این اے 122 کا دنگل
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
الیکشن میں ٹرن آوٹ کے حوالے سے
پاکستان کی تاریخ تسلی بخش نہیں رہی ۔25 سے 35 فیصد کے درمیان ووٹ کاسٹ
ہوئے ووٹ کاسٹنگ کا ریٹ کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں پہلی وجہ ان میں ایک
دینی طبقہ ہے جو اس نظام کو اسلامی خیال نہیں کرتا اس میں حصہ لینا فضول
ترین سمجھتا ہے دوسرا طبقہ وہ ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ سیاست دانوں نے
ہمارے کام کبھی نہیں کئے لہٰذا ووٹ کاسٹ ہی نہ کیا جائے یعنی پاکستان کی
تمام سیاسی جماعتیں 65 فیصد طبقے کو ووٹ کاسٹ کرنے پر راضی نہیں کرسکیں،
ریٹ بڑھانے کیلئے جید علمائے کرام کے فتوے بھی شائع کروائے گئے کہ ووٹ ایک
امانت ہے اسے ضرور کاسٹ کیا جائے مگر 65 فیصد عوام کا یقین محکم ہو چکا کہ
ووٹ کاسٹ نہیں کرنا اور یہ ووٹ کبھی کا سٹ نہیں ہوا اور نہ ہی ہوسکے گا
کیونکہ مندرجہ بالا طبقہ کے تحفظات دور کرناعالمی اور ملکی قائدین جمہوریت
کے بس میں نہیں ہیں ۔اگر ضمنی الیکشن کے حوالے سے ووٹ کاسٹنگ کا تجزیہ کیا
جائے تو اس کی تاریخ عام انتخابات کے مقابلے میں انتہائی کم رہی ہے جسے 20
سے 25 فیصد کہا جا سکتا ہے ۔اب لاہور کے این اے 122 کے ضمنی الیکشن ہونے
جارہے ہیں اس حلقے سے ن لیگ کے سردار ایاز صادق ،تحریک انصاف کے علیم خان
اور پی پی پی کے بیرسٹر عامر حسن میدان میں ہیں اس الیکشن کو ن لیگ اور
تحریک انصاف میں سے کسی ایک کی سیاسی موت سے گمان کیا جارہا ہے دونوں
جماعتیں اپنی ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں بڑے بڑے جلسے،جلوس ہو رہے ہیں
کارنر میٹنگز ،منت سماجت،دولت،وسائل ،تعلقات کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے
میاں نواز شریف سے،میاں شہباز شریف کی ہدایت پرن لیگ کے وفاقی وزراء،
صوبائی وقومی ممبران نے لاہور میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے عمران خان،چوہدری سرور ودیگر تمام مرکزی قائدین
حلقے میں دن رات متحرک نظر آتے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ اس حلقے میں سرکار کی
طرف سے سرکاری ملازمین کو ن لیگ کے امیدوارکوہر حال میں جتوانے کا ٹاسک دے
دیا گیا ہے سرکاری وسائل بروے کار لانے کے الزامات لگ رہے ہیں ن لیگ کی طرف
سے ایک بھیانک الزام جو تحریک انصاف پر لگایا گیا کہ تحریک انصاف یہودی اور
ہندو لابی کی فنڈنگ سے چل رہی ہے ،ن لیگ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے
سرکاری نوکریوں، ٹھیکوں ،مراعات کے وعدوں کا سہارا اور ہر طرح کے سرکاری
وذاتی وسائل استعمال کرنے کا الزام بھی سننے میں رہا ہے ۔تحریک انصاف کے
امیدوار علیم خان کس قدر دولت صرف کررہے ہیں کہا جارہا ہے کہ چند میٹر کے
فاصلے پر دفتر کھولنے والے کو 12کرسیاں اورتیس ہزار دے رہے ہیں ۔علیم خان
پر لینڈ قبضہ گروپ کا الزام بھی عام ہے جس کے ابھی تک ثبوت نہیں دئیے جا
سکے ۔تحریک انصاف اپنی دولت ،تعلقات،محنت کی بنیاد پر الیکشن جیتنا چاہتی
ہے الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے رینجر اور فوج کی تعیناتی بھی عمل میں لائی
جارہی ہے جس سے دھاندلی کے نعروں میں کمی ہی نہیں رزلٹ تسلیم کرنے میں بھی
مدد ملے گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ الیکشن دونوں جماعتوں میں سے ایک
کی سیاسی موت کا سبب بنے گا اگر ن لیگ جیت جاتی ہے تو عمران خان کے الزامات
کی حیثیت ختم ہوجائے گی اور تحریک انصاف کو بلدیاتی الیکشن میں ناکامی ہوگی
بلکہ تحریک انصاف کا صفایا ہوجائے گا کیونکہ تحریک انصاف کی سیاست کا
محورومرکز ہی دھاندلی ہے اگر یہ جھوٹ ثابت ہو گیا تو اس کی سیاست بھی دب
جائے گی اور اگر ن لیگ کو ہزیمت ہوتی ہے تو تحریک انصاف کی پتنگ خوب اڑے گی
مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ زور پکڑ گائے گا بلدیاتی الیکشن میں اس کا فائدہ
تحریک انصاف کو ہوگا ن لیگ بلدیاتی الیکشن میں کئی متوقعہ جیتنے والے حلقوں
سے شکست کھا جائے گی۔ یہ بات ن لیگ کو کسی قیمت پر قبول نہیں کہ تخت لاہور
ہمارے ہاتھ سے نکلے ،ن لیگ کی سرکاری وسائل سے لیس تجربہ کار ٹیم اور تحریک
انصاف کی مال ودولت سے مزین امیدوار تخت لاہور پر قابض ہونے کیلئے نبرد
آزما ہیں ۔یہ فیصلہ حلقے کی عوام نے کرنا ہے کہ لاہور ن لیگ کا ہے یا تحریک
انصاف کا ۔۔۔۔۔ تحریک انصاف کے بڑے جلسے عوامی طاقت کا مظاہرہ ضرور ہیں مگر
بڑے جلسے الیکشن میں جیتنے کی کلید نہیں ہوا کرتے ۔فیصلہ الیکشن کے دن ہوتا
ہے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت اس قدر قابل ہے کہ آخری
لمحے تک الیکشن کی کایا پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اگر تحریک انصاف لاہور
پر قبضہ کرنے کی خواہش مند ہے تو اسے ن لیگ جیسا ٹیلنٹ اپنے اندر پیدا کرنا
ہوگا ،جبکہ عوام کی ایک خاصی تعداد ن لیگ سے خائف نظر آتی ہے جو ن لیگ کے
مقابلے میں کسی بھی امیدوار کی کا فتح دلوانے کیلئے سرگرم عمل ہے ن لیگ اور
تحریک انصاف اس طبقہ کو کنٹرول کرنے کیلئے کوشاں ہے ایک اور طبقہ ہے جس نے
اس الیکشن میں ہار یا جیت کا فیصلہ کرنا ہے جسے مذہبی طبقہ کہا جاتا ہے
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس حلقے سے ہار جیت کی مالا مذہبی طبقے کے پاس ہے
مذہبی طبقہ نے جس کی حمایت کردی وہی جیتے گا اب دونوں جماعتوں کے قائدین
مذہبی قائدین کے گرد بھی طواف کررہے ہیں میڈیا کی شاہہ سرخیوں میں مذہبی
قائدین کی حمایت کے اعلانات ہو رہے ہیں یہ مذہبی طبقہ اس الیکشن میں ان
جماعتوں کی اس وقت سب سے بڑی ضرورت بن گیا ہے ن لیگ سے ناراض مذہبی طبقہ
اگر اپنی ناراضگی پر قائم رہا تو ن لیگ تخت لاہور سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ۔اب
دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔لیکن مذہبی طبقے کو ہمارا حقیقت پر
مبنی پیغام یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھے کہ حکومت جس پارٹی کی بھی ہو اس
نظام کے تحت لیڈر شپ انہی کی ہو گی جو سود ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ
قرآن وسنت میں سودکو اﷲ ورسولؐ سے کھلی جنگ قرار دیاہے اور عدالتیں اس قدر
بے بس ہیں کہ یہ حکمران قرآن وسنت پر عدلیہ کے احکامات کو بھی خاطر میں
نہیں لاتے کیوں؟ اس لئے کہ ان کی کنڑول اینڈ کمانڈ موجودہ قائم نظام کے
بانیوں کے پاس ہے جو قرآن وسنت کو نہیں انسان ساختہ قوانین کونافذ کروانا
ان کی منزل ہے۔ آسمانی قوانین کے ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ،مذہبی قوتوں
کو چاہیے کہ وہ مسنون طریقے سے یک نکاتی نفاذ اسلام کے ایجنڈے پر عمل کریں
تاکہ ملک کی تقدیر کے فیصلے قرآن وسنت کے مطابق ہو سکیں بصور ت دیگر یہ
سیاسی بازی گر مذہبی قوتوں کو ایسے ہی ٹشو پیپرپر کی طرح استعمال کرتے رہیں
گے۔برکیف تجزیاتی تجربات یہی بتاتے ہیں کہ اگر حکومت سرکاری وسائل ،اثرورسوخ
کا استعمال نہ کرے اور تحریک انصاف بے دریغ مال ودولت نہ لوٹاکر لوگوں کے
ضمیروں کو نہ خریدے تو تب حقیقی فتح وشکست کا فیصلہ ہوگا ،11 اکتوبر کو
ہونے والی فتح یا شکست مال ودولت ،وسائل کے بل پر ہوگی نہ کہ میرٹ پر ۔ہم
یہاں یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن پر فرض عائد ہوتا ہے کہ حد سے
زیادہ اخراجاتکرنے والے امیدوار کے خلاف بعد از تحقیق کاروائی بھی عمل میں
لائے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف ہی وہ جماعت ہے جس نے ن لیگ کی نیند
حرام کردی ہیں اور ن لیگ کو اپنا قلعہ لاہور بچانے کیلئے اس قدر جدوجہد
کرنا پڑ رہی ہے جتنی کبھی نہیں کرنے پڑی ۔ اگر لاہور کے ضمنی الیکشن میں 60
فیصد ٹرن آؤٹ آتا ہے تو ہم سمجھیں گے کہ 65 فیصد طبقہ میں سے ایک تعداد نے
ووٹ کا سٹ کرکے نظام میں شمولیت اختیار کرلی اگر یہ سیاسی جماعتیں اتنی
جدودجہد کے بعد بھی ٹرن آوٹ میں اضافہ نہیں کرپاتیں تو پھر ہم سمجھیں گے کہ
ووٹ مخلاف طبقہ ابھی تک وہیں ہے جہاں کھڑا تھا۔
|
|