سانحہ منیٰ حادثہ یا سازش
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
جب زندگی رواں دواں ہو تو حادثات
بھی ہوتے ہیں اور واقعات بھی پیش آتے ہیں۔پاکستان میں بھی آئے روز مختلف
قسم کے حادثات رونما ہوتے ہیں۔لکھنے کے لیے موضاعات کی کمی نہیں ۔ آئے روز
ایسے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جس پر لکھنے کو دل چاہتا ہے لیکن چونکہ کالم
ہفتے میں دو ہی چھپنے ہوتے ہیں اسلئے بہت سے موضاعات رہ جاتے ہیں۔ آج سیاست
اور مسائل سے ہٹا کر سوچ کہ سعودی عرب میں پیش آنے والے حادثات پر لکھوں
لیکن بدقسمتی سے نون لیگ کی پالیسوں پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اب اگر
دیکھا جائے تو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہے بلکہ آئے روز کم
ہوتی جارہی ہے لیکن پاکستان میں الٹ گنگا بہتا ہے۔ یہاں پر قیمتیں وہی رہتی
ہے بعض اوقات پیسوں میں قیمتیں کم کی جاتی ہے اور جب بڑھنا مقصود ہو تو یک
دم سے پانچ سات روپے تیل کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہے۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی
قیمت کے مطابق پاکستان میں تیل کی قیمت زیادہ سے زیادہ 45روپے ہونا چاہیے
لیکن یہاں پر تو پٹرول کی قیمت 75روپے سے بھی زیادہ ہے اسی طرح ڈیزل کی
قیمت بھی بہت زیادہ ہے جس کا نقصان یا قیمت عام آدمی مہنگائی کی صورت میں
ادا کرتا ہے۔ٹرانسپورٹ کا خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے اشیائے خوردنوش کی
قیمتیں دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ زمیندار سے آلو 40روپے
من خریدا جاتا ہے جبکہ منڈی میں 100روپے کے پانچ کلو ملتے ہیں اور عام
مارکیٹ میں 30اور40روپے کلوفروخت ہوتا ہے ۔ وجہ مہنگا کرایہ بتایا جاتا ہے
جبکہ زمیندار تو ہمیشہ خوار ہی رہتا ہے۔ بحرحال اب حکومت نے پٹرول کی قیمت
پورے دس پیسے سستا کرنے کا اعلان کیا ہے جو قوم کو مبارک ہو۔یہی تو ہے
عوامی حکومت جو تمام فیصلے عوام کے لیے کرتی ہے۔یورو بانڈز اور مہنگے قرضے
لینا حکومت کی بہتر ین معاشی پالیسی ہے یعنی انڈیا کی ایک کمپنی کو قرضہ
2.5کا ملا ہے جبکہ حکومت پا کستان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وہی قرضہ
سود پر8.25پر لیا ہے ۔قرضوں پے قرضہ لیا جارہاہے اور عوام کو بے وقوف بنایا
جارہاہے کہ ہم نے قومی خزانہ بھر دیا ہے ۔حکومت کی غلط اعداد وشمار قوم کو
تو بے وقوف بنا سکتی ہے لیکن تاریخ کو بے وقوف نہیں بنا سکتی ۔
اب ہم آتے اپنے اصل موضوع کی طرف جو افسوسناک واقع سعودی عرب منیٰ میں پیش
آیا ہے اور اس سے پہلے حرام میں کرین گرنے کا واقع پیش آیا، میر ے معلومات
کے مطابق پہلی باری اتنی بڑی تعداد میں حج کے موقعے پر شہادتیں ہوئی جس پر
جتنارویا جائے یا افسوس کیا جائے کم ہے لیکن یہ واقعات پیش کیوں آئے جس میں
12سو سے زیادہ حجاج کرام شہید ہوئے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق تعداد اس سے
کئی گنا زیادہ ہے ۔ سعودی حکام مرنے والوں کی تعداد چھپارہی ہے۔ بہت سے مسخ
شدہ لاشیں تاحال شناخت کے لیے پڑی ہے ۔پا کستان کے کئی افراد ابھی تک لاپتہ
ہے ۔لواحقین دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔اپنے پیاروں سے رابطے کا کوئی
انتظام نہیں ۔حکومت صرف وعدیں پے وعدیں کررہی ہے۔حکومت کی عدم دلچسپی کے
باعث بہت سے حجاج کرام کی اب تک کسی قسم کی معلومات نہیں دی گئی۔ اگر یہ
کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانہ اور وزارت
حج ومذہی امور مکمل طور پر حجاج کرام کو سہولیات دینے میں نا کام ہوچکا
ہے۔سب لوگ اﷲ کے آسرے پر انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ہمارے پیارے آجائیں گے ۔
دوسری طرف ہم سانحہ منیٰ اور کرین حادثے میں اگرسازشی عنا صر اور سوچ کو
ایک سائٹ پر رکھ بھی دیں لیکن جو حادثات رونما ہوئے ہیں وہ تو حقیقت ہے ۔
اس کی مکمل انکوائری ہونی چاہیے کہ یہ حادثات کیوں پیش آئیں۔ سعودی حکومت
نے کہاں کہاں پر غلطیاں کی ہے۔ سب ملبہ حجیوں پر ڈالانے سے مسئلہ ختم نہیں
ہوگا۔ مختلف طبقوں اور مکتب فکر سے یہ سوال بھی اٹھایا جارہاہے کہ حج کے
موقعے پر جہاں 30لاکھ لوگ موجود ہو سعودی حکومت حرم شریف میں کام کیوں کرتی
ہے اور اگرکام بند تھا تو کرین کو وہاں سے ہٹایا کیوں نہیں گیا جبکہ عرصہ
دراز سے لاکھوں افراد ہر سال حج کرتے ہیں ۔ دنیا میں جدید نظام متعارف ہوئے
ہیں پھر منیٰ میں سینکڑوں افراد کی شہادت کیسے ہوئی ۔سعودی حکومت کو اپنی
نااہل حکام کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے اور انہیں سزا ضرور دینی چاہیے
تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہو پائے ۔ دوسرا اہم مسئلہ دہشت گردی کا
بھی ہے ۔ ایسے موقعوں پر دہشت گردی کی کارروائیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا
سکتا ہے۔اس کی بھی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے کہ آیا کرین کا گر جانا حادثہ
تھا یا سوچ سمجھ کر کرین کو گرایا گیاجس طرح میں پہلا عرض کر چکا ہوں کہ
ایسے حادثے حج کے موقعے پر کبھی رونما نہیں ہوئے ہیں۔حکومت پا کستان کی ذمہ
داری ہے کہ وہ سعودی عرب سے تمام معلومات حاصل کریں جو لوگ اپنا پیٹ پر
پتھر رکھ کر لاکھو ں روپے جمع کرتے ہیں اور پھر جج پر جاتے ہیں اور حکومت
پا کستان اور سعودی حکومت ان سے منہ مانگے پیسے وصول کرتی ہے ،وہاں پران کی
جان ومال کی حفاظت کرنا بھی دونوں ممالک پر فرض ہے۔ حکومت پاکستان کو اس
مسئلہ پر سنجید گی کا مظاہر ہ کرنا چاہیے اور سعودی عرب کے ساتھ معاملے کو
نہ صرف اٹھانا چاہیے بلکہ تفتیش میں بھی حصہ لینا چاہیے اور آئندہ کے لیے
ایسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس سے جانی نقصان کا خدشہ کم سے
کم ہو۔ |
|