گزشتہ دنوں روسی فضائیہ اور بحریہ کی شام میں عسکری
دراندازی کے بعد ممتاز عالم دین مولانا عبدالحمید نے اس حملے کی مخالفت میں
کہاہے عسکری حملوں سے عالم اسلام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اس بیان کی اشاعت کے بعد صوبہ سیستان بلوچستان کے انتہاپسند عناصر کی
نمایندگی کرنے والی ایک ویب سائٹ نے شدید ردعمل اور غصے کا اظہار کیا ہے۔
اس ویب سائٹ نے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کے معتدل موقف کو مغرب اور
اسرائیل سے ’ہمنوائی‘ یاد کی اور انہیں ’عِبری امریکی اور عربی‘ اتحاد کی
لائن میں لاکھڑا کیا۔ اس رپورٹ میں روسی مداخلت پر بغلیں بجائی گئی ہیں اور
اس کی مخالفت کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے۔
اس سلسلے میں چند گزارشات عرض ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ امریکا، اسرائیل اور
روس اس بات پر متفق ہیں کہ شام میں عسکری حملوں کے علاوہ کوئی ’چارہ کار‘
نہیں اور بعض معمولی اختلافات کے باجود وہ ہم آہنگی اور پیشگی اطلاع کے
ساتھ اپنے اپنے آپریشنل علاقوں میں مصروف عمل ہیں اور مخصوص ٹارگٹس کو
نشانہ بنارہے ہیں۔ اگر یہ دیسی انتہاپسند اپنی رپورٹ ترتیب دینے سے پہلے
خبروں کی شہہ سرخیوں پر ایک نظر ڈالتے تو ان پر واضح ہوجاتا کہ شام میں
روسی مداخلت کی خبر کی تصدیق سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم ماسکو میں تھا۔
فضائی حملوں کے آغاز کے بعد بھی اسرائیل نے خبر دی روس کے ایک اعلی عسکری
عہدیدار تل آویو آنے والا ہے تاکہ ان میں ’ہم آہنگی‘ و کوآرڈینیشن پیدا
ہوجائے۔ رائٹرز نے بھی خبر دی ہے امریکا و روسی حکام جلد مذاکرات کرکے دو
فوجوں کے آپریشنز کے علاقوں کا تعین کریں گے۔
مناسب ہے اس حوالے سے مولانا عبدالحمید کے موقف کی مزید وضاحت کی جائے جو
اعتدال پر مبنی ہے اور اسی میں پورے عالم اسلام کے مفادات ہیں۔ دراصل صدر
دارالعلوم زاہدان پوری طرح اجنبی فوجوں کی مسلم ممالک میں موجودی کے خلاف
ہیں۔ ان کا خیال ہے مسلمانوں کو چاہیے خود اپنے مسائل کا حل نکالیں اور
مشرقی و مغربی طاقتوں کو اپنے ملکوں میں خوش آمدید نہ کہیں؛ اجنبی فوجوں کو
مسلم ممالک میں لانا ان کے خیال میں غداری ہے۔
نیز مولانا کا خیال ہے دہشت گردی کی اصل وجہ قبضہ گیری، سینہ زوری اور جنگ
کی آگ بھڑکانا ہے۔ معاصر دوران میں سابق سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی
فوج داخل کراکے قبضہ گیری کی، پھر مغربی ملکوں کے اتحاد نے افغانستان و
عراق پر حملہ کیا۔ نیز بعض مسلم ملکوں میں آمر حکام نے اسلام پسند گروہوں
اور شخصیات پر دباو ڈالا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالا۔ یہ سب دہشت
گردی کو فروغ دینے والے کام ہیں اور اس کے بعد دنیا میں مزید بدامنی پھیل
گئی۔
رابطہ عالم اسلامی کی مجلس شوری کے رکن مولانا عبدالحمید نے کئی مرتبہ اپنے
خطاب میں واضح کیاہے دنیا دہشت گردی کی جڑ اور علت سے لڑنے کے بجائے معلول
اور نتیجے سے لڑتی ہے۔ سب سے پہلے دہشت گردی کی اصل وجوہات کو صحیح اور
بلاغرض تحقیق سے معلوم کرنا چاہیے، پھر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان واضح کرچکے ہیں غیرملکی فوجوں کی یلغار کا وقتی فائدہ
بعض ملکوں کی خواہش کے مطابق ہوسکتاہے لیکن طویل عرصے کے بعد اجنبی فوجوں
کی موجودی عالم اسلام کے مفادات کے بالکل خلاف ہے۔ جس طرح عراق و افغانستان
اور لیبیا میں دیکھا گیا۔ اگر انصاف فراہم کرکے عوام کے مطالبات پر توجہ دی
جائے اور سب کے حقوق کا خیال رکھا جائے، تو کوئی ملک مغرب و مشرق کے دست
نگر بننے پر مجبور نہیں ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کیا شام میں اجنبی فوجوں کو دعوت مداخلت دینے کے سوا کوئی
آپشن باقی نہیں رہا تھا؟ روس کے سامنے دست نیاز بڑھانے کے بجائے کیوں شامی
عوام، علمائے کرام اور دانشوروں کے سامنے یہ مسئلہ نہ رکھا گیا؟ اگر بشار
اسد کی حکومت کی درخواست روسی فوج سے قانونی و جائز ہے اور اس کی مداخلت
بھی جائز، پھر یمن کی خلیجی ملکوں سے درخواست کیوں ناجائز قرار ٹھہری اور
یمن کے متحد ممالک کی فوجی مداخلت کی شدید مخالفت کی جارہی ہے؟ اگرچہ ہمارے
علمائے کرام کا خیال ہے یمن کا مسئلہ بھی عسکری حملوں کے بجائے، باہمی گفت
وشنید اور مذاکرات سے حل کرنا چاہیے اور انہوں نے یمن پر فضائی حملوں کی
مخالفت کی ہے۔
البتہ شام میں امریکی و روسی فوجی حملوں کی حمایت کرنے والوں سے یہ مسئلہ
پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ شامی حدود میں حملے اسرائیل سے ہم آہنگی کے ساتھ
ہوتے ہیں۔ صہیونی ریاست امریکا و روس کی طرح بشار اسد حکومت کے تخت الٹنے
سے پریشان ہے۔ صہیونسٹ، کمیونسٹ اور عیسائی فوجوں کی عسکری مداخلت پر خوشی
منانے والوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ حالیہ حملوں کو حملہ کرنے
والوں کے مذہبی رہنماوں کی حمایت حاصل ہے اور انہوں نے اس حملے کو ’مقدس
جنگ‘ یاد کیاہے جو دوہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے وقت جونیئر
جارج بش کے بیان کی یاد دلاتاہے۔
|