عید قرباں اور لوگوں کا نفسیاتی خوف
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
ایک تو ہوتا ہے خوف اور ایک ہوتا
ہے مستقل نفسیاتی خوف جس کا اندازہ اس مرتبہ کی مہم چرم قربانی کے موقع پر
ہوا یہ تو پورا ملک جانتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں 1987کے بعد سے ایم
کیو ایم نے چرم قربانی کی وصولیابی کے حوالے سے ایک نیا اور منفرد کلچر
متعارف کرایا ہے ،جس میں عوام سے زبردستی کھالوں کی وصولی اور جو انکار
کردے اس کے جانور کو گولی تک مار دینے میں کوئی شرم اور غیرت آڑے نہیں آتی
ایم کیو ایم کو ووٹ دینے والے بھی اس امر کے خواہشمند رہے ہیں کہ کھالوں کے
مصرف کے سلسلے میں لوگوں کی مرضی کو سامنے رکھا جائے ۔ورنہ اس سے پہلے بہت
سارے ادارے اور انجمنیں ایسی تھیں جو سب کھالیں وصول کرتی تھیں جولوگ دینا
چاہتے وہ دے دیتے اور جو انکار کردیں تو اس کو محبت سے سلام کرکے خوشدلی سے
واپس ہو جاتے لیکن اہل خانہ کو یہ خطرہ قطعی لاحق نہیں ہوتا کہ جس کو انکار
کیا ہے وہ ابھی کچھ مسلح افراد کو ساتھ لے کر واپس آئے گا اور کنپٹی پر
پستول کی نال رکھ کر پوچھے گا کہ اب بتاؤ یہ کھال کس کو دو گے وہ بے چارہ
ایک منٹ کے فاصلے پر اپنی موت کو دیکھ کر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے یہ کہتا کہ
سر آپ ہی کو دوں گا گھر والوں نے غلطی سے انکار کردیا تھا ہم تو ہمیشہ سے
آپ کے ساتھ ہی رہے ہیں ۔خود راقم کے ساتھ اب سے آٹھ دس سال قبل ایک واقعہ
ہو چکا کہ ہمارے کرائے دار نے اپنی گائے کی کھال ہمیں دینے کا وعدہ کرلیا
جب کھال اتاری جارہی تھی تو گلی کا یک لڑکا جس سے ہمارے گھریلو تعلقات بھی
تھے آیا جب اسے میں نے بتایا کہ ان سے ہماری بات ہو گئی ہے یہ کھال الخدمت
کو دیں گے انھوں نے بھی کہا کہ ہم یہ کھال الخدمت کو دیں گے یہ وہ لڑکا تھا
جس کے تینوں بھائی بے روزگار تھے تو اس کا بڑا بھائی جو روز میرے گھر کے
چکر لگاتا تھا کہ مجھے کہیں بھی ملازمت دلادیں میں نے بلدیہ میں اپنی سابقہ
کونسلر شپ کے بچے کھچے اثرات کو استعمال کرتے ہوئے اس فرد کو کے ایم سی میں
ملازمت دلوادی بعد میں جب بلدیاتی انتخاب کا وقت آیا تو اس لڑکے سمیت پورا
گھر ایم کیو ایم میں دل وجان سے لگاہوا تھا ۔لیکن اس دن اس نوجوان نے بھی
اپنی آنکھیں ماتھے پہ رکھ کر پوچھا کہ جاوید بھائی آپ نے انھیں اپنی رسید
دی ہے میں نے کہا نہیں یار جب زبانی بات ہو گئی ہے رسید وغیرہ کی کیا ضرورت
ہے وہ خاموشی سے چلا گیا تھوڑی دیر بعد بعد بیس پچیس لڑکے آگئے جن کی
اکثریت مسلح تھی ان کے کئی گروپ بن گئے جن کے پاس اسلحہ تھا وہ تو جس کی
گائے تھی اس کو ہتھیار ہاتھ میں لے کر کہہ رہے تھے کہ بتا تو کھال کس کو دے
گا ایک گروپ مجھ سے بحث میں الجھ گیا ایک گروپ جو پیچھے تھا گالیوں اور
دھمکیوں کی زبان بول رہا تھا اور ایک گروپ جو کچھ سنجیدہ نظر آرہا تھا
مصالحانہ انداز میں بات کررہا تھا ان ہی میں سے ایک نے کہا چلئے ایسا کرتے
ہیں جس کی گائے ہے اسی سے پوچھ لیتے ہیں وہ کس کو کھال دے گا میں نے کہا اس
کو اسلحہ دکھا کر بے چارے کو خوف زدہ کر دیا اب وہ کیا کہہ گا سب کو معلوم
ہے بہر حال اس شخص نے کہہ دیا کہ میں ان کو دوں گا ،یہ ان کا طریقہ واردات
ہوتا ہے وہ فرد بعد میں میرے پاس آیا او ر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جاوید
بھائی آپ کی پشت پر تو ایک تنظیم ہے میں اگر ان کے سامنے آپ کو دینے کہتا
بعد میں یہ آپ کو تو کچھ نہیں کہتے ہم کو یا ہمارے بھائیوں کو کوئی بھی
نقصان پہنچا سکتے تھے ،میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک کھال کے لیے آپ اپنے
آپ کو آزمائش میں نہ ڈالیں ،مجھے اس بات کا بڑا قلق ہوا کہ دیکھو یہ وہ لوگ
جن کے گھر معاشی پریشانیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اس لڑکے کو اچھی طرح
معلوم تھا کہ میرے بڑے بھائی کو انھوں نے سرکاری ملازمت دلائی ہے لیکن مروت
و لحاظ داری دونوں ہی چیزیں ختم ہو گئیں ۔
اس دفعہ انتظامیہ کی طرف سے جو پابندیاں اور سخت ہدایات اس حوالے سے آرہی
تھیں اس نے انتظامی خوف کے ساتھ ابہام بھی پیدا کیے کہ کوئی کسی کے پاس
کھال لینے نہیں جائے گا کوئی کیمپ نہیں لگائے گا اس کے نتیجے میں بیشتر
تنظیمیں ٹھیک سے اپنی مہم نہ چلاسکیں لیکن پھر بھی جن لوگوں سے بات ہوئی تو
معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم کا خوف ان کی پوری نفسیات میں سرایت کر گیا ہے جب
کھال کا کہا تو جواب دیا کہ دیکھیں یہ لوگ چکر تو لگا رہے ہیں اگر آگئے تو
دینا پڑے گا اور پھر ہوا بھی ایسا ہی کہ وہ صرف یہ کہہ گئے کھا ل رکھنا ہم
کسی وقت بھی آجائیں گے لوگوں نے ان کے لیے کھال رکھا بہت سارے مقامات سے وہ
لے گئے جہاں کہیں وہ نہ پہنچ سکے تو کھال خراب ہو گئی یا لوگوں نے مدرسوں
کو دے دیا ایم کیو ایم نے لوگوں سے وصولیابی تو اپنے روایتی اسٹائل میں کی
کہیں کہا کہ یہ تو وقتی اور عارضی آزمائش ہے ،کہیں کہا دیکھ لیں یہ وردی
والے آج نہیں کل چلے جائیں گے پھر ہمیں اور آپ کو دونوں کو یہیں رہنا ہے
خواتین کے ذریعے مہم چلائی گئی لیکن ایم کیو ایم نے ان قواعد و ضوابط کی
پابندی نہیں کی جو انتظامیہ نے جاری کی تھیں اس لیے بیشتر مقامات پر یہ
پکڑے گئے ۔انھوں نے اپنی بہت ساری کھالیں سڑا دیں کئی مقامات پر ان کے
کارکن پولیس اور رینجرز کو دیکھ کر کھالوں سے بھری گاڑیاں چھوڑ کر بھاگ گئے
پھر رینجر والوں نے ان لا وارث کھالوں کو ایدھی سنٹر میں دے دیا ۔
سچی بات یہ ہے کہ جب سے ایم کیو ایم اس کھالوں کی وصولیابی میں داخل ہوئی
ہے اس نے بقرعید کا اپنا مزہ بھی کرکرا کردیا ہے اب تمام سماجی اور خدمتی
اداروں کے کارکنان کو خوف کے سائے میں کام کرنا پڑتا ہے ۔اگلے سال کے لیے
ابھی سے اگر حکومت یہ اعلان کر دے کہ جو تنظیمیں 2016میں کھالیں وصول کرنا
چاہتی ہیں وہ اپنے پچھلے دس سال کی آڈٹ رپورٹ پیش کریں اور 2015میں جو
کھالیں وصول کی ہیں ان کا حساب جمع کرایا جائے جو تنظیمیں یہ آڈٹ رپورٹس
اور حساب کتاب نہ جمع کرا سکیں ان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے ۔تنظیموں کو
کیمپ لگانے اور لوگوں سے رابطے کرنے کی اجازت دی جائے اس درمیان اگر کوئی
شکایت آئے تو اس پر سخت گرفت کی جائے ۔
جو ٹارگٹ کلرز پکڑے جارہے ہیں ان کی کہانیاں تو بہت آرہی ہیں لیکن کوئی یسی
مضبوط عدالتی کارروائی سامنے نہیں آپارہی ہے جس لمحے عوام کو یہ یقین حاصل
ہو جائے گا کہ ہمارے یہاں ملزمان صرف پکڑے نہیں جاتے بلکہ انھیں سزائیں بھی
دی جاتی ہیں بس وہی لمحہ ہوگا جب عوام کے دلوں سے خوف ختم ہونا شروع
ہوگاابھی جب لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اجمل پہاڑی جیسے لوگ جو سوسو قتل کرنے
کے بعد بھی ضمانت پر باہر آجاتے ہیں پھر آبادیوں اور بستیوں میں قتل کرنے
والے آرام سے دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا تو پھر
خوف کا فرد کی رگوں تک سرایت کرجانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔یہ جو پورے
ملک میں راحیل شریف کے حق میں بینرز اور پوسٹر بازی ہو رہی ہے اس میں کسی
خفیہ ایجنسی کا ہاتھ نہیں بلکہ یہ عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے جو سڑکوں اور
چوراہوں پر ان پوسٹرز کی شکل میں سنی جارہی ہے ۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے
سیاست دان اپنے اقتدار کی مصلحتوں کی خاطر چوروں ،ڈاکوؤں بھتا خوروں ،اور
قاتلوں سے ہاتھ ملانے کو تیار ہو جاتے ہیں تو اس سے عوام میں مایوسی پیدا
ہوتی ہے ۔اسی لیے عوام کا رخ راحیل شریف کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ |
|