تعمیر کا پروپگنڈا، تخریب کا ایجنڈا
(Syed Mansoor Agha, India)
راجدھانی دہلی سے متصل قصباتی
گاؤں بسارا کے حالیہ واقعہ پر یہ کالم لکھنے بیٹھا تو بیساختہ جناب سید
حامد کا یہ شعر ذہن کے نہاں خانہ سے نکل کر زبان پرآگیا:
ایک دو زخم نہیں، جسم ہے سارا چھلنی
درد بیچارہ پریشان ہے، کہاں سے اٹھے
15اگست2014کو وزیراعظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے اپیل کی تھی:’’ ذات پات
کا زہر ، علاقہ پرستی و فرقہ پرستی کازہر، سماجی اوراقتصادی عدم مساوات کی
بنیاد پر تعصب کا زہر،یہ سب ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ آئیے ہم
تہیہ کریں کہ اس طرح کی تمام سرگرمیوں پر دس سال کے لئے روک لگادیں۔ دس سال
میں ہمارا سماج ایسی تمام کشیدگیوں سے پاک ہوجائیگا۔‘‘
دادری کے حالیہ واقعہ اور اس سے دوہی دن قبل کانپورکے گاؤں جنا(علاقہ
شیخوپورہ )میں ایک شخص کو اس افواہ پر کہ وہ پاکستانی دہشت گرد ہے ،مارمار
کر ہلاک کردیا گیا۔ مودی جی کی تاجپوشی کے فوراً بعد پونا میں ایک نوجوان
انجنئر ’عثمان‘ کو چند سرپھرے ہندوآتنکیوں نے بغیر کسی وجہ کے مارمار کر
ہلاک کردیا تھا۔ چندماہ قبل پونا میں ہی ڈاکٹرنریندردابھولکر، بنگلور میں
معروف اسکالر ایم ایم کل برگی اورکولہا پور میں سوشل کارکن گووند پنسارے کا
قتل ہوا۔یہ سب اس تنگ نظری اورتوہم پرستی کے خلاف تھے جو ہندتووا کے علم
بردار آتنکی پھیلا رہے ہیں۔ تشدد کی یہ تمام وارداتیں اسی زہر کا نتیجہ ہیں
جن کا ذکر وزیراعظم نے کیا تھا۔ان سب وارداتوں میں کسی غیر کا نہیں، اسی
پریوار کے لوگوں کا ہاتھ ہے جس کو پروان چڑھانے میں مودی جی نے اپنی جوانی
کھپائی یہاں تک کہ بیوی کے حقوق بھی ادا نہیں کئے۔ گزشتہ سوا سال میں اگران
کی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کے بیانات اورحرکتوں مطالعہ کیا جائے کہ
مودی جی نے جو کہا اس کا ان کے مداحوں نے کیا اثرلیا؟ توجواب صفر میں ہوگا۔
مودی جی کی سنجیدگی کا اندزاہ لگانے کے لئے دیکھنا ہوگا کہ ان کی اس معقول
اپیل کی دھجیاں اڑانے والے لیڈرکون ہیں اوران کے ساتھ پارٹی کا رویہ کیا
رہا؟ نہ ان کو انتباہ کیا گیا؟ نہ حوصلہ شکنی کی گئی بلکہ ان کو وزارتوں
اوربڑے بڑے عہدوں سے سرفراز کیا گیا؟شاید اسی کو کہتے ہیں: ہاتھی کے دانت
دکھانے کے اور، کھانے کے اور۔‘‘
دادری واقعہ کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی حکومتوں کو ایک مشاورتی
نوٹ بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ ریاستی حکومتوں کو ایسے معاملات میں
جو ملک کے سیکولر تانے بانے کو کمزور کرتے ہیں، ہرگز کسی روعایت سے کام
نہیں لینا چاہئے اورقانون کے مطابق سخت کاروائی کرنی چاہئے۔‘‘اس نوٹ میں
محمد اخلاق کے قتل عمد کی سنگین واردات کو ایک ’’افسوسناک ‘ ‘واقعہ قرار
دیا گیاہے ۔ مرکزی وزیر مہیش شرما نے اس کو ’’ایک حادثہ ‘‘ قراردیا ہے۔ ارن
جیٹلی کی نظرمیں یہ ایک برُی حرکت ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈراورمرکزی وزیر
نتن گڈکری نے بیشک کہا کہ وہ ’ذاتی طور ‘ سے اس حق میں نہیں کہ حکومت یہ طے
کرے کہ لوگ کیا کھائیں اورکیا نہ کھائیں؟حالانکہ ان کی ریاست مہاراشٹرا میں
ان کی پارٹی کی حکومت یہ سب کچھ کررہی ہے جس کے سربراہ مودی کے خاص پسندیدہ
ہیں۔ ہرچند کہ یہ بیانات ویسے ہی خالی خولی الفاظ ہیں جیسے محترم وزیراعظم
کی اپیل کے الفاظ جن کا حوالہ اوپر آیا تاہم تاہم ہم ان کو غنیمت جان کر ان
کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے امریکی صدرکو تو دہشت گردی کی
مذمت کے لئے وقت مل گیا، وزیراعظم خاموش ہیں۔ شاید اس لئے افواہ گؤ کشی کی
پھیلائی گئی تھی اوروہ خود اپنی کئی تقریروں میں گائے کا نام لیکر عوام کے
جذبات سے کھلواڑ کرچکے ہیں۔
آرایس ایس کے ترجمان ہندی پندرہ روزہ ’پنچ جنیہ‘ کے سابق مدیر اوراب بھاجپا
کے ممبر راجیہ سبھا ترن وجے نے اس واردات کے دوسرے دن ہی کہا کہ اس طرح کے
واقعات سے ملک کاترقیاتی پروگرام اورمودی کا ایجنڈہ پٹری سے اترجائے گا۔
انہوں نے اخلاق کے بیٹی کے بیان کا حوالہ بھی دیا کہ کیا اس کے والد واپس
آجائیں گے؟ ۔ لیکن گائے کشی کی افواہ پھیلانے والوں اور قانون کو اپنے ہاتھ
میں لیکر اخلاق کے مارڈالنے والوں کی مذمت میں ایک لفظ نہیں کہا ہے۔
مظفرنگرفساد کے داغی سردھنہ کے ایم ایل اے سنگیت سوم نے تو دھمکی دیدی کہ
متوفی اوراس کے اہل خانہ پر گؤ کشی کو مقدمہ درج ہو،اوراگراس کے قتل کے
ملزمان کو چھوڑ انہیں گیا تو’اینٹ سے اینٹ ‘ بجادیں گے۔
سوال یہ ہے کہ مرکز میں حکمراں پارٹی اپنے ان لیڈروں کو لگام لگانے کے لئے
کوئی اقدام کیوں نہیں کرتی جن کی سیاست کا محور ہی ملک کی فرقہ ورانہ ہم
آہنگی اورسیکولر تانے بانے کو تارتارکرنا ہے؟ ان کی ان حرکتوں کا یہاں
حوالہ دینے کی ضرورت نہیں کہ قارئین کو سب یاد ہوگا کہ خبیث ذہنیت والے
بھگوادھاری زنانے ومردانے لیڈر کیا کچھ کہہ رہے اورکررہے ہیں۔
یہ مشاورتی پیغام مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ کی ہدایت اورعلم کے بغیر نہیں
بھیجا گیا ہے۔ وہ پارٹی کے سابق صدر ہیں اورکابینہ میں ان کی حیثیت
نمبردوکی ہے۔ انہیں قوم کو بتانا چاہئے کہ ان کی پارٹی اپنے ہی لیڈروں
اورکارکنوں کو قابو میں رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہتی ہے؟ہمارا قیاس یہ ہے
کہ نریندرمودی ہوں یا راجناتھ سنگھ، یا ارن جیٹلی اور ترن وجے یا
گجندرگڈکری، ذہنی اورفکری طور سے سب معذورہیں۔ کہتے چاہے کچھ بھی رہیں
مگراس طر ح کے پرتشدد وارداتوں سے تکلیف ان کو کچھ نہیں۔ وہ اس زہرہلاہل کو
پی کر ہی پلے بڑھے ہیں جو ان وارداتوں میں اسی طرح دوڑ رہا ہے جس طرح رگوں
میں خون دوڑتا ہے۔ یہ زہر نکل جائیگا کو ان کی بنیاد ہی جاتی رہے گی۔ انہوں
نے اوران کی نظریاتی ماں آرایس ایس نے کیڈر کوجو گھٹی پلائی ، یہ وہی بول
رہی ہے۔
مسٹرراجناتھ سنگھ کا یہ کہنا کہ قانون کے مطابق کاروائی کی جائے، نہایت
عیارانہ ہے۔ اس مسئلہ کا ایک پہلو بیشک نفاذ قانون سے متعلق ہے۔ لیکن یہ
پیدا کیا ہوا سنگھی سیاسی وثقافتی نظریہ کا ہے۔ بجرنگ دل، یووا واہنی، وی
ایچ پی ، سناتن سنستھان ، ابھینو بھارت ، رام سینااورگؤ رکشا کے نام پر
بنائی گئی سمیتاں ،سب اسی جنون کو پھیلارہی ہیں جس کے زیراثر نوجوان نسل
قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ایسی سنگین وارداتیں کررہی ہے۔ ان کو
گرفتار کیاجاتا ہے توان کی پارٹی کے لیڈراورکارکن شورمچاتے ہے کہ نردوشوں
کو پکڑاجارہا ہے۔ اب اگرسنگیت سوم اورڈاکٹر مہیش شرما (جواس علاقے سے رکن
لوک سبھا ہیں)جرم کے بارے میں پولیس سے زیادہ جانتے ہیں، توان کو یہ بھی
پتہ ہوگا کہ اصل مجرم کون ہے؟اوریہ جرم کیوں ہوا؟
اخلاق کے قتل میں مقامی بھاجپا لیڈر سنجے رانا کا ایک بیٹا، بھتیجا
اورخاندان کے دیگر پانچ نوجوان ماخوذ ہیں۔ آخران کی ذہن سازی کس نے کی؟ ان
میں ایک ہوم گارڈ ہے جو تھانے سے وابستہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق وہی پیش پیش
تھا۔ جس کو ریاستی حکومت نے امن وقانو ن کی حفاظت کے لئے مامور کیا تھا وہی
قتل کیس کا سرغنہ بن گیا۔ غورطلب بات یہ ہے ہوم گارڈ کی تربیت اورپولیس کے
ساتھ کام کرنے کے دوران اس نے کیا سیکھا؟ اگر اس کو یہ شک بھی تھا کہ اخلاق
نے گؤ کشی کی ہے تواس کا فرض منصبی یہ تھا کہ تھانے کو مطلع کرتا ۔موبائل
اس کی جیب میں تھا۔ مگراس نے مندرکے پچاری کو ڈرادھمکا کر جھوٹا اعلان
کرایا اور پھر مٹھی بھرلوگوں کو ساتھ لیکر جرم کو انجام دیا۔ یہ کہنا غلط
ہے کہ ہزار، پندرہ سولوگ حملے میں شریک تھے۔ اخلاق کا گھرایک پتلی گلی میں
ہے جو بمشکل چارفٹ چوڑی ہے۔ اس میں تیس چالیس سے زیادہ افراد نہیں سماسکتے۔
اخلاق کے گھرکے برابرمیں ہی اس کے بھائی کا گھر ہے۔ لیکن نشانہ اخلاق کو ہی
بنایا گیا۔ اگر گائے کشی کی افواہ سے لوگوں میں جنون بھڑکا ہوتاتو دوسرے
گھر کو بھی نشانہ بنایا جاتا۔ امید ہے کہ پولیس تفتیش سے یہ ظاہرہوجائے گا
کہ اصل مجرم کو اخلاق سے کیا دشمنی تھی؟اخلاق کا گھرایسی جگہ ہے کہ اس میں
چوری چھپے گائے کو لیجاکر ذبح کیا ہی نہیں جاسکتا۔اوراگروہ کہیں سے گائے کا
گوشت لایا تو ظاہر ہے اس کے کھر اورکان ہرگزساتھ نہ لاتا، جیسا کہ اس کے
قاتل دعوا کررہے۔ گائے کے معاملہ میں گؤ رکشا سمیتیوں کی سرگرمیوں نے
اوربعض بھاجپا ریاستوں میں عاید پابندیوں نے لوگوں کو اسقدرحساس بنادیا ہے
کہ وہ بغیر تحقیق ہی اخلاق کو مجرم گرداننے لگے ہیں۔ رپورٹ یہ ہے اس علاقے
میں اویدیہ ناتھ اوربجرنگ دل سمیت چھ بھگواتنظیموں کی گؤرکشا سمیتیاں سرگرم
ہیں اور خوب مالدار ہیں۔
اگرچہ اخلاق کے اپنے گاؤں کے ہندوؤں سے خوشگوار تعلقات تھے اور گاؤ ں میں
مذہبی رواداری کی بھی اچھی روایت رہی ہے۔ مسجد کی مرمت کیلئے مقامی باشندوں
نے خطیر رقم جمع کرکے دی ۔ مسلم بچیوں کی شادیوں میں اچھی طرح سے شریک ہوتے
ہیں۔ اس سانحہ کے بعد حکیم نام کے ایک شخص نے اپنی دوبچیوں کی شادی ملتوی
کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگرگاؤں کے غیرمسلم باشندوں نے یقین دلایا ہے کہ
شادی مقررہ تاریخ11؍اکتوبر کو ہی ہو۔ کسی کو فتنہ برپا نہیں کرنے دیں گے
اورسارا بندوبست ہم خود کریں گے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک مسلم خاتون سڑک
حادثہ میں ہلاک ہوگئی تھی اورہندو گوجروں نے ہی اس کی ہمدردی میں مظاہرہ
کیا ، سڑک جام کی ۔ اس قتل کا کوئی تعلق پنچائت چناؤ سے بھی نہیں، کیونکہ
بسارا گاؤں اب شہری آبادی میں شامل کرلیا گیا ہے۔ وہاں رواں پنچائت الیکشن
نہیں ہورہے۔
خیرسگالی اوررواداری کے ان مظاہر کے باوجود،کیونکہ اس قتل کو گؤ کشی کی
افواہ سے جوڑدیا گیا ہے اس لئے اس میں حیرت کی کوئی با ت نہیں کہ کسی کو
اخلاق کے مارے جانے کا ملال نہیں۔ جو بھی کہتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ہوا تو
برا مگر معاملہ گؤ کشی کا تھا۔ انسان کے مقابلے گائے کی یہ عظمت آخر کس نے
لوگوں کے ذہنوں میں پیوست کی؟ کیا مسٹرمودی، راجناتھ سنگھ، ارن جیٹلی ترن
وجے کے پاس اس کا جواب ہے؟خود زہر کی فصل اگانے والے قوم سے اپیل کرتے ہیں
، زہر کو نہ پھیلنے دو۔ خود لاقانونیت کی ذہنیت پیدا کرنے والے کہتے ہیں
قانون کی پابندی سختی سے کرواؤ۔ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی، کیسے عالمی
برادری میں سراٹھاکرجی سکے گی، جن کے لیڈروں کے قول و فعل میں کھلا تضاد
ہو؟ مودی جی اوران کے مداح لاکھ ڈینگیں مارتے پھریں ، اپنے غیرملکی دوروں
کو کتنا ہی کامیاب بتائیں،مگر اس واقعہ نے پوری دنیا میں ملک کو بدنام کیا
ہے۔
یہ واقعات پیش آئے تو مسٹرمودی امریکا کی سیاحت پر تھے۔ ڈجیٹل انڈیا کی مہم
ان کے سرپرسوار تھی ۔ کیوں چاہتے ہیں وہ کہ لوگوں کے پاس روزگار ، علاج کے
لئے اسپتال ،پینے کے لئے پانی ہو یا نہ ہو مگر انٹرنیٹ سے لیس موبائل ہرکسی
کے پاس ہو؟ سنگھ کی حکمت عملی ہمیشہ یہ رہی ہے افواہ پھیلاؤ، جذبات کو
مشتعل کرو اورفساد بھڑکاکراپنا کام نکالو۔ اب وہاٹس ایپ اورموبائل کے ذریعہ
یہ کام آسانی سے اورتیزی سے ہورہا ہے۔اس کا مشاہدہ مظفرنگرمیں بھی ہوا ،
جموں میں ہوا جہا ں بھاجپا لیڈرکے دفتر سے وہاٹس ایپ پر اشتعال پھیلا یا
گیا۔بسارا واقعہ کے دوہی دن بعد بھاجپا کے ایک کارکن نے مردہ گائے کی کھال
اتارے جانے کی ویڈیو بناکر مشتہر کی ۔ مگر پولیس کی بروقت کاروائی سے فساد
ٹل گیا۔ دیگرمقامات پر بھی یہی ہورہا ہے۔ کیا وہ یہی چاہتے ہیں کہ ہرآدمی
ان آلات سے لیس ہو تاکہ ملک میں آگ آسانی سے لگائی جاسکے اورہندتووا کے
نظریہ کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ یاد رہے کہ فاسسٹ نظریہ کو روبکارلانے کے
لئے معاشرے میں افراتفری اوربدامنی کا ماحول ہی سازگار ہوتا ہے۔ حیف وہ
قیادت جس کا اعلانیہ ایجنڈاتو تعمیر کا ہو اوراقدام تخریب کا ہو۔ آخری بات
یہ کہ مودی جی کے امریکی دورے کی دھوم وہاں کی میڈیا پراتنی نہیں مچی جتنی
عالمی میڈیا پر محمد اخلاق کے اس قتل کی مچی ہے۔ یقینا مودی جی کو اس سے
صدمہ پہنچا ہوگا، وہ اخلاق کے اہل خاندان کے صدمہ میں دوبول ہمدردی کے چاہے
نہ کہلوا سکے ہوں، مگرہم اس صدمہ پران سے پرسا کرتے ہیں۔
|
|