سب سے بڑا گناہ ہے سچ بولنا یہاں

ملک میں جاری فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف ادیبوںکے ذریعہ ساہتیہ ایوارڈ لوٹانے کی تاریخی پہل کومضبوط کرکے ہندوستانی جمہوریت کوبچایاجاسکتاہے
صابررضارہبر
اپنی تہذیبی بوقلمونیوں کے سبب جمہوری دنیا میں اپنی منفردشناخت رکھنے والا ہندوستان آج کل سیکولرزم کے انتہائی مشکل دورے گزرہاہے۔ ملک کی اقتدارپرہندتواشدت پسندطبقہ کے قابض ہوتےہی حیران کردینے والی ہوش رباتبدیلی نے کشمکش کے حالات پیداکردئے اوربڑی تیزی کے ساتھ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جوملک کبھی وحدت میں کثرت ،الفت وایثاراورفکری وشخصی آزادی کیلئے جانا جاتھا ؛آج وہاں انصاف وصداقت کاخون کیا جارہاہے یہی نہیں سچ بولنے کی نہ صرف آزادی چھینی جارہی ہےبلکہ جرأت گفتارکی عبرتناک سزادی بھی جارہی ہے پھربھی اقتدارعظمیٰ کی کرسی پربیٹھا سربراہ حیرت انگیز طوپرخاموش ہے اوران کاپورالائولشکرمیڈیائی دنیاکے سہارے تشددکے ہرحربے کوصرف اس لئے جوازفراہم کرنے پرتلاہوانظرآتاہے کہ اس سے ان کی عقیدت کوٹیس پہنچتی ہے لہٰذا وہ اس کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں یہاںتک کہ قتل بھی ۔

چھوٹے چھوٹے واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر قتل کا ایک نہ تھمنے والاجنونی سلسلہ زورپکڑتاجارہاہے جس پر ملک ہی نہیں بیرون ملک میں بھی تشویش کا اظہارکیا گیاہے ۔حالیہ دنوں پیش آئے چندواردات کاتجزیہ کرتےہوئے نیویارک ٹائمزشائع ایک مضمون میں یہ نتیجہ اخذکیاگیا کہ آج کے دورمیں ہندوستان میں سیکولرافرادکیلئے سب بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ زندہ کیسے رہیں؟اخبارنے ۷۷؍سالہ ایم ایم گلبرگی کی مثال دیتےہوئے لکھاہے کہ انہیں صرف اس لئے قتل کردیاگیاکہ انہوںنے مورتی پوجاکے خلاف اپنی رائے کا اظہارکیا تھا اسی طرح سی پی آئی لیڈر گووندپانسرے اورتوہم پرستی کے خلاف مہم چلانے والے نرنیدربھوالکرکے قتل کوبھی دلیل کے طورپرپیش کیاہے۔یہ مضمون سونیا فیلیّرونے قلم بندکیاہے انہوںنے لکھاہے کہ’’ قتل کی ان وارداتوںسے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہندوستان میں سیکولرآواز کودبایا جارہاہے ،ان کا کہناہے کہ ہندوستان میں اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن اس وقت کچھ الگ ہی دکھ رہاہے۔‘ اقتباس کا آخری جملہ ’ ہندوستان میں اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن اس وقت کچھ الگ ہی دکھ رہاہے‘ ۔ایک منظم جمہوریت کش تحریک کی طرف اشارہ کررہاہے۔

سونیا فیلیّروکے خدشات کواس وقت مزیدحقیقت کا روپ دھارلیا جب ملک کی ابترصورتحال اوربڑھتی فرقہ واریت کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرتےہوئےملک کے پہلےوزیراعظم کی بھانجی اورمعروف مصنفہ تاراسہگل نے اپنا ساہتیہ اکیڈمی کاایوارڈ واپس کردیاہے ۔انہوںنے مودی سرکارکی پالیسی پرزبردست تنقیدکرتےہوئے کہاہےمیرایہ ایوارڈواپس کرنا اس احتجاج کا حصہ جس میں دیگرقلمکاربھی شامل ہیں ۔ملک میں فرقہ وارانہ فضا کوزہرآلودکرنے کی جوکوششیں ہورہی ہے ان حالات میں ہم جیسے حساس شہریوں کوخاموش رہنا ٹھیک نہیں ہے ۔جس طرح سے ہم ہندوستانیوں کوخوفزدہ کرنے کی کوشش ہورہی ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔نین تاراسہگل نے مودی حکومت کی چیرہ دستیوںکے خلاف ساہتیہ اکیڈمی کی خاموشی پربھی سوالیہ نشان لگاتےہوئے کہاہے کہ ساہتیہ اکیڈمی سے ایسے لوگ وابستے ہوتےہیں جو عام لوگوں کے مقابلہ زیادہ باخبر،انصاف پسند اوراستعماری قوتوںکے خلاف سینہ سپرہونے والے اورقلم کی آزادی کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں لیکن میں دیکھ رہی ہوںکہ جب سے مودی حکومت قائم ہوہی ہے تب سے ہرریاست کی اکیڈمی نے احتجاج تودورکسی کے حق میں واضح موقف اپنا نا بھی چھوڑدیاہے،انہوںنے اکیڈمی کے ذمہ داران سےاپیل کی ہے کہ وہ وقتی مصلحتوںسے بالاترہوکرانصاف کیلئے آوازبلندکریں ورنہ یہ نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرےگی‘‘۔

نین تارا سہگل کے بعد مشہور ادیب اشوک واجپئی نے بھی بدھ کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کر دیا۔دونوں نے دادری میں بیف کھانے کی افواہ کے بعد ایک شخص کے قتل اور کچھ ادیبوں کے قتل ہونے کی مخالفت میں یہ ایوارڈ لوٹایا ہے۔ واجپئی نے ملک میں بھگوا نظریات کو بانجھ نظریہ قراردیتے ہوئے کہاکہ’’ اس خیال کے ماننے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ انہیں ادب، تاریخ اور ثقافت کی کوئی سمجھ نہیں ہوتی ۔ ایک شخص کو صرف اس افواہ پر قتل کر دیا گیا کہ اس نے گوشت کھایا تھا؟ وزیر اعظم کو ایسا جرم کرنے والوں کو روکنا ہوگا، جن لوگوں کو کچلا جا رہا ہے، روندا جا رہا ہے، ان کو بچانے کے لئے ہم جیسے لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔واجپئی نے کہا’عدم برداشت، فرقہ واریت اور نسل پرستی کے خلاف میں لکھتا رہا ہوں، اس ملک میں ہر طرح کے اقلیتی مشتبہ ہو گئے ہیں، چاہے وہ مذہب کی بنیاد پر اقلیتی ہوں یا خیال کے نقطہ نظر سے، آئین ہمیں زندگی اور اظہار رائے کی آزادی دیتا ہےلیکن موجودہ ماحول میں یہ خطرے میں نظر آرہا ہےاوریہ حکومت اورعوام دونوںکی ناکامی ہے۔‘‘

سونیا فیلیّر و، نین تاراسہگل اوراشوک واجپئی نے جس حقیقت کا اظہارکیاہے کہ وہ آج آئینہ بن چکی ہے اورہرباشعورشخص ہندوستان کا خوفناک مستقبل دیکھ رہاہے لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بولنے کواس لئےتیارنہیں ہیںکیوںکہ سچ بولنے والوںکا عبرتناک انجام دیکھ کرجرأت گفتارکودفن کرنا زیادہ آسان تصورکررہےہیں لیکن آج بھی ایسے فرزانے زندہ ہیں جوہرحال میں سچ بولنے کوترجیح دیتے ہیں معروف مصنف ایم ایم گلبر،سی پی آئی لیڈر گووندپانسرے اورتوہم پرستی کے خلاف مہم چلانے والے نرنیدربھوالکر کومثال کے طورپرپیش کیاجاسکتاہے۔

ملک کا ماحول اسی وقت سے زہریلاہونے لگا تھا جب نریندرمودی کو اقتدارعظمیٰ کیلئے پیش کرنے کی تحریک شروع ہوئی ۔آرایس ایس اورنریندرمودی کی خطرناک پالیسوںپرنظررکھنے والے ارباب بصیرت نے ابتداسے ہی اس کی مخالفت شروع کردی تھی اوراسی وقت سے اس طرح کی آزادآوازوںکودبانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا ۔اس کیلئے باضابطہ ٹیم تشکیل دی گئی جسے مودی کے مخالفین کو سبق سکھانے کیلئےسریع الحرکت فورس کی طرح ہرمحاذ پرتعینات کردیاگیا۔لوک سبھا انتخابات کی گہماگہمی کے دوران بین الاقوامی نالندہ یونیورسٹی کے چانسلراورنوبل انعام یافتہ پروفیسرامرتیہ سین نے جب مودی کوملک کی سالمیت کیلئے خطرہ قراردیا اس وقت انہیں خاموش کرنے کیلئے نہ صرف انہیں دھمکیاںدی گئیں، مغلظات بکے گئے بلکہ ان کی بیٹی کی نیم عریاں تصاویرکوشوشل میڈیاپرعام کردیاگیا۔

اسی طرح این ڈی ٹی وی سے منسلک صحافی اوراینکررویش کمارکومودی حکومت کی پالیسی اور ملک میں بڑھتی انارکی کے خلاف بولنے کی پاداش میں سوشیل میڈیا پر سرگرم گروہ نے ان کے سوشیل اکائونٹ پر گندگی گالیوں اورغیرمہذب کمینٹس کی جھڑی لگ گئی جس سے تنگ آکرانہوںنے اپنا اکائونٹ ہی بندکرنا زیادہ مناسب سمجھا۔اسی طرح انصافی کے خلاف جدوجہدکی علامت بن چکی مشہورسماجی کارکن تیستا سیتلوادکوکس طرح پریشان کرنے کے کون سے ایسے حربے ہیں جن کواستعمال میں نہیں لایاجارہاہے۔ایسے لوگوںکی ایک فہرست تیاہوسکتی ہے جنہوںنے موجودہ حکومت کی پالیسوںپرتنقیدکی قیمت چکائی ہے اگریقین نہ ہوتوایک بارتجربہ کرکے دیکھ لیجئے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہی وہ ہندوستان ہےجس کے شہری کہتے ہیں’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمار‘
یہ ایک اچھی علامت ہے کہ ملک میں جاری فرقہ وارانہ تشددکی لہرکوروکنے کیلئے ادیبوںاوردانشوروںنے عملی پہل کرنی شروع کردی ہےلیکن ضرورت اس بات کی ہے وقتی مفاد اورمصلحت پسندی کوبالائے طاق رکھ کر اس مہم میں شریک ہوں ورنہ سچ مچ آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرپائےگی۔اب تک جن ادبیوںنے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لوٹائے ہیں ان میں نین تاراسہگل،اشوک واجپئی اورادئے پرکاش کے علاوہ کنڑادیب ويراننا ماڈيولار، ٹی ستیش جاورے گوڑا،سنگامیش میناسكھاني، ہنومنت هاليگیري، سری دیوی وی الور اور چدانند کے نامل شامل ہے۔

ملک کی قومی یکجہتی کوبچانے کیلئے ادیبوںکی جانب سے جوعملی جدوجہدشروع ہوگئی ہے وہ نہ صرف حکومت کے منہ پرزودارطمانچہ ہے بلکہ وہ ملک کے مستقبل کے تئیں حساس شہریوںکی فکری مندی کااظہاریہ بھی ہے۔انگریزی ،ہندی اور کنڑادبیوںنے تو عملی شروعات کردی ہے اب دیکھنا یہ ہےکہ دیگر دانشوران وادبا ء اپنی شراکت اس شکل میں کرتےہیں ۔ یوپی کے داردی میں گائے کے گوشت کی شبہ میں محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل اوراس کے اہل خانہ کی ظالمانہ پٹائی صرف ایک واقعہ نہیں ہے جسےحکومتی معاوضہ کی خطیررقم کو اس کا بدل قراردے کرفراموش کردیاجائے ۔مودی حکومت کے ایک وزیراسے ایک حادثہ قراردے کراس پر پردہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کی ہے ان کی دلیل یہ تھی کہ غلط فہمی میں یہ واردات انجام پایاگیا ساتھ ہی کئی لیڈروںنے اس واقعہ کو درست بھی ٹھہرایا اگریہ اس طرح کے بیانات چھٹ بھئے لیڈروںکا ہوتا تواسے نظراندازکیاجاسکتا تھا مگراس طرح کے بیانات مودی حکومت وزرا ء وسینئرلیڈران کی ہے جس سے اقلیتوںکے تئیں مودی حکومت کے خطرناک ارادوںکا پتہ چلتا ہے ۔دادری کے واقعہ پر ملک ہی نہیں بیرون ملک میں بھی بہت کچھ اس کی مذمت میں کہاگیااوررکھاگیایہاں تک صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی نے اپنی گہری تشویش کا اظہارکرتےہوئے کہاکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بربادنہیں ہونے دیںگے لیکن بی جے پی لیڈرنوجیت سنگھ سدھوکی بیماری پر تڑپ اٹھنے والے وزیراعظم نریندرمودی کی زبان سے مقتول اخلاق اوراس کے اہل خانہ کیلئے تسلی کے دولفظ نہیں نکل سکے ۔کیا اس سے یہ نتیجہ اخذنہیں ہوتاہے کہ وزیراعظم کوملک کی دوسری بڑی اکثریت کی جان ومال کی کوئی فکرنہیں ۔یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکی صدربراک اوبامہ نے بھی مودی حکومت کے وجودمیں آتے ہی اقلیتوںپرہونے والے حملے ہندوستانی جمہوریت کے منافی قراردیتے ہوئے اس کے خلاف مضبوط حکمت عملی اختیارکرنے کی صلاح دی تھی مگرابھی تک حکومت کی آنکھ نہیں کھلی ہے ۔کہیں ایسانہ ہوکہ آنکھوںکے پٹ ایسے وقت میں کھلے جب ہرطرف کا ماحول ہوش رباہواورسوائے کف افسوس ملنے کے کچھ باقی نہ رہ جائے۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 36977 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.