تحریک انصاف کی کامیابی پر علیم خان کو اسپیکر بنادیا جانا چاہیئے
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
عدالتی فیصلے کے بعد این اے 122 کے لئے بھی چہ مےگوئیاں ہونے لگ پڑی ہیں۔ ڈیفنس والے حلقے سے برادرم خواجہ سعد رفیق بھی سٹے آرڈر پر کچھ زیادہ ہی وزیر ہو گئے ہیں دونوں بھائی سلمان اور سعد دوستوں کی عزت کرنے میں کمال رکھتے ہیں ابھی تک قومی اسمبلی میں سپیکر کی جگہ خالی ہے۔ وہاں ایاز صادق کا انتظار ہے اور اگر علیم خان جیت جاتا ہے تو پبلک کی اکثریت کی خواہش ہے کہ علیم خان کو سپیکر بنا دیا جائے۔ |
|
حلقہ این اے 122کا ضمنی انتخاب
موجودہ اسمبلی کی باقی ماندہ میعاد تک ہی کے لئے جو زیادہ سے زیادہ مزید
اڑھائی سال کی رہ گئی ہے۔ جب کوئی سپیکر قومی اسمبلی اپنی سیٹ کھو بیٹھے تو
اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنی ٹرم کی تنخواہ اور دیگر مراعات عوامی
خزانے کو واپس کرے مگر یہاں تو اخلاقیات کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ عوام کے مقدر
تو ویسے ہی پھوٹے ہوئے ہیں کہ ان کے سامنے انتخابات میں اپنے طبقے میں سے
آنے والے کسی امیدوار کو ووٹ دینے کی چوائس ہی نہیں رکھی جاتی۔ انہیں
بہرصورت پیسے کی ریل پیل والے امیدواروں میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کرنا
ہوتا ہے جو ان کے مقدر مزید بگاڑ کر اپنے مقدر مزید سنوارنے کے جتن میں لگے
رہتے ہیں اور مقدر سنوارنے کے اس عمل میں وہ اپنی پارٹی قیادت کا مقدر بھی
سنوار دیتے ہیں۔ اسی لئے تو سیاسی قیادتوں نے ’’الیکٹ ایبل‘‘ کی مکروہ
اصطلاح ایجاد اور استعمال کرکے انتخابات کو عام آدمی کے لئے شجرِ ممنوعہ
بنا دیا ہے، عام آدمی کے لئے تو پہلے انتخابی سیاست میں دھماچوکڑی مچانے
والی سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ کا حصول ہی کٹھن مرحلہ بنا دیا ہے جہاں پارٹی
ٹکٹ کے لئے درخواست دیتے وقت بلدیاتی سطح پر ہزاروں اور صوبائی و قومی سطح
پر لاکھوں روپے پارٹی فنڈ میں جمع کرانا ہوتے ہیں اور اس میں اولین شرط
ناقابل واپسی کی رکھی گئی ہے۔ یعنی پارٹی ٹکٹ ملے یا نہ ملے، اس کی جمع
کرائی گئی رقم بحق پارٹی ضبط۔ آج پیپلز پارٹی کی انحطاط پذیر عوامی مقبولیت
اس نچلی سطح تک آ گئی ہے کہ اسے امیدوار کھڑے کرنے میں بھی دشواری پیش آتی
ہے اس کے باوجود پارٹی ٹکٹ کے اجرا کے لئے امیدواروں سے پارٹی فنڈ میں
ہزاروں لاکھوں روپے وصول کرنا ابھی تک اس پارٹی نے بھی اپنا وطیرہ بنایا
ہوا ہے۔ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کے لئے حکمران مسلم لیگ
(ن) اور پی ٹی آئی کو تو عملاً ہزاروں درخواستیں پارٹی فنڈ کے ساتھ موصول
ہوئیں جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں درخواستیں ہزاروں
لاکھوں کے فنڈ کے ساتھ ضرور وصول کی ہوں گی، ان امیدواروں میں ایسے کتنے
امیدوار سامنے آئے ہوں گے جو عوام کی حقیقی نمائندگی کے مستحق قرار پا
سکیں۔ جبکہ عوام کی حقیقی نمائندگی کے مستحق اور اہل امیدوار تو پاکستان
میں ہزاروں لاکھوں روپے جمع کرانے کی سکت نہ رکھنے کے باعث انتخابی عمل کے
پہلے ہی مرحلے میں آئوٹ ہو جاتے ہیں پھر ہم دعوے سلطانی ٔجمہور کے کرتے ہیں
غالب کو برا کہتے ہو، اچھا نہیں کرتے۔ جہاں انقلاب اور تبدیلی کے ڈھکوسلوں
میں دھن، دھونس، دھاندلی والے انتخابی کلچر کو ہی اوڑھنا بچھونا بنایا جا
رہا ہو تو بھاڑ میں جاتے مقہور عوام کو اپنی بہتری کے لئے کس سے توقع
وابستہ ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے حلقہ این اے 122کی جاری انتخابی مہم کا
جائزہ لیں تو حکمران مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے ہاتھوں سلطانی ٔ جمہور
تار تار ہوتی نظر آتی ہے۔ الیکشن کمشن نے قومی و صوبائی انتخابات کے لئے
اخراجات کی جو حد متعین کی ہوئی ہے اس سے زیادہ تو آج یونین کونسل کے
چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب پر خرچ ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے قوانین،
ضوابط اور اصولوں کا کیا فائدہ جو بروئے کار ہی نہ لائے جا سکیں۔آج الیکشن
کمشن حد سے زیادہ اخراجات پر امیدوار کی پکڑ کرے. عبدالعلیم خان کاپیسہ صرف
الیکشن ہی کے موقع پر بوریوں سے باہر نہیں آتا بلکہ انسانیت کی فلاح و
بہبود کے لئے ہمہ وقت اس کا استعمال جاری رہتا ہے۔ معذور بچوں کا ڈیفنس میں
ایک سکول ان کی بھرپور مالی معاونت سے چل رہا ہے اور یہ اس حلقے سے باہر
ہے، یتیم اور نادار بچوں کے لئے ہوسٹل کی سہولت کے ساتھ انکے اپنے اسکول
کینٹ میں کام کر رہے ہیں، یہ بھی اس حلقے سے باہر ہیں،مختلف گنجان ترین
آبادیوںمیں بچوں کے لئے پارک اور تفریحی سہولتوںکی فراہمی پر بھی وہ بے
دریغ خرچ کر رہے ہیں اور یہ سب علاقے اس حلقے سے باہر ہیں۔ لوگ تو علیم خان
کی دولت کا تذکرہ منفی انداز میں کرتے ہیں۔ دولت تو حکمران پارٹی کے لیڈروں
کے پاس بھی ہے اور بے حساب ہے، جس طرح لوگ علیم خان پر سوال اٹھاتے ہیں،
وہی سوال حکمران طبقے پر بھی کئے جاتے ہیں کہ اس دولت کا سورس کیا ہے۔ جواب
کسی کے پاس نہیں مگر یہ تو فرق ہے کہ علیم خان کی دولت ملک کے اندر ہے اور
حکمرانوں کی دولت ملک سے باہر۔ علیم خان جیب سے خرچ کرتا ہے ا ور حکمران
قومی خزانے سے لیپ ٹاپ دیتے ہیں یا دو ارب کے وظائف کی رقم کو بڑھاکر چار
ارب کر دیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ اعلان بھی الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی اسی
طرح کھلی خلاف ورزی ہے جس طرح وزیراعظم کا کسان پیکیج جو اب ڈبے میں بند کر
دیا گیا ہے۔ ووٹر بڑا سیانا ہے اور نہیں ہے تو اسے ہونا چاہئے کہ کون ہے جو
عوام کو لوٹ کھسوٹ کر اس کا کچھ حصہ کے لئے وقف کرتا ہے اور کون ہے جو ذاتی
خون پسینے کی کمائی سے عوام کی بھلائی پر خرچ کرتا ہے۔ چودھری محمد سرور
اور عبدالعلیم خان اپنی کمائی سے حاجتمندوں کی دستگیری کرتے ہیں مگر میں
حکمران پارٹی کے کسی ایک رکن کی مثال نہیں جس نے کسی کو ذاتی جیب سے چائے
کی ا یک پیالی تک پلائی ہو، انہوں نے توخدمت گار صحافیوں کو سرکاری ملازمت
پیش کر کے ان کا احسان بھی قومی خزانے سے چکانے کی کوشش کی ہے۔ الیکشن کا
عمل جمہوریت کے لئے نیک فال ہے مگر اسے منصفانہ ہونا چاہئے۔ جب عمران خان
کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ تھیلے جب پریذائڈنگ افسروں سے ریٹرننگ افسروں اور
پھر الیکشن کمیشن کے دفاترمیں منتقل ہوں گے تو ان میں دھاندلی کی جائے گی
اور اس کا مطالبہ ہے کہ یہ عمل فوج کی نگرانی میں ہونا چاہئے، ایک ضمنی
الیکشن میں تو شاید اتنی فوج آپ کو فارغ مل جائے مگر جنرل الیکشن کے دوران
بھارت، ایران اور نیٹو کی ساری افواج بھی اکٹھی کر لی جائیں تو ایک ایک
تھیلے کی حفاظت نہیں کی جا سکتی، جب قوم بدنیت ہو جائے تو اس کا کوئی علاج
ممکن نہیں عمران کے علاوہ علیم خان کے ساتھ میاں اسلم اقبال نمایاں ہیں۔
میاں اسلم اقبال علاقے کی مقبول شخصیت ہیں۔ اس سے زیادہ ملنسار اور عاجزی
والا آدمی سیاست میں کم کم ہو گا۔ اللہ جسے عاجز کرنا چاہتا ہے۔ اس سے
عاجزی چھین لیتا ہے۔ ایک دفعہ جو اسلم اقبال سے ملا۔ پھر اس سے ووٹ نہیں
بھی مانگنے گیا تو اس نے ووٹ میاں اسلم اقبال کو ہی دیا۔ میاں عامر محمود
میاں اسلم اقبال کو بہت پسند کرتے ہیں وزیر بننے کے لئے اس کی اپنی دلکش
شخصیت کا حصہ بھی ہے۔ عامر محمود نے بھی ہر قدم پر اسلم اقبال کا ساتھ دیا
ہے۔ کہتے ہیں کہ میاں عامر محمود عوام شناس نہیں ہے مگر اسلم اقبال سے اس
کی دوستی بے مثال ہے۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لئے بھی عامر صاحب کی
خواہش اور کوشش اہم ہے۔ ویسے اسلم اقبال جس بھی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن
لڑے۔ کامیابی ان کا مقدر ہے۔ میاں اسلم اقبال، عبدالعلیم خان کے ساتھ ہیں
اور دل سے اس کے ساتھ ہیں تو یہ علیم خان کی شخصیت کی دل آویزی ہے اور اس
کی خوش قسمتی بھی ہے۔ این اے 154 کے لئے عدالتی فیصلے کے بعد این اے 122 کے
لئے بھی چہ مےگوئیاں ہونے لگ پڑی ہیں۔ ڈیفنس والے حلقے سے برادرم خواجہ سعد
رفیق بھی سٹے آرڈر پر کچھ زیادہ ہی وزیر ہو گئے ہیں دونوں بھائی سلمان اور
سعد دوستوں کی عزت کرنے میں کمال رکھتے ہیں ابھی تک قومی اسمبلی میں سپیکر
کی جگہ خالی ہے۔ وہاں ایاز صادق کا انتظار ہے اور اگر علیم خان جیت جاتا ہے
تو پبلک کی اکثریت کی خواہش ہے کہ علیم خان کو سپیکر بنا دیا جائے۔ عمران
گلی گلی میں پھر رہے ہیں۔ جس نے لیڈر بن کے ابھرنا ہوتا ہے اسے ہر گلی جانا
پڑتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بھی یہی مشہور ہے کہ تین سال
پاکستان کے ہر شہر کی گلی گلی سڑک سڑک ناپتے رہے تب جا کے انہیں اقتدار
نصیب ہوا تھا۔ یہ جو واویلا… اور واواہ… کا شور و غل مچایا جا رہا ہے۔ یہ
رواج پا چکا ہے۔ لیکن ایک فیصلہ قدرت کا ہوتا ہے جس کو بالآخر ڈھول کا پول
کھولنا ہوتا ہے- |
|