پاکستان میں امیر خاندانوں میں اضافہ ہوا ہے اب یہ تعداد
22سے بڑھ کر 62 خاندانوں تک پہنچ گئی ہے ۔ ساتھ میں ملک کے ارب پتیوں میں
بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کے ساتھ دوسری افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ غریب
خاندانوں میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافہ کاماہر ین بہت سی
وجوہات بتاتے ہیں۔امیر خاندانوں اور ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ تو سمجھ
میں آرہاہے کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کی تعداد اب پہلے سے زیادہ
ہوگئی ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف برائے نام کارروائی ہوتی
ہے۔ وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کرپشن کے کیسز اور لوٹ مار کا
پیسہ موجود ہے وہ کر سیوں پر بیٹھے ہیں۔ وہ کس کا کیا احتساب کر یں گے؟ ملک
میں احتساب کا جو نظام ہے وہ خود کرپشن اور لوٹ مار کو پروان چڑھا رہاہے۔
دو ارب کی کرپشن کرو بعدازاں اگر پکڑے جاتے ہو تو 70یا80کروڑ واپس کرکے
رہائی حاصل کرو جس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے
۔مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کے حالت کو مزید بد سے بدتر کردیا
ہے۔حکومتی ادارے نے اپنی سالانہ اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
مہنگائی میں 60فی صد اضافہ ہوا ہے یعنی مجموعی طور پر جو اشیاء وخوردنوش کی
چیزیں پچھلے سال ایک روپے کی تھی وہ اب 60کی ہے یعنی حکومت نے بجلی ،گیس،آٹا،
گھی، دالوں ،چینی اور ادویات کی قیمتوں سمیت ٹیکسوں میں اتنا اضافہ کیا ہے
جس کی وجہ سے مجموعی طور پر مہنگا ئی بڑھی ہے۔ عام آدمی جس کی تنخواہ پندرہ
ہزار مہینہ ہے اور وہ پانچ ہزارروپے کرایے کے مکان میں رہتا ہو تو وہ کیسے
گزارہ کر سکتا ہے۔ چینی کی قیمت بہت سے ممالک میں 30روپے فی کلو ہے جبکہ پا
کستان میں جہاں پر چینی پیدا ہوتی ہے وہاں پر قیمت 70اور75روپے کلو ہے اسی
طرح حکومت نے آٹے کی قیمت بھی بڑھا دی ہے اور ساتھ میں دالوں کی قیمتیں بھی
بڑھی ہے۔ عامی آدمی کی خوراک ہی صرف دال روٹی ہے وہ بھی حکومت کی غر یب
دشمن پالیسوں کی وجہ سے عام آدمی کے لیے حصول دن بدن مشکل سے مشکل ہوتی
جارہی ہے۔ فروٹ کھانا غریب نے تو زرداری دور میں چھوڑا تھا لیکن اب لگ یہ
رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت میں دال روٹی بھی چھوڑنی پڑے گی ۔حکومت
کی ان غریب دشمن پالیسوں کا اثر آخر کار معاشرے پر کسی نہ کسی صورت میں پڑ
جا تا ہے ۔چوری اور ڈکیتیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔گھروں میں لڑائی جھکڑے
معمول کی بات ہو جاتی ہے لیکن ان تمام باتوں کا اثر یا فرق حکومت کے
ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں پر اس لئے نہیں پڑتاکیوں کہ ان کو معلوم ہی
نہیں کہ غربت کس بلا کا نام ہے؟ مہنگائی کیا چیز ہے؟ جو لوگ اپنی صحت کی
چیک آپ کے لیے امریکا اور برطانیہ جاتے ہو ان کو اس غربت اور مہنگائی سے
کیا لینا دینا۔ وہ تو صرف حکومت کرنے آتے اور چلے جاتے ہیں جس طرح زرداری
اینڈ کمپنی ملک سے باہر ہے۔ اب تک ڈھائی سال گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت
نے غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کرنے یا کم کرنے کے لیے کوئی ایسی
سکیم، فیکٹری اورکا رخانہ شروع نہیں گیا جس کی وجہ سے بے روزگار نو جوانوں
کو روزگار ملے۔ ہر سال لا کھوں طلبا کالج اور یو نیورسٹیوں سے فرغ ہو جاتے
ہیں لیکن ان کے روزگار کے لیے کوئی مواقعے دستیاب نہیں اور نہ ہی حکومت کچھ
پلاننگ کر رہی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ جو ادارے چل رہے ہیں ان کو بھی بند
کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ بہت سے ادارے جو کسی
زمانے میں ملک کے لیے اربوں کا فائدہ دیا کرتی تھی اب وہ نقصان میں چل رہے
ہیں کیوں کہ سفارشی اور نا اہل لوگوں کو کر سیوں پر بٹھایا کیاہے جب کہ
حکومت کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی بہت سے اداروں میں سربراہان
موجودنہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت کو اپنے پسند کے لوگ نہیں مل رہے ہیں جو
حکومت کے اشاروں پر چلے۔ جو نہیں چلتے ان کو گھر بھجوا دیا جاتا ہے ۔
وفاقی حکومت کی غریب دشمن پالیسی ،نا اہلی اور بیڈ گورنس کی مثالیں اپنی
جگہ لیکن یہ معاملات چاروں صوبائی حکومتوں کا بھی ہے جس میں غریب اور عام
آدمی کے لیے کوئی ریلیف ،سکیم ، منصوبہ بندی یا مہنگائی کوکنٹرول کرنے کا
سسٹم موجود نہیں ۔ ہم یہاں پر سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کی بات نہیں کرتے
وہاں پر توروایتی سیاست دان بیٹھے ہیں جو عام آدمی کے حالات کو بدلنے کے
لیے تیار ہی نہیں ۔ ہم بات کر یں گے تبدیلی کے نام پر آئی ہوئی حکومت کی جس
کا نعرہ عام آدمی کے حالات کو بہتر کرنا تھا لیکن اب تک کی صوبہ خیبر
پختونخوا کی حکومت کی کار کردگی اور پالیسیوں پر نظررکھی جائے تو معلوم یہی
ہوتا ہے کہ وہاں بھی غربت ، بے روزگاری کم ہونے اور عام آ دمی کے حالا ت
کچھ بدلے نہیں بلکہ غریب دشمن پالیسی خیبر پختونخوا میں بھی جاری ہے۔پٹرول،
تیل ،گیس و بجلی پر ان کا اختیار نہیں لیکن جہاں ان کا بس چل سکتا ہے وہاں
بھی عام آدمی کو ریلیف نہیں مل رہا ہے۔ اب تک نہ سستے بازار شروع کیے گئے
ہیں اور نہ ہی روزگار کے مواقعے جس سے خیبر پختونخوا کے بے روزگار نوجوانوں
کو روزگار ملے اور مہنگائی کنٹرول ہو بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جن اداروں اور
محکموں میں ملازمین کی کمی ہے وہاں پر بھی ڈھائی سال گزرنے کے باوجود لوگوں
کو نہیں رکھا کیاہے جس میں پولیس ، صحت اور تعلیم سمیت کئی ادارے شامل ہے
جس میں ملازمین کی کمی ہے جس کا اثر عام آدمی برداشت کر رہاہے۔ صوبائی
حکومت نے کوئی ایسی سکیم بھی شروع نہیں کی ہے جس سے نوجوانوں کو روزگار اور
عام آدمی کو ریلیف ملے ۔
ملک کے نواجوانوں کو حکو مت کے خلاف آوااز بلند کرنی چاہیے اور سڑکوں پر
نکلنا چاہیے سوشل میڈیا کا ستعمال کرنا چاہیے تاکہ ملک میں تبدیلی لانے
والی جماعت کے حکمرانوں اور تیسری باری حکومت کرنے والوں کو معلوم ہو سکیں
کہ انہوں نے اب تک بے روزگار نوجوانوں ،مہنگائی کنٹرول کرنے اور غربت خاتمے
کے لیے کونسے اقدامات اٹھائیں ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی غریب دشمن پا
لیسیوں اور بے روزگاری کے خلاف نواجوان کب آواز بلند کرتے ہیں۔
|