends!
Pictures link is down on Facebook.
https://www.facebook.com/abidar1/posts/10152925115946426
اس میوزیم کی کچھ تصاویر منسلک ہیں ۔۔رشید نے کمال مہربانی سے تصاویر کی
اجازت تھی ۔۔قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے لئے اسکاجوش وِ جذبہ دیدنی
تھا۔۔15' 16 سال كي عمر میں اسنے یہاں ملازمت شروع کی تھی اور اس مکان اور
اسکے اشیاءکی حفاظت اور دیکھ بھال میں اپنی زندگی گزار دی۔۔ اسکو ایک ایک
نوادر کی تفصیلات اور جذئیات یاد تھیں ۔ 1994 میں حکیم محمد سعید نے بطور
گورنر سندھ اسکو عجائب گھر کا درجہ دیدیا۔۔
شاپنگ مالز کے کیا کہنے ! کلفٹن پر عظیم الشان ڈولمن مال دنیا کے کسی بھی
عمدہ مال کا مقابلہ کر سکتا ہے۔وسیع و عریض ، صاف ستھرا ، سنٹر لی ائر
کنڈیشنڈ ،صاف غسل خانے اور مصلے ۔ یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ اپنا پاکستان
ہے۔اسی طرح کے دیگر بھی ۔۔ جیسے اوشن اور ایٹرئم ۔۔بن روئےُ"نئی نئی ریلیز
ہوئی تھی ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی ہوئی۔انہی میں گھومتے
پھرتے پاکستانی فنکاروں اور اداکاروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔۔ محمد علی
شہکی کو بہت عرصے کے بعد ایک گروپ کے ساتھ دیکھا ہاتھ ہلایا۔۔میں تو شاید
پہچان نہ پاتی اگر چند روز پہلے ایک انٹرویو میں نہ دیکھا ہوتا۔
ملک ریاض جو پاکستان کےاب صف اوّل کے معمار بن چکے ہیں انہوں نے کراچی میں
بھی ڈھیرے جمائے ۔۔کلفٹن میں ایک زیریں گزرگاہ کی خوبصورت تزین و آرائش
ہورہی تھی اوپر ملک ریاض کی بڑی سی تصویر ۔۔انہوں نے سیاسی،ابلاغ عامہ اور
حکومتی ٹھیکیداروں کو خوب خوب رام کیا ہوا ہے۔۔
کلفٹن کا پلے لینڈ اور فن لینڈ ڈھونڈھنے کی کوشش کا نتیجہ ایک بڑے پارک کی
صورت میں بر آمد ہوا۔۔
کئی پرانے رابطوں کو ازسر نو استوار کیا اور کچھ نئے دوستوں سے بھی
ملاقاتیں ہوئیں ۔۔نئی کتابوں کی اشاعت کی نوید لئے بات چیت ہوئی۔۔
دعا ہے کہ روشنیوں کے اس شہر کی روشنیاں اور رونقیں قائم و دائم ہوں ۔۔۔ |
|