یوں تو کهنے کو همارے ملک میں جمهوری نظام حکومت قائم
هےلیکن حقیقت چنداں مختلف هے-هم میں سے هر شخص یه جانتا هے که همارے معاشرے
میں یه نظام فقط کاغذی خانه پری کیلیئے بنائے گئے هیں جس میں سچائی آٹے میں
نمک برابر بھی نهیں هے-
تاریخ شاهد هے که کسی ملک میں هماری طرح ریاست کے طرز حکومت کے چوغے یوں
نهیں بدلے جاتے که ناشتے کے وقت صدارتی نظام قائم هو دوپهر کے کھانے کا وقت
هونے تک پارلیمانی نظام قائم هو چکا هو اور ڈنر تک پهنچتے پهنچتے مارشل لاء
لگ چکا هو-
وزرائے اعظم کےتیزی سے بدلے جانے کا یه انداز هے که جس پر تنقید بلکه تمسخر
اڑاتے هوئے گاندھی نے کها تھا ” میں اتنے پاجامے نهیں بدلتا جتنے پاکستان
میں وزیراعظم بدلے جاتے هیں”-
متلون مزاجی حد سے سوا هے اس پر ستم یه که هم کئی ثانیے سوچنے کے باوجود یه
بھی یقین سے نهیں بتا سکتے که همارے ملک میں صوبے کتنے هیں-
شاید آٹھ نو سو سال کے بھیانک تجربے کا اثر هے که آج تک یهاں کوئی بظاهر
بادشاهت کا اعلان نهیں کر پایا هاں پس انداز کی حقیقت تو هم میں سے بهت سے
ذی شعور نفوس جانتے هیں-
اتنے ڈھیر سارے نظاموں کی دولت سے مالامال هوتے هوئے بھی پاکستان اپنے اس
نایاب خزینے سے استفاده حاصل نه کر سکا-هم نے کبھی کسی نظام کو سنجیدگی سے
استعمال کیا هی نهیں سوائے ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنے کے همیں سیاست کے نام
پر کچھ نهیں آتا- طرز حکومت چاهے پارلیمانی هو ، وفاقی هو، صدارتی یا کچھ
اور -ابتدا سے اب تک ملک کی باگ ڈور صرف چند شرفاء کی محفل نے لے رکھی هے،
کبھی هم چند پارٹیوں کو جوڑ کر عجیب مخلوط سی کوئی چیز بنا دیتے هیں جسے
بحرحال حکومت کهنا درست نه هوگا-کبھی سیاست ایک انسان کے گرد گھومتی نظر
آتی هے کبھی کسی کا فقط نام استعمال کر کے اپنا مفاد حل کیا جانے لگتا
هےمگر ان سب میں ایک چیز هے جو باهم مماثلت رکھتی هے-جسے آپ اشرافیه کا نام
دیں یا کچھ اور مگر میرے نزدیک تو پاکستان میں سوائے چند سری کے آج تک کوئی
دستور رائج هی نهیں هو سکا اور یه چند سری حکومت همیشه “انارکی یا تراجیت”
کا هی روپ دھارتی هے-
ایسا کیوں هے که هم اجتماعی و قومی مفادات پس انداز رکھ کر انفرادی مفادات
کے حصول میں سرگرم عمل رهتے هیں اور یه بھول جاتے هیں که هماری پهچان
پاکستان کے دم سے هے اور هم اسے جهالت اور غریبی کے گڑھے میں دھکیلتے هوئے
اپنی پهچان خراب کر رهے هیں اور دنیا کی نظروں میں حقیر تر هوتے جارهے هیں
اورآج رهتی دنیا کی نظروں میں اک بچھڑی هوئی قوم کے حوالے سے جانے جاتے
هیں-
حکومت کے اعلی` عهدیداروں سے لے کر بھٹے پر کام کرتا اک معمولی مزدور تک
اپنے فرائض سے غافل هے- هر نفس ! حل من هور ” کا مرقع بنا پھرتا هے-عوام هے
که انهی گھسے پٹے لوگوں کو اسمبلیوں میں لا بٹھاتی هے دو چار سالوں کے
کوسنے کے بعد انهی کے ٹولے میں سے کسی کو کرسی په لا بٹھاتی هے- جو چند
تقاریر + وعدے کرنے کے بعدووٹ سمیٹ کر ” گدھے کے سر سے سینگھ غائب هونے کی
عملی تفسیر بن جاتے هیں یا زیاده سے زیاده دو چار سڑکوں،پلوں کے منصوبے
بنوا دیئے جاتے هیں جسکی آدھی سے زیاده فنڈنگ جاتی هے ان کی اپنی جیب میں
اور ریت گارے کے وه پل اور سڑکیں برسات کی ایک مار بھی بمشکل سے جھیلتی هیں
اور فقیر کے چراغ کی مانند داغ مفارقت دے جاتی هیں-
هاں سال میں اک وقت ایسا ضرور آتا هے جب وزیر مشیر سب زرق برق لباس پهنے
بجٹ کی تیاری و منظوری پر لمبی لمبی بحثیں کرنے پارلیمان کا رخ کرتے هیں
لیکن اس میں بھی سوائے بدمزگی پھیلانے اور عوام کی قمر پر مهنگائی کا مزید
بوجھ لادنے کے کوئی مزید حب الوطنی کا جذبه یا دیگر فلاحی مقاصد زیر غور
نهیں هوتے-
اس خوبصورت پالیسی کے رائج کرنے پر همارے حکمرانوں کوداد و تحسین سے نوازا
جانا چاهیئے-اور دنیا کے بڑے بڑے سیاست دانوں کو ان سے هڈحرامی، غداری پر
لیکچر لینے چاهیئیں تاکه ان کے بینک اکاؤنٹس بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی
کریں-
همارا گراف تیسری دنیا کے ممالک میں بھی تیزی سے نیچے آتا جا رها هے مگر هر
کوئی اپنی “میں” میں مگن هے کسی کو هوش نهیں- لسانیت کے فسادات هی
هماراپیچھا نهیں چھوڑتے که هم کسی اور طرف نظر کر سکیں-
هم کهتے هیں پاکستان کے پاس وسائل کی کمی هے ارے بھئی وسائل تو خود پیدا
کیے جاتے هیں ابھی صرف تین چار سو سال پهلے کے امریکه کو هی دیکھیں جو “سول
وار” کی بھیانک لپیٹ میں تھا یا “میگنا کارٹا” کے پهلے کے برطانیه کی تصویر
اپنے سامنے دهرانے کی کوشش کریں مگر آج یهی ملک هیں جنهوں نے ان تھک محنت
مگر ملک سے وفاداری کی بدولت نه صرف اپنی زندگیوں کو سنوارا هے بلکه سائنس
و ٹیکنالوجی کی دنیا کو نئی وسعتیں بخشی هیں- هم آج بھی علاج کے طریقوں پر
حرام حلال کی لایعنی بحث میں الجھے هیں اور وه همارے هی مسلمان سائنسدانوں
کی طب کی کتابوں سے مستفید هو کر کهاں سے کهاں نکل گئے –
همارے ایک نهایت هر دلعزیز دوست قوم “دی پیپلزری پبلک أف چائنه” جو که فقط
چند دهائیاں پهلے تک افهیم کے نشے میں دھت اک دوسرے کو گدھوں کی طرح نوچ
نوچ کے کھا رهی تھی اور جس ملک کو بنے هم سے بھی ایک سال کم کا عرصه گزرا
هے جهاں بر خلاف توقع عظیم انقلاب آتا هے جو جهالت کو بها لے جاتا هے اور
دنیا کو اک ایسی نتھری دھلی قوم سے روشناس کرواتا هے جس کے سامنے اب دنیا
کی بڑی طاقتیں گھٹنے ٹیکے کھڑی هیں-جنهوں نے اپنی ذهانت سے ایٹمی و صنعتی
دنیا میں اپنا لوها منوایا هے-
وقت بحرحال چاهئے هوتا هے مگر ملک سے اخلاص ترقی کی راه میں حائل هر رکاوٹ
کو گراتا چلا جاتا هے-
بات کا اختتام امریکه کے آئین کی سب سے اهم اور سبق آموزشق پر کروں گی-
” بهترین نظام(آئین )کونسا هے اس پر بے وقوفوں کو جھگڑنے دو همارے لیئے وهی
نظام بهتر هے جو همارے لیئے بهتر کام کرے”:
الله همیں ھدایت دیں (آمین |