حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل
 ارشادباری تعالیٰ ہے”وہ جوتمہاری بیعت کرتے ہیں‘ وہ اللہ تعالیٰ سے ہی بیت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کاہاتھ انکے ہاتھوں پرہے“اس آیت کریمہ کاشانِ نزول یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ ۹ہجری میں حضورنبی کریمپندرہ سوصحابہ کرام علیہم الرضوان کے ہمراہ مدینہ منورہ سے عمرہ کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ۔آقااپنی اونٹنی قصواءپرسوارتھے جوکہ حدیبیہ کے مقام پرجاکربیٹھ گئی ۔حدیبیہ ایک گاﺅں ہے جومکہ مکرمہ سے بارہ میل کے فاصلے پرجانب مغرب واقع ہے۔آپنے تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان کوقیام کرنے کاحکم دے دیا۔آقانے جب قیام کیاتودوران قیام ہی آپکویہ اطلاع ملی کہ مشرکین مکہ نے انکی آمدکوغلط اندازمیں لیاہے اوروہ ان سے جنگ کرناچاہتے ہیں۔ حضورنے حضرت سیدناعثمان غنیؓکوقریش مکہ کی طرف مکہ معظمہ میں پیغام دے کربھیجاکہ وہ معززین مکہ کوجاکربتائیں کہ ہم لڑنے یاجنگ کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ ہم توصرف اللہ پاک کے گھرکی زیارت اورطوافِ کعبہ کے لئے آئے ہیں۔حضرت سیدناعثمان غنی ؓ محبوب خداکایہ پیغام لیکربحیثیت قاصد قریش مکہ کی طرف چلے گئے ۔جب آپ ؓمکہ معظمہ میں داخل ہوئے توآپکی ملاقات ابان بن سعیدبن العاص سے ہوئی ۔آپؓ انکے ساتھ انکے گھرروانہ ہوگئے۔آپؓ نے ابان بن سعیدبن العاص کے ساتھ حضورکاپیغام ابوسفیان اوردیگرمعززین مکہ کوجاکرپیغام سنایا۔اس پیغام کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سال تومسلمانوں اورانکے آقاکومکہ مکرمہ نہیں آنے دیں گے ۔آپ ؓ سے انہوں نے کہاہاں اگرتم طواف کعبہ کرناچاہتے ہوتوتمہیں اجازت ہے، قربان جاﺅں سیدناعثمان غنیؓ آپؓ کے عشق رسول پر!آپؓ نے فرمایاکہ میں اسوقت تک کعبہ شریف کاطواف نہیں کروں گاجب تک میرے آقااوردیگرصحابہ کرامؓ طواف کعبہ شریف نہ کرلیں ۔ اس انکارکے بعدمعززین مکہ نے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کواپنے پاس روک لیا‘اس تاخیرکی وجہ سے لشکراسلام میںیہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کوشہیدکردیاگیاہے۔جب آقا کو شہادت سیدناعثمان غنیؓ کاپتاچلا اس پرمسلمانوں کے دلوں میں قتل عثمانؓ کابدلہ لینے کے لئے کفارسے مقابلہ کرنے کا جوش پیدا ہوگیا ۔آقانے تمام صحابہ کرام ؓ کواکٹھاکیااورایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔آقانے تمام صحابہ کرام ؓ سے اس بات پربیعت لی کہ جب تک ہم حضرت سیدناعثمان غنیؓ کی شہادت کابدلہ نہیں لے لیتے تب تک ہم میدان جنگ سے راہ ِ فراراختیارنہ کریں گے خواہ ہماری جانیں ہی کیوں نہ چلی جائیں۔ اس بیعت میں نبی کریمنے اپنابایاںہاتھ حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کی طرف سے بیعت کے لئے پیش کیا۔اس بیعت کوبیعت رضوان کے نام سے یادکیاجاتاہے۔ اس پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی ”اے پیغمبر!جولوگ تم سے بیعت کررہے تھے وہ حقیقت میں اللہ پاک سے بیعت کررہے تھے اورانکاہاتھ اللہ کے ہاتھ میں تھاپس جس نے اس عہدکوتوڑااس نے عہدشکنی کی اوراس پراسکاوبال عنقریب پڑے گااورجس نے اس عہدکوپوراکیااس نے اللہ پاک کے ساتھ کیاگیاوعدہ پوراکیاپس اللہ پاک عنقریب اسکواجرعظیم عطافرمائے گا“خوش قسمت ہیں وہ صحابہ کرام ؓ کہ جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پرآپکے ہاتھ پربیعت کی اللہ رب العزت نے فرمادیا”بے شک اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہوگیاجب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کرتے تھے “جب معززین مکہ کواس بات کی خبرہوئی تووہ بڑے پریشان ہوگئے انہوں نے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کوواپس بھیج دیااورساتھ ہی ایک وفدصلح کے لئے حضورنبی کریم کی خدمت اقدس میں بھیج دیاجس نے حضورنبی کریم کے ساتھ معاہدہ حدیبیہ کی شرائط طے کیں جس پرحضرت سیدناعثمان غنیؓ نے بھی دیگرصحابہ کرام ؓ کی طرح دستخط کیے ۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم نے ارشادفرمایا”ہرنبی کاایک رفیق ہوتاہے میرارفیق جنت میں عثمانؓ ہے“حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے ارشادفرمایا ”عثمان غنیؓ کی سفارش سے سترہزارجہنمی جن پرآگ واجب ہوچکی ہے بلا حساب جنت میں داخل ہونگے “سیدنامرہ بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہنے (اپنے بعدکے)فتنوں کاذکرکیااتنے میں ایک آدمی کپڑااوڑھے ہوئے وہاں سے گزراتوآپنے فرمایایہ شخص اس دن ہدایت پرہوگامیں نے اٹھ کردیکھاتووہ عثمان بن عفانؓتھے(سنن ترمذی)حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورِ خلافت میںسخت قحط پڑگیالوگ جمع ہوکرحضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس آئے ۔آپؓ کی بارگاہ میں غلہ کم ہونے کی شکایت کی ۔اس پرآپؓ نے فرمایاگھبراﺅنہیں بفضلہ تعالیٰ مجھے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ شام سے پہلے یہ مشکل آسان فرما دے گاجب شام کاوقت ہواتوپتہ چلاکہ حضرت عثمان غنیؓ کے غلے سے بھرے ہوئے ایک ہزاراونٹ شام سے واپس مدینہ پہنچ چکے ہیں یہ اطلاع ملتے ہی مدینہ منورہ کے تمام تاجرآپؓ کے گھرجمع ہوگئے آپؓ سے غلہ خریدنے کی بات کی حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایاکیانفع دوگے؟وہ کہنے لگے دوگنانفع دیں گے ۔آپؓ نے فرمایایہ تھوڑاہے وہ کہنے لگے چارگنانفع لے لو۔آپؓ نے فرمایایہ تھوڑاہے۔مدینہ کے تاجروں نے کہاپانچ گنانفع لے لو۔آپؓ نے فرمایایہ تھوڑاہے اورزیادہ کرو۔وہ کہنے لگے کہ مدینہ کے تاجرتوہم ہیں اورہم سے زیادہ آپؓ کونفع کون دے گا۔آپؓ نے فرمایاجوکوئی دس گنانفع دے گایہ غلہ اسے دونگا۔تاجروں نے اتنانفع دینے سے انکارکردیا۔آپؓ نے فرمایامجھے بارگاہ الٰہی سے ایک درہم کے بدلے دس درہم نفع ملتاہے یہ کہہ کرآپؓ نے ساراغلہ مدینہ منورہ کے غرباءمیں تقسیم کردیا۔مصریوں کے اصرارپرصحابہ کرامؓ کی ایک جماعت حضرت عثمان غنیؓ کے پاس آئی اورگورنرمصرکی معزولی کامطالبہ کیا،آپؓ نے فرمایاجس کوتم پسندکرتے ہومیں اسکوگورنربنادیتاہوں ‘انہوں نے حضرت محمدبن ابوبکرؓ کی طرف اشارہ کیاآپؓ نے محمدبن ابکرؓ کوگورنربناکرمصرروانہ کردیااور انکے ساتھ مہاجرین وانصارکی بھی ایک کثیرتعدادروانہ ہوئی تاکہ وہاں کے حالات کاجائزہ لیں۔ادھرمروان نے مصرکے پہلے گورنرکوایک خط لکھاجس میں تحریرکیاکہ یہ خط امیرالمومنین کی طرف سے ہے ۔ان کاکہناہے کہ جونہی محمدبن ابوبکراورانکے ساتھی تمہارے ہاں پہنچیں توان سب کوقتل کردینااورخفیہ طورپرحضرت عثمانؓ کی مہرلگاکرآپ ہی کے غلام کواونٹ پرسوارکرکے مصرروانہ کردیاراستہ میں یہ لوگ اوریہ غلام باہم مل گئے۔انہوں نے اس غلام سے پوچھاکہ تم کہاں جارہے ہواس نے کہاامیرالمومنین کاایک پیغام لیکرمصرجارہاہوں ۔انہوں نے کہاکہ مصر کا گورنر تو ہمارے ساتھ ہے جوپیغام ہے انہیں کہواس نے کہایہ نہیں جو مصرمیں ہیں انکی بات ہے اس پرلوگوں کوشک پڑگیاوہ کہنے لگے کہ تیرے پاس کوئی خط تونہیں وہ غلام کہنے لگامیرے پاس کوئی خط نہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اس غلام کی تلاشی لی توخط نکل آیاجب اس نے کھول کرپڑھاتواس میں تحریرتھاکہ یہ خط حضرت عثمانؓ کیطرف سے ہے لوگوں نے محمدبن ابوبکرکوزبردستی حاکم مقررکردیاہے لہذاجس وقت یہ مصرمیں پہنچیں توانہیں فوراً قتل کردینا۔یہ خط پڑھ کرسب غصہ میں بھڑک اٹھے اورواپس مدینہ منورہ آگئے اورتمام صحابہ کوجمع کیااوروہ خط سنایا۔صحابہ کرامؓ وہ خط لیکرحضرت عثمان ؓ کے پاس گئے اورکہاکیایہ خط آپؓ نے لکھوایاہے ۔حضرت عثمان ؓ نے لاعلمی کا اظہارکیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا امیرالمومنین آپؓ حکم دیں ہم ان سے لڑائی کرکے انہیں بھگادیں ۔آپؓ نے فرمایاتمہیں قسم ہے پیداکرنیوالے کی کسی مسلمان کاایک قطرہ بھی خون کانہ بہانامیں اسکاقیامت کے دن کیاجواب دوں گا۔پھرصحابہ کرامؓ نے کہاکہ آپ کسی اورجگہ چلے جائیں آپؓ نے فرمایامیں چاہتاہوں کہ سرکارکے قدموں میں میری جان نکل جائے توکوئی پرواہ نہیں اسکے بعدآپؓ مسجدمیں تشریف لے گئے اورمنبرپرکھڑے ہوکرخطبہ دیااورخط کے بارے میں اپنی لاعلمی کااظہارفرماہی رہے تھے کہ ظالموں نے آپؓ پرپتھربرسانے شروع کردیے یہاں تک کہ آپؓ بے ہوش ہوکرزخمی حالت میں منبرسے نیچے گرپڑے ۔لوگ آپکواسی حالت میں اٹھاکرلے آئے ۔صحابہ کرام ؓ نے آپکی حالت دیکھ کرایک بارپھرکہااے امیرالمومنین آپؓ ہمیں اجازت دیں ہم انکاخاتمہ کردیں۔ آپؓ نے انہیں منع فرمادیا۔اب ایک بارپھرسینکڑوںکی تعدادمیں بلوائیوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے گھرکامحاصرہ کرلیااورکہنے لگے کہ اب بغیرقتل کے نہ چھوڑیں گے اورہرچیزکامکان کے اندرآناجاناحتیٰ کہ پانی تک بندکردیا،گھرمیں کھانے پینے کی ہرچیزختم ہوگئی جب پانی بندہوئے سات دن گزرگئے توحضرت سیدناعثمان ؓ نے کھڑکی سے سرمبارک باہرنکال کرآوازدی کہ ہے کوئی آج عثمانؓ کوپانی کاایک پیالہ پلادے میں وعدہ کرتاہوں کہ قیامت کے دن جونبی کریم حوض کوثرپرپیالہ مجھے عطافرمائیں گے میں اُسے پیالہ دوںگا۔جب حضرت علیؓ کوپتاچلاتوآپؓ نے تین مشکیں پانی سے بھریں اورجب آپکے مکان کے قریب پہنچے توان باغیوں نے مشکوں میں برچھے مارکرانہیں چھلنی کردیاجس سے ساراپانی بہہ گیا۔اسکے بعدحضرت ام المومنین ام حبیبہ ؓ بھی پانی کی ایک مشک لے کرخچرپرسوارہوکرآئیںمگران ظالموں نے انکی بھی پرواہ نہ کی اورخچرکے منہ پرچھڑیاں ماریںجس سے وہ ایسابھاگاکہ حضرت ام حبیبہؓ بمشکل گرنے سے بچیں ۔یہ دیکھ کرلوگ گھبرائے اورکہاخداتمہارا خانہ خراب کرے ازواج نبی کاتوکچھ خیال کرواس پراہل مدینہ کوبہت غصہ آیااورتلواریں لے کرحضرت عثمان ؓ سے عرض کیاکہ اب توازواج رسول کی بھی بے حرمتی ہونے لگی ہے ہمیں لڑنے کی اجازت دےں‘آپؓ نے پھرمنع فرمادیاحتیٰ کہ پانی بندہوئے چالیس دن گذرگئے اسکے بعدظالموں نے آپکے مکان کوآگ لگادی گھروالے گھبرااٹھے ‘بچے رونے لگے۔ حضرت عثمان غنیؓ اسوقت نمازپڑھ رہے تھے گھرجل رہاتھامگرحضرت عثمان ؓکی نمازمیں ذرابھربھی فرق نہ آیا۔اسکے بعدآپؓ نے قرآن مجیدکی تلاوت شروع کردی ۔چندباغی دیوارپھاندکرمکان کے اندرداخل ہوگئے جن میں محمدبن ابی بکرنے آپؓ کی داڑھی مبارک کوپکڑکرہلاناشرو ع کردیا۔آپؓ نے فرمایااگرتیراباپ آج زندہ ہوتاتوتوکبھی ایسانہ کرتاچنانچہ وہ تواس بات سے شرم کھاکربھاگ نکلا۔ایک ظالم سوادبن جمران نے آپؓ کاگلاگھونٹااورایک نے آپؓ کے چہرے پرطمانچے مارنے شروع کردیے مگرواہ عثمانؓ تیرے حوصلے پرصدقے تیرے صبرپرقربان اُف تک نہ کی پھراس نے تلوارکاوارکیاجس سے آپکی زوجہ حضرت نائلہؓ کی انگلیاں روکتے ہوئے کٹ گئیں اورآپؓ کااپناہاتھ بھی کٹ کرزمین پرگرگیااس پرآپؓ نے فرمایایہ وہ ہاتھ تھاجووحی لکھاکرتاتھاآج یہ راہ مولیٰ میں کٹاہے یہ وہ ہاتھ تھاجس نے نبی کریمکے ہاتھ پربیعت کی تھی اورجس دن سے اس ہاتھ کونبی کریمنے اپناہاتھ کہایہ کسی گندی جگہ پرنہ گیا۔آپؓ نے فرمایا!اوبے خبروذرااس ہاتھ کواچھی طرح دفن کرنااسکے بعدایک اورظالم نے آپؓ پربرچھے کے وارکرناشروع کردیے اورخون کاپہلاقطرہ قرآن مجیدکی اس آیت پرگرا”تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے اوروہ سننے والااورجاننے والاہے“اس طرح آپؓ تلاوت قرآن مجیداورکلمہ شریف کاوردکرتے ہوئے اٹھارہ۱۸ذوالحجہ ۳۵ھ بروزجمعة المبارک کوجام شہادت نوش فرماگئے ۔روایات میں موجودہے کہ حضرت عثمان غنیؓ کاجسم اطہرتین دن تک آپؓ کے گھربے گوروکفن پڑارہا،آپؓ کے گھرکے ارگردسازشیوں نے شورش برپاکررکھی تھی بالآخرشہادت کے چوتھے روزحضرت جبیربن معطمؓ اورحضرت حکیم بن حزام ‘ؓ حضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ کی خدمت میں حاضرہوئے اوران سے درخواست کی وہ ان سازشیوں کوسمجھائیں کہ اب تووہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کی تدفین کرنے دیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ سازشیوں کے پاس پہنچے توآپؓ نے حضرت سیدناامام حسنؓ ،حضرت زبیربن العوامؓ اوردیگرکوحضرت سیدناعثمان غنیؓ کاجنازہ لاتے دیکھاجنازہ کے ہمراہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کے کچھ رشتہ داربھی تھے شرپسندوں نے کوشش کی کہ وہ آپکے جنازے کوروکیں لیکن حضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ نے مدینہ منورہ کے چندجوانوں کوحکم دیاکہ اگریہ کچھ کریں توانکے ساتھ سختی سے نمٹاجائے ۔حضرت سیدناعثمان غنیؓ کوجنت البقیع سے ملحقہ باغ حش کوکب میں لایاگیاجوآجکل جنت البقیع کاحصہ ہے ۔حضرت جبیربن معطمؓ نے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کی نمازہ جنازہ پڑھائی اور سیدناامام حسنؓ ودیگرنے آپؓ کوقبرمبارک میں اتارا۔روایات میں آتاہے کہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کے جنازہ کے ساتھ سترافرادتھے جنہوں نے آپؓ کوحش کوکب میں دفن کیااورشرپسندوںکے شرکیوجہ سے آپؓ کی قبرمبارک کانشان چھپادیا۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381554 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.