وقا ر احمد
کشمیر پر بھارتی قبضے کو 67برس مکمل ہونے کو ہیں۔27اکتوبر 1948ء کو بھارتی
فوجیں کشمیر میں داخل ہوئی تھیں۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی بھی اپنی عمر کے
اتنے ہی برس مکمل کرچکی ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تحریک نے سست
پڑنے کی بجائے شدت ہی حاصل کی۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجودکشمیری تھکے یا
ہارے نہیں بلکہ آزادی کی تحریک اگلی نسلوں میں منتقل ہونے کے ساتھ شدت
پکڑتی جارہی ہے۔ اس وقت جس انداز سے کشمیری یہ تحریک چلارہے ہیں، یہ انداز
جرأت مندانہ اور برملا ہے۔ پاکستان کے پرچم لہرانا اور اسلحہ پوش فوج کے
سامنے آزادی کے حق میں نعرے لگانا اس وقت کشمیریوں کا معمول ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے مظاہروں نے بالخصوص بھارتی حکومت کو پریشان
کررکھا ہے۔ آٹھ لاکھ فوج تمام تر ریاستی قوت اور اختیار کے باوجود ناکام
ہوچکی ہے۔ اس صورتحال سے عاجز آکر اب اوچھے ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں۔
بی جے پی کی ہندو انتہا پسند حکومت کشمیریوں کی مذہبی آزادی پر بھی روک
لگانے کی کوششوں میں ہے۔ جس کی مثال گائے کو ذبح کرنے اور اس کے گوشت کی
خرید و فروخت پر پابندی لگنا ہے۔ مگر اس عدالتی پابندی کو کشمیریوں نے ہوا
میں اڑادیا ہے جس سے بھارت کو سیاسی ناکامی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی
سبکی کا سامنا ہے۔
بھارت سرکار نے اپنی اس سبکی کو مٹانے اور اثرات زائل کرنے کے لئے کشمیر
میں ’’پہلی بگ میراتھن‘‘ کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کے لئے بھارتی بزنس
ٹائیکون ’’مکیش امبانی‘‘ کے ایف ایم92.7نے سپانسر شپ فراہم کی۔ مقصد یہ تھا
کہ اس میراتھن کے ذریعے دنیا کو پیغام دیا جائے گا کہ کشمیر میں تو امن ہی
امن ہے۔ ہر شخص خوش باش ہے، مگر یونیورسٹی طلبا کے ردعمل سے بھارتی حکومت
کے خواب بکھر گئے جب طلبا نے دیکھا کہ یہاں تو بھارت کے ریاستی مہمان موجود
ہیں اور وہ کشمیر کو اپنی ’’پرامن جاگیر‘‘ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں تو
انہوں نے وہاں آزادی کے حق میں نعرے لگا کر آزادی اظہار کا جمہوری حق
استعمال کیا اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم آویزاں کرکے دنیا بھر کو یہ
پیغام دیا کہ کشمیر کا بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو یا مرد، عام نوجوان ہو یا
کالج ، یونیورسٹی کا کوئی طالب علم ،بھارت کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں
کرتا۔ اس صورتحال پر سیکورٹی پر معمور بھارتی فورسز غیض و غضب کا شکار
ہوگئیں اور ان طلبا پر لاٹھیوں کی برسات کردی۔ یوں اس ہنگامے سے پہلی بگ
کشمیر میراتھن کا خواب چکنا چور ہوگیا اور بھارتیوں نے بھاگ جانے کو ہی راہ
عافیت جانا۔
وادی کے یہی نوجوان طلبا آج تحریک آزادی کا ہراول دستہ ہیں۔ کشمیریوں کی
تیسری نسل تحریک آزادی کی قیادت کررہی ہے تو تعلیمی اداروں میں پلنے والی
چوتھی نسل بھارتی قبضے کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ کسی تحریک کی قوت اور سرمایہ
باشعور نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ جب یہ طالب علم کھڑے ہوجاتے ہیں تو مخالف کو
پسپائی کی راہ ہی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ یہ ایسی حقیقت جو مستقبل قریب میں
بھارت کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے ان شاء اﷲ۔
کشمیر میں پاکستان کا پرچم لہرانے کا مطلب بھارتی فوج کی گولی کا سامنا ہے
اور یہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے عزم میں پختہ ہو اور کامیابی پر یقین رکھتا
ہو۔ آزادی کا جذبہ ان نوجوانوں کے دلوں میں راسخ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے
انہیں کشمیر ہی نہیں پورے بھارت میں ہندوؤں کی نفرت کا سامنا ہے۔ جس کی
مثال میرٹھ کی سبھارتی یونیورسٹی میں پڑھنے والے کشمیری طلبا ہیں جن کو
پاکستان کی کرکٹ میں فتح پر تالیاں بجانے اور خوشی کا اظہار کرنے پر ہندو
طلبا نے تشدد کا نشانہ بنایا اور یونیورسٹی انتظامیہ نے ان 100سے زائد طلبا
کو یونیورسٹی سے ہی نکال دیا۔
اسی طرح رادھے پور کے پیسفک انسٹیٹیوٹ میں کشمیری طلبا کے ساتھ ایسا ہی
سلوک کیا گیا۔ 60طلبا کو پہلے انتظامیہ کی طرف سے تعصب کا سامنا کرنا پڑا
اور بعد ازاں ہندو طلبا سے ان کی پٹائی کروائی گئی۔
چند روز قبل دہلی کے قریبی علاقے میں واقع دیش بھگت میڈیکل کالج کے ہاسٹل
سے بغیر کسی وجہ کے40 کشمیری طالبات کو اپنے سامان سمیت ہاسٹل سے نکال دیا
گیا اور ان کو رات کھلے آسمان تلے بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا جبکہ جواز
کے طور پر انتظامیہ مختلف بہانے پیش کرتی رہی۔ کبھی یہ کہ ان کی سیکورٹی کا
مسئلہ ہے تو کبھی یہ بہانہ پیش کیا گیا کہ ان طالبات نے کمپیوٹر لیب کو
نقصان پہنچایا ہے اور بعد میں یہ کہا گیا کہ ہوسٹل کے یہ کمرے کوٹے پر مختص
تھے۔
بھارتی حکومت کشمیری طلبا کو بھارت میں پڑھنے کے لئے سکالر شپ دیتی ہے۔
بیسیوں دفعہ متعلقہ وزارت نے اس پیشکش کے ذریعے طلبا کو بلیک میل کیا اور
ان کی سکالر شپ روک کر ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈالا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ کشمیر کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ ڈگریوں کے طالب علم
صرف سیاسی جدوجہد میں ہی مصروف نہیں بلکہ انہوں نے بھارتی فوجوں کے خلاف
معرکہ آراء ہوکر اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں۔یہ روایت مسلح جدوجہد کے آغاز
سے ہی قائم ہے جب پروفیشنل ڈگریاں رکھنے والے 80 طلبا نے بھارت کے خلاف
مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ جون2014ء کو بھارتی میڈیا نے یہ شور مچایا کہ
کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوان تیزی سے عسکریت کی راہ اپنا رہے ہیں۔ بی بی سی
رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں 16ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے
جنہوں نے بھارتی فوج سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ پٹن کے ہلال احمد
دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ سجاد یوسف نے کمپیوٹر ایپلیکیشں میں
ماسٹر کیا ہوا تھا۔ مسیح اﷲ نے ماسٹر ان ٹیکنالوجی کیا تھا۔ امتیازی نمبروں
کے ساتھ ایم ٹیک کرنے والا نوجوان مسیح اﷲ ایک عرصہ بھارتی فوج کے خلاف
برسرپیکار رہا۔ دوبرس غاصب فوج سے لڑنے والے انجینئر سیف اﷲ نے ایسوسی ایٹ
انجینئرنگ میں گریجویشن کی تھی۔
بی بی سی کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں کمپیوٹر، سائنس، ٹریڈنگ سسٹم،
پولیٹیکل سائنس اور دیگر شعبہ جات میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے والے
16نوجوانوں نے بھارتی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔
کشمیری طلبا نے اپنے لہو سے اس طویل تحریک کو قوت دی اور اس کے سامنے ہر
مزاحمت چھوٹی دکھائی دے گی۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی صف اول میں
ہزاروں لاکھوں نوجوان نظر آتے ہیں۔ جب کسی قوم کی یہ قوت بیدار ہوجائے تو
وہ شاندار کامیابیاں حاصل کرتی ہے۔ عصر حاضر کی مثالوں میں فلپائن میں کرپٹ
فرڈی نینڈ کو باہر نکالنے میں نوجوانوں نے کردار ادا کیا تھا۔ بوسنیا کی
تحریک آزادی میں نوجوان نسل نے جان پر کھیل کر اپنی قوم کی بقاء ، سلامتی
اور آزادی کو ممکن بنایا۔ یوگوسلاویہ کو ملاسووچ سے نجات دلانے اور مزاحمتی
تحریک بیدار کرنے میں بھی طلبا کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔
پاکستان کے قیام کی تحریک میں بانی ٔ پاکستان محمد علی جناح a کے ہراول
دستے کا کردار طلبا نے ہی ادا کیا تھا جنہوں نے مختلف علاقوں میں تحریک
آزادی کے لئے مسلمانوں میں شعور بیدار کیا اور مخالفین کو ناکام بنایا۔
کشمیری طلبا تو سرخروئی کے سفر پر گامزن ہیں۔ وہ زندہ و بیدار اور آزاد ہیں
مگر ان کی جدوجہد پاکستان کے طلبا کو بیداری کا پیغام دے رہی ہے۔ جن کو
خواب غفلت میں سلانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کے طلبا کو اپنے کشمیری
بھائیوں سے سبق لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور وطن عزیز کے دفاع و استحکام ،
امت مسلمہ کی بیداری میں فعال کردار ادا کرنا ہے۔ |