اگرچہ کابل سے آن لائن کی ایک
خبر کے مطابق یہ بات پورے یقین کے ساتھ تو نہیں ہاں البتہ! اِسے اتنا سمجھ
لینا ضروری ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کے اثرات اِب آہستہ آہستہ
نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کی طرف طالبان نے بھی کچھ یوں اشارہ دیا ہے
کہ گزشتہ دنوں امریکی صدر بارک اوباما نے صرف چھ گھنٹے کا اپنا افغانستان
کا یوں اچانک دورہ کیوں کیا اور پھر اِسی پر انتہائی تضحیک آمیز تبصرہ کرتے
ہوئے طالبان نے اِسے اوبامہ کے رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح افغانستان
آنے پر امریکی شکست سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکی صدر کا 6گھنٹے کا
غیر اعلانیہ دورہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی فوجی حکمتِ عملی اور پروپیگنڈہ
بُری طرح سے ناکام ہوگیا ہے اِس لئے امریکی صدر نے افغانستان رات میں آنے
کا سوچا کیونکہ شکست خوردہ امریکی صدر دن کی روشنی میں کس منہ سے افغانستان
آتے اور اِس کے علاوہ بھی شائد وہ دن کی روشنی میں افغانستان آبھی نہیں
سکتے۔ اِس خبر نے طالبان کے اِس مبہم دعوے پر نہ صرف امریکا اور افغانستان
کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ ساری دنیا کو بھی آنے والے دنوں میں
افغانستان میں امریکی شکست کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
جبکہ ادُھر ہی دوسری طرف ایک لحاظ سے اگر دیکھا اور سمجھا جائے تو آن لائن
کی ایک خبر یہ بھی ہے گو کہ یہ ہے تو بہت چھوٹی سی مگر ہمارے یعنی پاکستانی
حکمرانِ کے لئے ایک اور منظم اور مربوط امریکی ڈکٹیشن کی حیثیت کی حامل بھی
کہی جاسکتی ہے مگر اپنے اندر یہ خبر بڑی گہرائی بھی لیئے ہوئے ہے جو گزشتہ
دنوں ہمارے ملک اخبارات کی فرنٹ پیچ کی زینت بنی رہی جس میں آن لائن کے
مطابق امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ بلیک نے واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویسے تو پاکستان نے مجموعی طور پر نائن الیون کے بعد
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ مل کر اپنے تئیں اَب تک مؤثر کاروائی
کی ہے تاہم ابھی پاکستان پنجابی طالبان کے خلاف بھی کاروائی کرے تو اِس سے
پاکستان سمیت پورے خطے اور امریکا کے لئے بھی مزید بہتر نتائج برآمد ہوسکتے
ہیں۔
اگرچہ یہاں یہ بات بھی قارئین کے ذہن نشین رہے کہ ابھی تو پاک امریکا
اسٹرٹیجک مزاکرات کو ختم ہوئے صرف چند ہی روز گزرے ہیں کہ اِس کے فوری بعد
ہی امریکا کی جانب سے ڈومور کی رٹ تو نہ لگی البتہ!اِس نے اپنی حکمتِ عملی
زرا سی تبدیل کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے یہ ضرور مطالبہ کرتے ہوئے اتنا
کہہ دیا کہ پاکستان کو اَب پنجابی طالبان کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہئے
اور اِس سلسلے میں پاکستان کو پنجابی طالبان کا سر کچلنے کے لئے مزید
اقدامات کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے اور اِس کے علاوہ یہ کہ امریکا نے اِس
جانب بھی ایک واضح اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان سے
مصالحت کے لئے پاکستان کے کردار کی بھی ضرورت ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُدھر
خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ پینٹاگون میں دفاعی حکام کی جانب سے صحافیوں کو
دی جانے والی بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں
مصالحت کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بھی اپنی معاونت کی پیشکش
کی ہے اور اِس لحاظ سے امریکیوں کا دوسری طرف ایک بڑا گول مول سا جواب اور
خیال یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اِس عمل میں شامل کرنے سے مفاہمتی عمل میں
تیزی بھی آسکتی ہے تو اِس سے نہ صرف مثبت نتائج برآمد ہوں گے بلکہ یوں یہ
عمل بڑی حد تک انتہائی خوش اسلوبی سے انجام کو پہنچنے کے بعد امریکا کے لئے
بھی مفید ثابت ہوگا۔
مگر اُدھر ہی امریکیوں نے اِس معاملے میںِ ہچر مِچر کا سہارا لیتے ہوئے یہ
بھی کہہ ڈالا ہے کہ تاہم پاکستان سے معاونت لینے کا فیصلہ افغان حکومت پر
ہے کیوں کہ مفاہمتی عمل کی قیادت افغان حکومت ہی کررہی ہے جبکہ طالبان سے
مصالحت کے حامی امریکا کی دوسری طرف پھر بھی ایک ضد یہ بھی ہے کہ امریکا کو
اِس بات کا بھی یقین ہے کہ بعض طالبان سے مفاہمت ہو تو.....سکتی ہے؟ اور
بعض طالبان اِس قابل ہی نہیں کہ اِن سے مفاہمت کی جاسکے۔ یہاں سوچنے اور
غور کرنے کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اِس سے کیا مراد ہے کہ بعض طالبان سے
مفاہمت ہوسکتی ہے اور بعض سے نہیں ....؟یہاں اِس سے کیا یہ سمجھ لیا جائے
کہ امریکا یا تو طالبان سے مفاہمت ہی کرنا نہیں چاہتا ہے جس کے لئے اِس نے
بعض کا نقطہ اپنے مصالحتی عمل میں ڈال کر اپنے مصالحتی عمل کو خود ہی مبہم
اور مشکوک بنا دیا ہے۔
جبکہ راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ اگر امریکا واقعی پورے خطے سمیت ساری
دنیا میں امن و سکون کا خواہا ہے تو پھر امریکا کو ہر صورت میں لفظ ”بعض “
کو اپنے مفاہمتی عمل سے حذف کرنا ہوگا ورنہ اِس کے بغیر پھر کسی بھی وقت
پورا خطہ اور دنیا خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے کیونکہ یہ طالبان نما دہشت گرد
جنہیں امریکا بعض کے زمرے میں لاتے ہوئے(اپنے مصالحتی اور مفاہمتی عمل سے
اِگنور)نکالے گا وہ دنیا کے لئے خطرہ بنے رہیں گے اِس صورت ِحال میں
میراخیال ہے کہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ امریکا کو لازمی طور پر تمام طالبان
سے اپنے مصالحتی عمل کے تحت مفاہمت کرنی ہوگی اور سب طالبان کو بلاتمیز اور
تفریق عام معافی دینے کا بھی اعلان کرنا ہوگا اِس کے بغیر لفظ بعض کی وجہ
سے امریکا کا کوئی بھی مصالحتی عمل نہ تو دیر پا ہی ہوسکتا ہے اور ناہی
پائیدار ثابت ہوگا۔
بہرکیف !اِس کے بعد اگر دیکھا جائے تو پھر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی اَب
امریکا افغانستان میں بُری طرح سے پھنس جانے اور اپنے اربوں اور کھربوں
ڈالر افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف شروع کی گئی اپنی جنگ میں
جھونک چکا ہے اور اِس کے ہزاروں فوجی جو مرے ہیں اِن کی کوئی گنتی نہیں ہے
اِس منظر اور پس منظر میں اگر ایک جائزہ لیا جائے تو پھر یہ ضرور کہا
جاسکتا ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی اور شکست تسلیم کر رہا ہے
اور یوں اِس کی شکست سے بوکھلاہٹ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اِب امریکا نے
افغانستان سے نکلنے کے بہانے تلاش کرنے کا ایک حربہ یہ بھی استعمال کرنا
شروع کردیا ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی شکست کے بعد اپنی جنگ کا رخ
پاکستان کی جانب موڑنا چاہ رہا ہے۔ اور اِس کے لئے اِس نے یہ کہنا شروع کر
دیا ہے کہ اَب پاکستان پنجابی طالبان کے خلاف کاروائی کرے۔ میں آخر میں
اپنے اِن الفاظ پر اپنے کالم کا اختتام کروں گا کہ جب امریکا کو افغان
طالبان سے شکست ہوتی ہوئی محسوس ہوئی رہی ہے تو اِس نے اپنی شکست کو فتح
میں تبدیل کرنے کے لئے ایک بجھتے اور ٹمٹماتے چراغ کی طرح اپنے وجود کو
برقرار رکھنے کے لئے اِس نے افغان طالبان میں سے پنجابی طالبان کی ایک نئی
شکل دریافت کرلی ہے اور امریکا نے اپنے اِس عمل سے نہ صرف حکومتِ پنجاب کے
لئے مشکلات اور پریشانیوں کے نئے دروازے کھولنے کی راہ نکال لی ہے بلکہ
حکومت پاکستان کے لئے بھی نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے ایک گھناؤنی
سازش بھی تیار کر لی ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ پنجابی طالبان پاکستان کے لئے
خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی
طالبان نہیں ہے نہ پنجابی اور نہ افغانی یہ سب امریکی جنگی حکمتِ عملی کا
ہی نتیجہ ہے جو امریکا افغانستان کے بعد اَب پاکستان میں بھی پنجابی طالبان
کی موجودگی کا ڈرامہ رچا کر آزمانا چاہ رہا ہے۔ اِس نازک موقع پر اَب ہمارے
حکمرانوں کو اپنے پورے ہوش و ہواس میں رہ کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ یہ اُس
امریکی سازش کا دوبارہ حصہ نہ بنیں جس کے تحت امریکا پہلے ہی افغان طالبان
کی آڑ میں ہمارے صوبے خیبر پختو نخواہ (سرحد) کے اکثر علاقوں میں ڈرون حملے
کر کے پہلے ہی ستیاناس کرچکا ہے اور اَب اِس کا رخ صوبہ پنجاب کی جانب ہے
جہاں یہ پنجابی طالبان کی کھوج میں اِس صوبے کو بھی کھنڈر بنانا چاہتا ہے۔
اور اَب ہمارے حکمران کسی امریکی ڈکٹیشن میں آکر کوئی ایسا عمل نہ کریں کہ
پنجابی طالبان کی آڑ میں پنجاب کا بھی امن و سکون تباہ و برباد ہوجائے۔ اور
پھر ہم کہیں کے بھی نہ رہیں۔ |