اسپیس کے برعکس قید و بند
اور نظر بندیاں
2008ء سے 2014ء تک نیشنل کانفرنس اور کانگریس کولیشن سرکارکے پورے چھ برس
کے عرصے میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی پارٹی پی،ڈی،پی نے آ زادی پسند
قیادت کے ساتھ اپنائے گئے ’’متشددانہ رویہ‘‘کولیکر سخت تنقید کا نشانہ
بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔عمر عبداﷲ کی سرکار کا نصف حصہ
ہلاکت خیز ہنگاموں کے نذر ہو گیا ۔اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے سے قبل انھیں
2008ء امر ناتھ لینڈ اشو کے نتیجے میں برپا ایجی ٹیشن وراثت میں ملی ،اس کے
بعد 2009ء میں شوپیان کے ’’آسیہ نیلوفر سانحہ‘‘نے انھیں گھیر لیااور پھر
2010ء میں ’’فوج کے ہاتھوں مژھل فرضی انکاؤنٹر‘‘کے نتیجے میں ایجی ٹیشن
اپنی مثال آپ تھا۔ مگر رہی سہی کسر افضل گورو کی پھانسی نے پوری کر دی ۔نیشنل
کانفرنس کے دورِاقتدار میں آزادی پسند قیادت کو گھومنے پھرنے کے مواقع نہ
ہونے کے برابر فراہم تھے ۔سید علی شاہ گیلانی کی خراب صحت کی پرواہ کئے
بغیر انھیں مسلسل نظر بند رکھا گیا ۔ان کی جماعت ’’تحریک حریت جموں و
کشمیر‘‘کے کارکنان پر ایک طرح کا ’’کریک ڈاؤن‘‘جاری رہا ۔پولیس ان کے
کارکنان کو ’’عسکریت پسندوں‘‘کی طرح تلاش کرتی رہتی تھی ۔حیرت کا مقام یہ
کہ پولیس تھانوں اور سراغرساں اداروں کی تحویل میں ان پر سخت تشدد کیا جاتا
تھا ۔جب بھی اس طرح کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی تھیں تو پی،ڈی،پی نیشنل
کانفرنس کو لتاڑنے والی پہلی جماعت ہوا کرتی تھی ۔پی،ڈی،پی صدر محبوبہ مفتی
نے کئی مرتبہ اسمبلی ایوان میں بھی اس اشو پر ہنگامہ برپا کردیا اور پی ،ڈی،پی
کے ممبرانِ اسمبلی کوئی ایک بھی موقع ضائع نہیں کرتے تھے جب حریت والوں کو
لیکر ’’بے چینی اور اضطراب‘‘کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا۔
نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداﷲ نے بحیثیت چیف منسٹر اپنے آخری ایام میں
سید علی گیلانی کو چند ایک جلسے کرنے کی اجازت فراہم کیا کردی گویا پوری
قوم پر کوئی احسان کردیا! عمر عبداﷲ شاید اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ چند
سو یا دو تین ہزار کی شمولیت سے سید علی گیلانی ہمت ہار کر مایوس ہو جائیں
گے مگر معاملہ اس وقت اُلٹ گیا جب انتہائی قلیل وقت میں اور محدود وسائل کے
باوجود سید گیلانی کے جلسوں نے گذشتہ ریکارڈ مات دینے شروع کردیئے تو ’’دلی
کے مہاجنوں‘‘نے ’’سُرخ بتی جلاکر‘‘عمر عبداﷲ کو ہوش کے ناخن لینے کی تاکید
کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمر عبداﷲ نے جلسوں پر پابندی اور گیلانی صاحب
کو گھر میں نظر بند رکھنے کا بہانہ تلاشنا شروع کردیا اور پھر ان کا یہ
ٹوئٹ آیا کہ جلسوں میں شمولیت کرنے والے پتھراؤ نہ کرتے تو پابندی ہر گز نہ
لگائی جاتی۔ان چند جلسوں کے سوا سید علی گیلانی کا پورا چھے سال کا عرصہ
نظر بندیوں یا قید و بند میں ہی گذرا۔سیدعلی گیلانی ہی نہیں محمد اشرف
صحرائی، محمد یسٰین ملک،شبیر احمد شاہ ،ہمشیراہ آسیہ اندرابی،نعیم احمد خان
اورظفر اکبر بٹ کے علاوہ دیگر سینکڑوں چھوٹے بڑے حریت لیڈران اور کارکنان
نیشنل کانفرنس اور کانگریس کولیشن سر کار میں تختہ مشق بنتے رہے اور ہر
موقع پر پی،ڈی،پی نے اس ظلم و تشدد کے خلاف سخت احتجاج کیا ۔
اب جب خود پی،ڈی،پی کی باری آئی تو الیکشن میں ووٹروں کے دل لبھانے والی اس
جماعت نے بھی من و عن نیشنل کانفرنس کے نقوش پر چلنا شروع کردیا ہے ۔جس سے
معلوم ہو رہا ہے کہ ’’مین اسٹریم جماعتیں‘‘ اقتدار سے باہر ’’کچھ بھی ‘‘کہہ
سکتی ہیں مگر جوں ہی اقتدار کی دیوی ان پر مہربان ہو جاتی ہے تو یہ لوگ
’’سانس لینے اور چھوڑنے پر ‘‘بھی دلی کی مرضی دریافت کرنے کے محتاج ہو جاتے
ہیں ۔گویا ان کی نبض دلی کی مرضی کے تابع ہے جب دلی چاہیے گی وہ دوڑے گی جب
چاہیے گی تو وہ بیٹھ جائے گی۔پی ،ڈی،پی کے رویے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ
کشمیر کی نیشنل کانفرنس یا کانگریس کا قصور نہیں بلکہ یہ معاملہ دلی کے
براہ راست کنٹرول میں ہے ۔وہ جب چاہتے ہیں تو حریت والے جوق در جوق نیویارک
سے لیکر پاکستان تک دھندھناتے پھرتے نظر آتے ہیں اور جب چاہتے ہیں تو ایک
معمولی سی بات کو لیکر کسی بھی فرد کو حج جیسے عظیم فریضے سے بھی روکتے ہیں
۔
گزشتہ الیکشن میں پی ،ڈی،پی کے سر پرست مفتی محمد سعید نے اپنی پوری ٹیم
سمیت عوامی جلسوں میں جگہ جگہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پی،ڈی،پی یہاں
آزادی پسندوں کے ’’متبادل سیاسی قوت‘‘کے طور پر رول نبھا رہی ہے بلکہ چیف
منسٹر بننے کے بعد مفتی سعید نے حیرت انگیز طور پر ’’فوج اور پولیس ‘‘کا
شکریہ ادا کرنے کے بجائے ’’پاکستان ،حریت اور مجاہدین‘‘کا شکریہ ادا کیا جس
پر دلی میں بعض حلقوں کی جانب سے بڑا سخت ردعمل بھی سامنے آیا تھا۔پروفیسر
عبدالغنی بٹ نے مفتی محمد سعید کے ساتھ جو میٹنگیں کیں اور پھر میڈیا کے
ذریعے بھرپور تشہیر سے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی کہ ’’بی ،جے،پی ‘‘کو
روکنے کے لئے اور ’’تحریکی مفادات ‘‘سمیٹنے کے لئے یہ اقدام بہت ضروری تھا
سے یہ تاثر اور بھی گہرا ہوگیا کہ شاید حریت پسند قیادت نیشنل کانفرنس کے
برعکس پی ،ڈی،پی کو برسرِاقتدار لانے کے لئے بہت بے چین ہے ۔نام تو
عبدالغنی بٹ کا سامنے آیا مگر جان کارحلقوں کو معلوم ہے کہ اور بھی بہت
سارے شریف زادے ’’مفتی اور عمر کی درگاہوں‘‘پر جلوہ افروز ہوکر ’’ذاتی
مفادات‘‘سمیٹنے میں کامیاب ہو گئے مگر ’’بے چاری تحریک‘‘پر چھرا چلا دیا
گیا اور یہ ’’موٹی اور فربہ گائے ‘‘ہر دور میں لوگوں کو خوش کرنے کی صلاحیت
رکھتی ہے ۔ان تحریکی بہی خواہوں کی ان کوششوں نے اس تاثر کو مستحکم کردیا
کہ آزادی پسند لیڈر شپ تبدیلی کی خواہش مند ہے پھر مفتی اینڈ کمپنی نے
’’دلی کے اذن‘‘سے اس کو سچائی اور حقیقت میں تبدیل کرنے میں کوئی دقیقہ
فروگذاشت نہیں کیا ۔
اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے سے قبل پی ،ڈی،پی نے طویل انتظار اور افواہوں کے
ذریعے ’’سنگھ پریوار کے ساتھ شراکتِ اقتدار‘‘کے حوالے سے ساری بد مزگی کو
کم کرنے کی بھر پور اور کامیاب کوشش کی ۔مفتی سعیدکے دامن پر پہلے ہی کشمیر
میں ’’کانگریس درآمدی‘‘ کا الزام لگا تھا اور اب انہی کے ’’مبارک
ہاتھوں‘‘سنگھ پریوار کو وادی گلپوش میں لانا کوئی چھوٹا کام نہیں تھا لہذا
طویل خاموشی اور ماہر افواہ بازوں کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا گیا کہ بی ،جے،پی
کو کشمیر لانے میں قباحت و کراہت کے برعکس خیر ہی خیر پنہاں ہے ۔کہا گیا کہ
اگر بی ،جے،پی کے برعکس’’ نیشنل کانفرنس یا کانگریس ،آئی ‘‘سے ہاتھ ملایا
گیا تو نہ ہی سیلاب زدگان کو امداد ملے گی اور نہ ہی کشمیر کو ’’سوئزر
لینڈ‘‘بنانے کا خواب پورا ہوگا ۔کشمیر کو نیویارک اور سوئزلینڈ بنانے کے
لئے جس بے تحاشا امداد کی ضرورت ہے اس کا خواب پورا کرنا صرف ’’نریندر مودی
اور اس کی ٹیم ہی کی استدراجی کرامت‘‘سے ممکن ہے ۔پھر پاکستان کے ساتھ
سنجیدہ مذاکرات ،حریت والوں کے لئے بتدریج آزادی اور آزاد کشمیر اور
مجاہدین کے لئے آبِ حیات یہ سب تو ’’آر،ایس،ایس اور وی،ایچ،پی کے لیڈران ہی
سے ممکن ہے ،رہی کانگریس تو اس نے کیا دیا ’’چالیس ہزارمسلم کش
فسادات،بابری مسجد کی شہادت،سچر کمیٹی رپورٹ کے آئینے میں نظر آنے والا
جاہل ،بے روزگار اور بھوکا مسلمان وغیرہ وغیرہ‘‘ ان جیسے سینکڑوں سچے پکے
سوالات سے پی،ڈی،پی نے کشمیر میں بی،جے،پی کے ساتھ شراکت اقدار کی مشکل اور
شرمناک مہم کو بہت آسان بنادیا ۔
مفتی سعید چونکہ بھارت کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں آتے ہی ’’گم نام مجاہدین
یا آزادی پسند لیڈران‘‘کے برعکس مسرت عالم بٹ کو رہا کردیا جس پرجان بوجھ
کر بھارت بھر کے میڈیا نے پارلیمنٹ سمیت آسمان سر پر اُٹھا لیا حتیٰ کہ ہر
ذی ہوش کو مفتی محمد سعید کی ذات اور اس ’’مقدس کولیشن‘‘پر رحم آنے لگا ۔پھر
پی،ڈی،پی کے ماہر افواہ بازوں نے مورچہ سنبھال کر مفتی صاحب کی تحریک آزادی
کشمیر کے لئے نیک نیتی مگر بے بسی کے لئے قسمیں کھانی شروع کردیں اور ہر
دوکان اور بس میں اس کے چرچے ہونے لگے کہ اگر کانگریس جیسی ’’ انتہا پسند
تنظیم ‘‘پارلیمنٹ میں مسرت عالم کی رہائی پر ہنگامہ کھڑا نہ کرتی تو ڈاکٹر
محمد قاسم اور ڈاکٹر شفیع شریعتی جیسے لوگ دوسرے ہفتے میں رہا ہو چکے ہوتے
۔نہ سید علی گیلانی پر قدغن ہوتی اور نہ ہی آسیہ اندرابی کو گرفتار کیا
جاتا ،نہ یسٰین ملک کو پریشان کیا جاتا اور نہ ہی شبیر احمد شاہ کو نظر بند
رکھا جاتا یہ سب کانگریس کی وجہ سے ہوا رہا سیلاب زدگان کی امدادکا معاملہ’’
چونکہ عمر عبداﷲ نے چالیس ہزار کروڑ مانگے تھے مفتی سعید نے اس کو حقیر تر
سمجھتے ہوئے جب معاملہ نریندر مودی کی نوٹس میں لایا‘‘ کہ میرا ’’سابقہ
مجاہد آزادی حسیب درابو ‘‘اس حقیر رقم کے لئے کٹورا لیکر دلی دربار میں
حاضری کامنکر ہے تو مودی جی نے فرما دیا کہ مفتی صاحب مجھے تھوڑا سا وقت
دیدو میں ملک ملک جاکر چالیس لاکھ کروڑ لاکر خود ’’درابو صاحب کے غریب خانے
‘‘پر حاضری کی سعادت حاصل کروں گا۔
افواہوں ، تماشوں اور ڈراموں کے بعد جب اچانک جموں ہائی کورٹ برانچ نے گائے
کشی کے خلاف فیصلہ دیدیا تو مفتی صاحب کی ٹیم نے ’’جیو اور جینے دو‘‘کا
وظیفہ ورد کرنے کا حکم دیکر ’’ماتا جی کی قربانی کے لئے ’’پردے‘‘کے اہتمام
کی تجویز پیش کردی ۔یہاں تک کہ ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے ساری مشینری
حرکت میں آئی اور براڈ بینڈ سمیت انٹرنیٹ کی سروس کو چار روز کے لئے مکمل
طور پر بند کردیا گیا کہ مبادا گاؤکشی کے ’’جرم‘‘کے ساتھ ساتھ کشمیر ی
مسلمان انٹرنیٹ کی بھی قربانی نہ کر ڈالیں ۔اس موقع پر بھی مفتی صاحب کی
متحرک جماعت نے سارے لعن طعن کا رُخ جموں کے ڈوگرہ خاندان کی جانب موڑ دیا
کہ یہ غلطی ڈوگروں کی ہے کہ مہان جمہوری ہندوستان کے ’’درویش مزاج مودی جی
اور مسکین طبیعت مفتی صاحب اور ان کے لاڈلے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جرنل سیٹھی
جی‘‘کی نہیں۔
اسٹیٹ سبجکٹ قانون کی انفرادیت کے خاتمے کے لئے ایک رٹ داخل ہونے کے بعد
گذشتہ ہفتے دفعہ370کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی جا چکی ہے
۔ان کا حشر بھی امکانی طور پر گاؤکشی ایکٹ جیسا ہی ہونے کا خدشہ ضرور ہے
مگراب کی بار ویسی ہلچل دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جیسی ہلچل ہر چوٹے موٹے
مسئلے پر نیشنل کے دورِ حکومت میں دیکھنے کو مل رہی تھی ۔میرا یہ ہر گز
مقصد نہیں ہے کہ بدامنی کو ہوا دی جائے بلکہ مجھے حیرت اس بات پر ہو رہی ہے
کہ دونوں ادوار میں فرق نہ ہونے کے باوجود حریت لیڈران نے الیکشن کے زمانے
میں مفتی سعید کی تحریک نوازی کے لئے قسمیں کھانے کا وظیفہ کیوں ہرزجان
بنالیا تھا؟ آخر فرق نہ ہونے کے باوجود لوگوں کو فرق محسوس کرنے کی تبلیغ
کا مقصد کیا تھا ؟کیاآج ڈاکٹر محمد قاسم ،داکٹر شفیع شریعتی،آسیہ
اندرابی،فہمیدہ صوفی ،مسرت عالم بٹ اوردیگر سینکڑوں حریت پسند جیلوں میں
بند نہیں ہیں ؟کیا سید علی گیلانی کو پیرانہ سالی اور ناتوانی کے باوجود ہر
دم نظر بند نہیں رکھ کر جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کرنے سے محروم نہیں
رکھا جاتا ہے ؟کیا آج بھی سابقہ عسکریت پسندوں کو کیمپوں اور تھانوں پر
بُلا کر پکیج کے برعکس ذلیل نہیں کیا جاتا ہے ؟کیا آج بھی کریک ڈاؤنوں اور
چھاپوں کا سلسلہ برابر جاری نہیں ہے ؟کیا آج بھی نامعلوم بندوق کے دیو کے
ہاتھوں ہمارے معصوم بچوں اور نوجوانوں کا قتلِ عام جاری نہیں ہے ؟ کیا آج
بھی لوگوں کو حج و عمروں کی سعادتوں سے ویر فکیشن ضابطوں کے تحت محروم نہیں
رکھا جاتا ہے ۔تو پھر بدلا کیا؟ جب سیاست دانوں کو اپنے ہی قول وقرار کے
مطابق ’’اسپیس‘‘دینے کے برعکس قید وبند کی صعوبتوں کا شکار بنادیا جاتا ہو
توحالات بدلنے کی باتیں کرنا ’’شرمناک جھوٹ‘‘قرار دیئے بغیر چارہ ہی کیا رہ
جاتا ہے ۔ |